ہڈیوں کے لیے مفید غذائیں
75 سالہ باباجی توقیر حسین اس عمر میں بھی بڑے چاق و چوبند ہیں۔ وہ اپنے گھر کے بھی اکثر کام کرتے ہیں۔ ضرورت پڑے تو بازار بھی چلے جاتے ہیں۔ ورنہ اس عمر میں اکثر مردوزن کی ہڈیاں اتنی کمزور ہوجاتی ہیں کہ دو قدم چلنا بھی دشوار ہوتا ہے۔ توقیر حسین کی ہڈیوں کی مضبوطی کا راز یہ ہے کہ وہ باقاعدگی سے ایسی غذائیں کھاتے ہیں جن میں کیلشیم اور وٹامن ڈی موجود ہوں۔ کیلشیم ہماری ہڈیاں طاقتور بناتا ہے جبکہ وٹامن ڈی کی بدولت کیلشیم انسانی جسم میں بہ سہولت جذب ہوتا ہے۔ یہ وٹامن ہڈیوں کی نشوونما میں بھی سودمند ہے۔
بچوں اور نوجوانوں کو یہ دونوں غذائی عناصر ضرور لینے چاہئیں کیونکہ تب ہڈیاں بڑھ رہی ہوتی ہیں۔ تاہم ادھیڑ عمری اور بڑھاپے میں بھی ان کی ضرورت پڑتی ہے۔ بڑھاپے میں بیشتر مرد و زن ہڈیوں کی ایک بیماری ''بوسیدگی استخوان‘‘ کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ اس بیماری میں ہڈیاں رفتہ رفتہ نہایت کمزور ہوجاتی ہیں۔ تاہم انسان غذائوں یا ادویہ کے ذریعے وافر کیلشیم اور وٹامن ڈی لے، تو ہڈیاں جلد بھربھری نہیں ہوتیں اور یوں ان کے ٹوٹنے کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔
ماہرین طب کے مطابق 50 سال کی عمر تک مردو زن کو روزانہ 1ہزارملی گرام کیلشیم جبکہ 200عالمی یونٹوں کے برابر وٹامن ڈی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جبکہ 50سال سے زائد عمر کے مردوزن کے لیے لازم ہے کہ وہ روزانہ 1.2 سو ملی گرام کیلشیم جبکہ 400 سے 600 عالمی یونٹ وٹامن ڈی استعمال کریں۔ ذیل میں ایسی غذائوں کا ذکر ہے جن میں دونوں غذائی عناصر وافر مقدار میں ملتے ہیں۔ بازار میں ایسی گولیاں دستیاب ہیں جن میں کیلشیم اور وٹامن ڈی ہوتا ہے، تاہم ڈاکٹر غذائوں میں موجود فطری غذائی عناصر کو ترجیح دیتے ہیں۔
دہی:وٹامن ڈی کے سلسلے میں قباحت یہ ہے کہ وہ بہت کم غذائوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ وٹامن بنیادی طور پر سورج کی روشنی سے حاصل ہوتا ہے ۔ پندرہ بیس منٹ روزانہ دھوپ میں کھڑنے ہونے سے اس کی مطلوبہ مقدار مل جاتی ہے۔ مغربی ممالک میں مسئلہ یہ ہے کہ موسم سرما اور برسات کے دوران وہاں اکثر سورج نہیں نکلتا۔ چنانچہ وہاں ایسا دہی سامنے آیا ہے جس میں مصنوعی وٹامن ڈی شامل کیا جاتا ہے۔ چونکہ دہی میں قدرتاً وافر کیلشیم ہوتا ہے، لہٰذا انسانی صحت کے لیے وہ سہ آتشہ بن جاتا ہے۔ اس خاص دہی کا صرف ایک پیالہ کیلشیم کی روزانہ 30 فیصد جبکہ وٹامن ڈی کی 20فیصد ضرورت پوری کر دیتا ہے۔ ہمارے ہاں عام دستیاب دہی میں کیلشیم تو خاصا ملتا ہے، البتہ وٹامن ڈی کی بہت کم مقدار ہوتی ہے۔ لہٰذا اسے یہ سوچ کر نہ کھائیے کہ وہ وٹامن ڈی کی مطلوبہ ضرورت پوری کر دے گا۔
دنیا کی تمام غذائوں میں سب سے زیادہ کیلشیم دودھ ہی میں ملتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ صرف ایک گلاس دودھ کیلشیم کی 30 فیصد روزانہ ضرورت پوری کردیتا ہے۔ اگر یہ دودھ چکنائی سے پاک ہو، تو اچھا ہے کہ یوں انسان کو محض 90 حرارے (کیلوریز) ملتے ہیں۔ مغربی ممالک میں اب دودھ میں بھی مصنوعی وٹامن ڈی شامل کیا جا رہا ہے تاکہ اْسے زیادہ غذائیت بخش بنایا جاسکے۔
پنیر:پنیر دہی سے بھی زیادہ کثیف ہوتا ہے۔ اسی لیے اس میں سب سے زیادہ کیلشیم ہوتا ہے۔ اگر انسان محض چنداونس پنیر کھالے، تو اْسے 30 فیصد کیلشیم مل جاتا ہے لیکن پنیر ہضم کرنا کٹھن مرحلہ ہے، اسی لیے اْسے کثیر مقدار میں کھانے کی کوشش نہ کریں۔ پنیر کی معتدل مقدار ہی فائدہ پہنچاتی ہے۔پنیر میں وٹامن ڈی کی بھی معمولی مقدار ملتی ہے۔ تاہم وہ اس غذائی عنصر کی مطلوبہ ضرورت پوری نہیں کر سکتا۔ لہٰذا وٹامن ڈی کے معاملے میں محض پنیر پر بھروسہ مت کریں۔
مچھلی:سالمن، سارڈین اور ٹونا وہ سمندری مچھلیاں ہی جن میں وٹامن ڈی کثیر مقدار میں ملتا ہے، تاہم پاکستانی سمندروں میں یہ مچھلیاں کم ہی ملتی ہیں ۔ گو ڈبوں میں دستیاب ہیں لیکن مہنگا ہونے کے باعث امیر لوگ ہی انھیں کھا سکتے ہیں۔ دیگر مچھلیوں میں وٹامن ڈی اتنا زیادہ نہیں پایا جاتا ۔
انڈے:گو ایک انڈہ ہمیں صرف 6 فیصد وٹامن ڈی مہیا کرتا ہے، لیکن یہ ایک عام دستیاب غذاہے۔ پھر اسے پکانا بھی آسان ہے۔ واضح رہے کہ وٹامن ڈی زردی میں ہوتا ہے، لہٰذا جو مردوزن دو تین انڈے کھانا چاہیں، وہ زردی کم کھائیں۔ یوں انھیں کم حرارے ملیں گے۔
ساگ:سبزیوں میں کیلشیم سب سے زیادہ ساگ میں ملتا ہے۔ چنانچہ جو افراد دودھ پینے کے شوقین نہیں، وہ ساگ سے مطلوبہ کیلشیم حاصل کر سکتے ہیں۔ ایک پیالی ساگ ہمیں 25 فیصد کیلشیم فراہم کرتا ہے نیز یہ سبزی ریشہ (فائبر)، فولاد اور وٹامن اے کی خاصی مقدار بھی رکھتی ہے۔
مالٹے کا رس:آج کل بازار میں مالٹے کے ذائقے والے ایسے ادویاتی رس دستیاب ہیں جن میں وٹامن سی کے علاوہ کیلشیم اور وٹامن ڈی بھی شامل ہوتا ہے۔ ان مشروبات میں وٹامن سی شامل کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ غذائی عنصر کیلشیم جسم انسانی میں جذب کراتا ہے۔ چنانچہ اس کی غذائی اہمیت بھی مسلم ہے۔
تھکن کی کیا وجہ ہے؟دورِجدید میں تھکن اور جسمانی درد سیکڑوں مردوزن کو نشانہ بناتا ہے۔ اب ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ خصوصاً خواتین میں تھکن کی ایک وجہ فولاد کی کمی ہو سکتی ہے۔ یاد رہے، ہر انسان کو کم از کم18 ملی گرام فولاد روزانہ درکار ہوتا ہے۔ ایک تجربے میں سوئٹزرلینڈ کی لوزین یونیورسٹی میں 200 خواتین کو 3ماہ تک 80ملی گرام فولاد کی گولیاں کھلائی گئیں۔ یہ خواتین تھکن، سستی اور غنودگی کا شکار تھیں۔
3ماہ بعد دیکھا گیا کہ 90 فیصد خواتین میں 50 فیصد تک تھکن کم ہو گئی۔تاہم جسم میں فولاد کی زیادتی ہوجائے تو یہ بھی بڑا خطرناک امر ہے۔