انسانیت کے سفیر۔۔۔رضاکاروں کے عالمی دن پر خصوصی تحریر
معاشرے کا ایسا فرد جو کسی لالچ یا مالی مفاد کے بغیر دوسرے لوگوں کی مدد کرتا ہے/کرتی ہے،رضاکار کہلاتا ہے۔ ایک لمحہ کے لئے اپنی سوچ کے گھوڑے دوڑائیں تو ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ آج کل کے خود غرض،مفاد پرست ،اقرباء پروری ، رشوت ستانی، نااہلی،کام چوری اور بھی بے تحاشہ معاشرتی برائیوں کی موجودگی میں ایسا کوئی بھی شخص جو رضاکار کی تعریف پر پورا اترے تو اس کو بلند و بالا مقام ملنا چاہیے۔ لیکن کیا ایسا ہے؟ اگر ہم پاکستانی معاشرے کا بہ نظر غائر جائزہ لیں تو ہمیں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں نظر آئے گی کہ ہم من حیث القوم اوپر بیان کی گئی برائیوں کے گڑھے میں غرق ہونے کے قریب قریب ہیں۔کیا ہمیں اس گڑھے سے نکلنے کے لئے کچھ کرنا چاہئے تو ہمیں اپنی دینی اساس کو سامنے رکھنا ہوگا۔ اس سلسلے میں،میں ہجرت مدینہ کے موقع پر کئے گئے رضاکاری اور بھائی چارے کے مظاہرے کا ذکر ضرور کروںگا، جب مہاجرین کا قافلہ ہمارے نبی مکرم رسول اکرم رحمتہ اللعالمین حضرت محمد مصطفی ﷺ کی قیادت میں مکہ سے مدینہ پہنچا تو مہاجرین کے حالات سب کے سامنے تھے اور ہمارے رسولﷺ اس وقت صرف اور صرف انصار مدینہ کی طرف دیکھ رہے تھے کہ وہ اپنے مسلمان مہاجر بھائیوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں اور پھر زمانے نے بھی دیکھا اور انسانی آنکھ سے بھی یہ چیز پوشیدہ نہیں رہی کہ انصار مدینہ نے رضاکاری اور بھائی چارے کی ایسی مثال قائم کی جو تا قیامت دوبارہ نہیں ہو سکتی۔ انصار مدینہ نے اپنی ملکیت میں موجود ہر چیز میں مہاجر بھائی کو حصہ دار بنایا ، یہاں تک کہ جس انصار مدینہ کی دو بیویاں تھیں(عرب میں ایک سے زائد شادیوں کا رواج عام تھا)ا س نے اپنی ایک بیوی کو طلاق دی تا کہ مہاجر بھائی اس کے ساتھ نکاح ثانی کر سکے (یہاں اس مثال کو بتانے کا مقصد یہ تھا کہ اگرانصار مدینہ نے اس حد تک مہاجرین کے ساتھ نباہ کیا تو باقی مالی او ر دنیاوی چیزوں کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے)۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ رضاکاری اور دوسروں کی بے لو ث مدد بھی مومن کی گمشدہ میراث ہے۔اگر ہماری قوم میں یہ جذبہ مکمل طور پر بیدار ہوجائے تو ہمارے 95فیصد معاشرتی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
اب ہم آجاتے ہیں5دسمبر کے دن کی طرف ۔ یہ دن ہر سال رضاکاروں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے اور اس کی منظوری اقوام متحدہ نے 1985میں دی تھی۔ لیکن اس کو عالمی منظر نامہ پر اس وقت جانا اور مانا گیا جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس منعقدہ 20نومبر 1997ء میں ایک قرارداد اس حوالے سے منظور کی گئی جس میں 2001ء کو رضاکاروں کا سال بھی قراردیا گیا۔اس کے بعد سے ہر سال یہ دن 5دسمبر کو رضاکاروں کے عالمی دن (International Volunteer Day) کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ آج کل کے تیز رفتار دور میں جب سب کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے چند سر پھرے ایسے ہوتے ہیں جو بے لوث کسی کی مدد کرنا اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں۔ پاکستان میں بھی پوری دنیا کی طرح اس عالمی دن کو منایا جاتا ہے اور مٹھی بھر افراد حتی المقدور کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ رضاکاری کا جذبہ معاشرے میں پروان چڑھ سکے اور حیران کن حد تک یہ بات دیکھی گئی ہے کہ یہ جذبہ 10سے 14سال کی عمر کے بچوں میں بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ (Boys Scouts) (Girls Guide)ان ناموں سے کچھ ادارے پاکستان میں رضاکاری کی اہمیت کو اجاگر کرنے میں مصروف ہیں۔ لیکن (مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق) وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس سمت میں ہماری سوسائٹی کا رجحان بہت کم ہوتا جا رہاہے۔ شائد پچھلے کچھ سالوں سے ملکی اور بین الاقوامی حالات نے معاشرے کو کافی حد تک خود غرض بنا دیاہے۔
پاکستان میں ''پاکستان گرلزگائیڈ ایسوسی ایشن‘‘اس سلسلے میںکام کررہی ہے اور اسی سال4فروری کو ٖPGGA میں منعقدہ ایک تقریب میں بیگم ثمینہ عارف علوی( بیگم صدرپاکستان) نے چیف گائیڈ پاکستان کا حلف اٹھایا اور اس سلسلے میں ایک قدم اور آگے بڑھایا۔ اگر ہمارے لیڈران اور ان کے اہل خانہ ایکٹیو رول پلے کریںتو کوئی ایسی بات نہیں کہ پاکستان میں بھی رضاکارانہ خدمت کا جذبہ پروان چڑھ سکتا ہے۔ معاشرے میں اس چیز کوپروموٹ کرنے کیلئے اداروں کے ساتھ ساتھ حکومت کو بھی اپنا فرض ادا کرنا ہوگا۔
ایک تحقیق کے مطابق پوری دنیا میں 70فیصدرضاکارانہ کاموں کا کریڈٹ کسی ادارے کو نہیں لیکن معاشرے کے افراد کو انفرادی طور پر جاتا ہے کیونکہ لوگ ایسے کاموں کی شہرت بھی پسند نہیں کرتے۔ اقوام متحدہ کی ایک اور تحقیق کے مطابق یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ امریکہ اور یورپ میں جو افرادرضاکارانہ کاموں میں زیادہ شرکت کرتے ہیں ان کی آمدنی میں دوسرے لوگوں کی نسبت 5%زیادہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا ۔ اس سلسلے میں یہاں ایک اسلامی بات کا حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ ''رزق کی کشادگی بچت میں نہیں بلکہ سخاوت میں ہے‘‘
2021ء میں اس عالمی دن کے حوالے سے پاکستان میں منسٹری آف سوشل ویلفیئر اینڈ سپیشل ایجوکیشن نے نیشنل کونسل آف سوشل ویلفیئر کے ذریعے بھی کچھ پروگرامز کا انعقاد کیا ہے جو کہ درج ذیل ہیں۔٭رضاکار غریبوں کی مدد کریں گے۔٭رضاکار ایسی ایکٹویٹیز کا انتخاب کریں جن میں مرد و عورت میں تفاوت کم سے کم ہو۔٭رضا کار مختلف بیماریوں مثلاً ایڈز، کروناء، ملیریا اور ڈینگی کی معلومات کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔
اس سلسلے میں ایک لمبے عرصے کے بعد نیشنل کونسل آف سوشل ویلفیئر کے ذریعے بہت زیادہ رضاکاروں نے خود کو رجسٹرڈ کروایا ہے اور عالمی سطح پر بھی پاکستان میں (2005ء کے زلزلے اور 2010ء کے سیلاب میں )جو خدمات رضاکارانہ طور پر انجام دی گئیں ان کو بہت زیادہ سراہا گیا ہے۔اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان ان پچاس ممالک کی فہرست میں شامل ہو چکا ہے جن کے پاس دنیا میں سب سے زیادہ رضاکار موجود ہیں۔
اللہ پاک ہمارے نوجوانوں اور رضاکاروں کو ہمت اور حوصلہ عطا کرے تاکہ وہ اسی طرح پاکستان کی خدمت کرتے رہیں
خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو