بامبا سدرلینڈ تخت لاہور کی آخری شہزادی

بامبا سدرلینڈ تخت لاہور کی آخری شہزادی

اسپیشل فیچر

تحریر : خاور نیازی


تاریخ سے منقول ہے '' اس نے اپنی زندگی میں دو عشق کئے ، ایک لاہور سے اور دوسرا اپنے جیون ساتھی سے‘‘۔ تخت لاہور کے وارث دلیپ سنگھ کی بیٹی اور سکھ سلطنت کے بانی راجہ رنجیت سنگھ کی اس پوتی نے بھی کیا عجب قسمت پائی تھی۔ اس کے باپ نے لاہور قلعہ میں شاہی خاندان کے ہاں آنکھ کھولی ، انگریز راج میں لاہور سے اسے انگلستان جلاوطن کر دیا گیا، اس کی پیدائش انگلستان میں ہوئی۔ جوان ہوئی تو اس کی نس نس میں رچی بسی لاہور کی محبت اسے لاہور کھینچ لائی۔ تخت لاہور کے وارث کی بیٹی لاہور میں جیل روڈ کی ایک چھوٹی سی کوٹھی میں آن بسی ، پھر جانے کیا سوجھا قیام پاکستان سے قبل اس نے ماڈل ٹاؤن میں ایک کوٹھی خریدی اور یہاں آن بسی، تاوقتیکہ کہ موت نے اسے جیل روڈ کے گورا قبرستان میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے نہ آن سلایا۔
آئیے اب رنجیت سنگھ خاندان کے پس منظر پر نظر ڈالتے ہیں۔ مغلیہ سلطنت جب اندرونی سازشوں کی وجہ سے دن بدن کمزور ہونا شروع ہوئی تو رنجیت سنگھ نے ان کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مغلوں کے بیشتر علاقوں پر قبضہ کر لیا اور سکھ سلطنت کی بنیاد رکھی۔ 1799ء میں رنجیت سنگھ نے لاہور پر قبضہ کرلیا اور اسے اپنا دارالخلافہ بنا لیا۔اس وقت اس کی عمر 18 سال تھی۔1802ء میں اس نے امرتسر فتح کیا چند سالوں بعد اس نے دریائے ستلج تک پنجاب کے تمام بڑے شہروں پر اپنا جھنڈا گاڑھ دیا اور ساتھ ہی ستلج کو عبور کرکے اس نے لدھیانہ کو بھی اپنی سلطنت کا حصہ بنا ڈالا۔ اس طرح اب رنجیت سنگھ کا راج، شمال مغرب میں درۂ خیبر ، سے مشرق میں دریائے ستلج اور برصغیر پاک وہند کی شمالی حد سے جنوب کی طرف صحرائے تھر تک پھیلا ہوا تھا۔ اس وسیع و عریض سلطنت کا صدر مقام لاہور تھا۔اسی لئے مورخین اسے ''تخت لاہور‘‘ کے نام کی شناخت بھی دیتے ہیں۔
رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد اس کی اولاد باہمی طور پر دست وگریباں رہی۔ خوش قسمتی سے رنجیت سنگھ کا سب سے چھوٹا بیٹا دلیپ سنگھ اس کشت و خون سے لاتعلق رہا ۔ دلیپ سنگھ ، کی ولادت 6ستمبر 1838ء کو قلعہ لاہور میں رانی جنداں کے ہاں ہوئی۔اس کی عمر ابھی نو ماہ تھی جب رنجیت سنگھ کا انتقال ہو گیا۔ 1843 میں دلیپ سنگھ کی عمر ابھی محض پانچ سال تھی جب سکھوں کی خانہ جنگیوں کے تحت اسے تخت لاہور پر بٹھانا پڑا۔اس کے ماموں جواہر سنگھ کو وزیر اعظم بنانا پڑا لیکن اصل اختیارات رانی جنداں کے ہاتھ میں ہی تھے۔
1849ء تک انگریز پنجاب پر مکمل طور پر قابض ہو چکے تھے۔انہوں نے سب سے پہلے رانی جنداں کو شیخوپورہ قلعہ بعدازاں کانچی بھجوا دیا جبکہ دلیپ سنگھ کو جان سپینر لوگن کے سپرد کر دیا گیا۔دراصل انگریز سرکار دلیپ سنگھ کو مستقبل کیلئے خطرہ سمجھنے لگے تھے۔چنانچہ 19 فروری 1850ء کو شہزادے کو لاہور سے فتح گڑھ ایک فوجی کیمپ میں بھجوا دیا گیا۔ تاریخ کی کتابوں میں اس بات کا کوئی حوالہ موجود نہیں کہ اس کے بعد شہزادے کی آمد کبھی لاہور ہوئی ہو۔ جان سپینر لوگن اور اس کی بیوی لینا لوگن نے اس کی پرورش اس انداز میں کی کہ بالآخر شہزادہ دلیپ سنگھ نے 8 مارچ 1953ء کو باقاعدہ مسیحت اختیار کر لی تھی۔ اس دوران رانی جنداں قلعہ چنار سے بھیس بدل کر نیپال منتقل ہو گئیں۔ دوسری جانب شہزادہ دلیپ سنگھ 19 ایریل 1854ء کو جلا وطن کر کے لندن روانہ کر دیا گیا جہاں ملکہ برطانیہ کی طرف سے اسے خوب پذیرائی ملی۔
دلیپ سنگھ نے دو شادیاں کی تھیں جن میں سے ایک اس نے 7 جون 1864ء کو اسکندریہ ، مصر کے قونصل خانے میں بمبا مولر نامی ایک مصری خاتون سے جبکہ دوسری شادی ایڈا نامی خاتون سے کی تھی۔ ایڈا کی یہ دوسری شادی تھی جس میں سے اس کے دو بچے پہلے سے بھی تھے جبکہ اس کے اپنے بچوں میں ، شہزادہ وکٹر، فریڈرک ، البرٹ ایڈورڈ ، شہزادی کیتھرائن ، صوفیہ اور بامبا سدر لینڈ تھے۔
دلیپ سنگھ کی دو بیٹیوں کو تاریخ میں بہت شہرت ملی ہے۔ شہزادی صوفیہ کو سماجی اور فلاحی کاموں جبکہ شہزادی بامبا کو لاہور سے والہانہ محبت کی وجہ سے۔شہزادی بامبا کی شخصیت کا سب سے نمایاں اور یادگار پہلو ان کی لاہور سے والہانہ اور لازوال محبت تھی۔بامبا 29ستمبر 1869ء کو لندن میں پیدا ہوئیں۔ لندن میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بامبا کو آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا۔اس کے بعد وہ امریکی شہر شکاگو میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے چلی گئیں۔ اس دوران بامبا کا لاہور آنا جانا لگا رہا۔
بامبا کی نس نس میں لاہور سے محبت رچی بسی ہوئی تھی۔ شہزادی بامبا کو مرتے دم تک یہ دکھ رہا کہ ان کے والد دلیپ سنگھ سے نہ صرف پنجاب کی حکومت لے لی گئی بلکہ پوری عمر ان کے لاہور داخلے پر پابندی رہی۔ 1907ء میں یہ پہلی بار ہندوستان آئیں اور ان کا زیادہ وقت لاہور میں گزرا۔ اس دوران ان کی ملاقات لاہور میں ڈیوڈ سدر لینڈ سے ہوئی جو اس وقت کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں پروفیسر تھے۔ سدر لینڈ بنیادی طور آسٹریلین تھے جن کی تعیناتی 1895ء میں ملکہ کے میڈیکل آفیسر کے طور پر ہوئی تھی۔ 1909ء میں انہوں نے سدر لینڈ سے شادی کر لی اور ساتھ ہی انہوں نے لاہور کو اپنا مستقل مسکن بنانے کا ارادہ کر لیا۔ان کا خیال تھا کہ شاید اس طرح یہ اپنے باپ دلیپ سنگھ اور اپنے دادا رنجیت سنگھ کی روح کو سکون دے سکیں گی۔ 1924ء میں انہوں نے اپنی بہن شہزادی صوفیہ اور اپنے خاوند سدر لینڈ کے ساتھ ہندوستان کا دورہ کیا۔ 19 اپریل 1939ء کو سدر لینڈ کا انتقال ہو گیا۔اس کے بعد ان کا زیادہ عرصہ لاہور میں اپنی بہن شہزادی صوفیہ کے ساتھ سماجی اور فلاحی کاموں میں گزرنے لگا۔1942ء میں ان کی بہن شہزادی کیتھرائن کی وفات کے بعد انہوں نے لاہور کو اپنا مستقل مسکن بنانے کیلئے جیل روڈ پر ایک کوٹھی میں اپنا پڑاو ڈالا جہاں وہ اپنے خاندان کی جائیداد کی دیکھ بحال میں مصروف رہنے لگیں۔ اس کام میں ان کے ساتھ ان کے خاندانی منشی اور مختار کار پیر الہی بخش ساتھ ساتھ رہے۔ یہاں دو سال رہنے کے بعد 1944ء میں یہ ماڈل ٹاؤن ایک گھر خرید کر منتقل ہو گئیں۔
13 جولائی 1946 شہزادی بامبا نے بحیثیت رنجیت سنگھ خاندان کے ایک حقیقی وارث ، ایک وکیل کی وساطت سے یو این او کو ''پنجاب حکومت‘‘ کی حوالگی کا مطالبہ کیا لیکن اسے اس درخواست کا خاطر خواہ جواب نہ مل سکا۔
تقسیم کے وقت شہزادی بامبا انگلستان، ہندوستان اور دنیا کے کسی بھی ملک رہنے کا حق رکھتی تھیں۔ اس کی بہن صوفیہ کو ملکہ وکٹوریہ نے ہیپنپٹن کورٹ محل میں ایک گھر الاٹ کر رکھا تھا اور کم وبیش ایسی ہی پیشکش شہزادی بامبا کیلئے بھی تھی لیکن انہیں تو لاہور کی مٹی سے عشق تھا اس لئے انہوں نے لاہور ہی میں جینا مرنا طے کر رکھا تھا۔ ان کے پاس بڑی تعداد میں سکھ سلطنت کی نوادرات اور دستاویزات تھیں جو انہوں نے لاہور قلعہ کی سکھ گیلری کو عطیہ کر دی تھیں۔
لاہور سے عشق کرنے والی ، سکھا شاہی سلطنت کی آخری شہزادی بامبا سدر لینڈ،88 سال کی عمر میں 10 مارچ 1957ء کومالک حقیقی سے جا ملیں۔ وصیت کے مطابق ان کی تمام جائیداد ان کے منشی پیر کریم بخش سپرا کو سونپ دی گئی تھی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
گریٹ ٹرگنو میٹریکل سروے:برصغیر کے طویل و عرض کو نا پنے کا عظیم منصوبہ

گریٹ ٹرگنو میٹریکل سروے:برصغیر کے طویل و عرض کو نا پنے کا عظیم منصوبہ

انیسویں صدی کے شروع میں جب برصغیر کی دھرتی ابھی جدید نقشوں سے ناواقف تھی، چند پُر عزم لوگوں نے ایک ایسا خواب دیکھا جو بظاہر ناممکن دکھائی دیتا تھا۔زمین کو ناپنے، پہاڑوں کو اعداد کی شناخت عطا کرنے اور فاصلوں کو زاویوں کی زبان میں سمجھنے کا یہ خواب بہتوں کے لیے اجنبی تھا۔اسی خواب نے ہندوستان کے عظیم مثلثی سروے(The Great Trigonometrical Survey of India) کو عملی شکل دی ،جو نہ صرف برصغیر بلکہ انسانی تاریخ کے طویل ترین اور پیچیدہ سائنسی منصوبوں میں شمار ہوتا ہے۔یہ کوئی عام سروے نہیں تھا، یہ ایک ایسی مہم جوئی تھی جو دلدلوں، صحراؤں، جنگلوں اور برف پوش پہاڑوں کو ناپنے کے لیے تقریباً سات دہائیوں تک جاری رہی۔ اس سفر میں انسان نے فطرت کو للکارا نہیں بلکہ اسے سمجھنے کی کوشش کی۔ایک خیال، ایک آغازگریٹ سروے کاِ آغاز 1802ء میں ہوا جب برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے محسوس کیا کہ مؤثر حکمرانی، فوجی نقل و حرکت، ٹیکس وصولی اور وسائل کے استعمال کے لیے درست نقشوں کی اشد ضرورت ہے۔ اس منصوبے کی بنیاد کرنل ولیم لیمبٹن (William Lambton) نے رکھی جو ایک برطانوی فوجی افسر اور ماہرِ فلکیات تھے۔ لیمبٹن کے لیے یہ محض ایک سرکاری ذمہ داری نہیں تھی بلکہ ایک سائنسی جنون تھا۔ وہ جانتے تھے کہ اگر ایک درست بنیاد (Baseline) قائم ہو جائے تو زاویوں کی مدد سے ہزاروں میل کے فاصلے ناپے جا سکتے ہیں۔ عظیم مثلثی سروے کا بنیادی طریقہ مثلثی پیمائش (Triangulation) تھا۔ اس طریقے میں زمین کے ایک خطے میں ایک سیدھی بنیاد (Baseline) ناپی جاتی پھر اس بنیاد سے مختلف زاویوں کے ذریعے دور دراز مقامات کے درمیان فاصلوں کا حساب لگایا جاتا۔ اس مقصد کے لیے اُس وقت کے جدید ترین آلات استعمال کیے گئے، جن میں تھیوڈو لائٹ (Theodolite)،فلکیاتی آلات،دوربینیں اور پیمائشی زنجیریں شامل تھیں۔ یہ آلات اُس دور میں خاصے جدید سمجھے جاتے تھے۔ خاص طور پر گریٹ تھیوڈولائٹ جس کا وزن سینکڑوں کلوگرام تھا نہایت دقت کے ساتھ زاویوں کی پیمائش کے لیے استعمال کیا گیا۔بھاری بھرکم تھیوڈولائٹ کو کندھوں پر اٹھائے سروے ٹیمیں میلوں سفر کرتیں۔ یہ آلہ اتنا وزنی تھا کہ کئی آدمی مل کر اسے حرکت دیتے۔ سورج کی تپش، بارش کی شدت اور وباؤں کو جھیلتے ہوئے یہ لوگ زاویے ناپتے، حساب لگاتے اور اعداد کو کاغذوں پر منتقل کرتے رہے۔یہ وہ دور تھا جب ملیریا، ہیضہ اور کئی نامعلوم بیماریوں نے سینکڑوں جانیں لیں مگر سروے کا سفر نہ رکا۔ لیمبٹن خود بھی اسی مشقت کا شکار ہو کر دنیا سے رخصت ہو ئے، مگر اُن کا خواب زندہ رہا۔ایورسٹ اور بلندیوں کی کہانیلیمبٹن کے بعد یہ مشن سر جارج ایورسٹ کے ہاتھ آیا جن کا نام آج دنیا کی سب سے بلند چوٹی سے جڑا ہوا ہے۔ ان کے دور میں سروے شمال کی طرف بڑھا جہاں ہمالیہ کی خاموش اور پراسرار چوٹیاں انسانی صلاحیتوں کو چیلنج کرتی تھیں۔ایورسٹ کے جانشین اینڈریو واہ (Andrew Scott Waugh)نے ان پہاڑوں کو صرف دیکھا نہیں بلکہ ناپا بھی۔ انہی کی نگرانی میں دنیا کی بلند ترین چوٹی کو پہلی بار درست طور پر ماپا گیا جو بعد میں ماؤنٹ ایورسٹ کہلائی۔گمنام ہیرواس عظیم منصوبے کی تاریخ میں چند انگریز نام نمایاں ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ہزاروں مقامی ہندوستانی اور پاکستان کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اس مشن کا حصہ تھے۔ نقشہ نویس، حساب دان، قلی، رہنما اور مزدور ‘ جنہوں نے اس علم کی عمارت میں اپنی محنت کی اینٹیں رکھیں مگر تاریخ ان کے نام محفوظ نہ رکھ سکی۔پاکستان کیلئے گریٹ سروے کی معنویتاگر آج ہم پاکستان کے نقشے کو دیکھتے ہیں تو اس کے پیچھے گریٹ سروے کی خاموش موجودگی کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔قیامِ پاکستان کے بعد جو سرحدیں متعین ہوئیں ان کے جغرافیائی نکات اسی سروے سے ماخوذ تھے۔ پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے کئی علاقوں کی حد بندیاں انہی پیمائشوں پر قائم ہیں۔دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کی جس تفصیل نے پاکستان کو ایک زرعی ریاست بنایا اس کی ابتدائی سائنسی بنیاد اسی سروے نے رکھی۔آج بھی عسکری نقشہ سازی، بلندیوں کی پیمائش اور زمینی معلومات میں وہی اصول استعمال ہوتے ہیں جو گریٹ سروے نے متعارف کروائے تھے۔ سڑکیں، ریلوے لائنیں اور شہر سب اسی جغرافیائی شعور کے مرہونِ منت ہیں جو عظیم مثلثی سروے سے جنم لے کر آج تک جاری ہے۔گریٹ سروے محض زمین ناپنے کا منصوبہ نہیں تھا یہ انسانی حوصلے، سائنسی دیانت اور وقت کے خلاف جدوجہد کی داستان ہے۔ اگرچہ اس کا مقصد نوآبادیاتی حکمرانی کو مضبوط کرنا تھا مگر اس نے ایسے علمی خزانے چھوڑے جو آج بھی پاکستان جیسے ممالک کے لیے بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔گریٹ سروے محض ایک نوآبادیاتی منصوبہ نہیں تھا بلکہ یہ سائنس، صبر اور انسانی محنت کی ایک عظیم مثال ہے۔ اگرچہ اس کا مقصد برطانوی انتظامی مفادات تھا لیکن اس کے نتائج آج بھی پاکستان سمیت پورے خطے کے لیے نہایت اہم ہیں۔ یہ سروے ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ درست علم، تحقیق اور منصوبہ بندی قوموں کی جغرافیائی اور تاریخی شناخت کو کس طرح تشکیل دیتی ہے۔

2025مصنوعی ذہانت کا سال

2025مصنوعی ذہانت کا سال

2025ء کو مصنوعی ذہانت (AI) کے عالمی اثرات کے حوالے سے ایک اہم موڑ قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ سال وہ مرحلہ ثابت ہوا جب اے آئی محض ایک جدید ٹیکنالوجی نہیں رہی بلکہ انسانی زندگی، معیشت، تعلیم، صحت اور حکمرانی کے نظام کا لازمی حصہ بن گئی۔ جس رفتار سے اے آئی نے ترقی کی اس نے نہ صرف دنیا کو متاثر کیا بلکہ روایتی ڈھانچوں کو بھی چیلنج کر دیا۔2025ء میں عام انسان کی روزمرہ زندگی اے آئی سے گہری وابستگی اختیار کر چکی ہے۔ سمارٹ فونز، گھریلو آلات، گاڑیاں اور حتیٰ کہ ذاتی معاون (Personal Assistants) بھی مصنوعی ذہانت پر انحصار کرنے لگے۔ آواز سے چلنے والے اسسٹنٹس، خودکار نظام الاوقات، صحت کی نگرانی کرنے والی ایپس اور مالی مشورے دینے والے چیٹ بوٹس نے انسانی سہولتوں میں نمایاں اضافہ کیا۔ اے آئی نے وقت کی بچت، درست فیصلوں اور بہتر معیارِ زندگی میں اہم کردار ادا کیا۔تعلیم میں انقلابی تبدیلیتعلیمی شعبے میں 2025ء کے دوران اے آئی نے انقلابی تبدیلیاں متعارف کروائیں۔ ذاتی نوعیت کے تعلیمی نظام (Personalized Learning) نے ہر طالب علم کی استعداد کے مطابق نصاب اور رفتار کو ممکن بنایا۔ آن لائن اساتذہ، خودکار اسائنمنٹ چیکنگ، ترجمہ اور تحقیقی معاونت نے تعلیم کو زیادہ قابلِ رسائی بنا دیا۔ تاہم اس کے ساتھ یہ سوال بھی اٹھا کہ کیا طلبہ کی تخلیقی صلاحیت متاثر ہو رہی ہے اور اساتذہ کا کردار محدود تو نہیں ہو رہا؟معیشت اور روزگار2025ء میں عالمی معیشت پر اے آئی کے اثرات دو دھاری تلوار ثابت ہوئے۔ ایک جانب پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوا، صنعتیں زیادہ مؤثر ہوئیں اور نئے کاروباری مواقع پیدا ہوئے۔ دوسری جانب روایتی ملازمتیں، خصوصاً دفتری اور تکنیکی شعبوں میں، خطرے میں پڑ گئیں۔ ڈیٹا اینالسٹ، اے آئی ٹرینر، سائبر سیکیورٹی ماہر اور روبوٹکس انجینئر جیسے نئے پیشے ابھرے جبکہ غیر ہنر مند افراد کے لیے خدشات میں اضافہ ہوا۔صحت کے شعبے میں انقلابطبی میدان میں اے آئی نے 2025ء میں غیر معمولی پیش رفت دکھائی۔ بیماریوں کی بروقت تشخیص، کینسر اور دل کے امراض کی پیش گوئی، روبوٹک سرجری اور ذہنی صحت کے معاون ٹولز نے علاج کو مؤثر بنایا۔ دیہی اور دور دراز علاقوں میں ٹیلی میڈیسن کے ذریعے علاج ممکن ہوا۔ تاہم مریضوں کے ڈیٹا کی رازداری اور اخلاقی حدود ایک بڑا چیلنج بن کر سامنے آئیں۔حکمرانی، دفاع اور نگرانیحکومتی سطح پر اے آئی کا استعمال نگرانی، ٹیکس نظام، ٹریفک کنٹرول اور عوامی خدمات میں بڑھا۔ دفاعی شعبے میں خودکار ہتھیاروں اور ڈرون ٹیکنالوجی نے عالمی سلامتی کے توازن کو متاثر کیا۔ کئی ممالک نے اے آئی کے فوجی استعمال کو محدود کرنے کے لیے بین الاقوامی قوانین پر زور دیا، مگر مکمل اتفاق رائے حاصل نہ ہو سکا۔اخلاقی اور سماجی چیلنجز2025ء میں سب سے بڑا سوال یہ رہا کہ کیا مصنوعی ذہانت انسان کے لیے فائدہ مند ثابت ہو رہی ہے یا خطرہ؟ ڈیٹا پر اجارہ داری، انسانی ملازمتوں کا خاتمہ، تعصبات پر مبنی الگورتھمز اور پرائیویسی کی خلاف ورزیاں سنگین مسائل کے طور پر سامنے آئیں۔ دنیا بھر میں یہ بحث شدت اختیار کر گئی کہ اے آئی کو کس حد تک آزادی دی جائے اور اس کی نگرانی کون کرے۔آنے والے سالوں میں ممکنہ تبدیلیاںآنے والے برسوں میں توقع ہے کہ اے آئی مزید خودمختار، تیز اور ذہین ہو جائے گی۔ انسانی اور مشینی ذہانت کا امتزاج (Human-AI collaboration) بڑھنے کا امکان ہے۔ تعلیم اورصحت میں انسان کا کردار ختم نہیں ہوگا بلکہ اس کی نوعیت تبدیل ہو جائے گی۔ حکومتیں سخت قوانین، اخلاقی فریم ورک اور شفاف نظام متعارف کرائیں گی تاکہ اے آئی کو انسانی فلاح کے لیے استعمال کیا جا سکے۔2025ء میں مصنوعی ذہانت نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا مگر یہ تبدیلی ابھی اختتام پذیر نہیں ہوئی۔ اصل امتحان آنے والے سالوں میں ہوگا کہ انسان اس طاقتور ٹیکنالوجی کو کس سمت میں لے جاتا ہے۔ اگر دانشمندی، اخلاقیات اور مساوات کو مدنظر رکھا گیا تو اے آئی انسانیت کے لیے ترقی کا ذریعہ بن سکتی ہے، بصورت دیگر یہ نیا بحران بھی جنم دے سکتی۔

آج کا دن

آج کا دن

فیڈرل ریزرو ایکٹ پر دستخط 23 دسمبر 1913 ء کو امریکہ کے صدر ووڈرو ولسن نے فیڈرل ریزرو ایکٹ پر دستخط کیے جس کے نتیجے میں فیڈرل ریزرو سسٹم قائم ہوا۔ یہ ایکٹ امریکہ کا مرکزی بینک بنانے والا قانونی فریم ورک تھا جس کا مقصد ملکی مالیاتی نظام کو مستحکم کرنا، بینکنگ بحرانوں کو روکنا، اور معیشت میں پیسے کے بہاؤ کو منظم کرنا تھا۔ فیڈرل ریزرو سسٹم کی تشکیل اس وقت کے عالمی اقتصادی منظرنامے میں ایک اہم قدم تھا۔ 1907ء کے مالیاتی بحران کے دوران امریکی مالیاتی نظام میں شدید بے قاعدگیاں سامنے آئیں جس نے قانون سازوں کو مجبور کیا کہ وہ ایک مضبوط اور مرکزیت والا انتظامی نظام قائم کریں جو مالیاتی لیکویڈیٹی فراہم کرے اور بینکنگ سیکٹر پر اعتماد بحال کرے۔ وییک آئی لینڈپر سرینڈر 23 دسمبر 1941ء کو دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکی اور جاپانی افواج کے درمیان ایک اہم معرکہ ہوا۔ جاپانی افواج نے وییک آئی لینڈ پر حملہ کیا۔ ابتدائی دنوں تک امریکی افواج نے مقابلہ کیا لیکن جاپانی افواج کے دباؤ اور تعداد میں برتری کے باعث امریکی افواج نے شکست تسلیم کرلی اور جزیرے کاقبضہ جاپانیوں کے ہاتھ آگیا۔ وییک آئی لینڈ کی لڑائی بحرالکاہل میں جاپانی پیش قدمی کا حصہ تھی۔وییک آئی لینڈ پر 11 دسمبر سے لڑائی شروع ہوئی اور 23 دسمبر کو امریکی دستے مجبور ہوئے کہ وہ روایتی فوجی اصولوں کے تحت سرینڈر کر دیں۔ ٹرانزسٹر کا مظاہرہ 23 دسمبر 1947ء کو امریکی سائنسدانوں جان بارڈین، والٹر بریٹن، اور ولیم شاکلے نے ٹرانزسٹر کا مظاہرہ کیا جو آج کے تمام الیکٹرانک آلات کا بنیادی جزو ہے۔ٹرانزسٹر ایک چھوٹا سیمی کنڈکٹر ڈیوائس ہے جو برقی سگنلز کو بڑھاتا یا سوئچ کرتا ہے جس نے الیکٹرانکس میں انقلاب برپا کر دیا۔ ٹرانزسٹر سے پہلے الیکٹرانک آلات میں ویکیوم ٹیوبز استعمال ہوتی تھیں جو بڑی، بھاری اور کم مؤثر تھیں۔ اس دریافت نے جدید الیکٹرانکس کو جنم دیا اور کمپیوٹر، موبائل فون، ٹی وی اور دیگر ہزاروں آلات کی ترقی کی راہ ہموار کی اورالیکٹرانکس کا سائز چھوٹا ہوا۔ تینوں سائنسدانوں کو 1956ء میں نوبل انعام برائے طبیعیات دیا گیا۔ نیپال میں بادشاہت کا خاتمہ 23 دسمبر 2007ء کو نیپال نے بادشاہت کے نظام کو ختم کر کے وفاقی جمہوریہ کا اعلان کیا۔ نیپال کی بادشاہت نہ صرف روایتی طور پر طویل عرصے تک قائم رہی بلکہ اس نے ملک کی سیاست، سماجی ڈھانچے اور قومی شناخت پر گہرے اثرات بھی چھوڑے۔تاہم 1990ء کی دہائی میں جمہوری تحریک نے بادشاہت کے خلاف آواز بلند کی جس کے بعد 2006ء میں بھی ایک وسیع عوامی تحریک نے بادشاہت کو کمزور کر دیا۔آخر کار 2007 میں باقاعدہ طور پر اعلان ہوا کہ نیپال اب بادشاہت نہیں بلکہ ایک جمہوری ریاست کے طور پر مستقبل کی سمت طے کرے گا۔

مصنوعی مٹھاس :دل اور دماغ کیلئے خاموش خطرہ

مصنوعی مٹھاس :دل اور دماغ کیلئے خاموش خطرہ

حالیہ سائنسی تحقیق نے عوامی صحت سے متعلق ایک نہایت تشویشناک پہلو کو اجاگر کیا ہے۔ تحقیق کے مطابق شوگر فری مصنوعات میں استعمال ہونے والا مصنوعی میٹھا نہ صرف دل بلکہ دماغ کیلئے بھی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ برسوں سے وزن کم رکھنے اور شوگر کے متبادل کے طور پر استعمال ہونے والی یہ مٹھاس اب طبی ماہرین کی توجہ کا مرکز بن چکی ہے۔ اس نئی تحقیق نے اس تاثر کو چیلنج کیا ہے کہ مصنوعی مٹھاس مکمل طور پر محفوظ ہے، اور یوں صارفین کیلئے یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ کیا سہولت اور ذائقے کی خاطر صحت کو خطرے میں ڈالنا دانش مندی ہے؟۔نئی تحقیق میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ مصنوعی مٹھاس سے تیار کردہ کاربونیٹڈ مشروبات کا باقاعدہ استعمال دل اور دماغ کو نقصان پہنچنے کے خطرات میں اضافہ کر سکتا ہے۔''ایسپرٹیم‘‘(Aspartame) جو ڈائٹ مشروبات و دیگر کھانے والی اشیاء میں پایا جاتا ہے، طویل عرصے سے کینسر، بلند فشارِ خون اور فالج جیسے امراض کے خدشات سے منسلک سمجھا جاتا رہا ہے۔اب ہسپانوی محققین کا کہنا ہے کہ اس مادے کی زیادہ مقدار نہ صرف دماغ بلکہ دل کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہے۔چوہوں پر کی گئی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ ایسپرٹیم کی زیادہ مقدار دل کے مرض ''کارڈک ہائپر ٹرافی‘‘ کے خطرے میں تقریباً 20 فیصد اضافے کا خطرہ بڑھا دیتی ہے۔ اس کیفیت میں دل کے پٹھے موٹے ہو جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ذہنی صلاحیتوں میں تیز رفتاری سے کمی بھی دیکھی گئی۔محققین نے یہ بھی پایا کہ جانوروں میں جسمانی چربی تقریباً پانچویں حصے تک کم ہو گئی۔جریدے بایومیڈیسن اینڈ فارماکو تھیراپی میں شائع ہونے والی تحقیق میں سان سیباسٹیان کے سنٹر فار کوآپریٹو ریسرچ اِن بایومیٹیریلز سے وابستہ محققین نے حکام پر زور دیا کہ ایسپرٹیم کے موجودہ استعمال سے متعلق رہنما اصولوں پر نظر ثانی کی جائے۔محققین کے مطابق: ''ایسپرٹیم واقعی چوہوں میں چربی کے ذخائر کو 20 فیصد تک کم کرتا ہے، مگر اس کی قیمت دل کے ہلکے بڑھاؤ اور ذہنی کارکردگی میں کمی کی صورت میں ادا کرنا پڑتی ہے۔اگرچہ یہ مصنوعی مٹھاس چوہوں میں وزن کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے، لیکن اس کے ساتھ دل میں مرضیاتی تبدیلیاں اور ممکنہ طور پر دماغ پر منفی اثرات بھی سامنے آتے ہیں‘‘۔''یہ نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ منظور شدہ مقدار میں بھی ایسپرٹیم اہم اعضا کی کارکردگی کو متاثر کر سکتا ہے، لہٰذا انسانوں کے لیے اس کے محفوظ استعمال کی حد پر ازسرِنو غور کرنا مناسب ہوگا۔‘‘تحقیق کے دوران چوہوں کو جسمانی وزن کے ہر کلوگرام کے حساب سے 7 ملی گرام ایسپرٹیم کی خوراک دی گئی۔ یہ خوراک ہر دو ہفتے بعد مسلسل تین دن تک دی جاتی رہی۔اس کے مقابلے میں عالمی ادارہ صحت (WHO)، یورپی میڈیسن ایجنسی اور امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کے مطابق انسانوں کیلئے یومیہ محفوظ حد جسمانی وزن کے ہر کلوگرام کے حساب سے 50 ملی گرام سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ایک سال پر محیط مشاہدے کے دوران ایسپرٹیم استعمال کرنے والے چوہوں میں دل کی پمپنگ صلاحیت میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ بائیں وینٹریکل میں یہ کمی 26 فیصد جبکہ دائیں وینٹریکل میں 20 فیصد ریکارڈ کی گئی۔محققین نے یہ بھی پایا کہ دل کے دائیں اور بائیں وینٹریکلز کو جدا کرنے والی موٹی عضلاتی دیوار (سیپٹل کَروَیچر) میں 25 فیصد کمی واقع ہوئی۔ مطالعے کے مطابق چوہوں میں ''اعصابی و رویّاتی تبدیلیوں‘‘ کے آثار اور ''دماغ میں ممکنہ مرضیاتی تبدیلیاں‘‘ بھی دیکھی گئیں۔ تاہم سائنس دانوں نے تحقیق کی چند حدود کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ مطالعے کا دورانیہ محدود تھا اور اس حوالے سے طویل المدتی تحقیق کی ضرورت ہے۔دوسری جانب انٹرنیشنل سویٹنرز ایسوسی ایشن (ISA) نے نتائج کی تشریح میں احتیاط برتنے پر زور دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ ان نتائج کو براہِ راست انسانوں پر لاگو نہیں کیا جا سکتا۔ انٹرنیشنل سویٹنرز ایسوسی ایشن (ISA) کے ڈائریکٹر جنرل لاوراں اوجرنے ڈیلی میل کو بتایا: ''انسان اور چوہوں کے درمیان اہم جسمانی فرق، جیسے کہ میٹابولزم، عمر کا دورانیہ، دل کی ساخت اور دماغ میں توانائی کا استعمال، اس تحقیق کے نتائج کی مطابقت کو محدود کرتے ہیں۔خاص طور پر، چوہوں میں جسمانی وزن اور چربی میں کمی انسانی کلینیکل ٹرائلز کے شواہد سے مطابقت نہیں رکھتی، جو ظاہر کرتے ہیں کہ ایسپرٹیم اور دیگر کم یا صفر کیلوری سویٹنرز بذاتِ خود جسمانی وزن پر اثر انداز نہیں ہوتے۔یہ زیادہ تر وزن کے انتظام میں مدد کر سکتے ہیں کیونکہ یہ شوگر کی مقدار کم کرتے ہیں اور یوں مجموعی توانائی کی مقدار میں کمی لاتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ''دل اور عصبی رویّے میں ہونے والی تبدیلیاں بھی عمر رسیدہ چوہوں میں دیکھی گئی، جس سے یہ علیحدہ کرنا مشکل ہے کہ یہ اثرات ایسپرٹیم کی وجہ سے ہیں یا عمر رسیدگی کی معمولی علامات ہیں۔ایسپرٹیم پر بے شمار سائنسی تحقیقات ہو چکی ہیں اور اسے عالمی فوڈ سیفٹی حکام نے محفوظ قرار دے کر منظوری دی ہے۔ اس سے قبل بھی مصنوعی مٹھاس اور کینسر کے تعلقات کے حوالے سے تشویش ظاہر کی گئی تھی۔ یہ خدشات 2023ء میں شدت اختیار کر گئے جب عالمی ادارہ صحت (WHO) نے ایسپرٹیم کو انسانوں کیلئے ممکنہ طور پر سرطان پیدا کرنے والا قرار دیا تھا۔

انٹرنیٹ کی رفتار افریقی ممالک سے بھی کم: برطانوی شہری ڈیجیٹل عدم مساوات کا شکار

انٹرنیٹ کی رفتار افریقی ممالک سے بھی کم: برطانوی شہری ڈیجیٹل عدم مساوات کا شکار

براڈبینڈ بلیک اسپاٹ میں پھنسے ایک لاکھ 30ہزار گھرانے آن لائن دنیا سے محرومبرطانیہ کے ہزاروں گھرانے آج بھی انٹرنیٹ کی سست رفتاری کا سامنا کر رہے ہیں، جس کی رفتار بعض افریقی ممالک جیسے لیبیا، کیمرون اور نمیبیا سے بھی کم ہے۔ تحقیق کے مطابق تقریباً ایک لاکھ 30 ہزار برطانوی گھروں کو ''براڈبینڈ بلیک اسپاٹ‘‘ کا سامنا ہے، جہاں آن لائن تعلیم، کام اور تفریح کے مواقع محدود ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل عدم مساوات ملکی ترقی اور روزمرہ زندگی پر منفی اثر ڈال رہی ہے، اور یہ صورتحال شہری و دیہی علاقوں کے درمیان تکنیکی تقسیم کو مزید بڑھا رہی ہے۔برطانیہ میں ہر شخص کو قانونی حق حاصل ہے کہ اسے کم از کم 10 ایم بی پی ایس (میگابِٹس فی سیکنڈ) کی ڈاؤن لوڈ اسپیڈ ملے ، جو عام طور پر ٹی وی پروگرامز کو آن لائن دیکھنے کیلئے کافی سمجھی جاتی ہے۔اس حد سے کم رفتار پر ویڈیو مواد بار بار رُکے گا، جبکہ زیادہ تصاویر والے ویب صفحات لوڈ ہونے میں زیادہ وقت لیں گے۔ تاہم انگلینڈ کے ایسے علاقوں کی ڈیلی میل کی تجزیاتی رپورٹ، جنہیں براڈبینڈ کے ''بلیک اسپاٹس‘‘ قرار دیا گیا ہے، ظاہر کرتی ہے کہ ویسٹ ڈیون کے 9 فیصد گھروں کو فکسڈ لائن کنکشن کے ذریعے یہ اسپیڈ مل ہی نہیں سکتی۔گزشتہ ماہ کے اعداد و شمار کے مطابق، اوسط ڈاؤن لوڈ اسپیڈ لیبیا میں 10.7 ایم بی پی ایس، کیمرون میں 11.9 ایم بی پی ایس اور نمیبیا میں 15.6 ایم بی پی ایس ریکارڈ کی گئی۔ جنگ سے تباہ حال ملک شام (3.4 ایم بی پی ایس) سپیڈ ٹیسٹ کے مطابق دنیا میں سب سے آخر میں رہا۔ سنگاپور نے سب سے زیادہ 400.68 ایم بی پی ایس کی رفتار کے ساتھ پہلا مقام حاصل کیا۔ برطانیہ میں انٹرنیٹ اسپیڈ کی اوسط 147.4 ایم بی پی ایس رہی۔تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اب بھی 72 ہزار رہائشی مقامات ایسے ہیں جہاں انٹرنیٹ کی رفتار 5 میگا بِٹس فی سیکنڈ (Mbps) تک بھی دستیاب نہیں ہے۔ ''یونیورسل سروس آبلیگیشن‘‘ (universal service obligation) (USO) کے تحت، جسے 2020ء میں نافذ کیا گیا، صارفین کو یہ قانونی حق حاصل ہے کہ وہ مناسب براڈبینڈ کنکشن کا مطالبہ کر سکیں، بشرطیکہ اس کیلئے درکار ممکنہ کام کی لاگت 3,400 پاؤنڈ سے زیادہ نہ ہو۔ اس معیار کے مطابق مناسب براڈبینڈ کی تعریف یہ ہے: ''ڈاؤن لوڈ اسپیڈ 10 Mbps جبکہ اپ لوڈ اسپیڈ 1 Mbps ہو‘‘۔ہاؤس آف کامنز لائبریری کے مطابق، یہ رفتار صارفین کو یہ سہولت دیتی ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں فلمیں اسٹریمنگ کر سکیں، ویڈیو کالز کر سکیں اور ویب براؤزنگ کر سکیں۔ اس رفتار کے ساتھ، ایک گھنٹے کی ہائی ڈیفینیشن (HD) ویڈیو ڈاؤن لوڈ کرنے میں تقریباً 13 منٹ لگتے ہیں۔جب اوفکام کے اعداد و شمار کا تجزیہ مقامی انتظامیہ کی سطح پر کیا گیا تو ویسٹ ڈیون کے بعد ٹوریج (Torridge) کا نمبر آیا، جہاں 8.5 فیصد گھروں کو 10 Mbps کی رفتار دستیاب نہیں تھی۔ٹاپ فائیو میں شامل دیگر علاقے یہ تھے:مِڈ ڈیون... 6.2فیصد ایسٹ لنڈزی (لنکن شائر) ... 4فیصد ویسٹ لنڈزی (لنکن شائر)... 4فیصددوسری جانب، 39 کونسلز ایسے بھی تھے جہاں کسی بھی مقام پر انٹرنیٹ کی رفتار ''یونیورسل سروس آبلیگیشن‘‘ (USO) کی مقررہ حد سے کم نہیں تھی۔اوفکام کے اعداد و شمار کے مطابق براڈبینڈ سہولیات کو مزید چھوٹے علاقوں میں بھی پرکھا جا سکتا ہے، جنہیں ''مڈل سپر آئوٹ پٹ ایریاز‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ایسے محلوں پر مشتمل ہوتے ہیں جہاں اوسطاً 10ہزار افراد رہتے ہیں۔ ملک کا سب سے خراب علاقہ Lympne اور Palmarsh پایا گیا، جہاں 51 میں سے 47 گھروں یعنی 92.2فیصد کو 10 Mbps ڈاؤن لوڈ اسپیڈ تک رسائی حاصل نہیں تھی۔ماہرین کے مطابق انگلینڈ کے براڈبینڈ مسائل کی جڑ 1992ء میں مارگریٹ تھیچر کی حکومت کے دور میں ایک منصوبہ جاتی غلطی تھی۔

کالج کے لڑکے

کالج کے لڑکے

یوں تو ان کی کاشت ہر موسم، ہر آب و ہوا اور ہر ملک میں کی جاتی ہے۔ لیکن آپ جانئے ہر ملک کی روایات الگ الگ ہوتی ہیں اور اسی میں شان ہے۔ ہمارے ملک کی شان چونکہ سب سے الگ ہے لہٰذا دنیا بھر میں لڑکوں کی کاشت کے اعتبار سے ہمارا ملک سب سے زرخیز واقع ہوا ہے۔ یہاں کے باشندوں نے بنجر مقامات پر بھی ان کی کاشت کرکے ملک کو زرخیز و مالامال کردیا ہے۔ اس کے بارے میں کچھ ماہرین کا خیال ہے ''زیادہ غلّہ اگاؤ‘‘ کی تحریک کو جب سے ''زیادہ لڑکے پڑھاؤ‘‘ میں سمویا گیا ہے تب سے یونیورسٹیاں لڑکوں سے کھچاکھچ بھرنے لگی ہیں۔ ان میں سے پہلی قسم ''حوالی طلبا‘‘ کی ہے جو اسی نام سے مشہور بھی ہے، خود ان طلبا کے بارے میں اب تک یہ طے نہیں کہ واقعی ان کا وجود ہے بھی یا صرف 'حوالے کی کتابوں‘ کی طرح حوالے ہی حوالے ہیں۔ ان طلبا کو یونیورسٹی کے ناخدا، لارڈ، منکر نکیر اور کراماً کاتبین بھی کہا جاسکتا ہے۔یونیورسٹی میں ہونے والے کھیل تماشے، مشاعرے، قوالی، پکے گانے، ہلے پھلکے پروگرام، جلسے، جلوس وغیرہ کے یہ سولہ آنے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ان کے نام سے یونیورسٹی بھر واقف ہوتی ہے۔ آس پاس کے موچی ان کے نام لے کر اپنی دکانیں سڑکوں کے کنارے جماتے ہیں۔ بات بات میں ان کی تصاویر اور بیانات اخبارات، ہینڈبلس اور لیف لیٹس میں اچھلتے نظر آتے ہیں۔ مگر یہ خود نظر نہیں آتے گوکہ ان کا ذکر ہوتا ہے۔ تمام انتظامی امورمیں ان کا خاص و عام ہاتھ ہوتا ہے۔ یہ تخت رہے یا تختہ کے قائل ہوتے ہیں۔ مگر کچھ دشمنوں کا شک ہے کہ یہ لوگ فاترالعقل اور بوہیمین ہوتے ہیں جبکہ ہمارا شک ہے کہ بات کچھ اور ہے اور جو شاید خود ہم بھی نہیں جانتے ورنہ آپ سے کیا پردہ تھا۔ان طلبا کی پہچان یہ ہے کہ یہ آپ کو ہر وقت چلتے پھرتے نظر آئیں گے۔ مگر ان کے چلنے کے راستے مقرر ہیں۔ اگر آپ کو ان کی تلاش آنکھ بند کرکے کرنا مقصود ہے تو ہماری رائے میں آپ کامن روم کے سامنے چلے جائیے۔ یہی ایک پرفضا مقام ہے جہاں یہ لوگ موقع پاتے ہی تبدیل آب وہ ہوا کی غرض سے پہنچ جاتے ہیں۔ ویسے یہ شام کو حضرت گنج میں ہوا خوری کرتے نظر آئیں گے جہاں یہ میل روز، ایروز، کوالٹی اور اسی طرح کے انگریزی ہوٹلوں میں نقرئی قہقہوں سے اپنے کھوکھلے قہقہے ملاتے ہوں گے۔ اگر آپ کو ان کی تمیز کرنا مقصود ہے تو آپ اپنی آنکھیں کھول کر ان کو بجائے تلاش کرنے کے ٹٹولئے یہ کہیں نہ کہیں زور زور سے کسی اہم مسئلے پر کسی نیم ریٹائرڈ قسم کے بزرگ سے بحث کرتے ہوں گے۔ ان کے پیچھے بہت سے عقیدت مندوں کا ہجوم ہوگا۔ خاص بات یہ ہوگی کہ سب ان کا نام جانتے ہوں گے اور عام بات یہ ہوگی کہ یہ خود کسی کا نام نہ جانتے ہوں گے۔ یہ آپ کو کسی نہ کسی لیڈر یا پروفیسر وغیرہ کو کسی ہونے والی میٹنگ کی صدارت کیلئے اکساتے ہوئے ملیں گے۔ ہر تقریب میں آپ بہ آسانی ان کو صدر کے دائیں بائیں دیکھ سکتے ہیں۔تمام مقابلے غالباً انہی طلباء کیلئے کروائے جاتے ہیں۔ امتحانات میں فرسٹ کلاس اور تھرڈ کلاس شاید انہی نے جاری کروایا تھا۔ غرض یہ کہ وہ محفل محفل نہ ہوگی جہاں یہ پالا نہ مارلے جائیں۔ ہر لکھا پڑھی کے کام میں ان کا نام سب سے اوپر ہوگا یا سب سے نیچے مگر ہوگا ضرور۔ یہ تھوڑا سا فرق جو فرسٹ کلاس اور تھرڈ کلاس میں پیدا ہوجاتا ہے، وہ ان طلبا کی ستم ظریفی نہیں بلکہ خیالات کا ٹکراؤ ہے کیونکہ کچھ طلبا کا خیال ہے کہ ٹاپ اوپر سے یعنی ٹاپ سے کیا جائے اور کچھ کا خیال ہے کہ ٹاپ نیچے سے یعنی باٹم سے کیا جائے۔ ان کا اعتقاد اسی بات پر ہے کہ ناک ناک ہی ہوتی ہے خواہ اِدھر سے پکڑ لو یا ادھر سے۔ باقی جو کسر ٹاپ کرنے میں رہ جاتی ہے وہ یہ طلبا، ٹیپ ٹاپ سے پوری کرلیتے ہیں۔ ان کے ٹیپ ٹاپ کرنے کے بھی دو طریقے ہیں۔ کچھ طلبا کا خیال ہے کہ ''اعلیٰ خیالات سادہ زندگی‘‘ جبکہ بقیہ طلبا کا قول ہے کہ نہیں نہیں ''اعلیٰ زندگی اور سادہ خیالات‘‘ ہونا چاہیے۔ مگر پروفیسر اوٹ پٹانگ کا خیال ہے کہ یہ طے کرنا بہت مشکل ہے کہ خیالات اور زندگی میں کس کو اعلیٰ اور کس کو سادہ ہونا چاہیے۔طلباء کا دوسرا گروہ پہلے والے گروہ سے مختلف ہوتا ہے۔ یعنی زندگی اعلیٰ پسند کرتاہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ آپ ان کے جوتوں میں جو شیشے سے زیادہ چمک دار ہوتے ہیں بہ آسانی اپنا چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔ یہ نہایت اعلیٰ قسم کے سوٹ پہنے ہوتے ہیں جو ٹاٹ، چمڑے یا کینویس وغیرہ کے معلوم ہوتے ہیں۔ ان کے چہروں کے بارے میں ہم آپ سے کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ آپ کو ان کے منہ پر کریم، پاؤڈر اور اسنو ملے گا مگر چہرہ نہیں ملے گا۔ مگر ہاں اگر آپ نہار منہ صبح سویرے ان کا منہ دیکھنا گوارا کریں تو ممکن ہے ان کے چہرے کا درشن ہوجائے۔ان طلبا کے بات چیت کے طریقے ان کے کھانے پینے کے طریقوں سے مختلف ہوتے ہیں مگر پھر بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات نہیں کریں گے بلکہ کھاجائیں گے۔ جب کسی مسئلہ پر بات چیت ہوگی تو ایسا ظاہر کریں گے کہ بس ان کے جانے کی دیر ہے۔ گئے نہیں کہ مسئلہ حل ہوا۔ حالانکہ ان سے مسئلہ حل ہونا ایک دوسرا مسئلہ ہوگا مگر چونکہ ان کو بات چیت کرنے اور خطاب کرنے کی لت ہوتی ہے اس وجہ سے ہمیشہ صرف بڑے بڑے مسائل کوہاتھ لگاتے ہیں اور بات کرنے میں برابر ہاتھ پیر ہلانے، گھونسا دکھانے، گردن ہلانے، کندھے اچکانے اور منھ چڑھانے سے بھی نہیں چوکتے۔