حکائیت ِ سعدیؒ، مقام احسان
کسی بستی میں ایک عالی حوصلہ اور شریف آدمی رہتا تھا جو تنگدست ہونے کے باوجود ہر وقت دوسروں کی مدد کرتا تھا۔ ایک دن اس کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا اے سخی! میں نے ایک شخص سے قرض لیا تھا وقت پر ادائیگی نہ کر سکا اور اب وہ مجھے قید کروا دینے پر بضد ہے۔
اس سوالی نے جتنی رقم مانگی تھی وہ کچھ زیادہ نہ تھی لیکن اس وقت اس شخص کے پاس یہ معمولی سی رقم بھی نہ تھی۔ ایسے لوگوں کے پاس سرمایہ جمع بھی کہاں رہتا ہے۔ ان کی مثال تو بلند پہاڑوں کی سی ہے کہ جو پانی ان پر برستا ہے اسی وقت ڈھلانوں پر بہہ جاتا ہے۔
سوالی کو رقم نہ ملی تو قرض خواہ نے اسے قید کرا دیا۔ مردِ سخی کو یہ بات معلوم ہوئی تو وہ قرض خواہ کے پاس گیا اور اس سے درخواست کی کہ آپ نے اپنے جس مقروض کو قید کرایا ہے اسے کچھ دنوں کیلئے آزاد کر دیجئے۔ اگر وہ پھر بھی آپ کی رقم ادا نہ کر سکا تو اس کی جگہ میں قید بھگتنے کو موجود ہوں۔ میں اس کی ضمانت دیتا ہوں۔
قرض خواہ نے یہ درخواست قبول کرکے مقروض کو آزاد کر دیا۔ سخی مرد نے اس سے کہا کہ خدا نے تجھے قید سے رہائی بخش دی۔تو یہاں سے بھاگ جا، چنانچہ وہ فرار ہو گیا اور معاہدے کے مطابق قرض خواہ نے اس کی جگہ سخی مرد کو قید کرا دیا۔
جب وہ قید کی سختیاں جھیل رہا تھا تو اس کے دوستوں میں سے ایک نے اس سے کہا کہ یہ بات تو دانائی کے مطابق معلوم نہیں ہوتی کہ تم نے پرائی مصیبت اپنے گلے میں ڈال لی جو خطا کار تھا وہ خود اپنے کئے کی سزا بھگتتا۔ سخی مرد نے جواب دیا تم اپنی جگہ ٹھیک سوچ رہے ہو لیکن میں نے جو کچھ کیا ٹھیک ہی کیا۔ وہ بے چارہ سوالی بن کر میرے پاس آیا تھا اور اس کی رہائی کی اس کے سوا کوئی صورت نہ تھی کہ میں اس کی جگہ قید ہو جائوں۔
بیان کیا جاتا ہے کہ وہ مرد سخی قید خانے میں ہی مر گیا۔ اس کی رہائی کی کوئی سبیل پیدا نہ ہو سکی۔ بظاہر یہ کوئی اچھا انجام نہ تھا لیکن حقیقت میں اس نے حیات جادواں پا لی۔
اس حکایت میں حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ نے مقام احسان کا حال بیان کیا ہے۔ قرآن مجید میں محسنین کا بہت بڑا درجہ بیان کیا گیا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ نے احسان کی یہ تشریح فرمائی ہے کہ قاعدے قانون کے مطابق اور عام اخلاق کی رو سے انسان پر جو فرض عائد ہوتا ہو اس سے بڑھ کر نیکی کی جائے۔ مثلاً اگر کوئی قرض دار قرض کی رقم ادا نہ کر سکے تو اسے معاف کر دینا نیکی ہے، لیکن اگر معاف کرنے کے علاوہ اس کے ساتھ کچھ اور سلوک بھی کیا جائے تو یہ احسان ہے۔