ظفر حسن ایبک۔۔ عالمی جنگ اول سے لیکر ترک فوج میں افسر بننے تک کی روداد
ظفر حسن ایبک 26ستمبر 1895ء کی رات کو دہلی سے 76میل اور پانی پت کے مشہور میدان جنگ سے تقریباً 25میل شمال میں واقع شہر کرنال کے محلہ قاضیاں میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک چھوٹے زمیندار خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ وہ پانچ سال کی عمر میں محلے کی مسجد میں قرآنِ شریف کی تعلیم حاصل کرنے لگے ۔ ابتدائی اور مڈل سکول کے دوران فارسی اور عربی کی تعلیم بھی حاصل کرلی۔ ظفر حسن نے اپنے خاندان کے مالی مسائل کے سبب رات دن محنت کرکے اسکالر شپ کے ذریعے اپنی تعلیم جاری رکھی۔ اُس زمانے میں کرنال ہائی اسکول کے لڑکے انٹرنس کے لیے امتحان انبالہ سنٹر میں دیتے تھے اِسی لیے وہ بھی 1911ء میں انبالہ جاکر انٹرنس کے امتحان میں شامل ہوگئے اور اپنی جماعت میں اوّل آکر اُنھیں سکالرشپ دیا گیا ۔پھرلاہور جاکر گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا۔ کالج کی تعلیم کے دوران پہلے جنگِ طرابلس اور پھر جنگِ بلقان پھوٹی تو وہ بھی اپنے ہم عمر نوجوانوں کی طرح جوش و جذبے میں آکر اپنے ترک بھائیوں کے لیے کچھ کرنے کو تڑپ گئے لیکن لاچار تھے۔ جب 1914ء میں پہلی جنگِ عظیم چھڑ گئی تو ہندوستان کا ماحول کچھ دگرگوں ہونے لگا ۔ جب عثمانی سلطان کے خلیفہ محمد رشاد نے جہادِ کا اعلان کیا تو عالمِ اسلام کے مختلف حصّوں میں مغربی طاقتوں کے خلاف شورشیں اور بغاوتیں شروع ہوئیں اور خاص طور پر مسلمان نوجوان جذبۂ جہاد سے سرشار ہوکر عثمانیوں کی صف میں آکر جنگ کرنے لگے۔ ہندوستان کے نوجوانوں نے دوسرے ملکوں کے نوجوانوں سے بھی زیادہ بڑھ چڑھ کر اِس جہاد میں حصّہ لینا شروع کیا تھا۔ ظفر حسن بھی اپنے کچھ ہم جماعتوں اور لاہور کے دوسرے کالجوں کے کچھ طلباء کے ساتھ اِس جہاد میں شرکت کرنے کا فیصلہ کرکے1915ء میں روپوش ہوکر روانہ ہوئے اور ایک کٹھن سفر کے بعد کابل پہنچے۔ جہاد کے لیے سفر کے راہی ہونے کے بعد اُس زمانے کی افغانی حکومت نے انگریزوں کے ساتھ تعلقات کو خراب نہ کرنے کی خاطر، اِ ن افراد کو آگے نہیں جانے دیا تو وہ لوگ آٹھ سال تک افغانستان میں رہنے پر مجبور ہوئے۔ افغانستان میں مختلف سیاسی سرگرمیوں میں مصروف رہے اور بعد میں افغانستان اور انگریزوں کے مابین شروع ہونے والی جنگ میں بھی افغانوں کی صف میں جنگ لڑی۔ 1922ء میں افغانی حکومت کی اجازت پر اپنے استاد اور رہنما عبیداللہ سندھی کے ہمراہ روانہ ہوکر ماسکو گئے۔ دو سال وہاں رہنے کے بعد 1924ء میں ترکی تشریف لائے اور استنبول میں آباد ہوئے۔ اُنھوں نے ترکی شہریت حاصل کرنے کے بعد ترکی اسٹاف کالج میں داخلہ لیا اور وہاں سے فارغ التحصیل ہوکر ترک فوج میں افسر بنے۔ 1933ء میں ترکی اور افغانستان کے مابین معاہدے کی بناء پر ایک ترک افسر کی حیثیت سے افغانستان گئے اور افغان فوج کی تنظیم کے کاموں میں خدمات انجام دیں۔ افغانستان کی طرف سے چیکوسلواکیا سے توپ خریدنے کے سلسلے میں بھیجے گئے وفد کی سربراہی بھی اُنھوں نے کی۔ وہ1936ء سے 1937ء تک یورپ کے مختلف ملکوں میں سفر کرکے پھر افغانستان واپس لوٹے لیکن اپنی ترقی کو مدنظر رکھتے ہوئے کابل سے استنبول واپس آئے۔ پاکستان کے قیام کے بعد پاکستان جاکر اپنے بچھڑے ہوئے رشتہ داروں سے ملے اور ترکی اور پاکستان کی دوستی اور برادری کے لیے نمایاں خدمات انجام دیں۔ انہوں نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب ''خاطرات‘‘ بھی لکھی۔ استنبول میں 1987ء میں 92سال کی عمر میں وفات پائی ۔