روم۔۔عظیم سلطنت سے شہر کیسے بنا؟ کئی موجودہ ممالک انگلستان ، اسپین ، فرانس، اٹلی ، یونان ، ترکی اور مصر اس میں شامل ہوا کرتے تھے
روم تاریخ عالم کا ایک قدیم ترین اور مختلف ثقافتوں کا حامل عظیم شہر گرداناجاتا تھا۔یہ مرکزی اٹلی کے علاقے لازیو میں واقع تھا۔ قدیم روایتوں کے مطابق 753 قبل مسیح میں روم کا شہر دیوتا مارس کے بیٹے رومولس نے اپنے بھائی ریموس کو قتل کر کے دریائے ٹیبر اور دریائے آنییے کے کنارے سات پہاڑوں پر بسایا تھا۔اس کی آبادی 5.7 کروڑ اور رقبہ 59 لاکھ مربع کلو میٹر تھا۔ وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کئی موجودہ ممالک جن میں انگلستان ، اسپین ، فرانس، اٹلی ، یونان ، ترکی اور مصر اس میں شامل تھے اس عظیم سلطنت کا حصہ ہوا کرتے تھے۔لیکن 286 قبل مسیح کے بعد سلطنت روم میں دراڑیں پڑنا شروع ہوئیں تو شام اور مصر سلطنت روم کی دست برد سے باہر ہو گئیں۔ یہ یورپ میں سب سے قدیم اور مسلسل زیر قبضہ شہروں میں تصور ہوتا ہے۔اسکی تاریخی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یونیسکو نے اسے عالمی ورثے میں شامل کر رکھا ہے۔
509 قبل مسیح میں یہ رومن جمہوریہ میں تبدیل ہوا جس کی پارلیمنٹ دو منتخب شورائی نظام سینیٹ اور کونسل سے تشکیل پائی۔یہ دراصل جمہوریت کی ابتدائی شکل تھی جو آج بھی دنیا کے بیشتر ممالک میں ملتے جلتے ڈھانچے کے ساتھ نافذ ہے۔ سینیٹ ،اسمبلیاں ، ووٹنگ سسٹم اور ویٹو پاور روم ہی کی اختراع تھی۔
27قبل مسیح میں اس سلطنت کا پہلا بادشاہ آگسٹس سیزر تھاورنہ اس سے پہلے روم ایک جمہوری ملک تھا جو سیزر اور پومپئے کی خانہ جنگی اور گائس مارئیس اور سولا کے بڑھتے ہوئے تنازعات کے باعث کمزور ہوتا چلا گیا ۔
مغربی رومی سلطنت 4 ستمبر 476 عیسوی کو جرمنوں کے ہاتھوں تباہ ہوئی جبکہ بازنطینی سلطنت 29 مئی 1453 ء کو عثمانیوں کے ہاتھوں فتح قسطنطنیہ کے ساتھ ختم ہو گئی ۔ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ ایک زمانے میں روم جو ایک وسیع و عریض ملک اور سلطنت کی حیثیت سے اعلیٰ درجے کی تہذیب و تمدن کی شناخت رکھتا تھا اب نہ ہی ایک سلطنت اور نہ ہی ایک ملک رہا ہے بلکہ سکڑتے سکڑتے اٹلی کے دارالحکومت تک محدود ہو کے رہ گیا ہے۔روم اب ایک میٹروپولیٹن شہر کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک سے شہر میں تبدیل ہو جانے والے شہر کے اندر ہی دو نئے خود مختار ملکوں '' ویٹی کن سٹی‘‘ '' ہولی سی ‘‘ نے جنم لیا ۔
قدیم مذہب:قدیم رومی مذہب ریلیجیو رومانا تھا ۔ بعد میں جوں جوں روم کے اندر دوسری تہذیبیں ضم ہوتی چلی گئیں تو کئی دیگر مذاہب بھی شامل ہوتے چلے گئے۔اسی طرح تاریخ کی کتابوں میں قدیم ترین مذہب یہودیت کی موجودگی کے شواہد بھی ملے ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ جب مسیحیت کا آغاز ہوا تو پہلے پہل اسے زبردست مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن چوتھی صدی عیسوی تک مسیحیت خاصی پھیل چکی تھی۔جبکہ روم میں 313 ء کے اوائل میں اسے قانونی تحفظ تو دے دیا گیا لیکن طویل عرصے تک مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ 380 عیسوی میں عیسائیت کو باضابطہ مذہب کا درجہ ملنے سے یہ شہر عیسائیت کاپہلا اہم مرکز بنا۔ کچھ روایات کے مطابق یہیں پر پہلی صدی عیسوی میں سینٹ پیٹر ( پطرس)اور سینٹ پاول (پولس)کا قتل ہوا تھا۔ یہیں سے روم کے لاٹ پادری نے بعد میں پوپ یا پاپائے روم کا لقب اپنایا۔اور اس کو باقی تمام پادریوں پر برتری حاصل ہوئی۔
رومی سلطنت کے زوال کے اسباب :رومی سلطنت کے زوال پر مور خین اور ناقدین بہت عرصے سے تجزئیے کرتے آ رہے ہیں لیکن سب سے اہم تجزیہ ایڈون گبن کاہے۔جس نے رومی دور کے کھنڈرات کی ''عظمت‘‘ سے متاثر ہو کر تباہی کی وجوہات جاننے کا تہیہ کیا تھا۔وہ جاننا چاہتا تھا کہ اپنے زمانے کی وسیع و عریض اور مضبوط سلطنت رفتہ رفتہ کھنڈرات میں کیوںبدلتی چلی گئی؟۔وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ اداروں کی سیاست میں بے جا مداخلت، اپنی مرضی کے حکمرانوں کومنتخب کرانے ، رومی شہنشاہوں کے یکے بعد دیگرے قتل ، سرحدوں پر حملوں اور زراعت کی تباہی کی وجہ سے یہ سلطنت سکڑتی چلی گئی۔ بے روزگار کسانوں کی شہروں کی طرف نقل مکانی اور آبادی میں اضافے کی وجہ سے شہروں میں صفائی کا نظام قائم نہ کیا جا سکا ۔ رہی سہی کسر عوامی جھگڑوں اور فسادات نے پوری کر دی جن سے شہری غیر محفوظ ہوگئے تھے۔ امراء نے دیہات میں محلات بنا لئے تھے جس سے ریاست روم کی جڑیں کھوکھلی کرتے چلے گئے۔
اس تبدیلی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک جانب رومی معاشرہ ذہنی طور پربنجر ہو گیا تو دوسری طرف اس کی افواج اس قابل نہ رہیں کہ وہ باربیرین قبائل کا مقابلہ کرسکتیں۔چنانچہ 410 عیسوی میں ویزو گوتھ روم پر قابض ہوئے اور مغربی رومی ایمپائر کا خاتمہ ہو گیا۔
کتنی عجیب بات ہے کہ ایک وقت میں رومیوں سے شکست کھانے والے شہر میں فاتح بن کر آئے۔اور یوں اپنے وقتوں کی وسیع و عریض رومن سلطنت اپنے انجام کو پہنچی۔ اپنے وقت کی ترقی یافتہ سلطنت نے دوسرے ملکوں کو بھی سائنس ، فن تعمیر، ریاستی ڈھانچے کے علوم اور فن حرب سمیت بے شمار شعبوں میں رہنمائی مہیا کی۔ لیکن تاریخ دان یورپ کے اس کردار کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں کہ انہوں نے اپنے پڑوسی قبائل کو غیر مہذب اور وحشی کا لقب دے کر ان کا قتل عام کیا ۔ ان کو اپنا غلام بنایا اور ان کی دولت لوٹ کر محلات اور پر شکوہ عمارات تعمیر کیں ۔ یہ تاریخ کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ ان کے پرامن ہمسایہ قبائل غیر مہذب ٹھہرے جبکہ بلا اشتعال حملے کر کے لوٹ مار کا بازارگرم کرنے والے مہذب گردانے گئے۔