مائیکرو فکشن کا بڑھتا رجحان
مائیکرو فکشن کیوں؟
میں کہتا ہوں کیوں نہیں۔۔۔۔۔۔۔
کیا اردو ادب میں اتبدادیت کا دور دورہ ہے؟
کیا افسانچے کے بعد خط کھینچ دیا گیا ہے؟
ناول تھا تو افسانہ کیوں آیا؟
افسانہ تھا تو افسانچہ کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
انگریزی و عربی فارسی ادب سے مستعار اردو ادب اور ادیب کب تک خود کو تحقیق اور جدت سے روکے رکھے گا؟
جب بھی فکشن کا ذکر آتا ہے تو معروف انگریزی رائٹررور جینیا وولف کا ایک سوال جس نے برسوں پہلے ادبی حلقوں میں کہرام برپا کیا تھا ان کا مضمون "جدید فکشن "ایک خیال انگیز تحریر تھی اور ہے جس نے اس وقت جو سوال اْٹھائے آج بھی اتنے ہی اہم ہیں۔ اس مضمون کی ابتدا میں ہی وہ لکھتی ہیں:
''ہم نے مشین بنانے میں بہت ترقی کر لی ہے۔ نئے ماڈل کی کار کو دیکھتے ہی ہم بے اختیار کہہ اْٹھتے ہیں کہ اس کی ساخت میں کچھ نئی چیزیں سما گئی ہیں لیکن کیا ہم نے اسی طرح کا کوئی نیا طریق ادب کی تخلیق میں بھی دریافت کیا ہے؟ اورکیا اس طریق کو احساس تفاخر سے پیش کیا ہے کہ یہ فن پارہ پہلے فن پارے سے مختلف ہو؟ ورجینا وولف نے لکھا کہ فیلڈنگ نے اچھا فکشن تخلیق کیا تھا اوراسی طرح جین آسٹن ا پنے زمانے میں فیلڈنگ سے سبقت لے گئی لیکن جو حیرت فیلڈنگ نے اپنی سادگی سے تخلیق کی تھی اور اسی طرح بعد میں جو حیرت جین آسٹن نے اپنے انداز میں جگائی تھی ویسی حیرت کیا ہمیں ان کے بعد فکشن میں نظر آئی۔‘‘
دیکھنے والی بات اس اقتباس میں یہ ہے کہ ورجینا وولف نے ارتقا کے اگلے دو قدم کا اعتراف بھی کیا ماضی اور مستقبل کے ادب کا تقابل کرتے ہوئے اس کے زوال کی بات بھی کی اور ادب میں جمود کی صورت پر بھی بات کی یہ درست کہ یہ پرانی بات ہے اس کے بعد انگریزی ادب میں فکشن کئی طرح سے لکھا گیا اور عمدہ نمونے بھی سامنے آئے لیکن اگر میں اردو ادب میں فکشن پر ایک نظر ڈالوں تو دور نہیں 90 کے بعد کے فکشن پر ناقد بھی زوال کا نوحہ کہتا نظر آئے گا۔
جب میں نے مائیکرو فکشن پر بات شروع کی تو ادبی حلقوں میں چہ میگوئیاں ہوئیں کہ جیسے ٹیسٹ کرکٹ سے ون ڈے کا دور آیا اور ون ڈے سے ٹی ٹونٹی کا یوں ہی ادب میں بھی ہم مختصر ترین کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
قارئین کے پاس پڑھنے کا وقت کم ہے یا نہیں ہے اس سے قطع نظر ادب کے معاملات الگ ہیں۔ ادب میں نئی اضاف کا آنانئی اضاف کے ریسرچ ورک سے جڑنا انگریزی ادب کا خاصہ ہے اس لیے ہمیں سب وہاں ہی ملا۔ ہمارے ہاں قصہ گوئی یا داستان کی روایت ملتی ہے لیکن کیا وہ اردو کی اپنی اضاف تھیں یہ الگ سوال ہے؟
میں یہاں ساوتھ افریقہ میں ایک نجی کانفرنس میں شریک ہوا تو وہاں دوستوں سے تعارف کے بعد اردو ادب کا تذکرہ ہو اگوروں اور سیاہ فام ادبا کا سوال تھا اْردو ادب میں کون سی اضاف لکھی جاتی ہیں۔ تو میرا عمومی جواب یہ تھا کہ ناول ، ناولٹ، افسانہ ، نظم ہمارے ہاں بالخصوص لکھی جا تی ہیں ۔ تو انہوں نے ہنستے ہوئے کہا ارے بھئی یہ سب تو انگریزی ادب سے مستعار ہے اردو ادب کی اپنی کون سی صنف ہے جو آپ لکھتے ہیں۔ تویہ اچانک سوال میرے لیے خود حیران کن تھا۔ خیر میں نے غزل کا نام لیا اور بات کچھ دیرکے لیے تھم سی گئی لیکن میں جانتا تھا غزل بھی کہاں اردو کی اپنی ہے۔ مجھے اس بات نے بطور اردو طالب علم جھنجھوڑا کہ ہم نے اردو ادب کو کیا دیا؟
افسانے کی ہی بات کر لیں۔ افسانہ خود اپنے پیٹرن وقتاً فوقتاً بدلتا رہتا ہے اور یہ ایک اچھی روایت رہی ہے اردو ادب ا فسانہ میں تجربات ہوئے یوں اس کا رد عمل 1960 میں تجریدی افسانے کی شکل میں سامنے آیا۔
پھر 90 کی دہائی میں افسانہ علامت کی جانب واپس لوٹا لیکن دیکھا جائے تو یہ ا دوار افسانے میں انگریزی ادب اور اردو ادب میں بیک وقت گزرے۔ مطلب ہم وہی کر رہے تھے جو مغرب میں ہو رہا تھا۔ چلیں مانا کہ علوم کا لین دین منع نہیں اس میں کوئی مضائقہ نہیں اگر ایسا ہوا بھی ہے ۔ لیکن یہی محبت اگر اردو دان اردو کی اپنی الگ صنف بنانے میں کرتے جس کی ہیئت خود اردو کی وضع کی ہوتی تو ہم آج کہہ سکتے کہ فلاں صنف اردو کی صنف ہے۔ اسی سوچ کے پیش نظر میں نے مائیکر و فکشن پر تحقیقی کام کا آغاز کیا کہ ایک صنف تو ہو جو اپنی نئی شکل کے ساتھ سامنے آئے جسے ہم افسانچے۔۔۔۔ سٹوری فلیش فکشن سے الگ کر سکیں۔
اب آپ کہہ سکتے ہیں کہ صنف اپنی تو نام بھی اپنا ہونا لازم ہے تو اس حوالے سے عرض ہے کہ یہ الفاظ اردو میں رائج ہیں اور عام فہم زبان میں ان کا یونہی رائج ہونا میرا نہیں خیال غلط ہو۔
لیکن میں نے تحقیقی کام میں اس پر غور جاری رکھا اور بالخصوص نام کے حوالے سے بار بار ادبا کی رائے لی ان مکالموں میں بہت سے نام سامنے بھی آئے دنیا بھر کے ادبا نے بہت سے ناموں کی تجویز دی۔ ۔آخرکار کراچی سے ہمارے ایک محترم دوست شفقت محمود صاحب نے "مائیکروف" کی اصطلاح کو استعمال کرنا شروع کیا۔ میں نے دیکھا کہ ادبا کی کثیر تعداد نے اس "مائیکروف" کو معتبر حیثیت دی اور خود بخود یہ نام مستعمل ہوتا گیا اور اسے قبولیت کی سند ملی۔یوں نام کا قصہ ختم ہوا۔ اس دوران انہماک فورم پر اردو کے معتبر ترین ناقدین و ادبا سے مکالمے بھی جاری ہیں۔ جنہوں نے اس صنف کے اسلوب و ہیئت کے حوالے سے بات کی اور کئی ادبا میں اس کے روشن امکانات ومستقبل کی نشاندہی کی کچھ ادبانے اسے مجذوب کی جڑ بھی کہااور ناپسندیدہ قرار دیالیکن ایساردعمل چند ایک ادبا کی جانب سے ہواجو ذہنی طورپراردو میں کچھ نیا ہونے سے ڈرتے ہیں جب ہم غفار پاشا صاحب کے ساتھ سامنے آئے اورمقالے لکھے گئے تو صنف اپنا مقام خود بناتی چلی گئی آج انشائیہ پرایم فل کے مقالے لکھے جارہے ہیں۔
اردو میں بہت کم کچھ الگ نیاکرنے کی روایت رہی ہے۔ہاں اسی ضمن میں عرض کروں تنقید نے اردو ادب میں سب سے زیادہ ترقی کی ہے۔ اردو ادب میں تنقیدی میدان میں آج تنقید تاثراتی تنقیدسے ہوتی ہوئی مارکسی تنقید، مظہریت سے اختیاطی تنقید، نوآبادیاتی تنقید، ردتشکیل، پوسٹ ماڈرن ازم، اور امتزاجی تنقید تک پہنچ گئی اور اس پرکام بھی ہوا ہے گو کہ یہ بھی بیشتر مغرب کی تھیوریزہیں لیکن ان پر کام ہوا ہے۔ ڈاکٹر وزیرآغا نے امتزاجی تنقید کی بنیاد رکھی اور جمیل آذر صاحب نے نیانشائی تنقید کا آغاز بھی کیاہے۔مغرب میں تھیوریزپیش کی جاتی ہیں اور ان پر مکالمہ ہوتاہے۔یوں بات آگے بڑھتی ہے ہمارے ہاں کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ بات کیا ہورہی ہے ۔وہ اہم ہے یا نہیں سب یہ دیکھتے ہیں کہ کہہ کون رہا ہے۔
مائیکروفکشن (مائیکروف)کولیکر ہمارے ادبا خائف کیوں ہیں ۔ وہاں 'دریدا' کے مطابق زبان میں افتراق اور التوا کاکھیل ہے یہ کہہ کرسب لکھا، کہا،رد کردیاگیاہے اور جس کا جواب ابھی تک کوئی دے نہیں پایا۔ ان کا کہنا ہے کہ کوئی متن حتمی معنی، مطلق و واحدمعنی نہیں رکھتا۔۔
خیر عرض ہے کہ اگر وہ منی سٹوری کے بعد فلیش فکشن اور سائنس فکشن اور دیگر فکشن کو متعارف کرواسکتے ہیں تو ہمیں افسانچے کے انڈے پر 'مرغا' بن کرکب تک بیٹھے رہناہے۔ یہ اب ہم سب مل کر طے کرلیتے ہیں۔
اب آپ دیکھ لیں اردو ادب و ادیب کو نئی صنف پرکام کرنے سے کترا رہے ہیں ۔ یہ کتنا لازم ہے،نہیں ہے وہ دوست طے کرلیں۔
رہی بات ہاررفکشن کی تو ہم نئے مضوعات کو بدل بدل کر اب تک دنیا بھرکے مصنفین سے 500 کے قریب مائیکروف لکھوائے چکے ہیں جن پر دنیابھر کے معززین ناقدین نے تبصرے کیے آرادیں ہیں۔ تاکہ اس صنف میں نئے نئے موضوعات پرزیادہ سے زیادہ لکھا جائے۔تاکہ مصنفین وقارئین کا ذائقہ بھی بدلتارہے ا ور مشق بھی جاری رہے۔
رہی بات انہماک میں شامل مائیکرو فکشن مثالوں کی تو عرض ہے وہ نشستیں مشق سخن سے متعلق ہیں۔ ان سب میں سے بہترین مثالوں کو سامنے رکھ کرہم اس کی صورت گری کرتے چلے جائیں گے۔ اس پرکام ہورہا ہے ہم اور دیگر دوست نوٹس بنارہے ہیں لیکن یادرہے سب کہانی کے لیے ہی بہتر ہوگا ۔ انجام، منظرنگاری، حیرت، ہر چیزاس کاحصہ ہوں گے۔ ہاررمائیکروفکشن میں جزئیات نگاری کو خاصی اہمیت حاصل ہورہی ہے ۔کیونکہ وہاں لفظوں سے قاری کو سارا منظر دکھانا ہوتاہے۔ لکھتے لکھتے قلم مائیکروفکشن کی جسامت کو تو بھانپ گئے ہیں اور ان کا قلم خودبخود طے کرتاگیاکہ اس کا حجم کیاہوگا ۔موضوع کے اعتبار سے لفظوں کی تعداد 600 تک جاسکتی ہے۔
مائیکروف جدید دور کی اہم ترین ضرورت بھی ہے اور اس صنف میں تخلیقی بیانیہ اہم ہے۔ ہمارے ہاں سو لفظی کہانیوں کا چرچا داستان کا لطف، قصہ گوئی کی چاشنی، افسانے کا فسوں اور ناول کی جزئیات نگاری،مکالمے کا تیکھاپن اور نظم کا لطف سب درآمد کیے جا سکتے ہیں کم لفظوں میں بڑی بات گہری بات اور گہری فکرسے جوڑتا مائیکرواس وقت ادبا کے لیے لکھنے کاایساتخلیقی راستہ ہے جہاں سب خود کو جیتاجاگتااور مکمل تخلیق سے جڑاہواپاتے ہیں۔ اس صنف پرمزید مضامین و تحقیق کی ضرورت ہے۔