بامبا سدرلینڈ تخت لاہور کی آخری شہزادی
اسپیشل فیچر
تاریخ سے منقول ہے '' اس نے اپنی زندگی میں دو عشق کئے ، ایک لاہور سے اور دوسرا اپنے جیون ساتھی سے‘‘۔ تخت لاہور کے وارث دلیپ سنگھ کی بیٹی اور سکھ سلطنت کے بانی راجہ رنجیت سنگھ کی اس پوتی نے بھی کیا عجب قسمت پائی تھی۔ اس کے باپ نے لاہور قلعہ میں شاہی خاندان کے ہاں آنکھ کھولی ، انگریز راج میں لاہور سے اسے انگلستان جلاوطن کر دیا گیا، اس کی پیدائش انگلستان میں ہوئی۔ جوان ہوئی تو اس کی نس نس میں رچی بسی لاہور کی محبت اسے لاہور کھینچ لائی۔ تخت لاہور کے وارث کی بیٹی لاہور میں جیل روڈ کی ایک چھوٹی سی کوٹھی میں آن بسی ، پھر جانے کیا سوجھا قیام پاکستان سے قبل اس نے ماڈل ٹاؤن میں ایک کوٹھی خریدی اور یہاں آن بسی، تاوقتیکہ کہ موت نے اسے جیل روڈ کے گورا قبرستان میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے نہ آن سلایا۔
آئیے اب رنجیت سنگھ خاندان کے پس منظر پر نظر ڈالتے ہیں۔ مغلیہ سلطنت جب اندرونی سازشوں کی وجہ سے دن بدن کمزور ہونا شروع ہوئی تو رنجیت سنگھ نے ان کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مغلوں کے بیشتر علاقوں پر قبضہ کر لیا اور سکھ سلطنت کی بنیاد رکھی۔ 1799ء میں رنجیت سنگھ نے لاہور پر قبضہ کرلیا اور اسے اپنا دارالخلافہ بنا لیا۔اس وقت اس کی عمر 18 سال تھی۔1802ء میں اس نے امرتسر فتح کیا چند سالوں بعد اس نے دریائے ستلج تک پنجاب کے تمام بڑے شہروں پر اپنا جھنڈا گاڑھ دیا اور ساتھ ہی ستلج کو عبور کرکے اس نے لدھیانہ کو بھی اپنی سلطنت کا حصہ بنا ڈالا۔ اس طرح اب رنجیت سنگھ کا راج، شمال مغرب میں درۂ خیبر ، سے مشرق میں دریائے ستلج اور برصغیر پاک وہند کی شمالی حد سے جنوب کی طرف صحرائے تھر تک پھیلا ہوا تھا۔ اس وسیع و عریض سلطنت کا صدر مقام لاہور تھا۔اسی لئے مورخین اسے ''تخت لاہور‘‘ کے نام کی شناخت بھی دیتے ہیں۔
رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد اس کی اولاد باہمی طور پر دست وگریباں رہی۔ خوش قسمتی سے رنجیت سنگھ کا سب سے چھوٹا بیٹا دلیپ سنگھ اس کشت و خون سے لاتعلق رہا ۔ دلیپ سنگھ ، کی ولادت 6ستمبر 1838ء کو قلعہ لاہور میں رانی جنداں کے ہاں ہوئی۔اس کی عمر ابھی نو ماہ تھی جب رنجیت سنگھ کا انتقال ہو گیا۔ 1843 میں دلیپ سنگھ کی عمر ابھی محض پانچ سال تھی جب سکھوں کی خانہ جنگیوں کے تحت اسے تخت لاہور پر بٹھانا پڑا۔اس کے ماموں جواہر سنگھ کو وزیر اعظم بنانا پڑا لیکن اصل اختیارات رانی جنداں کے ہاتھ میں ہی تھے۔
1849ء تک انگریز پنجاب پر مکمل طور پر قابض ہو چکے تھے۔انہوں نے سب سے پہلے رانی جنداں کو شیخوپورہ قلعہ بعدازاں کانچی بھجوا دیا جبکہ دلیپ سنگھ کو جان سپینر لوگن کے سپرد کر دیا گیا۔دراصل انگریز سرکار دلیپ سنگھ کو مستقبل کیلئے خطرہ سمجھنے لگے تھے۔چنانچہ 19 فروری 1850ء کو شہزادے کو لاہور سے فتح گڑھ ایک فوجی کیمپ میں بھجوا دیا گیا۔ تاریخ کی کتابوں میں اس بات کا کوئی حوالہ موجود نہیں کہ اس کے بعد شہزادے کی آمد کبھی لاہور ہوئی ہو۔ جان سپینر لوگن اور اس کی بیوی لینا لوگن نے اس کی پرورش اس انداز میں کی کہ بالآخر شہزادہ دلیپ سنگھ نے 8 مارچ 1953ء کو باقاعدہ مسیحت اختیار کر لی تھی۔ اس دوران رانی جنداں قلعہ چنار سے بھیس بدل کر نیپال منتقل ہو گئیں۔ دوسری جانب شہزادہ دلیپ سنگھ 19 ایریل 1854ء کو جلا وطن کر کے لندن روانہ کر دیا گیا جہاں ملکہ برطانیہ کی طرف سے اسے خوب پذیرائی ملی۔
دلیپ سنگھ نے دو شادیاں کی تھیں جن میں سے ایک اس نے 7 جون 1864ء کو اسکندریہ ، مصر کے قونصل خانے میں بمبا مولر نامی ایک مصری خاتون سے جبکہ دوسری شادی ایڈا نامی خاتون سے کی تھی۔ ایڈا کی یہ دوسری شادی تھی جس میں سے اس کے دو بچے پہلے سے بھی تھے جبکہ اس کے اپنے بچوں میں ، شہزادہ وکٹر، فریڈرک ، البرٹ ایڈورڈ ، شہزادی کیتھرائن ، صوفیہ اور بامبا سدر لینڈ تھے۔
دلیپ سنگھ کی دو بیٹیوں کو تاریخ میں بہت شہرت ملی ہے۔ شہزادی صوفیہ کو سماجی اور فلاحی کاموں جبکہ شہزادی بامبا کو لاہور سے والہانہ محبت کی وجہ سے۔شہزادی بامبا کی شخصیت کا سب سے نمایاں اور یادگار پہلو ان کی لاہور سے والہانہ اور لازوال محبت تھی۔بامبا 29ستمبر 1869ء کو لندن میں پیدا ہوئیں۔ لندن میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بامبا کو آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا۔اس کے بعد وہ امریکی شہر شکاگو میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے چلی گئیں۔ اس دوران بامبا کا لاہور آنا جانا لگا رہا۔
بامبا کی نس نس میں لاہور سے محبت رچی بسی ہوئی تھی۔ شہزادی بامبا کو مرتے دم تک یہ دکھ رہا کہ ان کے والد دلیپ سنگھ سے نہ صرف پنجاب کی حکومت لے لی گئی بلکہ پوری عمر ان کے لاہور داخلے پر پابندی رہی۔ 1907ء میں یہ پہلی بار ہندوستان آئیں اور ان کا زیادہ وقت لاہور میں گزرا۔ اس دوران ان کی ملاقات لاہور میں ڈیوڈ سدر لینڈ سے ہوئی جو اس وقت کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں پروفیسر تھے۔ سدر لینڈ بنیادی طور آسٹریلین تھے جن کی تعیناتی 1895ء میں ملکہ کے میڈیکل آفیسر کے طور پر ہوئی تھی۔ 1909ء میں انہوں نے سدر لینڈ سے شادی کر لی اور ساتھ ہی انہوں نے لاہور کو اپنا مستقل مسکن بنانے کا ارادہ کر لیا۔ان کا خیال تھا کہ شاید اس طرح یہ اپنے باپ دلیپ سنگھ اور اپنے دادا رنجیت سنگھ کی روح کو سکون دے سکیں گی۔ 1924ء میں انہوں نے اپنی بہن شہزادی صوفیہ اور اپنے خاوند سدر لینڈ کے ساتھ ہندوستان کا دورہ کیا۔ 19 اپریل 1939ء کو سدر لینڈ کا انتقال ہو گیا۔اس کے بعد ان کا زیادہ عرصہ لاہور میں اپنی بہن شہزادی صوفیہ کے ساتھ سماجی اور فلاحی کاموں میں گزرنے لگا۔1942ء میں ان کی بہن شہزادی کیتھرائن کی وفات کے بعد انہوں نے لاہور کو اپنا مستقل مسکن بنانے کیلئے جیل روڈ پر ایک کوٹھی میں اپنا پڑاو ڈالا جہاں وہ اپنے خاندان کی جائیداد کی دیکھ بحال میں مصروف رہنے لگیں۔ اس کام میں ان کے ساتھ ان کے خاندانی منشی اور مختار کار پیر الہی بخش ساتھ ساتھ رہے۔ یہاں دو سال رہنے کے بعد 1944ء میں یہ ماڈل ٹاؤن ایک گھر خرید کر منتقل ہو گئیں۔
13 جولائی 1946 شہزادی بامبا نے بحیثیت رنجیت سنگھ خاندان کے ایک حقیقی وارث ، ایک وکیل کی وساطت سے یو این او کو ''پنجاب حکومت‘‘ کی حوالگی کا مطالبہ کیا لیکن اسے اس درخواست کا خاطر خواہ جواب نہ مل سکا۔
تقسیم کے وقت شہزادی بامبا انگلستان، ہندوستان اور دنیا کے کسی بھی ملک رہنے کا حق رکھتی تھیں۔ اس کی بہن صوفیہ کو ملکہ وکٹوریہ نے ہیپنپٹن کورٹ محل میں ایک گھر الاٹ کر رکھا تھا اور کم وبیش ایسی ہی پیشکش شہزادی بامبا کیلئے بھی تھی لیکن انہیں تو لاہور کی مٹی سے عشق تھا اس لئے انہوں نے لاہور ہی میں جینا مرنا طے کر رکھا تھا۔ ان کے پاس بڑی تعداد میں سکھ سلطنت کی نوادرات اور دستاویزات تھیں جو انہوں نے لاہور قلعہ کی سکھ گیلری کو عطیہ کر دی تھیں۔
لاہور سے عشق کرنے والی ، سکھا شاہی سلطنت کی آخری شہزادی بامبا سدر لینڈ،88 سال کی عمر میں 10 مارچ 1957ء کومالک حقیقی سے جا ملیں۔ وصیت کے مطابق ان کی تمام جائیداد ان کے منشی پیر کریم بخش سپرا کو سونپ دی گئی تھی۔