ایتھوپیا۔۔۔۔ خشک سالی سے خوش حالی تک
اسپیشل فیچر
ایتھوپیا اپنے قدرتی وسائل سے بھرپور استفادہ حاصل کر رہا ہے
ایک ہزار سال قبل مسیح خطہ عرب کے دو قبیلے '' جشات‘‘ اور '' اقغران‘‘ ہجرت کر کے بحیرہ احمر کو عبور کر کے موجودہ ایتھوپیا کے صوبے اریٹیریا میں آن آباد ہوئے۔مقامی افراد کے ساتھ ان کے اختلاط سے ایک نئی قوم وجود میں آئی جسے '' حبشان‘‘ کہا جانے لگا۔بعد ازاں عرب اس تمام علاقے کو جو اب ایتھوپیا کی شناخت سے جانا جاتا ہے ، '' حبشہ‘‘ کہنے لگ گئے۔
ایتھوپیا ، جسے گئے وقتوں میں '' حبشہ‘‘ کہا جاتا تھا افریقہ کا ایک قدیم ترین ملک ہے۔ تیرہ کروڑ آبادی والا یہ ملک آبادی کے لحاظ سے نائجیریا کے بعد دوسرا بڑا افریقی ملک ہے۔
ایتھوپیا بارے ماہرین آثار قدیمہ اور مورخین کا خیال ہے کہ یہ قدیم ترین انسانوں کی سرزمین ہے۔افتار نامی اس کے ایک قدیم علاقے سے ماہرین کو کچھ ایسے شواہد ملے ہیں جس سے اس قیاس کو مزید تقویت ملتی ہے کہ ممکنہ طور پر یہ وہ مقام ہو سکتا ہے جہاں سے انسانی ابتداء کا آغاز ہوا تھا۔1974 میں اس خطے سے لوسی نامی ایک ڈھانچہ دریافت ہوا تھا جو 32 لاکھ سال پرانا ڈھانچہ بتایا جاتا ہے اور اسے اب تک دریافت ہونے والے قدیم انسانی ڈھانچوں میں سب سے قدیم ڈھانچہ قرار دیا جاتا ہے۔
ایتھوپیا دلچسپ اور عجیب و غریب ثقافت کا حامل ایک ایسا ملک ہے جس کی قدیم روایات اور رسم و رواج کو یہاں کے قبائل نے ابھی تک قائم رکھا ہوا ہے۔جس میں سب سے نمایاں یہاں کا مقامی کیلنڈر ہے جو سال کے 12 کی بجائے 13 ماہ پر مشتمل ہے ، 13 ویں مہینے کو یہ '' پیگوم‘‘ کہتے ہیں۔ یہ مہینہ پانچ دنوں پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ اگر لیپ کا سال ہوتو پھر یہ ماہ چھ دن کا ہو جاتا ہے۔اس مہینے کی اختراع کا بنیادی نظریہ موسموں کی مطابقت کو مدنظر رکھتے ہوئے تفویض کیا گیا ہے جبکہ اس مہینے کا تعلق بنیادی طور پر فصلوں کی کٹائی اور قدیم مذہبی تہواروں سے جڑا ہوا ہے۔ یہ مہینہ یہاں کے ثقافتی رنگ کو نمایاں کرتا ہے جس کا انہیں سال بھر شدت سے انتظار رہتا ہے۔
چونکہ ایتھوپیئن کی اکثریت کا تعلق (آرتھو ڈوکس)عیسائیت سے ہے اس لئے یہ اپنے عقیدے کے مطابق سال میں کم از کم دوسو روزے رکھتے ہیں۔باقی روایات کی طرح ان کے روزوں کا روائتی تصور بھی مختلف ہے جس میں جانوروں کی مصنوعات جس میں گوشت ، انڈے اور دودھ وغیرہ شامل ہیں، سے ہی صرف پرہیز کرنا ہوتا ہے۔
جدید ایتھوپیا کا نام ذہن میں آتے ہی جانے کیوں ایسے لگتاہے جیسے اس ملک میں چار سو بھوک اور افلاس کا راج ہو گا، قحط اور بدحالی نے پنجے گاڑھے ہوئے ہوں گے ، اور گلی گلی موت رقص کرتی نظر آتی ہو گی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ چار عشرے قبل ایتھوپیا کا شمار دنیا کے غریب ترین ممالک میں ہوتا تھا۔ اس ملک کی بدحالی کی یہ حالت تھی کہ ملک میں ذرائع آمدورفت اور ذرائع نقل و حمل کا نظام نہ ہونے برابر تھا۔ یہ وہ دور تھا جب ایتھوپیا کی 90 فیصد سے زائد آبادی خط غربت سے نیچے کی زندگی گزار رہی تھی۔خشک سالی کے باعث ملک میں ہر سال 40 سے 45 فیصد بچے خوراک کی کمی کے باعث زندگی کی بازی ہار جاتے تھے۔
1984 میں ایتھوپیا میں پھیلے قحط سے دس لاکھ افراد لقمۂ اجل بن گئے تھے ، جن میں زیادہ تعداد بچوں کی تھی۔یہی حال وبائی امراض کا تھا جس سے ہر سال کثیر تعداد میں ہلاکتیں معمول بن چکا تھا۔ جس کی بنیادی وجہ ملک کی 90فیصد آبادی کو صحت کی بنیادی سہولتوں تک عدم رسائی تھی۔
تاریخ کی کتابوں سے پتہ چلتا ہے کہ ایتھوپیا ایک طویل عرصہ سے اپنے پڑوسی قبائل سے الجھتا آ رہا تھا۔ ایک عرصہ تک یہ صومالیہ سے چھیڑ خانیاں کرتا رہا ، پھر اریٹیریا سے اس نے جنگ چھیڑ دی، نتیجتاً دونوں ملکوں کے ہزاروں لوگ ہلاک ہوئے، اریٹیریا نے ایتھوپیا سے آزادی حاصل کی اور اس کی واحد بندرگاہ بھی اس سے چھین لی جس سے یہ '' لینڈ لاک‘‘ ہو گیا۔
گزشتہ صدی کے آخری عشرے میں اس ملک میں سوچ ، سمجھ اور شعور کا کچھ ایسا انقلاب آیا جس نے رفتہ رفتہ ایتھوپیا کی حالت ہی بدل ڈالی۔پڑوس کے ملکوں سے چھیڑچھاڑ بند کرکے ان کے ساتھ امن اور تجارت کے معاہدے ہونے لگے اور ملک کو حقیقی جمہوری مملکت بنانے کی راہ کا تعین کیا گیا۔2005ء میں ایتھوپیا کی تاریخ کے پہلے آزادانہ انتخابات ہوئے اور یہاں پہلی بار جمہوریت کی داغ بیل پڑی۔ حقیقی جمہوریت پھولتی پھلتی گئی اور ماضی کا ایک قحط زدہ ملک دیکھتے ہی دیکھتے اپنے پاؤں پر نہ صرف کھڑا ہو گیا بلکہ ترقی کی منازل طے کرتے کرتے دنیا کو اس لئے بھی حیرت زدہ کرتا گیا کہ بغیر کسی سمندری بندر گاہ کے اس کی معیشت دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرنے لگی۔ اس کی کامیاب معیشت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج سے چند سال پہلے تک دنیا میں صرف پانچ ممالک ایسے تھے جن کی شرح نمو دس فیصد سے زائد تھی، ان میں قطر ترکمانستان، آذربائیجان، چین کے ساتھ ساتھ ایتھوپیا بھی شامل تھا ۔
ایتھوپیا شاید دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو اپنے قدرتی وسائل سے بھرپور استفادہ حاصل کر رہا ہے۔ معدنیات سے لے کر دریاؤں تک سے یہ کثیر زرمبادلہ کما رہا ہے۔ اپنے دریائوں سے یہ کثیر تعداد میں بجلی بنا کر اپنے پڑوسی ملکوں کو درآمد کر رہا ہے جو اس کے کل جی ڈی پی کا چالیس فیصد کے لگ بھگ ہے۔
ایتھوپیا نے انہونی کو ہونی میں یوں بدلا کہ ہتھیار پکڑے عوام سے بندوق لے کر ان کے ہاتھ میں قلم تھما دیا۔ اپنے سالانہ بجٹ کا 25 فیصد تعلیم اور صرف تعلیم کے لئے وقف کردیا ، کئی عشروں تک اپنے پڑوسیوں سے برسرپیکار رہنے والے ایتھوپیا نے سمجھ لیا کہ ترقی صرف امن میں ہی پنہاں ہے۔اس نے صدیوں پرانے دشمنوں کی طرف امن کا ہاتھ بڑھایا۔اپنے قدیمی دشمن اریٹیریا کو صلح کا پیغام بھجوایا۔صومالیہ سے سرحدی تنازعات کو ختم کرنے کا اعلان کرکے دنیا کو حیران کر دیا۔
خطے میں اس کی امن پسند پالیسیوں، پڑوسیوں کے ساتھ برسوں پرانے تنازعات پر امن طور پر حل کرنے، دشمنی کو دوستی میں بدلنے اور 2002ء میں بین الاقوامی باؤنڈری کمیشن کی ثالثی کو غیر مشروط طور پر تسلیم کرنے پر ایتھوپیا کے وزیر اعظم ایبی احمد کو 2019ء میں امن کے نوبیل سے نوازا گیا تھا۔