اہم تاریخی پس منظر کی حامل جامعہ الازہر

اہم تاریخی پس منظر کی حامل جامعہ الازہر

اسپیشل فیچر

تحریر : عبدالوحید


Sorry, the video player failed to load.(Error Code: 101102)

مصر کی الازہر یونیورسٹی اپنے علمی و ادبی معیار کی بدولت عالم اسلام بلکہ پوری دنیا میں شہرت رکھتی ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس یونیورسٹی کی بنیاد ایک مسجد پر رکھی گئی ہے۔ جب سسلی کی فوجوں کے کمانڈر نے خلیفہ المعاذ کے حکم پر مصر کو فتح کیا تو اس نے 969ء میں قاہرہ کی بنیاد رکھی جس میں الازہرمسجد تعمیر کی گئی۔
مسجد کی تعمیر میں دو سال کا عرصہ لگا۔ اس مسجد میں پہلی نماز 7رمضان المبارک 971ء کو پڑھائی گئی۔ اس مسجد کو بعد میں یونیورسٹی میں تبدیل کر دیا گیا جو بعد ازاں جامعہ الازہر کے نام سے مشہور ہوئی۔ جامعہ الازہر اس وقت عالم اسلام کی سب سے قدیم یونیورسٹی ہے۔ تاریخ دان اس کا نام الازہر رکھے جانے میں اختلاف کرتے ہیں۔کچھ تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ اس کا نام الازہر اس لئے رکھا گیا کیونکہ جس وقت اس شہر کی بنیاد رکھی گئی اس جگہ پر خوبصورت مکانات بنے ہوئے تھے جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ اس کا نام حضرت فاطمۃ الزہرہؓکے خاندان کی مناسبت سے رکھا گیا۔مسجد کی تعمیر کے ساڑھے تین سال بعد یہاں مختلف علوم کی باقاعدہ کلاسز شروع کی گئیں۔ خلیفہ المعاذ کے ہی دور میں975ء میں امام ابو حنیفہؒ کے بیٹے قاضی القضاہ ابو الحسن علی النعمان الخیروائیؒ نے اپنے والد کی لکھی گئی کتاب ''الاختصار‘‘ پڑھی جس سے سیکڑوں لوگوں نے استفادہ کیا۔ ابوالحسن پہلے شخص تھے جنہیں چیف جسٹس (قاضی القضاہ) کے لقب سے نوازا گیا۔
جامع الازہر میں ہونے والے سیمینار مذہبی موضوعات پر ہوتے تھے۔ تاہم ان پر سیاسی رنگ نمایاں نظر آتا تھا۔ خلیفہ العزیز باللہ کے دور حکومت میں جامعہ الازہر میں تعلیمی اصلاحات کی گئیں۔ اسی دور میں خلیفہ العزیز باللہ کے وزیر یعقوب ابن کلیس نے جامعہ الازہر میں شیعہ قانون کے متعلق اپنی کتاب ''الرسالہ العزیزیہ‘‘ پڑھ کر سنائی۔ یعقوب ابن کلیس نے جامعہ میں تعلیم کے معیار کو بلند کرنے کیلئے 30قانون دانوں کو نوکری دی۔
جامعہ میں خواتین کی اخلاقی تربیت کیلئے بھی سیمینارکا اہتمام کیا گیا۔ جامعہ کو دو سو سال تک عدالتی کارروائیوں اور ٹیکسوں کے نظام کی بہتری کیلئے استعمال کیا جاتا رہا اور اس سلسلے میں جامعہ سے ہر قسم کی رہنمائی حاصل کی جاتی رہی۔ بغداد اور اندلس میں اسلامک کلچر مراکز کی تباہی تک جامعہ کو اسلامی دنیا کے تعلیمی اداروں میں سب سے زیادہ اہمیت حاصل رہی۔ جامعہ میں ہونے والے سیمینار پہلے دن سے ہی خالصتاً تعلیمی و ادبی نوعیت کے تھے۔ ان سیمینار میں شرکت بالکل مفت تھی اور بعض افراد کو وظائف بھی دیئے جاتے۔ تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کیلئے جامعہ کے باقاعدہ اساتذہ کے علاوہ مختلف علوم کے ماہرین کو بھی لیکچر دینے کیلئے مدعو کیا جاتا۔ سیاحتی اساتذہ کے ذریعے تعلیم دینے کا یہ نظام اتنا کامیاب ہوا کہ بعد میںمشرق و مغرب کے دیگر تعلیمی اداروں نے اپنا لیا۔
648ھ مملوکوں کے دور اقتدار میں جامعہ الازہر نے بہت ترقی کی۔ انہوں نے جامعہ کی بہتری کیلئے بہت سے اقدامات کئے۔ وسط ایشیا پر مغلوں کے حملے اور اندلس میں مسلمانوں کے زوال کے بعد عالموں اور دانشوروں کیلئے زمین تنگ پڑ گئی۔ اس دوران زیادہ تر دانشوروں نے جامعہ الازہر میں پناہ لی۔ ان علماء کے آنے سے جامعہ نے بہت زیادہ ترقی کی۔8ویں اور 9ویں صدی ہجری میں جامعہ اپنے علمی معیار کی وجہ سے عروج پر تھی۔ جامعہ نے سائنسی علوم کی ترقی میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ جامعہ کے کچھ دانشوروں اور اساتذہ نے علم الادویات، ریاضی، فلکیات، جغرافیہ اور تاریخ کی ترقی کیلئے بہت محنت کی۔
جامعہ مصر میں سیاسی انتشار کے باوجود علمی و ادبی خدمات سرانجام دیتی رہی۔ سلطنت عثمانیہ کے دور میں جامعہ الازہر کو ملنے والے عطیات کی وجہ سے جامعہ خود مختار ادارے کی حیثیت اختیار کر چکی تھی۔ علماء کو نئے نئے موضوعات پر تحقیق کرنے کے بھرپور مواقع میسر آئے۔ اس طرح جامعہ اسلامی اور عربی علم کا مرکز بن گئی۔ عثمانی حکمرانوں نے کبھی جامعہ کے معاملات میں مداخلت نہ کی اور نہ ہی جامعہ کے بڑے عہدے ''امام‘‘ پر اپنی مرضی کے آدمی لانے کی کوشش کی۔ اس بڑے عہدے کو مصریوں کیلئے مخصوص کر دیا گیا تاکہ کوئی باہر کا آدمی جامعہ پر اپنا حق نہ جتا سکے۔
جولائی 1789ء میں جب نپولین بونا پارٹ نے مصر پر حملہ کیا تو وہ جامعہ کے تعلیمی معیار اور نظم و نسق سے بہت متاثر ہوا۔ نپولین نے اپنی ذاتی ڈائری میں جامعہ الازہر کے تعلیمی معیار کو پیرس کی سوربون یونیورسٹی کے معیار کے برابر قرار دیا اور وہاں کے اساتذہ اور طالب علموں کو عوام اور ملک کیلئے عظیم سرمایہ قرار دیا۔ نپولین نے مصر پر قبضہ کے دوران قاہرہ میں ''دیوان‘‘ کے نام سے ایک مشاورتی کونسل بنائی جو حکومتی معاملات میں مشورے دیتی تھی۔ اس کونسل میں 9علماء شامل تھے جس کے چیئرمین شیخ عبداللہ الشرکاوی تھے جو الازہر یونیورسٹی کے بڑے امام تھے۔ دیگر9علماء بھی جامعہ میں تدریس کے فرائض سرانجام دیتے تھے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ نپولین کی نظر میں الازہر یونیورسٹی کے علماء کی کیا وقعت تھی۔
جب انقلاب فرانس برپا ہوا تو اسی جامعہ میں فرانسیسیوں اور انقلابیوں کے درمیان مذاکرات ہوئے۔ اس کمیٹی کی صدارت شیخ محمد السادات نے کی۔ مذاکرات کی ناکامی پر انقلاب میں شدت آ گئی جس کے نتیجہ میں بڑے امام اور دیگر علماء نے فیصلہ کیا کہ جامعہ کو نقصان سے بچانے کیلئے اسے بند کر دیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ چنانچہ تاریخ میں پہلی مرتبہ اتنے طویل عرصہ کیلئے جامعہ بند کی گئی۔ تقریباً تین سال تک جامعہ میں کسی قسم کی تعلیمی سرگرمیاں نہیں ہوئیں۔ فرانسیسیوں کے جانے کے بعد حسب معمول تعلیم کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
1805ء میں مصر میں محمد علی پاشا کی حکومت قائم ہوئی تو اس نے مصر کو جدید ریاست بنانے کا ارادہ کیا۔ اپنے مقاصد کے حصول کیلئے اسے جامعہ الازہر پر انحصار کرنا پڑا۔ اس نے جامعہ کے طلباء کو وظائف پر پڑھنے کیلئے یورپی ممالک میں بھیجا ۔ ان طلباء نے جدید تعلیم حاصل کی اور واپس آکر ملکی ترقی میں بھرپور کردار ادا کیا۔ ان طلباء میں سعدزغلول پاشا (وزیراعظم) محمد عبدو وغیرہ نمایاں ہیں۔ جامعہ الازہر پر ایک دور ایسا بھی آیا جب مسلمان اور عیسائی علماء مل کر لوگوں سے خطاب کیا کرتے تھے۔
19ویں صدی کے آخری نصف میں مصر میں اسلامی تحریک شروع ہوئی جس نے جامعہ کو کافی متاثر کیا۔1872ء میں جامعہ نے ایک قانون منظور کیا جس کے تحت ڈگریاں جاری کی جانے لگیں۔1930ء میں دوسرا قانون پاس کیا گیا جس میں الازہر یونیورسٹی کے مختلف کالجوں اور فیکلیٹیز میں پڑھائے جانے والے مضامین کو دوبارہ منظم کیا گیا۔ جامعہ الازہر میں دنیا بھر کے مسلم ممالک سے طلباء داخلہ لے سکتے ہیں۔
عبدالوحید متعدد کتابوں کے مصنف ہیں ۔تحقیقی مضامین لکھنے پر گرفت
رکھتے ہیں،ان کی تحریریں مختلف اخبارات میں شائع ہو چکی ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
عمان کی خوبصوت مساجد

عمان کی خوبصوت مساجد

عمان اردن کا دارالحکومت ہے۔ اس کی آبادی12لاکھ ہے۔ بائبل میں اسے عمون کہا گیا ہے۔ یونانی دور میں یہ یونانیوں کے دس بڑے شہروں میں شمار ہوتا تھا اور اسے فلاڈلفیا کہا جاتا تھا۔ یہ ڈیلفی سے موسوم تھا جو کہ یونان میں اپالو دیوتا سے منسوب مندر تھا۔ بعد میں عمان انباط عرب کی سلطنت کا اہم شہر ٹھہرا۔31ق م میں اس پر رومیوں نے قبضہ کر لیا۔ آخر کار 14ھ، 635ء میں مسلمانوں نے اسے فتح کر لیا۔ یہاں رومی ایمفی تھیٹر کے آثار ہیں۔ یہ اردن کا ثقافتی، تجارتی اور صنعتی مرکز ہے یہاں پارچہ بافی اور اغذیہ کے کارخانے ہیں۔قاقوت جموی معجم البلدان میں لکھتا ہے ''عمان ارض بلقاء کا ایک قصبہ ہے۔ ترمذی میں اس کا ذکر ''من عدن الیٰ اعمان البلقاء‘‘ کے الفاظ میں آیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ عمان ہی وقیانوس( رومی بادشاہ) کا شہر ہے اور اس کے قریب الکہف (اصحاب کہف کا غار) اور الرقیم اہل ملک میں مصروف ہیں۔ عمان میں اوریاء نبی کی قبر قصرِ جالوت پہاڑی پر ہے۔ یہیں سلیمان علیہ السلام کی مسجد و ملعب ہے‘‘۔(معجم البلدان 151/4)ابودرویش مسجدابو درویش مسجد عمان میں جبلِ اشرافیہ پر تعمیر کی گئی ہے۔ جبل اشرافیہ عمان کی سات خوبصورت پہاڑیوں میں سے ایک ہے۔ یہ مسجد 1961ء میں تعمیر ہوئی اور اس کا کل رقبہ 26911مربع فٹ ہے۔ مسجد کے چھ چھوٹے گنبد اور ایک بڑا گنبد ہے۔ اس مسجد کے واحد مینار کی بلندی 118 فٹ ہے۔ مسجد کی تعمیر میں سفید اور سیاہ پتھر استعمال کیا گیا ہے۔ اس کا ڈیزائن اس مسجد کی زمین کے مالک مصطفی حسن نے خود تیار کیا جو کہ خود ایک ماہر ڈیزائن تھے۔ ابو درویش مصطفی حسن کی کنیت تھی اور اسی نام سے یہ مسجد تعمیر کی گئی۔ اس مسجد میں 7ہزار سے زیادہ نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں۔مصطفی حسن ابو درویش قفقاز میں پیدا ہوئے، ان کو شروع ہی سے شامی طرز تعمیر سے بہت دلچسپی تھی۔ عمان شہر کے جبل اشرافیہ پر پہلے سے کوئی مسجد نہیں تھی۔ لہٰذا انہوں نے یہاں ایک مسجد کا ڈیزائن تیار کرکے تعمیر شروع کر دی۔ ابو درویش نے اس کے تمام تعمیری اخراجات خود برداشت کئے۔ مسجد کے مرکزی ہال میں 2500 نمازیوں کی گنجائش ہے۔ مسجد کے برابر ایک لائبریری اور ایک مدرسہ بھی بنایا گیا ہے۔ لائبریری میں اسلامی اور دینی کتب کی تعداد 3ہزارسے زیادہ ہے۔ ساتھ ہی اسلامی میوزیم بھی موجود ہے۔ اس مسجد کا شمار دنیا کی چوٹی کی دس خوبصورت مساجد میں کیا جاتا ہے۔1978ء سے ابو درویش مسجد سے ایک مشترکہ اذان دی جاتی ہے جو ایک ریڈیو سسٹم کے تحت شہر کی تمام 42مساجد میں بیک وقت نشر کی جاتی ہے۔ اس اذان کے پہلے مؤذن ابو اسفار ہیں۔ اس مسجد کے انتظامی امور کی ذمہ داری ایک کمیٹی کے سپرد ہے جو محکمہ انصاف کے سربراہ کی نگرانی میں کام کرتی ہے۔ غیر مسلموں کا اسکے اندر داخلہ ممنوع ہے۔شاہ حسین بن طلال مسجدیہ اردن کے دارالحکومت عمان کی سب سے بڑی اور بہت خوبصورت مسجد ہے۔ اس کی تعمیر 2003ء میں شروع کی گئی اور تکمیل کے بعد مسجد کا افتتاح شاہ عبداللہ نے 11اپریل 2006ء بمطابق بارہ ربیع الاول 1427ھ کو کیا۔ شاہ عبداللہ نے یہ مسجد اپنے والد شاہ حسین کی یاد میں تعمیر کروائی۔ اس مسجد کو ملک کی قومی مسجد کا درجہ حاصل ہے۔ اس مسجد سے جمعے کا خطبہ براہ راست سرکاری ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر نشر ہوتا ہے۔ یہ چار میناروں والی مسجد جو اسلامی طرز تعمیر کا بہترین نمونہ ہے، بنو امیہ کے طرز تعمیر کی عکاس ہے۔ اس کی محراب ایک نہایت قیمتی کمیاب لکڑی سے تیار کی گئی جس کا استعمال گزشتہ تین صدیوں سے متروک ہو چکا تھا۔ مسجد میں 5500 نمازیوں کی گنجائش موجود ہے جبکہ 500خواتین بھی علیحدہ نماز ادا کر سکتی ہیں۔ مسجد سے ملحقہ دفتر، لائبریری اور لیکچر ہال ہیں۔ نیز ایک میوزیم ہے جس میں آنحضرت ﷺ سے منسوب چند اشیاء کے علاوہ خط بھی موجود ہے جو آپ ﷺ نے باز نطینی سلطنت کے قیصر ہر قل کو اسلام کے ابتدائی دنوں میں تحریر کروا کر بھیجا تھا۔ جس میں آپ ﷺ نے اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی۔اس مسجد کا ڈیزائن ایک مصرف ماہر تعمیرات ڈاکٹر خالد اعظم نے تیار کیا تھا بلا شبہ یہ مسجد مشرقی وسطیٰ کی ایک نہایت خوبصورت مسجد ہے۔

ناصر کاظمی :ہجرت اور یاسیت کا شاعر

ناصر کاظمی :ہجرت اور یاسیت کا شاعر

ناصر کاظمی ایک ہفت پہلو شخصیت کے مالک تھے۔ انہیں عام طور پر غزل کا شاعر تسلیم کیا جاتا ہے اور یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے لیکن لوگوں کا ماننا یہ ہے کہ وہ صرف غزل کے ہی شاعر نہیں بلکہ دیگر اصناف سخن پر بھی انہیں دسترس حاصل تھی۔ ان کی غزلیں ان کے عصر کا آئینہ ہیں، تقسیم اور ہجرت کا نوحہ ہیں اور معصوم و مقدس عشقیہ جذبات و خیالات کی ترجمان بھی ہیں۔ ان کی نظمیں جہاں ایک طرف ان کی فن کاری اور زبان دانی کی دلیل ہیں، وہیں ان کے ایک سچے محب وطن ہونے کا ثبوت بھی ہیں۔ ناصر کاظمی کا منظوم ڈرامہ ''سر کی چھایا‘‘ اس میدان میں ان کے ہنر کا لوہا منوانے کیلئے کافی ہے۔ ان کی نعتیں، سلام اور رباعیات ان کے مذہبی عقائد کے ترجمان ہیں اور ان کی فکری بلند پروازی کا بین ثبوت بھی، ناصر نے نثر نگاری میں بھی کمال کر دیا ہے۔ ان کی ترجمہ نگاری انگریزی اور اردو زبان پر ان کی دسترس کو ظاہر کرتی ہے۔ ناصر کاظمی کی کلیات کا مطالعہ کریں اور ان کی تمام تر ادبی خدمات کا جائزہ لیں تو وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی حق تلفی کی گئی ہے۔ انہوں نے جس نازک دور میں غزل کے سر پر دست شفقت رکھا وہ انتہائی نازک دور تھا۔ انہوں نے ناصرف غزل کا دفاع کیا بلکہ اس کی آبیاری بھی کی اور نوک پلک بھی سنواری۔ ناصر نے غزل کو کچھ اس انداز سے پیش کیا کہ وہ لوگوں کو اپنے دلوں کی آواز معلوم ہوئی۔ ناصر کاظمی کی نظمیں ان کی حب الوطنی کی مرہون منت ہیں۔ ہندوپاک کی 17روزہ جنگ کے دوران انہوں نے اپنے وطن کے تئیں اپنی محبت و عقیدت کا اظہار کرنے کیلئے اور اپنے ملک کے محافظوں کی حوصلہ افزائی کرنے کیلئے روز ایک ترانہ کہا۔ ترانوں کے علاوہ ان کی دیگر نظموں میں بھی حب الوطنی کا عنصر غالب ہے۔ ناصر بھلے ہی کامیاب نظم نگار نہ کہلائے جا سکتے ہوں لیکن ان کی نظموں کا نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔ ان کا منظوم ڈرامہ ''سر کی چھایا‘‘ ان کے ایک کامیاب ڈرامہ نگار ہونے کی دلیل ہے۔چوں کہ تقسیم اور ہجرت ناصر کے ادب کا مرکزی خیال ہیں اس لئے ان کے منظوم ڈرامے میں بھی ان عناصر کا کارفرمائی واضح دیکھی جا سکتی ہے۔ ناصر نے بارگاہ نبی آخری الزماںﷺ میں نعتیں بھی کہی ہیںاور حضرت حسینؓ اور ان کے اہل خانہ نیز جملہ اصحاب کی خدمت میں سلام بھی پیش کیا ہے۔ نعت وسلام کے معاملے میں بڑا محتاط رویہ اختیار کیا ہے۔ ناصر کاظمی کی نثر انتہائی عمدہ ہے۔ وہ جتنے بڑے شاعر ہیں اتنے بڑے نثر نگار بھی ہیں۔ ان کی نثر یوں تو خالص ادبی نوعیت کی ہے لیکن تقسیم اور ہجرت کے اثرات یہاں بھی نمایاں ہیں۔ پاکستان کو درپیش مسائل پر بھی ان کی گہری نظر ہے۔ وہ اپنے ملک کے داخلی، سیاسی اور خارجی مسائل پر توجہ دیتے ہیں۔انہوں نے ناصرف اپنے ملک کے مسائل کو اپنی نثر کا موضوع بنایا ہے بلکہ ان مسائل کا حل بھی پیش کیا ہے۔ ان کی نثر میں کہیں خاکہ نگاری کا رنگ ہے، کہیں انشائیہ نگاری کا، کہیں منظر نگاری کا تو کہیں سفر نامے کا۔ ان کی نثر کے مطالعے کے بعد کوئی بھی ان کے ایک باکمال نثر نگار ہونے سے انکار نہیں کر سکتا۔ ناصر کاظمی کی ترجمہ نگاری بھی قابل توجہ ہے۔ ان کے ترجموں سے واضح ہو جاتا ہے کہ وہ اردوکے علاوہ انگریزی زبان پر بھی دسترس رکھتے تھے۔ ناصر کاظمی کا اصل نام سید ناصر رضا کاظمی تھا۔وہ 8دسمبر1925ء کو انبالہ (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے انبالہ اور شملہ میں ابتدائی تعلیم مکمل کی، پھر اسلامیہ کالج لاہور میں تعلیم حاصل کرتے رہے۔1945ء میں وہ واپس انبالہ چلے گئے، تاہم کچھ عرصہ بعد پھر پاکستان چلے آئے۔ ناصرکاظمی صاحب طرز شاعر ہونے کے ساتھ ایک اعلیٰ پائے کے مدیر بھی تھے۔ بعد ازاں ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہو گئے۔ ناصر کاظمی نے 1940ء میں شعر کہنے شروع کیے۔ انہوں نے کئی شعری مجموعے تخلیق کئے، جن میں ''برگ نے، دیوان، پہلی بارش، نشاط خواب، کے علاوہ''سُر کی چھایا‘‘ (منظوم ڈراما کتھا)، ''خشک چشمے کے کنارے‘‘(نثر، مضامین، ریڈیو فیچرز، اداریے) اور ''ناصر کاظمی کی ڈائری‘‘ شامل ہیں۔ آخر میں قارئین کیلئے ان کے چند اشعار پیش خدمت ہیں۔ دل دھڑکنے کا سبب یاد آیاوہ تیری یاد تھی اب یاد آیا یہ کیا کہ ایک طور سے گزرے تمام عمر جی چاہتا ہے اب کوئی تیرے سوا بھی ہوترے وصال کی امید اشک بن کے بہہ گئی خوشی کا چاند شام ہی سے جھلملا کے رہ گیاکس طرح سے کٹے گا کڑی دھوپ کا سفرسر پر خیالِ یار کی چادر ہی لے چلیںوقت اچھا بھی آئے گا ناصرغم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھینئے کپڑے بدل کر جائوں کہاںاور بال بنائوں کس کیلئےوہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا اب باہر جائوں کس کیلئے دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی دل تو میرا اُداس ہے ناصر شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے    دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی دل تو میرا اُداس ہے ناصر شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے

رمضان کے پکوان:سموسہ چاٹ

رمضان کے پکوان:سموسہ چاٹ

اجزاء(سموسے کیلئے): میدہ دو کپ، اجوائن ایک چوتھائی چائے کا چمچ، نمک آدھا چائے کا چمچ، گھی دو کھانے کے چمچ، پانی گوندھنے کیلئےفلنگ کیلئے: آلو دو عدد ، ہری مرچ دو عدد ، ہرا دھنیا ایک کھانے کا چمچ (کٹا ہوا)، لال مرچ (کٹی ہوئی)آدھا چائے کا چمچ، چاٹ مصالحہ آدھا چائے کا چمچ، نمک ایک چوتھائی چائے کا چمچ۔چاٹ بنانے کیلئے: سموسے دو عدد، چنے آدھا کپ (ابلے ہوئے)، دہی آدھا کپ (پھینٹا ہوا)، لال مرچ آدھا چائے کا چمچ (پسی ہوئی)، چاٹ مصالحہ آدھا چائے کا چمچ، پیاز دو کھانے کے چمچ (کٹی ہوئی)، ہرے دھنیے کی چٹنی دو کھانے کے چمچ، املی کی چٹنی چار کھانے کے چمچ۔ترکیب: سموسے کیلئے: ایک پیالے میں میدہ، نمک، اجوائن اور گھی ڈال کر پانی کے ساتھ گوندھ لیں اور ڈھک کر تیس منٹ کیلئے چھوڑ دیں۔ پھر اس کے پیڑے بنائیں۔ اب ہر پیڑے کو لمبائی میں بیل کر درمیان سے دو ٹکڑوں میں کاٹ لیں۔ فلنگ کیلئے:ابلے آلو ، کٹی ہری مرچ، کٹا ہرا دھنیا، کٹی لال مرچ، چاٹ مصالحہ اور نمک کو آپس میں ملا کر فلنگ تیار کرلیں۔ پھر ہر ٹکڑے میں فلنگ بھر کے سموسے کی طرح فولڈ کرلیں۔ اب یہ سموسے گرم تیل میں ہلکی آنچ پر گولڈن فرائی کرلیں۔ چاٹ بنانے کیلئے: ایک پلیٹ میں دو عدد سموسے ڈالیں۔ ہر سموسے کو آہستہ سے دبائیں کہ یہ ٹوٹ جائیں۔ اس پر ابلے چنے اور تھوڑی سی دہی ڈالیں۔ پھر اس پر لال مرچ اور چاٹ مصالحہ بھی چھڑک دیں۔ اس کے بعد ہرے دھنیے کی چٹنی اور املی کی چٹنی  سے گارنش کرکے پیش کریں۔

آج کا دن

آج کا دن

سوٹس نہر تنازع حل ہوا 2مارچ 1988ء کو استنبول میں ایک کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں یورپی ممالک نے شرکت کی۔اس کانفرس کے اختتام پر یہ فیصلہ ہوا کہ تمام ممالک سوئس نہر کو بلا معاوضہ ایک گزرگاہ کے طور پر استعمال کریں گے۔ بلوچ ثقافت آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں بلوچ ثقافت کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ بلوچ ثقافت میں ان کے مخصوس لباس کو بہت اہمیت حاصل ہے۔گھیرے والی شلوار، پگڑی اور چووٹ بلوچی ثقافت میں نمایاں حیثیت رکھتی ہیں۔بلوچی رقص بھی ان کی ثقافت کا اہم حصہ ہے کسی بھی خوشی کے موقع پر اس رقص کے بغیر تقریب کو ادھورا سمجھا جاتا ہے۔نیلسن منڈیلا02مارچ 1990ء کو افریقہ کے عظیم رہنما نیلسن منڈیلا نے افریقن نیشنل کانگریس کے صدر کا انتخاب جیتااور وہ 1999ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔1994ء میں نیلسن منڈیلا کو افریقی عوام نے اپنا صدر منتخب کیا۔ انہیں دنیا کے عظیم لیڈروں میں شمار کیا جاتا ہے۔

گرین لینڈ کی برف اگر پگھل گئی تو؟

گرین لینڈ کی برف اگر پگھل گئی تو؟

کچھ عرصہ سے سائنس دانوں نے شدت سے اس خدشے کا اظہار کرنا شروع کر رکھا ہے کہ اس کرۂ ارض پر گلوبل وارمنگ کے سبب زمینی درجۂ حرارت جس رفتار سے مسلسل بڑھ رہا ہے اگر کسی مرحلے پر 22 لاکھ مربع کلومیٹر پر مشتمل دنیا کے سب سے بڑے جزیرے گرین لینڈ جس کے 85 فیصد حصے کو برف نے ڈھانپ رکھا ہے پورے کا پورا پگھل گیا تو دنیا کا نقشہ کیسا ہو گا؟ قدرتی طور پر سائنس دانوں کی اس منطق بارے انسان یہ سوچتا ہے کہ آخر ایسے وہ کونسے حالات ہیں جو سائنس دانوں کو اس خدشے کا اظہار کرنے پر مجبور کرتے ہیں؟۔گلوبل وارمنگ کے سبب بڑھتے درجۂ حرارت نے جہاں پوری دنیا کے نظام کو متاثر کر کے رکھ دیا ہے وہیں 85 فیصد برف سے ڈھکے ملک، گرین لینڈ کیلئے بھی اسے خطرے کی گھنٹی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ گرین لینڈ کا 85 فیصد حصہ برف اور باقی 15 فیصد حصہ پہاڑیوں اور میدانوں پر مشتمل ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ گرین لینڈ کو عالمی سطح پر شدید موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا ہے۔ اگرچہ سائنس دان ایک عرصہ سے اس خطے کی بدلتی موسمی صورت حال پر نظر رکھے ہوئے تھے لیکن یہ صورت حال اس وقت عالمی سائنس دانوں کیلئے زیادہ تشویش کا باعث بنی جب انہوں نے گرین لینڈ کی برف کو معمول سے ہٹ کر تیزی سے پگھلتے ہوئے پایا۔ اس موقع پر سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ 2003ء اور 2010ء کے درمیان گرین لینڈ میں برف پگھلنے کی رفتار بیسویں صدی کے مقابلے میں تین گنا زیادہ نوٹ کی گئی تھی۔ اسی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ گرین لینڈ کی برف ہر ایک گھنٹے میں تقریباً تین کروڑ ٹن پگھل رہی ہے۔ ابھی حال ہی میں ایک اور رپورٹ میں اس خدشے کا اظہار کیا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں، گرین لینڈ کو بری طرح متاثر کر رہی ہیں کیونکہ یہاں کا درجہ حرارت باقی دنیا کی نسبت چار گنا زیادہ بڑھ رہا ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے سائنس دان کہتے ہیں کہ گزشتہ پانچ دہائیوں کے دوران گرین لینڈ کے سمندر کی برف کی مقدار متواتر کم ہو رہی ہے جس کی واحد وجہ یہاں کا درجہ حرارت ہے جس کے سبب یہاں کے گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار تیز ہو گئی ہے۔ ''ورلڈ میٹرولوجسٹ آرگنائزیشن‘‘ نے تو 2015ء ہی میں اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ گرین لینڈ میں برف پگھلنے کے باعث پچھلے گیارہ سالوں کے دوران سطح سمندر میں 25سے 30 فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ ایسے ہی ایک خدشے کا اظہار معروف بین الاقوامی جریدے ''کلائمٹ چینج‘‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بھی ان الفاظ میں کیا گیا ہے ''گرین لینڈ کی تمام برف پگھلنے سے دنیا کے سمندروں کی سطح کم سے کم 30 انچ تک اونچی ہو جائے گی۔جس سے نہ صرف ساحلی علاقے زیر آب آ جائیں گے بلکہ سمندروں میں جہاز رانی بھی مشکل ہو جائے گی۔ دوسری طرف برف اور پانی کا توازن قائم نہ رہ سکنے کی بدولت موسموں کی شدت میں اضافہ ہو جائے گا جو بڑے طوفانوں کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے‘‘ ۔گلیشیئرز کے علوم کے ایک ماہر سائنس دان ولیم کولون کے بقول ''گلوبل وارمنگ کے سبب تیزی سے بڑھتے درجہ حرارت کے تناظر کی روشنی میں قیاس کیا جا سکتا ہے کہ رواں صدی کے آخر یا اگلی صدی کے وسط تک ممکنہ حد تک گرین لینڈ کی تمام برف پگھل چکی ہو گی۔ ولیم کولون اپنے قیاس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس وقت موسموں کی کیفیت یا شدت کیسی ہو گی؟ اس سوال کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ آج کے دور میں ہمارا واسطہ جن شدید طوفانوں اور سیلابوں سے پڑتا ہے، پچھلے پچاس سالوں میں ان کی شدت اس قدر شدید نہیں ہوا کرتی تھی ‘‘۔ سائنس دان گلیشئرز پگھلنے کے عمل کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ گلیشیئرز کا حدت سے پگھلنا ایک قدرتی عمل ہے ، پھر جب برف باری شروع ہوتی ہے تو انہی پگھلے ہوئے حصوں پر دوبارہ برف جم جاتی ہے جس سے ایک توازن برقرار رہتا ہے۔ لیکن وہ حصے جو گلیشیئرز سے الگ ہو کر ٹوٹ پھوٹ کرگرتے رہتے ہیں وہ دوبارہ گلیشیئرز کا حصہ نہیں بنتے بلکہ وہ پانی کا حصہ بنتے رہتے ہیں۔ لیکن اب اس فطری عمل میں انسانی سرگرمیوں نے اس نظام کو غیر متوازن اور غیر محفوظ بنا ڈالا ہے۔ فوسل فیول کے بڑھتے استعمال اور کاربن گیسوں کے اندھا دھند اخراج میں بے جا اضافے نے کرہ ارض کے درجہ حرارت کو جس طرح غیر مستحکم کر دیا ہے اس سے گرین لینڈ سمیت دنیا بھر کی پہاڑی چوٹیوں پر موجود گلیشیئرز پہلے سے کئی گنا زیادہ تیز رفتاری سے پگھل رہے ہیں۔ یوں قطب شمالی کا بہت بڑا حصہ برف کے پگھلنے کے باعث ایک سمندر کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ کیا عجب اتفاق ہے کہ ایک جانب گرین لینڈ کی برف پانی میں ڈھلتی جارہی ہے تو دوسری جانب دنیا بھر کی بڑی طاقتوں کی نظریں یہاں کی برف کے نیچے دبے قدرتی خزانوں پر ہیں۔ شواہد سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ گرین لینڈ کی برف کے نیچے تیل ، گیس اور معدنیات کے بہت بڑے خزانے دفن ہیں، جن میں سونا، یورینیم، لوہا ، ایلومینیم، پلاٹینم ، تانبا اور قیمتی پتھر دفن ہیں۔جیسے جیسے قطب شمالی میں برف پگھل رہی ہے اور ممکنہ بحری راستے بن رہے ہیں اس خطے میں امریکہ ، روس اور چین کی بڑھتی دلچسپیاں جہاں ایک طرف دفاعی نقطہ نظر سے اہم ہیں وہیں یقیناً گرین لینڈ کی تہوں میں پوشیدہ معدنیات کے خزانے بھی اس کی ایک وجہ ہو سکتی ہے ؟ آخر میں گرین لینڈ کا مختصر سا تاریخی اور جغرافیائی تعارف۔ جغرافیائی صورتحال شمالی بحیرہ اوقیانوس اور بحر قطب شمالی کے درمیان واقع جزیرہ گرین لینڈ بنیادی طور پر 1953ء تک ڈنمارک کی ایک کالونی تھا جسے بعدازاں 1979ء میں ڈنمارک کے زیر انتظام نیم خود مختار جزیرے کی حیثیت دے دی گئی تھی۔ گرین لینڈ کا نام سکینڈے نیویا کے آباد کاروں نے متعارف کرایا تھا۔ 2009ء سے یہاں کا زیادہ تر انتظام یہاں کی مقامی حکومت کے پاس ہے جبکہ اس کی خارجہ پالیسی، مالیاتی امور اور دفاعی امور کے فیصلے اب بھی ڈنمارک حکومت کے زیر انتظام طے پاتے ہیں۔ تاہم اس کی معیشت کا دارومدار ڈنمارک پر ہی ہے۔ گرین لینڈ، دنیا کے سب سے بڑے جزیرے کا اعزاز بھی رکھتا ہے جو بڑے بڑے گلیشیئرز پر مشتمل ہے جبکہ برف کی یہ دیو ہیکل پرتیں پانچ ہزار سے دس ہزار فٹ موٹی ہیں۔لگ بھگ 22 لاکھ مربع کلومیٹر رقبے کے باوجود اس کی آبادی صرف 57ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ اس جزیرے کو یہ انفرادیت بھی حاصل ہے کہ اس کا تقریباً 85 فیصد حصہ برف پر مشتمل ہے۔ گرین لینڈ کا دارالحکومت نووک ہے۔ گرین لینڈ جغرافیائی طور پر ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن کی نسبت نیویارک کے زیادہ قریب ہے۔  

 جنگ عظیم اوّل لاکیٹائو اور گوئز کی لڑائیاں

جنگ عظیم اوّل لاکیٹائو اور گوئز کی لڑائیاں

مولٹک کی 27اگست کی جاری شدہ ہدایات کے مطابق پیش قدمی کرتے ہوئے جرمنی کی دوسری آرمی کو فرانس کی پانچویں آرمی سے خاصی مزاحمت کا سامنا تھا۔ گو کہ فرانس کی پانچویں آرمی پسپا ہو رہی تھی کہ پسپائی کی متوقع رفتار نہ تھی اور مزاحمت بھی انتہائی شدید تھی۔ دوسری طرف جرمنی کی پہلی آرمی جنرل کلاک کی قیادت سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند برطانوی افواج کو تیزی سے پسپا کئے جا رہی تھی۔لاکیٹائو کی لڑائیجرمن پہلی آرمی کا جنرل کلاک برطانوی افواج کو مغربی پہلو سے کمزور کرتے ہوئے انہیں ایک دائرے میں لینا چاہتا تھا اور مسلسل حملے کرتے ہوئے برطانوی دوسرے کور کو اپنے بیس سے علیحدہ کرنے کیلئے جدوجہد کر رہا تھا۔ دوسرے کور کے تھکے ہارے فوجی تین دن اور تین رات سے مسلسل حالت جنگ میں تھے اور جرمنی کی کوہ شکن افواج کے پے درپے حملوں کی تاب نہ لاتے ہوئے پیچھے ہٹے چلے جا رہے تھے۔ تیسرے روز دوسرے کور کی مدد کیلئے پہلے کور کو بھیجا گیا۔ یہ کور اب تک جنگ کی شدت سے محفوظ اور تازہ دم تھا۔ یہ لاکیٹائو کے مقام پر دوسرے کور سے ملا جہاں جرمن افواج بہت نزدیک تھیں۔دوسرے کور کے جنرل سمتھ ڈورن نے اپنی فوج کے مکمل طور پر تھکے ہونے کی بنا پر فیصلہ کیا کہ وہ فوری طور پر پسپا ہو جائے اور اس کی جگہ پہلے کور کی تازہ دم افواج لے لیں۔ لیکن جرمن پہلی آرمی کے ہر اوّل دستے پیش قدمی کرتے ہوئے دوسرے کور سے مزاحم ہو گئے۔ دوسری طرف پہلے کور کے جنرل ہیگ نے بھی اپنی افواج کو پسپا ہوتے ہوئے اپنے قدم جمانے کی ہدایت کی۔ اس طرح دوسرے کور کا دائیاںپہلو دشمن کے سامنے بے نقاب ہو گیا اور دوسرے کور کو مشرق اور شمال ہر دو طرف سے دشمن کی افواج کا سامنا کرنا پڑا۔مقدمۃ الجیش( مرکزی فوج) مضبوط ہونے کے باوجود دوسرا کور اپنے دائیں پہلو اور سامنے سے دشمن کے نرغے میں آ گیا اور ہتھیار ڈال دیئے۔ اس صورتحال سے دوسرے کور کا بائیاں پہلو اور مرکز مکمل طور پر جرمنی افواج کے نرغے میں آ گئے اور برطانوی افواج کو شدید جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔اس سے پہلے کہ دوسرا کور مکمل طور پر تباہ برباد ہو جاتا برطانوی توپ خانے نے جنوب مغربی جانب سے جرمن افواج پر حملہ کرکے ان کی توجہ اپنی طرف مبذول کروالی اور دوسرے کور کے بچے کھچے سپاہیوں کو مکمل طور پر پسپائی کا موقعہ مل گیا۔دوسری طرف فرانس کی پانچویں آرمی جرمنی کی دوسری آرمی کو روکنے کیلئے سردھڑکی بازی لگا رہی تھی۔ اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ جرمنی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی افواج کی رفتار کو آہستہ کیا جائے۔ اس طرح فرانس کی پانچویں آرمی قربانیوں کے عظیم سلسلے کے باوجود دشمن کی فرتار کو بہت حد تک سست کرنے میں کامیاب رہی تھی جبکہ اس کا نقصان 20فیصد رہا تھا۔اسی دوران جنرل جوفر کو برطانوی حکام کی جانب سے مدد کی اپیل کی گئی۔ اسے بتایا گیا کہ برطانوی افواج کا شیرازہ بکھر رہا ہے اور وہ مکمل طور پر تباہی کی جانب بڑھ رہی ہیں۔ انہیں تباہی سے بچانے کیلئے ضروری ہے کہ فرانس کی افواج ان کی مدد کو آئیں اور جرمنی کی افواج کو اپنی طرف متوجہ کرکے برطانوی افواج کو سنبھلنے کا موقع دیں۔اس اطلاع پر جنرل جوفر نے پانچویں آرمی کو ہدایت کی کہ وہ جنوب کی جانب سے جرمن پہلی آرمی کے پہلو پر حملہ آور ہوں تاکہ پہلی آرمی کی توجہ سامنے موجود برطانوی افواج سے ہٹ جائے۔ جنرل چارلس کی پانچویں آرمی پہلے ہی اپنے سے دوگنا طاقتور اور لیس دشمن کی دوسری آرمی کی پیش قدمی روکنے کی کوشش میں مصروف تھی۔ اب نئے احکامات کی روشنی میں اسے جنوب کی طرف پیش قدمی کرنے پر اپنے دائیں پہلو کو جنرل پولو کے رحم و کرم پر چھوڑنا پڑتا لہٰذا اس نے اپنی آرمی کے دو کور جنوب کی جانب پیش قدمی کرنے کیلئے روانہ کئے۔ ایک کور جنرل بولو کے مقابلے کیلئے جبکہ ایک کور کو بطور محافظ فوج رہنے دیا۔فرانس کی افواج کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ برطانوی افواج سے آپریشن کے دوران معاونت کریں جبکہ برطانوی افواج شمال کی جانب تھوڑی سی پیش قدمی کرکے آنے والے دو کوروں کو اپنے قدم جمانے کا موقع دیں۔ لیکن برطانوی افواج نے فرانس کی تجویز مسترد کر دی۔ اس طرح پہلے سے تنائو کی کیفیت میں مزید اضافہ ہوا اور فرانسیسی افواج جو اپنی جانب سے برطانوی افواج کی مدد کیلئے آئی تھیں سخت بدّل ہوئیں۔29اگست کو جنرل بوُلو کی دوسری آرمی نے شمال کی جانب سے حملہ کردیا۔ جنرل چارلس کی پانچویں آرمی کا مغربی جانب سے کیا گیا حملہ بھی ناکام ہو چکا تھا۔ کیونکہ شمال کی جانب دو کور ہٹ جانے کے باعث مرکزی کورکا کمانڈر دائیں طرف سے مکمل طور پر دشمن کے نرغے میں آ چکا تھا اور دن کے پیچھے پہر پسپا ہوتے ہوئے دریائے اوئز کے دوسری طرف جا کر قدم جائے۔پانچویں آرمی کے بالکل سامنے شمال کی سمت ایک بہت بڑی جنگ ہوئی۔ یہاں جرمنی کے دوکور فرانس کی افواج کو بری طرح دھکیلتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ فرانس کی جانب سے محفوظ فوج کا پہلا کور بطور کمک پانچویں آرمی کی مدد کو آیا۔ اس کمک سے فرانس کی افواج کے اُکھڑے ہوئے قدم جم گئے اور تھوڑی ہی دیر میں فرانس کی جانب سے جوابی حملہ کیا گیا اور جرمنی افواج کو اندھیرا ہونے تک پیچھے دھکیل دیا گیا۔گو کہ جنگ سے جنرل جوفر کے متوقع نتائج 100فیصد حاصل نہ ہوئے تھے۔ تاہم وہ بہت حد تک اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب رہا تھا۔ ایک بڑی وجہ جرمنی کی پہلی آرمی کی جنوب مغرب کی جانب پیش قدمی بھی تھی جو اسے اس محاذ سے کسی قدر دور کر رہی تھی۔اس مختصر کامیابی نے فرانس کی افواج کے حوصلے بلند کردیئے۔ حالانکہ پانچویں آرمی کا جنوب کی جانب حملہ بری طرح ناکام ہو گیا تھا مگر شمال سے جرمنی کے بڑھتے ہوئے قدم روک لئے گئے تھے۔ جنرل چارلس نے ہیڈ کوارٹر سے اپنے کوروں کی واپسی کے احکامات لے لئے تھے اور بڑی تیزی سے اپنی آرمی کو مجتمع کرتے ہوئے از سر نو صف آراء کر لیا تھا۔ جنرل بوُلو کی آرمی دشمن کی جانب سے ہونے والی شدید مزاحمت سے سخت خائف تھی اور ڈیڑھ دن تک برطانوی افواج اور ان کے ساتھ فرانس کی افواج کو بلا روک ٹوک پسپا ہونے میں کوئی مزاحمت نہ کر سکی۔