ہم ایسے کیوں ہیں؟
میں گھر بیٹھا ہوا تھا ، اور اپنے موبائیل پر مہدی حسن کی غزلیں سُن رہا تھا ، اور حیران ہو رہا تھا ، کہ یہ کتنا بڑا گائیک، کتنی گہری کلاسیکل موسیقی کی سمجھ بوجھ اور ہر راگ، راگنی پر عبوررکھنے والا انسان ہے۔ اِن سے بڑا گائیک آج تک میں نے اپنی زندگی میں نہیں سُنا۔ یہ تمام باتیں میرے ذہن میں چل رہی تھیں جب میں خاں صاحب کی غزلیں سُن رہا تھا۔ اِنھی غزلوں میں ایک غزل احمد فراز کی بھی آگئی ، جس کے بول تھے ،
شعلہ تھا جل بُجھا ہوں
ہوائیں مجھے نہ دو
میں کب کا جا چکا ہوں
صدائیں مجھے نہ دو
میں مہدی حسن کی گائیکی کے جادو میں کھویا ہوا تھا کہ اچانک میرے مو بائل پر عامر قریشی کی کال آئی ، جو میرے آفس میں کام کرتا ہے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی ، مجھے عامر کی کال سُننا پڑی ۔ اُس نے بتایا کہ فاروق فوت ہوگیا ہے، میں نے انا للہ و اناعلیہ راجعون پڑھا ، اور ایک دم سے چونک کر کہا نہیں کر یار یہ کیسے ہوا ، ارے وہ تو ٹھیک تھا ۔ عامر نے کہا جانا تو سب نے ہے ، اِس میں ٹھیک یا نہ ٹھیک ہونے والی کون سی بات ہے ۔
میں مسلسل حیرت میں تھا کیونکہ آج صبح ہی تو فاروق سے میری ملاقات ہوئی تھی۔ فاروق کی کوشش یہ تھی کہ کسی طرح اس کے بیٹے کو اسی آفس میں ملازمت مل جائے جہاں وہ ملازمت کرتا ہے۔ میں نے اُس کو ہنستے ہوئے کہا تھا، فاروق اپنے ادارے میں اپنے بیٹے کو اگر تم ملازم رکھوانا چاہتے ہو تو اُس کا ایک ہی طریقہ ہے ، اور وہ یہ کہ تمھیں مرنا پڑے گا۔ کیونکہ ہمارے ادارے کی یہی پالیسی ہے کہ اگر ادارے کا کوئی ملازم اپنی سروس کے دوران انتقال کر جائے تو فوری طور پر اُس کے لواحقین میں سے بیٹا یا بیٹی کو فوری طور پر ملازم رکھ لیا جاتا ہے۔ میں اِس لمحہ اپنے اندر ایک عجیب سا احساس جرم محسوس کر رہا تھا کہ میں نے آج ایسی بات فاروق کے ساتھ کیوں کی۔ بڑے کہا کرتے ہیں کہ ہمیشہ منہ سے خیر کی بات کہا کرو ، کوئی پتا نہیں کہ کس وقت قبولیت کی گھڑی ہو۔
عامر نے مجھ سے پوچھااُس کے جنازے میں جائے گا ، میں نے کہا کب ہے ، اُس نے کہا صبح گیارہ بجے اُس کے گائوں میں ہے۔ میں بنیادی طور پر شادیوں اور جنازوں میں جانے سے کتراتا ہوں مگر میں نے عامر سے کہا کہ میں ضرورجائوں گا ۔ ہم نے اپنے آفس کے ٹرانسپورٹ سیکشن سے گاڑی Approvedکروائی ، تاکہ ہم اہل سیکشن فاورق کے جنازے میں شریک ہوسکیں۔ جب ہم اُس کے گائوں پہنچے تو وہاں پر تقریباً جنازہ اُٹھایا جانے کا وقت ہوچکا تھا ، جنازے میںشریک ہر شخص ایک ہی بات کر رہا تھا کہ فاروق بہت اچھا انسان تھا ، بہت محنتی تھا ، کبھی کسی کے ساتھ اُس نے کوئی بد تمیزی نہیں کی کوئی لڑائی جھگڑا نہیں کیا ۔ اچانک میرے ذہن میں ایک خیال آیا کہ ہم کیسے لوگ ہیں کہ جب انسان موت کی وادی میں گم ہوجاتا ہے ، تو ہمیں اُس انسان میں اچھائیاں نظر آنے لگ پڑتی ہیں، اور ہم اُسے اچھے الفاظ میں یاد کرنا شروع کر دیتے ہیں ، مگر جب تک وہ انسان زندہ ہوتا ہے وہ ہمارے لئے قابل ِ برداشت نہیں ہوتا۔ ہمیں اُس میں عیب ہی عیب اور بُرائیاں ہی بُرائیاں نظر آتی ہیں۔ ا نسان جب تک زندہ ہوتا ہے وہ ہمارے لئے مسلسل جھگڑوں اور لڑائیوں کا باعث بنا رہتاہے۔جو نہی وہ اِس دنیاسے رخصت ہوتا ہے تو ہم اُس کے بارے میں تعریفی کلمات ادا کر نا شروع کر دیتے ہیں۔ جب تک اُسے قبر میں اُتار کر اُس پر پتھر کی سیلیں رکھ کر اور منو ں مٹی ڈال کر اُس کیلئے دُعائے مغفرت پڑھ کر اپنے گھروں میں واپس نہیں آجاتے ہیں یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ پھر چند دن تک اُس کے بارے میں بڑے غمگین اور دُکھی رہتے ہیں ، میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ آخر ہم ایسے کیوں ہیں ؟