ماحولیاتی تبدیلی کی اصل قیمت
اسپیشل فیچر
111 کمپنیوں کی وجہ سے دنیا کو 28 کھرب ڈالر کا نقصان
حال ہی میں منظرِ عام پر آنے والی ایک رپورٹ نے دنیا بھر میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے، جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ صرف 111کمپنیاں عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلی کے 28 کھرب ڈالر کے نقصان کی ذمہ دار ہیں۔ یہ اعداد و شمار صرف ایک مالی نقصان کی نشاندہی نہیں کرتے بلکہ یہ انسانی بقا، قدرتی وسائل اور زمین کے مستقبل پر ایک سوالیہ نشان بھی بن چکے ہیں۔
نیو ہیمپشائر کی ڈارٹماؤتھ کالج کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ صرف 111 کمپنیوں نے دنیا کو 1990ء کی دہائی کے اوائل سے اب تک ماحولیاتی نقصان کی صورت میں 28 کھرب ڈالر کا نقصان پہنچایا ہے۔اس فہرست میں سب سے اوپر سعودی آئل کمپنی ''سعودی آرامکو‘‘ہے، جو شدید گرمی میں اضافے کی وجہ سے عالمی معیشت کو 2.05 کھرب ڈالر کا نقصان پہنچانے کی ذمہ دار ہے۔دیگر ذمہ داروں میں روسی توانائی کمپنی ''گیزپروم‘‘ (تقریباً 2 کھرب ڈالر کا نقصان)، اور امریکی تیل و گیس کی بڑی کمپنی ''شیورون‘‘ (1.98 کھرب ڈالر کا نقصان) شامل ہیں۔دیگر کمپنیوں میں جو ٹاپ 10 میں شامل ہیں، ان میں فوسل فیول استعمال کرنے والی کمپنیاں ''ایکسون موبل‘‘، ''بی پی (برٹش پیٹرولیم)‘‘، ''شل‘‘، ''نیشنل ایرانی آئل کمپنی‘‘، ''پی میکس‘‘، ''کول انڈیا‘‘ اور ''برٹش کول کارپوریشن‘‘ شامل ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ کمپنیاں ماحول دشمن ایندھن کی پیداوار اور استعمال میں حد سے زیادہ سرگرم نہ ہوتیں تو آج کا ''ماحولیاتی بحران‘‘ اس شدت کا نہ ہوتا۔اس تحقیق کے مصنف اور ڈارٹماؤتھ کالج کے ماحولیاتی محقق جسٹن مینکن کا کہنا ہے: ''ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ماحولیاتی ذمہ داری کے سائنسی شواہد مکمل ہو چکے ہیں، اب وقت ہے کہ ان کمپنیوں کو ان کے کردار کے لیے قانونی اور مالی طور پر جوابدہ ٹھہرایا جائے‘‘۔
رپورٹ کے اہم نکات
یہ رپورٹ بین الاقوامی ماحولیاتی محققین کے ایک گروپ نے جاری کی، جنہوں نے 1988ء سے 2023ء تک کے اعداد و شمار کا تجزیہ کیا۔ تحقیق کے مطابق، جن کمپنیوں نے سب سے زیادہ فوسل فیولز (کوئلہ، تیل، گیس) جلائے، وہ دنیا بھر میں ہونے والے درجہ حرارت میں اضافے، شدید موسم، خشک سالی، سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کا بڑا سبب بنیں۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان کمپنیوں کے اخراجات صرف ماحول تک محدود نہیں بلکہ عالمی معیشت، زراعت، صحت اور انسانی ہجرت جیسے شعبوں پر بھی اثر انداز ہوئے ہیں۔
مالی نقصان کی تفصیل
28 کھرب ڈالر کا نقصان براہِ راست اور بالواسطہ اخراجات پر مشتمل ہے، جن میں شامل ہیں:
٭...زراعت میں پیداوار کی کمی
٭...صحت کے مسائل اور اموات
٭...آفات سے متاثرہ علاقوں کی بحالی
٭...بنیادی ڈھانچے کو پہنچنے والا نقصان
٭...انسانی ہجرت اور اس سے جڑے مسائل
ذمہ دار کمپنیاں کون سی ہیں؟
ان 111 کمپنیوں میں زیادہ تر فوسل فیول کی پیداوار اور فروخت سے منسلک بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں شامل ہیں۔ جن میں کچھ سرکاری ادارے بھی شامل ہیں۔ ان اداروں نے گزشتہ کئی دہائیوں میں بھاری منافع کمایا لیکن ماحول کے تحفظ کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔
اثرات عالمی سطح پر
ماحولیاتی تبدیلی کا اثر دنیا کے ہر خطے میں محسوس کیا جا رہا ہے، مگر ترقی پذیر ممالک جیسے پاکستان، بنگلہ دیش اور افریقی ممالک سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ ان ممالک کے پاس نہ تو وسائل ہیں اور نہ ہی انفراسٹرکچر کہ وہ ان ماحولیاتی تباہیوں سے نمٹ سکیں۔
ان کمپنیوں نے دہائیوں تک اربوں ڈالر منافع کمایا، مگر ماحول کو نقصان پہنچانے والے اثرات کی نہ تو روک تھام کی گئی اور نہ ہی ان کے لیے کوئی ذمہ داری قبول کی گئی۔ ان کے اخراجات نے نہ صرف زمین کا درجہ حرارت بڑھایا بلکہ دنیا بھر میں شدید موسم، طوفان، سیلاب، خشک سالی، فصلوں کی تباہی، اور انسانوں کی ہجرت جیسے مسائل کو جنم دیا۔
ممکنہ حل اور سفارشات
کاربن اخراج پر ٹیکس: ماحولیاتی آلودگی پھیلانے والی کمپنیوں پر سخت مالی پابندیاں عائد کی جائیں۔
قانونی اقدامات: عالمی عدالتوں میں ان کمپنیوں کے خلاف مقدمات دائر کیے جائیں۔
صاف توانائی کی طرف منتقلی: حکومتیں اور کمپنیاں متبادل توانائی ذرائع جیسے شمسی اور ہوائی توانائی کی جانب بڑھیں۔
عوامی شعور کی بیداری: لوگوں کو روزمرہ زندگی میں ماحول دوست فیصلے کرنے کی ترغیب دی جائے۔
ماحولیاتی انصاف: ترقی یافتہ ممالک ترقی پذیر ممالک کی مدد کریں تاکہ وہ ماحولیاتی آفات کا مقابلہ کر سکیں۔
یونیورسٹی آف پینسلوینیا کے ماحولیاتی سائنسدان مائیکل مان، جو اس تحقیق کا حصہ نہیں تھے، کا کہنا ہے کہ ''ابھی بہت سے ماحولیاتی عوامل ایسے ہیں جنہیں شامل نہیں کیا گیا،کالاہان اور مینکن کی جانب سے پیش کیے گئے اعداد و شمار غالباً ان نقصانات کا بہت کم اندازہ ہیں، جو ان کمپنیوں نے واقعی پہنچائے ہیں‘‘۔
یہ رپورٹ نہ صرف ان کمپنیوں کی بے احتیاطی کا آئینہ ہے بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک تنبیہ بھی ہے۔ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو مستقبل کی نسلیں ایک ایسے سیارے پر زندہ رہنے پر مجبور ہوں گی جو حد سے زیادہ گرم، خشک اور غیر محفوظ ہوگا۔ ماحولیاتی تحفظ اب محض ایک نعرہ نہیں بلکہ انسانیت کی بقا کا سوال بن چکا ہے۔