اہم تاریخی پس منظر کی حامل جامعہ الازہر
مصر کی الازہر یونیورسٹی اپنے علمی و ادبی معیار کی بدولت عالم اسلام بلکہ پوری دنیا میں شہرت رکھتی ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس یونیورسٹی کی بنیاد ایک مسجد پر رکھی گئی ہے۔ جب سسلی کی فوجوں کے کمانڈر نے خلیفہ المعاذ کے حکم پر مصر کو فتح کیا تو اس نے 969ء میں قاہرہ کی بنیاد رکھی جس میں الازہرمسجد تعمیر کی گئی۔
مسجد کی تعمیر میں دو سال کا عرصہ لگا۔ اس مسجد میں پہلی نماز 7رمضان المبارک 971ء کو پڑھائی گئی۔ اس مسجد کو بعد میں یونیورسٹی میں تبدیل کر دیا گیا جو بعد ازاں جامعہ الازہر کے نام سے مشہور ہوئی۔ جامعہ الازہر اس وقت عالم اسلام کی سب سے قدیم یونیورسٹی ہے۔ تاریخ دان اس کا نام الازہر رکھے جانے میں اختلاف کرتے ہیں۔کچھ تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ اس کا نام الازہر اس لئے رکھا گیا کیونکہ جس وقت اس شہر کی بنیاد رکھی گئی اس جگہ پر خوبصورت مکانات بنے ہوئے تھے جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ اس کا نام حضرت فاطمۃ الزہرہؓکے خاندان کی مناسبت سے رکھا گیا۔مسجد کی تعمیر کے ساڑھے تین سال بعد یہاں مختلف علوم کی باقاعدہ کلاسز شروع کی گئیں۔ خلیفہ المعاذ کے ہی دور میں975ء میں امام ابو حنیفہؒ کے بیٹے قاضی القضاہ ابو الحسن علی النعمان الخیروائیؒ نے اپنے والد کی لکھی گئی کتاب ''الاختصار‘‘ پڑھی جس سے سیکڑوں لوگوں نے استفادہ کیا۔ ابوالحسن پہلے شخص تھے جنہیں چیف جسٹس (قاضی القضاہ) کے لقب سے نوازا گیا۔
جامع الازہر میں ہونے والے سیمینار مذہبی موضوعات پر ہوتے تھے۔ تاہم ان پر سیاسی رنگ نمایاں نظر آتا تھا۔ خلیفہ العزیز باللہ کے دور حکومت میں جامعہ الازہر میں تعلیمی اصلاحات کی گئیں۔ اسی دور میں خلیفہ العزیز باللہ کے وزیر یعقوب ابن کلیس نے جامعہ الازہر میں شیعہ قانون کے متعلق اپنی کتاب ''الرسالہ العزیزیہ‘‘ پڑھ کر سنائی۔ یعقوب ابن کلیس نے جامعہ میں تعلیم کے معیار کو بلند کرنے کیلئے 30قانون دانوں کو نوکری دی۔
جامعہ میں خواتین کی اخلاقی تربیت کیلئے بھی سیمینارکا اہتمام کیا گیا۔ جامعہ کو دو سو سال تک عدالتی کارروائیوں اور ٹیکسوں کے نظام کی بہتری کیلئے استعمال کیا جاتا رہا اور اس سلسلے میں جامعہ سے ہر قسم کی رہنمائی حاصل کی جاتی رہی۔ بغداد اور اندلس میں اسلامک کلچر مراکز کی تباہی تک جامعہ کو اسلامی دنیا کے تعلیمی اداروں میں سب سے زیادہ اہمیت حاصل رہی۔ جامعہ میں ہونے والے سیمینار پہلے دن سے ہی خالصتاً تعلیمی و ادبی نوعیت کے تھے۔ ان سیمینار میں شرکت بالکل مفت تھی اور بعض افراد کو وظائف بھی دیئے جاتے۔ تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کیلئے جامعہ کے باقاعدہ اساتذہ کے علاوہ مختلف علوم کے ماہرین کو بھی لیکچر دینے کیلئے مدعو کیا جاتا۔ سیاحتی اساتذہ کے ذریعے تعلیم دینے کا یہ نظام اتنا کامیاب ہوا کہ بعد میںمشرق و مغرب کے دیگر تعلیمی اداروں نے اپنا لیا۔
648ھ مملوکوں کے دور اقتدار میں جامعہ الازہر نے بہت ترقی کی۔ انہوں نے جامعہ کی بہتری کیلئے بہت سے اقدامات کئے۔ وسط ایشیا پر مغلوں کے حملے اور اندلس میں مسلمانوں کے زوال کے بعد عالموں اور دانشوروں کیلئے زمین تنگ پڑ گئی۔ اس دوران زیادہ تر دانشوروں نے جامعہ الازہر میں پناہ لی۔ ان علماء کے آنے سے جامعہ نے بہت زیادہ ترقی کی۔8ویں اور 9ویں صدی ہجری میں جامعہ اپنے علمی معیار کی وجہ سے عروج پر تھی۔ جامعہ نے سائنسی علوم کی ترقی میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ جامعہ کے کچھ دانشوروں اور اساتذہ نے علم الادویات، ریاضی، فلکیات، جغرافیہ اور تاریخ کی ترقی کیلئے بہت محنت کی۔
جامعہ مصر میں سیاسی انتشار کے باوجود علمی و ادبی خدمات سرانجام دیتی رہی۔ سلطنت عثمانیہ کے دور میں جامعہ الازہر کو ملنے والے عطیات کی وجہ سے جامعہ خود مختار ادارے کی حیثیت اختیار کر چکی تھی۔ علماء کو نئے نئے موضوعات پر تحقیق کرنے کے بھرپور مواقع میسر آئے۔ اس طرح جامعہ اسلامی اور عربی علم کا مرکز بن گئی۔ عثمانی حکمرانوں نے کبھی جامعہ کے معاملات میں مداخلت نہ کی اور نہ ہی جامعہ کے بڑے عہدے ''امام‘‘ پر اپنی مرضی کے آدمی لانے کی کوشش کی۔ اس بڑے عہدے کو مصریوں کیلئے مخصوص کر دیا گیا تاکہ کوئی باہر کا آدمی جامعہ پر اپنا حق نہ جتا سکے۔
جولائی 1789ء میں جب نپولین بونا پارٹ نے مصر پر حملہ کیا تو وہ جامعہ کے تعلیمی معیار اور نظم و نسق سے بہت متاثر ہوا۔ نپولین نے اپنی ذاتی ڈائری میں جامعہ الازہر کے تعلیمی معیار کو پیرس کی سوربون یونیورسٹی کے معیار کے برابر قرار دیا اور وہاں کے اساتذہ اور طالب علموں کو عوام اور ملک کیلئے عظیم سرمایہ قرار دیا۔ نپولین نے مصر پر قبضہ کے دوران قاہرہ میں ''دیوان‘‘ کے نام سے ایک مشاورتی کونسل بنائی جو حکومتی معاملات میں مشورے دیتی تھی۔ اس کونسل میں 9علماء شامل تھے جس کے چیئرمین شیخ عبداللہ الشرکاوی تھے جو الازہر یونیورسٹی کے بڑے امام تھے۔ دیگر9علماء بھی جامعہ میں تدریس کے فرائض سرانجام دیتے تھے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ نپولین کی نظر میں الازہر یونیورسٹی کے علماء کی کیا وقعت تھی۔
جب انقلاب فرانس برپا ہوا تو اسی جامعہ میں فرانسیسیوں اور انقلابیوں کے درمیان مذاکرات ہوئے۔ اس کمیٹی کی صدارت شیخ محمد السادات نے کی۔ مذاکرات کی ناکامی پر انقلاب میں شدت آ گئی جس کے نتیجہ میں بڑے امام اور دیگر علماء نے فیصلہ کیا کہ جامعہ کو نقصان سے بچانے کیلئے اسے بند کر دیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ چنانچہ تاریخ میں پہلی مرتبہ اتنے طویل عرصہ کیلئے جامعہ بند کی گئی۔ تقریباً تین سال تک جامعہ میں کسی قسم کی تعلیمی سرگرمیاں نہیں ہوئیں۔ فرانسیسیوں کے جانے کے بعد حسب معمول تعلیم کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
1805ء میں مصر میں محمد علی پاشا کی حکومت قائم ہوئی تو اس نے مصر کو جدید ریاست بنانے کا ارادہ کیا۔ اپنے مقاصد کے حصول کیلئے اسے جامعہ الازہر پر انحصار کرنا پڑا۔ اس نے جامعہ کے طلباء کو وظائف پر پڑھنے کیلئے یورپی ممالک میں بھیجا ۔ ان طلباء نے جدید تعلیم حاصل کی اور واپس آکر ملکی ترقی میں بھرپور کردار ادا کیا۔ ان طلباء میں سعدزغلول پاشا (وزیراعظم) محمد عبدو وغیرہ نمایاں ہیں۔ جامعہ الازہر پر ایک دور ایسا بھی آیا جب مسلمان اور عیسائی علماء مل کر لوگوں سے خطاب کیا کرتے تھے۔
19ویں صدی کے آخری نصف میں مصر میں اسلامی تحریک شروع ہوئی جس نے جامعہ کو کافی متاثر کیا۔1872ء میں جامعہ نے ایک قانون منظور کیا جس کے تحت ڈگریاں جاری کی جانے لگیں۔1930ء میں دوسرا قانون پاس کیا گیا جس میں الازہر یونیورسٹی کے مختلف کالجوں اور فیکلیٹیز میں پڑھائے جانے والے مضامین کو دوبارہ منظم کیا گیا۔ جامعہ الازہر میں دنیا بھر کے مسلم ممالک سے طلباء داخلہ لے سکتے ہیں۔
عبدالوحید متعدد کتابوں کے مصنف ہیں ۔تحقیقی مضامین لکھنے پر گرفت
رکھتے ہیں،ان کی تحریریں مختلف اخبارات میں شائع ہو چکی ہیں۔