اہم تاریخی پس منظر کی حامل جامعہ الازہر

اہم تاریخی پس منظر کی حامل جامعہ الازہر

اسپیشل فیچر

تحریر : عبدالوحید


مصر کی الازہر یونیورسٹی اپنے علمی و ادبی معیار کی بدولت عالم اسلام بلکہ پوری دنیا میں شہرت رکھتی ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس یونیورسٹی کی بنیاد ایک مسجد پر رکھی گئی ہے۔ جب سسلی کی فوجوں کے کمانڈر نے خلیفہ المعاذ کے حکم پر مصر کو فتح کیا تو اس نے 969ء میں قاہرہ کی بنیاد رکھی جس میں الازہرمسجد تعمیر کی گئی۔
مسجد کی تعمیر میں دو سال کا عرصہ لگا۔ اس مسجد میں پہلی نماز 7رمضان المبارک 971ء کو پڑھائی گئی۔ اس مسجد کو بعد میں یونیورسٹی میں تبدیل کر دیا گیا جو بعد ازاں جامعہ الازہر کے نام سے مشہور ہوئی۔ جامعہ الازہر اس وقت عالم اسلام کی سب سے قدیم یونیورسٹی ہے۔ تاریخ دان اس کا نام الازہر رکھے جانے میں اختلاف کرتے ہیں۔کچھ تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ اس کا نام الازہر اس لئے رکھا گیا کیونکہ جس وقت اس شہر کی بنیاد رکھی گئی اس جگہ پر خوبصورت مکانات بنے ہوئے تھے جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ اس کا نام حضرت فاطمۃ الزہرہؓکے خاندان کی مناسبت سے رکھا گیا۔مسجد کی تعمیر کے ساڑھے تین سال بعد یہاں مختلف علوم کی باقاعدہ کلاسز شروع کی گئیں۔ خلیفہ المعاذ کے ہی دور میں975ء میں امام ابو حنیفہؒ کے بیٹے قاضی القضاہ ابو الحسن علی النعمان الخیروائیؒ نے اپنے والد کی لکھی گئی کتاب ''الاختصار‘‘ پڑھی جس سے سیکڑوں لوگوں نے استفادہ کیا۔ ابوالحسن پہلے شخص تھے جنہیں چیف جسٹس (قاضی القضاہ) کے لقب سے نوازا گیا۔
جامع الازہر میں ہونے والے سیمینار مذہبی موضوعات پر ہوتے تھے۔ تاہم ان پر سیاسی رنگ نمایاں نظر آتا تھا۔ خلیفہ العزیز باللہ کے دور حکومت میں جامعہ الازہر میں تعلیمی اصلاحات کی گئیں۔ اسی دور میں خلیفہ العزیز باللہ کے وزیر یعقوب ابن کلیس نے جامعہ الازہر میں شیعہ قانون کے متعلق اپنی کتاب ''الرسالہ العزیزیہ‘‘ پڑھ کر سنائی۔ یعقوب ابن کلیس نے جامعہ میں تعلیم کے معیار کو بلند کرنے کیلئے 30قانون دانوں کو نوکری دی۔
جامعہ میں خواتین کی اخلاقی تربیت کیلئے بھی سیمینارکا اہتمام کیا گیا۔ جامعہ کو دو سو سال تک عدالتی کارروائیوں اور ٹیکسوں کے نظام کی بہتری کیلئے استعمال کیا جاتا رہا اور اس سلسلے میں جامعہ سے ہر قسم کی رہنمائی حاصل کی جاتی رہی۔ بغداد اور اندلس میں اسلامک کلچر مراکز کی تباہی تک جامعہ کو اسلامی دنیا کے تعلیمی اداروں میں سب سے زیادہ اہمیت حاصل رہی۔ جامعہ میں ہونے والے سیمینار پہلے دن سے ہی خالصتاً تعلیمی و ادبی نوعیت کے تھے۔ ان سیمینار میں شرکت بالکل مفت تھی اور بعض افراد کو وظائف بھی دیئے جاتے۔ تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کیلئے جامعہ کے باقاعدہ اساتذہ کے علاوہ مختلف علوم کے ماہرین کو بھی لیکچر دینے کیلئے مدعو کیا جاتا۔ سیاحتی اساتذہ کے ذریعے تعلیم دینے کا یہ نظام اتنا کامیاب ہوا کہ بعد میںمشرق و مغرب کے دیگر تعلیمی اداروں نے اپنا لیا۔
648ھ مملوکوں کے دور اقتدار میں جامعہ الازہر نے بہت ترقی کی۔ انہوں نے جامعہ کی بہتری کیلئے بہت سے اقدامات کئے۔ وسط ایشیا پر مغلوں کے حملے اور اندلس میں مسلمانوں کے زوال کے بعد عالموں اور دانشوروں کیلئے زمین تنگ پڑ گئی۔ اس دوران زیادہ تر دانشوروں نے جامعہ الازہر میں پناہ لی۔ ان علماء کے آنے سے جامعہ نے بہت زیادہ ترقی کی۔8ویں اور 9ویں صدی ہجری میں جامعہ اپنے علمی معیار کی وجہ سے عروج پر تھی۔ جامعہ نے سائنسی علوم کی ترقی میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ جامعہ کے کچھ دانشوروں اور اساتذہ نے علم الادویات، ریاضی، فلکیات، جغرافیہ اور تاریخ کی ترقی کیلئے بہت محنت کی۔
جامعہ مصر میں سیاسی انتشار کے باوجود علمی و ادبی خدمات سرانجام دیتی رہی۔ سلطنت عثمانیہ کے دور میں جامعہ الازہر کو ملنے والے عطیات کی وجہ سے جامعہ خود مختار ادارے کی حیثیت اختیار کر چکی تھی۔ علماء کو نئے نئے موضوعات پر تحقیق کرنے کے بھرپور مواقع میسر آئے۔ اس طرح جامعہ اسلامی اور عربی علم کا مرکز بن گئی۔ عثمانی حکمرانوں نے کبھی جامعہ کے معاملات میں مداخلت نہ کی اور نہ ہی جامعہ کے بڑے عہدے ''امام‘‘ پر اپنی مرضی کے آدمی لانے کی کوشش کی۔ اس بڑے عہدے کو مصریوں کیلئے مخصوص کر دیا گیا تاکہ کوئی باہر کا آدمی جامعہ پر اپنا حق نہ جتا سکے۔
جولائی 1789ء میں جب نپولین بونا پارٹ نے مصر پر حملہ کیا تو وہ جامعہ کے تعلیمی معیار اور نظم و نسق سے بہت متاثر ہوا۔ نپولین نے اپنی ذاتی ڈائری میں جامعہ الازہر کے تعلیمی معیار کو پیرس کی سوربون یونیورسٹی کے معیار کے برابر قرار دیا اور وہاں کے اساتذہ اور طالب علموں کو عوام اور ملک کیلئے عظیم سرمایہ قرار دیا۔ نپولین نے مصر پر قبضہ کے دوران قاہرہ میں ''دیوان‘‘ کے نام سے ایک مشاورتی کونسل بنائی جو حکومتی معاملات میں مشورے دیتی تھی۔ اس کونسل میں 9علماء شامل تھے جس کے چیئرمین شیخ عبداللہ الشرکاوی تھے جو الازہر یونیورسٹی کے بڑے امام تھے۔ دیگر9علماء بھی جامعہ میں تدریس کے فرائض سرانجام دیتے تھے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ نپولین کی نظر میں الازہر یونیورسٹی کے علماء کی کیا وقعت تھی۔
جب انقلاب فرانس برپا ہوا تو اسی جامعہ میں فرانسیسیوں اور انقلابیوں کے درمیان مذاکرات ہوئے۔ اس کمیٹی کی صدارت شیخ محمد السادات نے کی۔ مذاکرات کی ناکامی پر انقلاب میں شدت آ گئی جس کے نتیجہ میں بڑے امام اور دیگر علماء نے فیصلہ کیا کہ جامعہ کو نقصان سے بچانے کیلئے اسے بند کر دیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ چنانچہ تاریخ میں پہلی مرتبہ اتنے طویل عرصہ کیلئے جامعہ بند کی گئی۔ تقریباً تین سال تک جامعہ میں کسی قسم کی تعلیمی سرگرمیاں نہیں ہوئیں۔ فرانسیسیوں کے جانے کے بعد حسب معمول تعلیم کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
1805ء میں مصر میں محمد علی پاشا کی حکومت قائم ہوئی تو اس نے مصر کو جدید ریاست بنانے کا ارادہ کیا۔ اپنے مقاصد کے حصول کیلئے اسے جامعہ الازہر پر انحصار کرنا پڑا۔ اس نے جامعہ کے طلباء کو وظائف پر پڑھنے کیلئے یورپی ممالک میں بھیجا ۔ ان طلباء نے جدید تعلیم حاصل کی اور واپس آکر ملکی ترقی میں بھرپور کردار ادا کیا۔ ان طلباء میں سعدزغلول پاشا (وزیراعظم) محمد عبدو وغیرہ نمایاں ہیں۔ جامعہ الازہر پر ایک دور ایسا بھی آیا جب مسلمان اور عیسائی علماء مل کر لوگوں سے خطاب کیا کرتے تھے۔
19ویں صدی کے آخری نصف میں مصر میں اسلامی تحریک شروع ہوئی جس نے جامعہ کو کافی متاثر کیا۔1872ء میں جامعہ نے ایک قانون منظور کیا جس کے تحت ڈگریاں جاری کی جانے لگیں۔1930ء میں دوسرا قانون پاس کیا گیا جس میں الازہر یونیورسٹی کے مختلف کالجوں اور فیکلیٹیز میں پڑھائے جانے والے مضامین کو دوبارہ منظم کیا گیا۔ جامعہ الازہر میں دنیا بھر کے مسلم ممالک سے طلباء داخلہ لے سکتے ہیں۔
عبدالوحید متعدد کتابوں کے مصنف ہیں ۔تحقیقی مضامین لکھنے پر گرفت
رکھتے ہیں،ان کی تحریریں مختلف اخبارات میں شائع ہو چکی ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
یادرفتگاں: ماسٹر منظور لازوال دھنوں کے تخلیق کار

یادرفتگاں: ماسٹر منظور لازوال دھنوں کے تخلیق کار

ماسٹر منظور حسین کا شمار بھی پاکستان فلم انڈسٹری کے مایہ ناز موسیقاروں میں ہوتا ہے جو 24 دسمبر 2012ء کو وفات پاگئے تھے اور آج ان کی برسی ہے۔ لازوال دھنوں کے تخلیق کار ماسٹر منظور 25دسمبر 1930ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ اتفاق دیکھیے کہ 25دسمبر کو ہی عین 82برس بعد انہیں لحد میں اتارا گیا۔ ماسٹر منظور نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم اپنے والد فضل حسین سے حاصل کی۔ بعدازاں انہوں نے طبلے کی بھی باقاعدہ تعلیم میاں کریم اور میاں عاشق گلی وال سے حاصل کی ان کا ننھیال طبلے میں بہت بڑا استاد گھرانہ تھا۔ بعدازاں انہوں نے عہد ساز گویے امید علی خاں جنہیں بڑے غلام علی خاں کا ہم پلہ قرار دیا جاتا ہے سے کسب ِفیض حاصل کیا۔ ماسٹر منظور کو 1959ء میں ریلیز ہونے والی فلم ''سویرا‘‘ نے شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ جس کے تمام گانے بہت مشہور ہوئے۔ مگر ایس بی جون کا گایا ہوا گانا ''تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے‘‘ آج زبان زدِ خاص وعام ہے۔ اس فلم کے گیت نامور نغمہ نگار فیاض ہاشمی نے لکھے تھے۔ ماسٹر منظور نے پانچ فلموں کیلئے موسیقی ترتیب دی جن میں ''سویرا ،پیار کی صدا، جگنواور زندگی کے میلے‘‘ شامل ہیں۔ فلم انڈسٹری میں زیادہ کام نہ کرنے کی وجہ وہ یہ بتاتے تھے کہ ''میں ناسمجھ سرمایہ داروں کی بات نہیں مانتا تھا‘‘ اور کچھ فلم والوں نے بھی مجھے مہنگا تصور کرلیا۔ ماسٹر صاحب مشکل طبیعت کے آدمی تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ حالات ہمیشہ انسان کو کمزور کرتے ہیں، اس لیے میں کبھی حالات کا محتاج نہیں ہوا۔ ماسٹر صاحب سامنے بات کرنے کی جرات رکھتے تھے۔جس کا انہیں خمیازہ کم کام ملنے کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ مگر وہ اپنے اس رویے سے نہایت مطمئن تھے۔اس حوالے سے ان کے کئی واقعات بھی مشہور ہیں۔ایک واقعہ نورجہاں کے حوالے سے بھی ہے۔ دراصل وہ سمجھتے تھے کہ نورجہاں جب بے بی نورجہاں تھیں ،انہوں نے بہت اچھا گایا بعدمیں ان کے سر کا گراف گرچکا تھا۔ماسٹر منظور نے اپنے وقت کے تقریباً تمام نامور گلوکاروں کیلئے دھنیں ترتیب دیں۔ جن میں منیر حسین ، زبیدہ خانم، فدا حسین، رونا لیلیٰ، اخلاق احمد، فریدہ خانم ، اقبال بانو، غلام عباس، آئرن پروین، شاہدہ پروین، ناہید نیازی شامل ہیں۔ جن گلوکاروں سے انہوں نے گانے نہیں گوائے ان میں نورجہاں بھی شامل تھیں۔ ماسٹر صاحب کی دھنیں بظاہر بہت سادہ اور سیدھی ہوتی ہیں مگر موسیقی کو سمجھنے والے جانتے ہیں کہ انہیں گانا اتنا آسان نہیں ہوتا تھا جتنا سننے میں محسوس ہوتا ہے۔ پی ٹی وی کے لیے 1973ء میں پروڈیوسر اختر وقار عظیم نے ماسٹر صاحب سے اطہر نفیس کی ایک غزل ''وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا‘‘ کی دھن بنوائی جب فریدہ خانم گانے کے لیے آئیں انہوں نے وہ دھن سنی تو انہیںشاعری اور دھن پسند نہ آئی اور کہاکہ یہ میرے مزاج کے مطابق نہیں۔ ادھر ماسٹر منظوربھی اپنی دھن کے پکے تھے لہٰذا فریدہ خانم کو پروڈیوسر نے کہا کہ کہ ایک دفعہ ریکارڈ کرکے سنتے ہیں نہ اچھی لگی تو دوبارہ کچھ اور کرلیں گے۔ یوں یہ غزل ریکارڈ ہوگئی اور بعدازاں اس غزل کا شمار ان غزلوں میں ہوا جو فریدہ خانم کی پہچان بنیں۔ 1982ء میں پی ٹی وی نے ملی نغموں کا مقابلہ منعقد کروایا۔ ملک بھر سے ہزاروں ملی نغمے موصول ہوئے ہر سٹیشن کو پانچ پانچ نغمے پروڈیوس کرنے کے لیے ملے۔ ماسٹر منظور کو بھی موسیقی ترتیب دینے کے لیے ایک نغمہ دیا گیا تو انہوں نے اس وقت کے کسی بڑے گلوکار کی بجائے غلام عباس سے وہ نغمہ کرایا۔ وہ نغمہ 25نغموں میں سے اوّل آیا۔ گلوکار غلام عباس راوی ہیں کہ صرف اس نغمے پر انہیں29ایوارڈ ملے۔ اس ملی نغمے کے بو ل ہیں ''اے پاک وطن اے پاک زمیں تیرے دن موتی تیری رات نگیں‘‘۔ شہنشاہ نواب اس گیت کے پروڈیوسر تھے اور پاکستان میں غالباً یہ پہلا گیت تھا جس کی ویڈیو بنی۔ ماسٹر منظور کے ایک بھائی الطاف حسین بھی بہت اعلیٰ موسیقار تھے ان کی ترتیب دی ہوئی دو غزلیں میں نے روکا بھی نہیں اور وہ ٹھہرا بھی نہیں، دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی‘‘ بہت مشہور ہیں۔ ماسٹر منظور موسیقار اعظم نوشاد کو اپنا استاد مانتے تھے اور کہتے تھے کہ میں نے انہی کی طرح موسیقی دینے کی کوشش کی ہے۔ وہ نوشاد صاحب سے کبھی ملے نہیں مگر نوشاد سے ٹیلی فون اور خط و کتابت کے ذریعے رابطہ تھا۔ ماسٹر منظور محمد رفیع کی گائیکی کو بہت پسند کرتے تھے اور انہیں لاثانی گلوکار تسلیم کرتے تھے۔ پاکستان میں خواجہ خورشید انور اور ماسٹر عنایت کو ہرحوالے سے مضبوط کام کرنے والا مانتے تھے۔ بچپن میں نذر محمد کے ساتھ منٹو پارک میں کرکٹ کھیلنے، رستم زماں ، بھولو اور گونگے پہلوان کی کشتیاں دیکھنے والے ماسٹر منظور کو آخری عمرتک کرکٹ سے بھی دلچسپی رہی۔ وہ موسیقی کے مستقبل کے حوالے سے مایوس نہیں تھے اور سمجھتے تھے کہ لائق لوگ آئیں گے اور اپنا راستہ بنائیں گے۔ دنیا اسی طرح آگے بڑھتی ہے۔ حکومت پاکستان نے 2009ء میں انہیں ''تمغہ برائے حسن کارکردگی‘‘ سے نوازا۔ 

مسجد بھونگ منفرد طرز تعمیر اور جاذب نظر خطاطی

مسجد بھونگ منفرد طرز تعمیر اور جاذب نظر خطاطی

بھونگ مسجد ضلع رحیم یار خان کی تحصیل صادق آباد میں واقع ایک گاؤں بھونگ میں موجود ہے۔ یہ مسجد بہاولپور سے دو سو کلومیٹر اور رحیم یارخان سے تقریبا پچاس کلومیٹر دور واقع ہے۔ اپنے عمدہ ڈیزائن، منفرد طرز تعمیر اور جاذب نظر خطاطی کی وجہ سے اس مسجد کو خاص شہرت حاصل ہے۔ سردار رئیس غازی محمد کے جد امجد حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی کے خلفاء میں سے تھے۔ رئیس محمد غازی اعزازی مجسٹریٹ اور بہاولپور اسمبلی کے رکن بھی رہے۔ جاہ و حشمت اور کثیر مال و دولت ہونے کے باوجود انھوں نے درویشانہ زندگی گزاری۔ دینی تعلیم کا حصول، عبادت و ریاضت، سماجی کاموں اور مختلف علاقوں میں مساجد کی تعمیر ان کی زندگی کا مشن رہا۔ رئیس غازی محمد نے اپنے خاندانی محل نما گھر کے قریب 1932ء میں بھونگ مسجد کی تعمیر کیلئے ہدایات دیں اور کثیر سرمایہ فراہم کیا۔ تعمیر کے ایک ایک مرحلے پر انھوں نے ذاتی دلچسپی لی۔ مسجد کی تعمیر کی نگرانی کے لیے کیلئے انہوں نے ماسٹر عبدالحمید کو مقرر کیا جنھوں نے نہایت محنت اور توجہ سے مسجد کی تعمیر کی نگرانی کی۔ مسجد کی تعمیر کیلئے ہنگری، اٹلی اور دیگر ممالک سے سنگ سرخ، سنگ مرمر، سنگ خارا، سنگ سرمئی اور سنگ سیاہ منگوائے گئے۔ ان پتھروں کو کاٹنے اور تراشنے والے، ٹائلوں پر پھول بنانے والے، مینا کاری و خطاطی کرنے والے ، صندل کی لکڑی پر باریک اور نفیس کام کرنے والے گل کاری کرنے والے، سونے کے پھول بنانے والے سیکڑوں کاریگروں کی خدمات حاصل کی گئیں۔ یہ مسجد 1932ء سے 1982ء تک تقریباً پچاس سال میں مکمل ہوئی۔ ان پچاس سالوں میں ہزاروں کاریگروں نے مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا جن کا تعلق پاکستان اور بھارت سے تھا۔ مسجد کی تعمیر کے دوران کئی کاریگر عمر رسیدہ ہو گئے، کئی انتقال کر گئے۔ ان کے بیٹوں اور بعض کے پوتوں نے یہ ذمے داری ادا کی اور اس مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا۔تمام کاریگروں کو ان کی مہارت اور تجربے کی بنیاد پر اجرت دی جاتی تھی۔ ماہر کاریگروں کا ہر طرح سے خیال رکھا جاتا، بلکہ ان کے بچوں کی شادیوں کے اخراجات رئیس غازی محمد ادا کرتے تھے۔ مسجد کی تعمیر میں مصروف کاریگروں کے قیام و طعام کا انتظام بھونگ میں ہی کیا گیا تھا۔ بہت سی مراعات بھی ان کاریگروں کو حاصل تھیں۔ تب صادق آباد سے بھونگ تک آنے جانے کے مناسب راستے موجود نہ تھے۔ نہ پختہ سڑک تھی۔ لہٰذا بھاری مشینری اور تعمیراتی سامان صادق آباد ریلوے اسٹیشن سے بھونگ تک تقریباً بیس کوس بیل گاڑیوں اور اونٹوں پر لاد کر لایا جاتا تھا۔مسجد کی تعمیر کے لیے کوئی باقاعدہ نقشہ نہیں بنایا گیا تھا۔ ایک خاکہ رئیس غازی محمد کے ذہن میں تھا، جس کے مطابق تعمیر کا آغاز کیا گیا۔ رئیس غازی محمد مختلف ممالک میں جاتے ، وہاں کی مساجد دیکھتے اور جو چیز پسند آجاتی اس کے مطابق مسجد کی تعمیر میں تبدیلی کرواتے رہتے۔ اس طرح مسجد کے ڈیزائن میں کئی بار تبدیلی کی گئی۔ کئی حصوں کو دوبارہ، بلکہ سہ بارہ بھی نئے سرے سے تعمیر کیا گیا۔ 1950ء میں ایک نئے مسئلے کی نشاندہی ہوئی کہ سیم کی وجہ سے مسجد کی عمارت کو نقصان پہنچنے کا خطرہ تھا۔ اس خطرے کے پیش نظر تب تک بننے والی تمام عمارت کو گرا دیا گیا اور بیس فٹ بلند ایک چبوترا بنا کر اْس پر نئے سرے سے مسجد کی عمارت تعمیر کی گئی۔ اس سے مسجد کی پائیداری کے ساتھ خوبصورتی اور جلال و عظمت میں بھی اضافہ ہوگیا۔ مسجد کی تعمیر کے دوران ہی 1957 میں رئیس غازی محمد کا انتقال ہو گیا۔ اْن کی وفات کے بعد ان کے بڑے بیٹے رئیس شبیر محمد نے مسجد کے کام کو آگے بڑھایا جو خود بھی درویش صفت انسان تھے۔1982ء میں مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی تو اسے بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی۔ دنیا بھر سے سیاح اس مسجد کو دیکھنے آنے لگے۔ اس کی خوبصورتی اور انفرادیت کی وجہ سے 1984ء میں اسے تعمیرات کے شعبے میں آغا خان ایوارڈ بھی دیا گیا۔12مئی 2004ء کو پاکستان کے محکمہ ڈاک نے اس مسجد کی تصویر والا ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا۔ بھونگ مسجد میں ایک وسیع دار المطالعہ، مدرسہ اور وہ حجرہ بھی موجود ہے، جہاں رئیس غازی محمد عبادت کیا کرتے تھے۔ مسجد میں داخل ہونے والا مرکزی دروازہ مشہد میں حضرت امام رضاؒ کے مزار کے صدر دروازے جیسا ہے۔ اندر کئی ایکٹر پر مشتمل فواروں سے مزین وسیع لان ہے۔ راہداری سے گزر کر سیڑھیاں چڑھنے کے بعد مسجد کا صحن ہے، جو سنگ مرمر اور سنگ سیاہ سے آراستہ ہے۔ یہاں بیک وقت دو ہزار نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ ایک بڑے گنبد کے نیچے خواتین کے لیے نماز پڑھنے کی جگہ مخصوص ہے، جو خواتین کی جمعہ مسجد کہلاتی ہے۔مسجد کے تمام دروازے ہاتھی دانت کے نفیس اور باریک کام سے مزین ہیں۔ مسجد کے برآمدے میں تقریباً پانچ سو نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ یہ برآمدہ اٹھارہ ستونوں پر مشتمل ہے۔ ہر ستون ایک ہی جیسے قدرتی رنگ پر مشتمل آٹھ فٹ بلند ہے۔ مرکزی محراب کی تزئین و آرائش میں خالص سونا چاندی اور قیمتی پتھر استعمال کیا گیا ہے۔ صندل کی لکڑی کا نہایت نفیس اور دیدہ زیب کام کیا گیا ہے۔ دل کش نقش و نگار ، خوب صورت گل کاری اور منفرد ڈیزائن والی یہ مسجد سیاحوں کو حیرت زدہ کر دیتی ہے ۔مسجد کی خصوصیات٭...مسجد کی تعمیر تقریباً50 سال میں مکمل ہوئی۔دیگر کاریگروں کے بیٹوں اوراس کے بعد اس کے پوتوں نے حصہ لیا۔مسجد کی تعمیر کیلئے باقاعدہ نقشہ نہیں بنایا گیاتھا۔٭... سنگ سرخ، سنگ مرمر، سنگ خارا، سنگ سرمئی اور سنگ سیاہ ہنگری، اٹلی اور دیگر ممالک سے منگوائے گئے۔٭...مرکزی محراب کی تزئین و آرائش میں خالص سونا چاندی اور قیمتی پتھر استعمال کیا گیا ہے٭...مرکزی دروازہ مشہد میں حضرت امام رضاؒ کے مزار کے صدر دروازے جیسا ہے٭...مسجد کے تمام دروازے ہاتھی دانت کے نفیس اور باریک کام سے مزین ہیں۔٭...984ء میں اسے تعمیرات کے شعبے میں آغا خان ایوارڈ دیا گیا۔٭...2004ء کو پاکستان کے محکمہ ڈاک نے اس مسجد کی تصویر والا ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔ 

آج کا دن

آج کا دن

افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کا آغاز 24 دسمبر 1979ء کو افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کا آغاز ہوا۔اس لڑائی میں ایک طرف تو افغان فوج کے نام پر روسی فوج لڑ رہی تھی تو دوسری طرف ساری دنیا کے مجاہدین روس کے خلاف بر سر پیکار تھے۔ پاکستان نے کھل کر مجاہدین کی تربیت اور ہر طرح سے معاونت کی۔ مجاہدین کی 10 سالہ مزاحمت کے نتیجے میں سوویت فوجی آخر کار 1989 میں افغانستان سے انخلاء پر مجبور ہو گئے۔برطانیہ میں پہلی کار نمبر پلیٹ1903ء کو برطانیہ میں ایک ایکٹ پاس کیا گیا جس میں موٹر گاڑیوں کی رجسٹریشن کو لازمی اور قانون کا حصہ قراردیا گیا۔یہ قانون یکم جنوری1904ء کو نافذ کیا گیا لیکن پہلی نمبر پلیٹ24دسمبر1903ء میں ارل رسل نامی شخص کو جاری کی گئی۔اس کو جاری کردہ نمبر پلیٹ پر صرف''A1‘‘لکھا ہواتھا۔یہ برطانیہ میں کسی بھی موٹر گاڑی کو جاری ہونے والی پہلی نمبر پلیٹ تھی۔ ارل رسل نے لنڈن کاؤنٹی کونسل کے باہر رات بھر انتظار کیا تاکہ صبح دفتر کھلتے ہیں وہ برطانیہ کی سب سے پہلی نمبر پلیٹ حاصل کر سکے۔کرسمن قتل عامیوگنڈا میں ''کرسمن قتل عام‘‘ کا آغاز24دسمبر 2008ء کو ہوا۔یوگنڈا کے ایک باغی گروپ ''لارڈز ریزسٹنس آرمی‘‘(LRA) نے ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو کے ضلع ہاٹ ایلی کے متعدد دیہاتوں پر ایک ساتھ حملہ کر دیا۔یہ قتل عام دنیا کی تاریخ میں دہشت گردی کی پانچویں مہلک ترین کارروائی تھی۔تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق اس قتل عام میں تقریباً150کو قتل جبکہ 30ہزار سے زائد افراد کو ان کے رہائشی علاقے چھوڑنے پر مجبور کر دیاگیا۔اس کارروائی کے دوران160بچوں اور20نوجوانوں کو اغوا بھی کیاگیا۔''اپالو 8‘‘کی کامیاب پرواز''اپالو 8‘‘ انسانوں کے ساتھ زمین کے نچلے مدار کو چھوڑنے والا پہلا خلائی جہاز تھا جو چاند کے مدار میں داخل ہوا۔ 24دسمبر1968ء کوعملے نے بغیر لینڈنگ کے دس مرتبہ چاند کا چکر لگایا اور پھر بحفاظت واپس زمین پر لوٹ آیا۔اس جہاز میں تین خلاباز فرینک بورمین، جیمز لوول، اور ولیم اینڈرسن سوار تھے۔یہ پہلے انسان تھے جنہوں نے ذاتی طور پر چاند کا اور زمین کا خلا سے مشاہدہ اور تصویر کشی کی۔گھینٹ معاہدہگھینٹ(Ghent) معاہدہ ایک امن معاہدہ تھاجس نے امریکہ اور برطانیہ کے درمیان 1812ء کی جنگ کا خاتمہ کیا۔ اس معاہدے کا اطلاق فروری1815ء میں ہوا اور دونوں فریقین نے24دسمبر1814ء میں یونائیٹڈ یندر لینڈز (اب بیلجئیم)کے شہر گھینٹ میں اس پر دستخط کئے۔ اس معاہدے نے جون 1812ء کی جنگ سے پہلے کی سرحدوں کی بحال کر کے دونوں فریقین کے درمیان تعلقات کے پہلے کی حالت میں بحال کر دیا۔اس معاہدے کو برطانوی پارلیمنٹ نے منظور کیا اور 30دسمبر1814ء کو پرنس ریجمنٹ نے اس پر دستخط کئے۔  

ماحول دوست بجلی پیدا کرنے والے مثالی ممالک

ماحول دوست بجلی پیدا کرنے والے مثالی ممالک

دور حاضر میں تیزی سے بڑھتی فضائی آلودگی دنیا بھر کی اقوام کیلئے ایک چیلنج بن چکا ہے۔ ماہرین بیشتر بیماریوں کا ذمہ دار جن میں معمول کی موسمی بیماریوں کے علاوہ پھیپھڑوں اور چھاتی کا کینسر ، نمونیا ، امراض قلب اور فالج سمیت دیگر متعدد بیماریاں شامل ہیں، فضائی آلودگی کو قرار دیتے ہیں۔ اس حقیقت سے اب انکار ممکن نہیں کہ آلودگی کا بڑا سبب فضا میں گرین ہاوس گیسوں کا بے جا اخراج ہے اور ان گیسوں کے اخراج کی سب سے بڑی وجہ فوسل فیول کا اندھا دھند استعمال ہے۔ اگرچہ دنیا بھر میں بڑی تیزی سے ماحول دوست توانائی کے استعمال کی حقیقت کو تسلیم کیا جانے لگا ہے ، تاہم اب بھی دنیا کے تین چوتھائی سے زیادہ ممالک روایتی ایندھن کے استعمال کو چھوڑنے پر تیار نظر نہیں آتے۔ آج ہم دنیا کے جن تین ممالک کا ذکر کرنے جارہے ہیں وہ پانی، ہوا اور سورج کی روشنی سے بجلی بنا کر نہ صرف خود کفیل ہو چکے ہیں بلکہ زائد بجلی فروخت کر کے زرمبادلہ بھی کما رہے ہیں۔ کوڑا کرکٹ سے بجلی پیدا کرنے والا منفرد ملک یونان کے جنوب مشرقی سمندر ایگین میں واقع بیشتر دوسرے جزائر کی طرح ''تیلاس‘‘ کا جزیرہ بھی ان دور افتادہ جزائر میں شامل ہے جن کے زیادہ تر ساحلی علاقے ویران پڑے ہیں۔ شواہد کے مطابق اس جزیرے پر گزشتہ 500سالوں سے آبادی کے آثار ملتے ہیں۔ تیلاس کے اردگرد 200 کے لگ بھگ چھوٹے چھوٹے جزیرے ایسے بھی ہیں جہاں پر آبادی موجود ہے۔ تیلاس تک پہنچنے کا واحد ذریعہ سمندری راستہ ہے۔ اس دور دراز علاقے تک پہنچنے کیلئے یونان سے 15 گھنٹوں کی مسافت طے کرنا پڑتی ہے۔ اس دوردراز علاقے کو سال کے بیشتر حصے میں متعدد مسائل سے بھی نمٹنا پڑتا ہے جس میں سرفہرست سردیوں میں پانی اور بجلی کی پیداوار میں کمی ہے۔ جس کا حل انہوں نے کوڑا کرکٹ سے بجلی پیدا کر کے نکالا ہے کیونکہ یہاں ہر سال اوسطاً تیس ہزار اور پڑوسی جزیرے رہوڈیس میں 20 لاکھ سیاح متوقع ہوتے ہیں ، جبکہ بجلی سپلائی کا دارومدار جزیرہ تیلاس پر ہی منحصر ہوتا ہے۔ تیلاس جزیرہ پر اس وقت پانچ سو سے چھ سو خاندان بستے ہیں۔تیلاس باقی دنیا کے برعکس اپنا کوڑا کرکٹ زمین میں دفن کرنے کی بجائے اسے ری سائیکل کر رہا ہے اور اس سے بجلی بھی بنا رہا ہے ۔اس کے علاوہ ہوائی چکیوں ( ونڈ ٹربائین ) اور شمسی توانائی کے ذریعے نہ صرف اپنی ضرورت کی بجلی پیدا کررہا ہے بلکہ زائد بجلی کو پڑوسی ملکوں میں فروخت بھی کررہا ہے۔ تیلاس کی بندرگاہ سے اترتے ہی آپ کو باربرداری اور آمدورفت کیلئے بجلی سے چلتی گاڑیاں نظر آتی ہیں جبکہ سڑکوں کنارے نصب رہنمائی کرتے بورڈ شمسی توانائی پر چلتے نظر آتے ہیں۔تیلاس جزیرہ خود انحصاری کی ایک خوبصورت مثال کے طور دنیا بھر میں اپنی شناخت بنا چکا ہے۔ کیونکہ 90 کے عشرے میں اس جزیرے کیلئے اس وقت بڑے مسائل کھڑے ہو گئے تھے جب یہاں وسائل اور ضروریات زندگی کی عدم دستیابی کے باعث یہاں کی کثیر آبادی نے یہاں سے انحلا کرنا شروع کر دیا تھا اور گھٹتے گھٹتے یہاں کی آبادی محض 270 افراد رہ گئی۔یہاں پیدائش کی شرح بھی بہت کم تھی جس کے سبب یہاں کاواحد سکول بھی بند ہونے لگا اور ایسے لگ رہا تھا جیسے یہ جزیرہ بہت جلد ویران ہو جائے گا۔یہاں کے باسیوں نے رضاکارانہ طور پر اس جزیرے کو تباہی سے بچانے کیلئے خود انحصاری کو تقویت دی اور آج تیلاس میں بجلی سے لے کر ہر اشیا ء ضروریہ تک ان کی رسائی ہے۔ہوا کے ذریعے وسیع پیمانے پر بجلی پیداوار ڈنمارک کے حکام نے تین سال قبل اعلان کیا تھا کہ ڈنمارک خشکی پر ہوا کی ذریعے بجلی پیدا کرنے والا پہلا ملک ہے ۔ اس کے بعد ہم ساحل سمندر پر بھی ہوا سے بجلی پیدا کرنے والے ابتدائی چند ممالک میں شامل ہیں اور اب ہم سمندر کے اندر اپنا الگ ایک ''توانائی جزیرہ‘‘ قائم کرنے جا رہے ہیں جو ڈنمارک کے مشرق میں بورہولم کے قریب بحیرہ بالٹک میں ہو گا۔ جو نہ صرف ڈنمارک کی بجلی کی ضروریات پوری کرے گا بلکہ وافر بجلی ایکسپورٹ بھی کرے گا۔ اس جزیرے سے جرمنی ، بلجئیم اور ہالینڈ کو بجلی برآمد کرنے کے معاہدے کئے جائیں گے۔ یہ منصوبہ بنیادی طور پر ڈنمارک کے 30لاکھ خاندانوں کو بجلی فراہم کرنے کا ایک منصوبہ ہے جو ایک وسیع و عریض مصنوعی جزیرے پر قائم کیا جا رہا ہے جو ساحل سمندر سے 80 کلومیٹر سمندر کے اندر تعمیر کیا جارہا ہے ۔یہ اپنی نوعیت کا دنیا کا پہلا ''توانائی جزیرہ‘‘ ہے۔ یہ ڈنمارک کی تاریخ کاسب سے بڑا منصوبہ ہے جس پر 34ارب ڈالر تخمینہ متوقع ہے۔ اس جزیرے کا ابتدائی رقبہ ایک لاکھ 20 ہزار مربع میٹر ہو گا جو بتدریج بڑھا کر 4لاکھ 60ہزار مربع میٹر کر دیا جائے گا۔ اس منصوبے کے ذریعے ایک مصنوعی جزیرے پر 200 کے لگ بھگ دیو ہیکل ہوا سے چلنے والے ٹربائن لگائے جائیں گے۔ سمندری لہروں سے بجلی کی پیداوار دنیا بھر کے سائنسدان ایک عرصہ سے اس نظرئیے پر کام کر رہے تھے کہ یہ کرۂ ارض جو 70فیصد پانی پر مشتمل ہے ، جب ہوا ، روشنی ، تیل اور دیگر ذرائع سے بجلی بنائی جا سکتی ہے تو سمندری لہروں اور موجوں سے کیوں نہیں بنائی جا سکتی۔ ویسے تو موجوں اور لہروں سے توانائی پیدا کرنے والا آلہ دوسو سال سے بھی زیادہ پہلے تیار کر لیا گیا تھا لیکن باقاعدہ طور پر اس آلے کی افادیت کو بروئے کار لانے میں پہل یورپ میں یورپی یونین کی مدد سے 2003ء میں سکاٹ لینڈ کے گرد و نواح کے پانیوں سے ہوئی۔ سکاٹ لینڈ کے مغربی ساحل سے بحیرہ اوقیانوس کی لہریں پوری طاقت کے ساتھ ٹکراتی ہیں۔ اس مقام پر '' اکوا میرین پاور اوئسٹر 800‘‘ نامی ایک آلہ دو دو میٹر بلند لہروں کے ساتھ حرکت کرتا نظر آتا ہے۔پانی سے باہر اس آلے کا صرف اوپر کا حصہ نظر آتا ہے۔پانی پیدا کرنے والا اصل نظام سمندر میں پندرہ میٹر کی گہرائی میں ایک پلیٹ فارم کے ساتھ منسلک ہے۔ لہروں اور موجوں کی حرکت کے نتیجے میں پانی بہت زیادہ پریشر کے ساتھ جا کر ان ٹربائنز کو چلاتا ہے جو ساحل پر بنی ایک عمارت میں موجود ہیں۔ یہ ایک چھوٹا سا پاور سٹیشن ہے جس کے ڈھانچے کے اندر ہی لہروں کی طاقت سے بجلی پیدا کرنے کا نظام موجود ہے جس کے ذریعے یہاں پیدا ہونے والی بجلی کو خشکی پر بھیجا جاتا ہے۔

عظیم مسلم سائنسدان عباس بن سعید الجوہری اور خالد بن عبدالملک المروزی

عظیم مسلم سائنسدان عباس بن سعید الجوہری اور خالد بن عبدالملک المروزی

عباس بن سعید الجوہری مامون الرشید کا غلام تھا۔ مامون اس کو بہت چاہتا تھا اور اپنے پاس اسے رکھتا تھا۔ الجوہری نے علم ہیئت میں مہارت پیدا کر لی تھی۔ اس نے اپنے مالک کو ایک رصد گاہ کی تعمیر پر آمادہ کیا، مامون نے اس کی خواہش کے مطابق دو رصد گاہیں تعمیر کرا دیں جس کے منتظم حکیم یحییٰ منصور تھے۔مامون نے عباس کو آزاد کردیا تھا مگر اس نے مامون کے قریب ہی زندگی گزار دی۔ابتدائی زندگی، تعلیم و تربیتعباس بن سعید الجوہری علم ہیئت کا ماہر اور باکمال ریاضی دان تھا۔ عباس الجوہری مامون الرشید کا غلام تھا۔ مامون الرشید اس کو بہت چاہتا تھا اس نے اسے آزاد کردیا، لیکن الجوہری نے مامون سے الگ ہونا پسند نہ کیا اور پوری عمر شاہی محل میں گزاری۔ مامون کے قریب ترین مصاحبوں میں سے تھا۔الجوہری کی صلاحیتوں اور علمی قابلیت سے مامون متاثر تھا اور اسے ہمیشہ قریب رکھتا تھا۔ عباس الجوہری آرام پسند نہ بنا بلکہ اس نے فرصت کے اوقات سے پورا پورا فائدہ اٹھایا وہ شاہی محل میں مطالعہ میں مصروف رہتا تھا۔علمی خدمات اور کارنامےعباس الجوہری علم ہیئت کا ماہر تھا۔ دربار میں بہت سے قابل لوگ جمع تھے۔ الجوہری نے مامون کو رضد گاہ کے قیام کیلئے مشورہ دیا، مامون خود بھی چاہتا تھا اس لئے فوراً آمادہ ہو گیا۔ الجوہری نے رصد گاہ کیلئے آلات کی صنعت پر توجہ کی کئی آلات اس نے تیار کئے اور آلات رصدیہ کی صفت میں اس نے کمال پیدا کیا۔مامون الرشید کے حکم سے دور صدگاہیں تعمیر ہوئیں، ایک بغداد میں شماسہ کے مقام پر دوسری ملک شام میں دمشق کے قریب قاسیون میں، دونوں رصد گاہوں کے لئے آلات صدیہ کو نصب کرنا اور ان کی دیکھ بھال الجوہری کے ذمے تھی۔ الجوہری تعمیرات کا نگران بھی تھا۔عباس الجوہری نے اپنے تجربات اور مشاہدات ایک کتاب کی صورت میں مرتب کئے۔خالد بن عبدالملک المروزی خالد بن عبدالملک ہیئت دانوں میں مشہور تھا۔ وہ تحقیق اور ریسرچ کے کاموں میں مصروف رہتا تھا اور اس حیثیت سے وہ دربار مامونی میں پہنچا۔ رصد گاہ جب بغداد میں تعمیر ہوئی تو وہ اس کا انچارج تھا۔ پھر جب قاسیون میں ایک اور رصد گاہ تعمیر ہوئی تو اسے انچارج بنا کر قاسیون بھیجا گیا۔ اس نے سورج سے متعلق نئی نئی تحقیقاتی کیں۔ اس نے زیچ مامونی مرتب کیا۔ اس دور میں بیک وقت چار سائنسدان ماہرین کی جماعت موجود تھی، جن کو سائنس کے عناصر اربعہ کہا گیا۔ اس نے 849ء میں وفات پائی۔ابتدائی زندگی، تعلیم و تربیتخالد بن عبدالملک بھی ہیئت دانوں میں مشہور تھا۔ اس کا خاندان بغداد میں پہلے سے علمی حیثیت کا مالک تھا۔ خالد نے اپنے علمی ذوق و شوق نیز محنت اور مستعدی کے سبب اس فن میں کمال پیدا کیا اور کامیاب علمی زندگی گزاری، جب اس کی رسائی دربار میں ہوئی تو اپنی اعلیٰ قابلیت اور عمدہ صلاحیتوں کے سبب وہ ترقی کرکے سائنس دانوں کی جماعت میں شامل ہو گیا۔رصد گاہ جب تعمیر ہو گئی تو سائنس دانوں کی جماعت میں خالد بھی شامل تھا۔ وہ بھی تحقیق اور ریسرچ کے کاموں میں مصروف اور مشغول رہا۔ خالد بڑا خوش قسمت ہے کہ اس نے مامون الرشید المعتصم بن الرشید، الواثق بن العستصم اور آخر میں المتوکل ان سب کا زمانہ دیکھا اور ان سب کے دربار میں وہ عزت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔خالد کو قاسیون(ملک شام) کی رصدگاہ میں انچارج بنا کر بھیجا گیا اور کچھ روز بعد وہ انتقال کر گیا۔علمی خدمات اور کارنامےخالد کو علم ہیئت خصوصاً اجرام فلکی سے بڑی دلچسپی تھی۔ وہ تحقیق و ریسرچ کے کاموں میں ہمیشہ مصروف رہتا تھا۔ اس نے سورج سے متعلق نئی نئی تحقیقات کیں۔حکیم یحییٰ منصور نے جب زیچ مامونی مرتب کی تو خالد کے تجربات سے بھی فائدہ اٹھایا۔خالد اس دور میں سائنس کے عناصر اربعہ میں شامل تھا۔ 

انسانی خوبصورتی ظاہر سے باطن تک !

انسانی خوبصورتی ظاہر سے باطن تک !

اللہ تعالیٰ نے انسان کو نہایت خوبصورت تخلیق کیا۔ کسی کو مرد اور کسی کو عورت بنایا اور دونوں کو اپنے اپنے انداز میں حسین بنایا۔ عورت سے کائنات کا حسن ہے تو مرد سے زندگی کی روانی۔ لیکن اصل خوبصورتی صرف جسمانی یا ظاہری نہیں بلکہ انسان کے باطن، اس کے کردار، اور اس کی اخلاقیات میں پوشیدہ ہے۔انسان کی تخلیق میں جو سب سے بڑی نعمت ہے وہ اختیار ہے۔ یہ اختیار کہ وہ اپنے ظاہر اور باطن کو کیسا رکھتا ہے۔ ظاہری خوبصورتی کا پسند کیا جانا ایک فطری امر ہے، لیکن اگر اس کے ساتھ باطن کی خوبصورتی نہ ہو تو ظاہری حسن بھی کھوکھلا محسوس ہوتا ہے۔ اصل خوبصورتی یہ ہے کہ انسان اپنا دل پاکیزہ رکھے، اپنے ارادے مضبوط کرے اور اپنے عمل کو نیک اور پرخلوص بنائے۔آج کے دور میں سوشل میڈیا کا رجحان بہت بڑھ گیا ہے۔ لوگ اپنی خوبصورت تصاویر، عمدہ کھانوں، مہنگے لباسوں اور خوشحال زندگی کی جھلکیاں شیئر کرتے ہیں۔ یہ سب دیکھ کر لگتا ہے کہ دنیا بہت حسین ہے اور لوگ مثالی زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن جب حقیقت میں ایسے لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے تو بعض اوقات ان کی اصل شخصیت اس چمکتی دمکتی تصویر سے مختلف نکلتی ہے۔یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کی اصل خوبصورتی کا امتحان ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص سوشل میڈیا پر تو خوش اخلاق اور مہذب دکھائی دے، لیکن اپنے گھر والوں، دوستوں یا دفتر میں بداخلاقی کا مظاہرہ کرے تو وہ خوبصورت نہیں کہلایا جا سکتا۔ خوبصورتی صرف چہرے یا الفاظ میں نہیں بلکہ انسان کے کردار میں ہوتی ہے۔ایک خوبصورت انسان وہ ہے جو اپنی حقیقی زندگی میں بھی اتنا ہی خوبصورت ہو جتنا وہ سوشل میڈیا پر نظر آتا ہے۔ وہ اپنے والدین کے ساتھ محبت اور احترام سے پیش آئے، اپنے شریکِ حیات کو عزت دے، اپنے بچوں کی تربیت میں دلچسپی لے اور اپنے دوستوں اور پڑوسیوں کے لیے ایک اچھا انسان ثابت ہو۔یہی حقیقی کامیابی اور خوبصورتی ہے کہ انسان نہ صرف اپنے ظاہری وجود کو نکھارے بلکہ اپنے باطن کو بھی بہتر بنائے۔ اپنی زندگی میں ایسے اصول اپنائے جو نہ صرف دنیاوی فائدے کے لیے ہوں بلکہ آخرت میں بھی کامیابی کی ضمانت بنیں۔ اس طرح ایک انسان دنیا اور آخرت دونوں میں خوبصورت اور کامیاب کہلائے گا۔یاد رکھیں، سوشل میڈیا پر تو کوئی بھی خوبصورت نظر آ سکتا ہے، لیکن حقیقی زندگی میں خوبصورت بننا اور رہنا ہی اصل کامیابی ہے۔ اپنا کردار ایسا بنائیں کہ لوگ آپ کو نہ صرف ظاہری طور پر پسند کریں بلکہ آپ کے باطن، آپ کی اخلاقیات، اور آپ کی انسانیت کو بھی سراہیں۔ یہی حقیقی خوبصورتی ہے۔