’’انشا جی اُٹھو اب کوچ کرو‘‘
عرفان کھوسٹ واقعہ بیان کرتے ہیں
''میری اور استاد امانت علی خان کی اچھی خاصی دوستی تھی۔وہ اتنے ہمدرد اور مخلص انسان تھے کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔جب میں نے ریڈیو پہ کام شروع کیا تو استاد امانت علی خان کا طوطی بولتا تھا۔کسی وجہ سے ریڈیو پہ میرے پروگرام بند ہو گئے اور میں بہت دل گرفتہ تھا۔امانت علی خان سے اُس وقت تک میری محض سلام دُعا ہی تھی۔مجھے پریشان دیکھا تو پوچھنے لگے کیا ہوا؟۔میں نے بتا دیا۔اُنہوں نے فوری طور پر ڈی جی کو فون کیا اور میرے پروگرام بحال کرائے‘‘
عرفان کھوسٹ کے بقول ایسی شاندار شخصیت میں نے نہیں دیکھی ۔اخلاص اور محبت کا پیکر!
گزشتہ روز برصغیر میں کلاسیکی موسیقی کے ماہر اِسی گائیک استاد امانت علی خان کی 47 ویں برسی منائی گئی۔
استاد امانت علی خان کے گائے ہوئے کلاسیکی گیت اور غزلیں آ ج بھی بان زد عام ہیں۔پٹیالہ گھرانے سے تعلق رکھنے والے استاد امانت علی خان 1922 میں بھارتی پنجاب کے علاقے ہوشیار پور (شام چوراسی) میں پیدا ہوئے۔ موسیقی کی ابتدائی تعلیم اپنے والد اختر حسین خان سے حاصل کی۔شروع میں امانت علی خان اپنے بھائی استاد فتح علی خان کے ساتھ مل کرگایا کرتے تھے۔ برصغیر کی تقسیم سے پہلے انہوں نے ریڈیو پاکستان لاہور پر گانا شروع کیا۔قیام پاکستان کے بعد استاد امانت علی خان اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ مستقل طور پر لاہور شفٹ ہو گئے اور منٹو پارک کے قریبی علاقے میں رہائش پذیر ہو گئے۔ انہوں نے کم عمری میں ہی دادرا، ٹھمری، کافی اور غزل کی گائیکی میں مہارت حاصل کر لی تھی۔
اُن کی گائی ہوئی چند مشہور غزلوں میں ' 'ہونٹوں پہ کبھی اُن کے میرا نام ہی آئے‘‘، ''موسم بدلا رُت گدرائی، اہل جنوں بے باک ہوئے‘‘ اور ''یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے‘ ‘وغیرہ شامل ہیں۔موسیقی کے ماہرین کے مطابق استاد امانت علی خان کی گائیکی کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ اونچی ٹون میں گاتے ہوئے بھی اپنی آواز پر مکمل کنٹرول رکھتے ۔
ماہرین موسیقی کے مطابق انہیں معجزاتی گلوکار بھی کہا جاتا ہے۔ راگ راگنیوں کو تسخیر کرنے والے فن کاروں میں ان جیسا کوئی بھی نہیں ہے، استاد امانت علی خان کی آواز اور گائیکی کا انداز ہمیشہ سر تال سے ہم آہنگ رہا، ایک ایسا فن کار، جو بکھرتاتو سمیٹا نہیں جاتا تھااور جب سمٹتا تو ہاتھ نہیں آتا تھا۔ استاد امانت علی خان صرف 45 برس جئے۔ وہ کہا کرتے تھے، ہمیں رضاکارانہ طور پر اپنی عمریں کم کر لینی چاہئیں تاکہ تھوڑی تھوڑی آسودگی سب کے حصے میں آجائے۔
ان کے ملنے والوں میں دانشوروں، شاعروں، صحافیوں اور ادیبوں کی بڑی تعداد شامل تھی۔ شاید اسی لیے استاد امانت علی خان کی طرف سے گائیکی کے لیے غزلوں کا انتخاب بھی بہت عمدہ ہوا کرتا تھا۔ یوں تو ان کے گائے ہوئے تقریباً سارے کلام کو موسیقی کے شائقین نے پسند کیا لیکن ابن انشا کی غزل "انشا جی اٹھو اب کوچ کرو" کو اپنی آواز سے سجانے کے بعد اُنہیں جوشہرت ملی اس کی مثال ڈھونڈنا آسان نہیں ہے۔اس کی دُھن مرحوم خلیل احمد نے تیار کی تھی ۔47 سال بعد بھی لوگ استاد امانت علی خان کو شوق سے سنتے ہیں۔ دنیا بھر میں ان کے مداح موجود ہیں۔ یہ بات ان کے فن کی مضبوطی کو ظاہر کرتی ہے اور یہ ان کے اچھا فنکار ہونے کا بھی ایک ثبوت ہے
اُن کا گایا ہوا ملی گیت''اے وطن پیارے وطن‘‘ وطن سے محبت کا عظیم نذرانہ ہے جسے آ ج بھی ہر کوئی سنتا ہے۔
عرفان کھوسٹ ہی ایک اور واقعہ بیان کرتے ہیں
''میں نے پہلی بار سکوٹر خریدا تو خان صاحب سے کہا کہ ا ٓئیں میرے ساتھ بیٹھیں ۔اُنہیں معلوم نہیں تھا کہ میں پہلی بار سکوٹر چلانے لگا ہوں۔وہ میرے ساتھ بیٹھ گئے
تھوڑی دُور گئے تو میں نے انہیں بتایا کہ میں خوش نصیب ہوں کہ آ ج پہلی بار سکوٹرچلا رہا ہو ں اور آ پ میرے ساتھ بیٹھے ہیں۔امانت علی خان صاحب کو جب علم ہوا کہ میں نے پہلی بار سکوٹر چلایاہے تو وہ فوری طور پر اتر گئے۔بھلا وہ ایک اناڑی ڈرائیورکے ساتھ بیٹھ کر اپنی جان کو خطرے میں میں کیوں ڈالتے۔
استاد امانت علی خان کے صاحبزادے اسد امانت علی خان اور شفقت امانت علی خان نے شام چوراسی گھرانے کی روایتی کلاسیکی موسیقی کو خوب رنگ لگائے تاہم شفقت نے مغربی انداز موسیقی کو بھی اپنایا ہے۔ شفقت امانت علی خان کا کہنا ہے:''ہمارے گھرانے میں فنکار نئے نئے تجربے کرتے رہے ہیں۔ استاد امانت علی خان نے غزل بھی گائی۔ خود میرے تمام گانے بھی کسی نہ کسی راگ کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ جس طرح لوگ بچوں کو دوائی میٹھی چیز کے ساتھ دیتے ہیں ہم بھی جدید انداز میں کلاسیکی روایت کو ہی آگے بڑھا رہے ہیں۔‘‘
ماہرین موسیقی کا کہنا ہے استاد امانت علی خان کا گایا ہوا کلام کانوں کو بڑا آسان لگتا ہے مگر اُسے اُن کی طرح گانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔آج کے گلوکار ان کی گائیکی سے روشنی حاصل کر سکتے ہیں۔
استاد امانت علی خان کے بڑے بیٹے اسد امانت علی خان کی آواز اور انداز یقینی طور پر والد سے مختلف تھا تاہم پٹیالہ گھرانے کا حسن اُن سے کوئی الگ نہیں کر سکتا۔وہی چاشنی اُن کی آ واز کو بھی چار چاند لگا دیتی تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ ان کے صاحبزادے ہوں یا چھوٹے بھائی حامد علی خان ۔۔پٹیالہ گھرانے کو امانت علی خان جیسا ہیرا دوبارہ نہیں مل سکا۔