بامبا سدرلینڈ تخت لاہور کی آخری شہزادی

بامبا سدرلینڈ تخت لاہور کی آخری شہزادی

اسپیشل فیچر

تحریر : خاور نیازی


تاریخ سے منقول ہے '' اس نے اپنی زندگی میں دو عشق کئے ، ایک لاہور سے اور دوسرا اپنے جیون ساتھی سے‘‘۔ تخت لاہور کے وارث دلیپ سنگھ کی بیٹی اور سکھ سلطنت کے بانی راجہ رنجیت سنگھ کی اس پوتی نے بھی کیا عجب قسمت پائی تھی۔ اس کے باپ نے لاہور قلعہ میں شاہی خاندان کے ہاں آنکھ کھولی ، انگریز راج میں لاہور سے اسے انگلستان جلاوطن کر دیا گیا، اس کی پیدائش انگلستان میں ہوئی۔ جوان ہوئی تو اس کی نس نس میں رچی بسی لاہور کی محبت اسے لاہور کھینچ لائی۔ تخت لاہور کے وارث کی بیٹی لاہور میں جیل روڈ کی ایک چھوٹی سی کوٹھی میں آن بسی ، پھر جانے کیا سوجھا قیام پاکستان سے قبل اس نے ماڈل ٹاؤن میں ایک کوٹھی خریدی اور یہاں آن بسی، تاوقتیکہ کہ موت نے اسے جیل روڈ کے گورا قبرستان میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے نہ آن سلایا۔
آئیے اب رنجیت سنگھ خاندان کے پس منظر پر نظر ڈالتے ہیں۔ مغلیہ سلطنت جب اندرونی سازشوں کی وجہ سے دن بدن کمزور ہونا شروع ہوئی تو رنجیت سنگھ نے ان کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مغلوں کے بیشتر علاقوں پر قبضہ کر لیا اور سکھ سلطنت کی بنیاد رکھی۔ 1799ء میں رنجیت سنگھ نے لاہور پر قبضہ کرلیا اور اسے اپنا دارالخلافہ بنا لیا۔اس وقت اس کی عمر 18 سال تھی۔1802ء میں اس نے امرتسر فتح کیا چند سالوں بعد اس نے دریائے ستلج تک پنجاب کے تمام بڑے شہروں پر اپنا جھنڈا گاڑھ دیا اور ساتھ ہی ستلج کو عبور کرکے اس نے لدھیانہ کو بھی اپنی سلطنت کا حصہ بنا ڈالا۔ اس طرح اب رنجیت سنگھ کا راج، شمال مغرب میں درۂ خیبر ، سے مشرق میں دریائے ستلج اور برصغیر پاک وہند کی شمالی حد سے جنوب کی طرف صحرائے تھر تک پھیلا ہوا تھا۔ اس وسیع و عریض سلطنت کا صدر مقام لاہور تھا۔اسی لئے مورخین اسے ''تخت لاہور‘‘ کے نام کی شناخت بھی دیتے ہیں۔
رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد اس کی اولاد باہمی طور پر دست وگریباں رہی۔ خوش قسمتی سے رنجیت سنگھ کا سب سے چھوٹا بیٹا دلیپ سنگھ اس کشت و خون سے لاتعلق رہا ۔ دلیپ سنگھ ، کی ولادت 6ستمبر 1838ء کو قلعہ لاہور میں رانی جنداں کے ہاں ہوئی۔اس کی عمر ابھی نو ماہ تھی جب رنجیت سنگھ کا انتقال ہو گیا۔ 1843 میں دلیپ سنگھ کی عمر ابھی محض پانچ سال تھی جب سکھوں کی خانہ جنگیوں کے تحت اسے تخت لاہور پر بٹھانا پڑا۔اس کے ماموں جواہر سنگھ کو وزیر اعظم بنانا پڑا لیکن اصل اختیارات رانی جنداں کے ہاتھ میں ہی تھے۔
1849ء تک انگریز پنجاب پر مکمل طور پر قابض ہو چکے تھے۔انہوں نے سب سے پہلے رانی جنداں کو شیخوپورہ قلعہ بعدازاں کانچی بھجوا دیا جبکہ دلیپ سنگھ کو جان سپینر لوگن کے سپرد کر دیا گیا۔دراصل انگریز سرکار دلیپ سنگھ کو مستقبل کیلئے خطرہ سمجھنے لگے تھے۔چنانچہ 19 فروری 1850ء کو شہزادے کو لاہور سے فتح گڑھ ایک فوجی کیمپ میں بھجوا دیا گیا۔ تاریخ کی کتابوں میں اس بات کا کوئی حوالہ موجود نہیں کہ اس کے بعد شہزادے کی آمد کبھی لاہور ہوئی ہو۔ جان سپینر لوگن اور اس کی بیوی لینا لوگن نے اس کی پرورش اس انداز میں کی کہ بالآخر شہزادہ دلیپ سنگھ نے 8 مارچ 1953ء کو باقاعدہ مسیحت اختیار کر لی تھی۔ اس دوران رانی جنداں قلعہ چنار سے بھیس بدل کر نیپال منتقل ہو گئیں۔ دوسری جانب شہزادہ دلیپ سنگھ 19 ایریل 1854ء کو جلا وطن کر کے لندن روانہ کر دیا گیا جہاں ملکہ برطانیہ کی طرف سے اسے خوب پذیرائی ملی۔
دلیپ سنگھ نے دو شادیاں کی تھیں جن میں سے ایک اس نے 7 جون 1864ء کو اسکندریہ ، مصر کے قونصل خانے میں بمبا مولر نامی ایک مصری خاتون سے جبکہ دوسری شادی ایڈا نامی خاتون سے کی تھی۔ ایڈا کی یہ دوسری شادی تھی جس میں سے اس کے دو بچے پہلے سے بھی تھے جبکہ اس کے اپنے بچوں میں ، شہزادہ وکٹر، فریڈرک ، البرٹ ایڈورڈ ، شہزادی کیتھرائن ، صوفیہ اور بامبا سدر لینڈ تھے۔
دلیپ سنگھ کی دو بیٹیوں کو تاریخ میں بہت شہرت ملی ہے۔ شہزادی صوفیہ کو سماجی اور فلاحی کاموں جبکہ شہزادی بامبا کو لاہور سے والہانہ محبت کی وجہ سے۔شہزادی بامبا کی شخصیت کا سب سے نمایاں اور یادگار پہلو ان کی لاہور سے والہانہ اور لازوال محبت تھی۔بامبا 29ستمبر 1869ء کو لندن میں پیدا ہوئیں۔ لندن میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بامبا کو آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا۔اس کے بعد وہ امریکی شہر شکاگو میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے چلی گئیں۔ اس دوران بامبا کا لاہور آنا جانا لگا رہا۔
بامبا کی نس نس میں لاہور سے محبت رچی بسی ہوئی تھی۔ شہزادی بامبا کو مرتے دم تک یہ دکھ رہا کہ ان کے والد دلیپ سنگھ سے نہ صرف پنجاب کی حکومت لے لی گئی بلکہ پوری عمر ان کے لاہور داخلے پر پابندی رہی۔ 1907ء میں یہ پہلی بار ہندوستان آئیں اور ان کا زیادہ وقت لاہور میں گزرا۔ اس دوران ان کی ملاقات لاہور میں ڈیوڈ سدر لینڈ سے ہوئی جو اس وقت کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں پروفیسر تھے۔ سدر لینڈ بنیادی طور آسٹریلین تھے جن کی تعیناتی 1895ء میں ملکہ کے میڈیکل آفیسر کے طور پر ہوئی تھی۔ 1909ء میں انہوں نے سدر لینڈ سے شادی کر لی اور ساتھ ہی انہوں نے لاہور کو اپنا مستقل مسکن بنانے کا ارادہ کر لیا۔ان کا خیال تھا کہ شاید اس طرح یہ اپنے باپ دلیپ سنگھ اور اپنے دادا رنجیت سنگھ کی روح کو سکون دے سکیں گی۔ 1924ء میں انہوں نے اپنی بہن شہزادی صوفیہ اور اپنے خاوند سدر لینڈ کے ساتھ ہندوستان کا دورہ کیا۔ 19 اپریل 1939ء کو سدر لینڈ کا انتقال ہو گیا۔اس کے بعد ان کا زیادہ عرصہ لاہور میں اپنی بہن شہزادی صوفیہ کے ساتھ سماجی اور فلاحی کاموں میں گزرنے لگا۔1942ء میں ان کی بہن شہزادی کیتھرائن کی وفات کے بعد انہوں نے لاہور کو اپنا مستقل مسکن بنانے کیلئے جیل روڈ پر ایک کوٹھی میں اپنا پڑاو ڈالا جہاں وہ اپنے خاندان کی جائیداد کی دیکھ بحال میں مصروف رہنے لگیں۔ اس کام میں ان کے ساتھ ان کے خاندانی منشی اور مختار کار پیر الہی بخش ساتھ ساتھ رہے۔ یہاں دو سال رہنے کے بعد 1944ء میں یہ ماڈل ٹاؤن ایک گھر خرید کر منتقل ہو گئیں۔
13 جولائی 1946 شہزادی بامبا نے بحیثیت رنجیت سنگھ خاندان کے ایک حقیقی وارث ، ایک وکیل کی وساطت سے یو این او کو ''پنجاب حکومت‘‘ کی حوالگی کا مطالبہ کیا لیکن اسے اس درخواست کا خاطر خواہ جواب نہ مل سکا۔
تقسیم کے وقت شہزادی بامبا انگلستان، ہندوستان اور دنیا کے کسی بھی ملک رہنے کا حق رکھتی تھیں۔ اس کی بہن صوفیہ کو ملکہ وکٹوریہ نے ہیپنپٹن کورٹ محل میں ایک گھر الاٹ کر رکھا تھا اور کم وبیش ایسی ہی پیشکش شہزادی بامبا کیلئے بھی تھی لیکن انہیں تو لاہور کی مٹی سے عشق تھا اس لئے انہوں نے لاہور ہی میں جینا مرنا طے کر رکھا تھا۔ ان کے پاس بڑی تعداد میں سکھ سلطنت کی نوادرات اور دستاویزات تھیں جو انہوں نے لاہور قلعہ کی سکھ گیلری کو عطیہ کر دی تھیں۔
لاہور سے عشق کرنے والی ، سکھا شاہی سلطنت کی آخری شہزادی بامبا سدر لینڈ،88 سال کی عمر میں 10 مارچ 1957ء کومالک حقیقی سے جا ملیں۔ وصیت کے مطابق ان کی تمام جائیداد ان کے منشی پیر کریم بخش سپرا کو سونپ دی گئی تھی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
گڈانی:تنہائی پسند ساحل

گڈانی:تنہائی پسند ساحل

ملک عزیز پاکستان بحری گزرگاہوں کے ذریعے دنیا سے منسلک ہے اور یوں سمندری تجارت پاکستان کی اہمیت میں اضافہ کرتی ہے۔ اگرچہ پاکستان میں سمندری سیاحت کو وہ مقام حاصل نہیں جیسا کہ دیگر ممالک میں ہے لیکن اگر بات کی جائے ساحلی علاقوں کی تو ان گنت مقامات اپنی خوبصورتی کے باعث عالمگیر شہرت کے حامل ہیں، لیکن سیاحوں کی آمد و رفت کم اور صرف ملکی سیاحوں تک محدود ہے۔ ساحل گڈانی کو دیکھ لیں‘جو ہے تو بلوچستان کا حصہ لیکن کراچی سے 50کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہونے کے باعث قریب ترین ساحل ہے جہاں با آسانی پہنچا جاسکتا ہے ۔گڈانی کا دلکش ساحل موسمِ گرما اور موسمِ سرما میں اپنی دلکش رعنائی سے سیاحوں کیلئے منفرد مقام ہے۔پاکستان میں چونکہ ساحلی سیاحت کیلئے موسمِ گرما کا انتخاب کیا جاتا ہے جس کی بڑی وجہ تعلیمی اداروں کی تعطیلات ہوتی ہیں ۔ساحل گڈانی پر مختلف تفریحی مقام ہیں جہاں ملک کے مختلف علاقوں سے لوگ آتے ہیں ، ساحلوں کے شوقین مہم جُو سیاح قریبی ساحل ،ڈگار زئی پہنچتے ہیں جو اپنی پہاڑیوں کے باعث مشہور ہے۔ یہ چھوٹے چھوٹے پہاڑی ٹیلے نیلگوں پانی میں استادہ ہیں جہاں سمندر کی لہریں اٹکھیلیاں کرتی ہیں تو پانی کی اچھال دیکھ کر لطف آجاتا ہے۔ سیاح قریبی ٹیلوں پر بیٹھ کر فوٹوگرافی میں وہ لمحات قید کرتے ہیں اور پھر اگلی منزل پھوکارا کے ساحل پر پہنچتے ہیں ۔گڈانی کا یہ ساحل ایک پہاڑی ٹیلے کا تسلسل ہےجہاں ایک پہاڑ میں بنا سوراخ جو چٹان میں ہوا دان کی طرح ہے اور دوسری جانب اس کا راستہ پہاڑ کے نیچے دروازے کی مانند سمندر کی جانب کھلتا ہے ۔سمندر کی لہریں جب اس دروازے پر دستک دیتی ہیں تو ان کی گونج اس ہوا دان یعنی پہاڑ میں بنے دریچے سے پھونکار کی طرح گونجتی ہوئی سنائی دیتی ہیں۔ یہ ردھم سیاحوں کیلئے بڑی کشش کا باعث بنتا ہے۔ یہاں سمندری لہریں پہاڑوں سے ٹکراتی ہیں جو اس مقام کی انفرادیت ہے۔اسی ساحل سے تھوڑے فاصلے پر سنگ مرمر ساحل ہے ۔یہ مقام ساحل اور پہاڑی سلسلے کا بہت خوبصورت سنگم ہے، یہاں بھی سیاحوں کی اکثریت آتی ہے۔ پہاڑیوں کی دلکشی اور لہروں کی تیزی ایسی ہے کہ جب لہریں ساحل سے ٹکراتی ہیں تو پانی بہہ کر 20،25 فٹ تک پھیل جاتا ہے اور اسی تیزی سے وہ پانی سمندر کی جانب واپس پلٹتا ہے۔ ان لہروں کی کشش سیاحوں کو پانی میں بھیگنے کیلئے اکساتی ہے۔ ایسے ساحلوں پر حفاظتی انتظامات ضروری ہیں ، سیاحوں کو بھی یہ بات سمجھنا چاہیے کہ وہ ایسے پُر خطر حصوں میں مہم جوئی میں احتیاط سے کام لیں۔گڈانی کے ساحلی حصوں میں پوشیدہ ایک ایسا ساحل بھی ہے جو چٹانی ہے اور ایڈونچر پسند سیاح ان چٹانوں میں اتر کر انہیں عبور کرکے ساحل کی لہروں کو چھو سکتے ہیں یوں یہ غار نما پہاڑی راستہ ساحل کے کنارے پہنچاتا ہے ۔یہ غار اس قدر ٹھنڈک فراہم کرتی ہے کہ تھکان کو دور کر دیتی ہے۔ اس مقام کی دلکشی ناقابلِ فراموش ہونے کے ساتھ ساتھ بار بار آنے کی دعوتِ نظارہ بھی دیتی ہیں۔ موسمِ سرما میں آنے والے سیاح گڈانی کو مختلف انداز میں پاتے ہیں۔ اس وقت سمندر ان چٹانوں سے دوری اختیار کر لیتا ہے اور سمندر اور چٹانوں کے درمیان ساحل کی ریت آجاتی ہے جو آنے والے موسمِ گرما تک حدود قائم رکھتی ہے۔سفر کے آخر میں گڈانی کے اُس روپ کا تذکرہ کرنا بھی ضروری ہے جو پاکستان کی معیشت میں اہم کردار ادا کررہی ہے اور وہ ہے گڈانی شپ بریکنگ یارڈ۔ ایک زمانہ تھا کہ یہاں سینکڑوں کی تعداد میں جہاز کٹنے کیلئے آیا کرتے تھے، اب وہ تعداد بہت کم ہوچکی ہے، اس کمی کو دور کرنے کیلئے بین الاقوامی ماحولیاتی اور حفاظتی معیارات کو اپنایا جارہا ہے تاکہ گڈانی شپ یارڈ آنے والے وقتوں میں گرین یارڈ میں منتقل ہوسکے ان اقدامات سے ماحولیاتی آلودگی کم ہوگی اور مزدوروں کی صحت کو بھی تحفظ ملے گا۔گڈانی شپ بریکنگ یارڈ کا شمار دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے جبکہ اس کی کارکردگی کو دیکھا جائے تو اس کا شمار دنیا میں پہلے نمبر پر ہے 132 یارڈز پر مشتمل گڈانی شپ بریکنگ یارڈ سالانہ لاکھوں ٹن سٹیل فراہم کرتا ہے۔یوں گڈانی اپنی ان گنت خوبیوں کے باعث ہزاروں افراد کو روزگار فراہم کرتا ہے ۔اس کے باوجود گڈانی ایک تنہائی پسند ساحل ہے جو صرف موسم گرما میں سیاحوں کے ساتھ گھل مل کر اپنی تنہائی دور کرتا ہے۔

کافی:روایت،رجحان اور ثقافت

کافی:روایت،رجحان اور ثقافت

دنیا میں روزانہ دو ارب 25 کروڑ کپ کافی پی جاتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ دنیا میں سب سے زیادہ پیا جانے والا مشروب ہے۔دنیا کی سماجی تاریخ پر کافی کے انمٹ اثرات ہیں۔ کہیں اس کا تعلق سماجی انقلاب سے ملتا ہے اور کہیں ترک تعلق اور اپنے آپ میں مگن ہونے کے ساتھ۔ یہ دونوں صورتیں اگرچہ متضاد ہیں مگر ان میں ایک طرز مشترک ہے ‘ کافی۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ کافی کی تاریخ کیا ہے اور یہ کن ادوار سے ہوتی ہوئی ہم تک پہنچی ۔ اس تحریر میں ہم اسی کا جائزہ لیں گے اور دنیا میں کافی کی سرگزشت اور روایت کو کھوجنے کی کوشش کریں گے۔کافی کی حقیقت ایتھوپیا کا افسانہایتھوپیا کوکافی کی جنم بھومی سمجھا جاتا ہے۔ اگر آپ نے کی کافی کی کہانی کو گوگل کریں تو آپ کو یہ مشہور قصہ ضرور ملے گا کہ کس طرح ایتھوپیا میں کلدی نامی ایک چرواہے نے 800 عیسوی کے قریب کافی تلاش کی تھی۔کہتے ہیں کہ وہ اپنی بکریوں کے ساتھ تھا کہ اس نے انہیں عجیب و غریب سی حرکتیں کرتے ہوئے دیکھا۔ وہ ایک درخت سے بیر جیسے پھل کھانے کے بعد توانا اور پرجوش ہو گئی تھیں۔کلدی نے خود بھی ان بیروں کا ذائقہ چکھا توخود بھی توانا محسوس کرنے لگا۔کلدی ان بیروں کو ایک راہب کے پاس لے گیا۔راہبوں نے اسے 'شیطان کا کام‘ قرار دے دیااور اُن بیروں کو آگ میں پھینک دیا۔ ایسا کرتے ہوئے بھینی بھینی خوش ذائقہ خوشبو آنے لگی تو ان بیروں کو آگ سے نکال کر انگاروں میں کچل دیا گیا۔ راہبوں نے کچلے ہوئے بیروں پر پانی چھڑکا توخوشبو کا احساس مزید بڑھ گیا تو راہب اس پانی کا ذائقہ چکھنے پر مجبور ہو گئے۔ پھر یہ سلسلہ چل نکلا کیونکہ یہ سفوف ملا پانی جو دراصل کافی تھا،راہبوں کو رات کی عبادت اور دعاؤں کیلئے بیدار رہنے میں مدد دے رہا تھا۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ صرف ایک کہانی ہو کیونکہ کافی کی تاریخ کو اورومو/گالا (Oromo /Galla) خانہ بدوش قبیلے سے بھی ملایا جاتا ہے۔کافی کی تاریخ یمن سے کافی کی روایت میں یمن کے بارے بھی کچھ کہانیاں مشہور ہیں۔ کافی کی ابتدا کے بارے میں یمن کا سب سے مشہور افسانہ ایتھوپیا کی کہانی سے ملتا جلتا ہے۔وہ اس طرح کہ ایک یمنی صوفی ایتھوپیا کا سفر کر رہا تھا جہاں اسے کچھ بہت متحرک اور پرجوش پرندے دکھائی دیے جو ایک پودے سے پھل کھا رہے تھے۔ سفر کے تھکے ہوئے صوفی نے بھی ان بیروں کو کھانے کافیصلہ کیا اور اسے محسوس ہوا کہ ان سے خاصی توانا ئی ملتی ہے۔مگر عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ کافی کی پھلیاں ایتھوپیا سے یمن برآمد کی گئی تھیں۔ یمنی تاجر کافی کے پودوں کو اپنے وطن لائے تھے اور وہاں ان کی کاشت شروع کی۔جیسا کہ خیال کیا جاتا ہے کہ کافی کی ابتدا ایتھوپیا میں ہوئی ، یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے 15 ویں صدی میں بحیرہ احمر کے پار شمال کی طرف یمن کی جانب اپنا راستہ بنایا اورپھر یہ یمنی علاقے میں بھی اگائی جانے لگی اور 16 ویں صدی تک یہ فارس، مصر، شام اور ترکی تک پہنچ چکی تھی۔یہ مشروب تازہ دم رہنے میں مدد کرنے کیلئے مقبول ہوا۔دنیا کا پہلا کافی ہاؤس 1475ء میں قسطنطنیہ(استنبول) میں کھولا گیا ۔ کافی روزانہ کے معمول کے طور پر گھروں میں اور مہمان نوازی کیلئے پیش کی جانے لگی۔ بیرون ِخانہ لوگوں نے نہ صرف کافی پینے بلکہ گپ شپ، موسیقی ، شطرنج کھیلنے اور اطلاعات حاصل کرنے کیلئے کافی ہاؤسز میں بیٹھنا شروع کر دیا۔یوں کافی ہاؤسز تیزی سے معلومات کے تبادلے اور حصول کا مرکز بن گئے۔ انہیں اکثر ''دانشمندوں کے مدرسے‘‘ کہا جاتا تھا۔کافی ہندوستان کیسے پہنچی؟ہندوستان میں بھی کافی کی داستان دلچسپ تاریخی روایتوں پر مبنی ہے۔ پندرہویں صدی میں کافی یمن کافی کی تجارت کا مرکز بن گیا اور وہاں سے یہ مشروب مکہ، مدینہ اور اسلامی سلطنت کے دیگر علاقوں میں پھیل گیا۔ہندوستان میں کافی کے داخلے کا سہرا صوفی بزرگ بابا بودن کے سر باندھا جاتا ہے، جن کا اصل نام حضرت شاہ جمال الدین تھا۔ روایت کے مطابق بابا بودن سترہویں صدی میں حج کی ادائیگی کیلئے گئے۔ اس زمانے میں عرب تاجروں نے کافی کے بیجوں کی برآمد پر سخت پابندی عائد کر رکھی تھی تاکہ اس کی کاشت دوسرے ملکوں میں نہ ہو سکے۔ کہا جاتا ہے کہ بابا بودن نے یمن سے کافی کے سات بیج چپکے سے حاصل کیے اور انہیں اپنی کمر بند میں چھپا کر ہندوستان لے آئے۔واپسی پر بابا بودن نے یہ بیج جنوبی ہندوستان کے علاقے چکماگلور (کرناٹک) کی پہاڑیوں میں بو دیے۔ یہاں کا موسم اور زمین کافی کی کاشت کیلئے موزوں ثابت ہوئے یوں ہندوستان میں پہلی بار کافی کی فصل اگائی گئی۔اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں برطانوی دورِ حکومت کے دوران کافی کی تجارتی بنیادوں پر کاشت شروع ہوگئی۔ انگریزوں نے بڑے بڑے کافی سٹیٹس قائم کیے اور یہاں کی پیداوار کو عالمی منڈیوں تک پہنچایا۔ اگرچہ بعد میں چائے کو زیادہ فروغ ملا لیکن جنوبی ہندوستان میں کافی اپنی ثقافتی شناخت برقرار رکھنے میں کامیاب رہی۔کافی یورپ میںپھر کافی کی تاریخ کا رُخ بدلنا شروع ہوا۔ اس مشروب نے یورپی مسافروں میں کافی مقبولیت حاصل کر لی تھی اور17 ویں صدی تک کافی نے یورپ کا راستہ بنا لیا تھا اور پورے یورپی براعظم میں تیزی سے مقبول ہو رہی تھی۔یورپی کافی کی تاریخ اٹلی سے شروع ہوتی ہے جہاں اسے سلطنت ِعثمانیہ سے درآمد کیا گیا تھا۔وینس کے تاجروں نے یورپی علاقوں میں کافی کی وسیع پیمانے پر مقبولیت میں اہم کردار ادا کیا اور 1645ء میں وینس میں پہلا یورپی کافی ہاؤس کھولا گیا۔ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے انگلینڈ میں بھی کافی بہت مقبول ہوئی۔ انگلینڈ میں پہلا کافی ہاؤس 1651ء میں آکسفورڈ میں کھولا گیا۔ان کافی ہاؤسز میں لوگ کاروبار اور خبروں پر تبادلۂ خیال کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ بہت سے کاروباری منصوبے اور آئیڈیاز لندن کے کافی ہاؤسز میں تخلیق ہوئے۔ اس کے بعد فرانس کے بادشاہ لوئس XIV کے دربار میں ترک سفیر سلیمان آغا نے 1669ء میں فرانس میں کافی متعارف کروائی۔دو سال بعد پاسکل نامی ایک آرمینیائی باشندے نے سینٹ گرمین کے میلے میں کافی کا ڈھابہ کھولا۔ اگلے 30 سالوں میں کافی آسٹریا، جرمنی، سپین اور باقی یورپ میں ثقافت کا حصہ بن چکی تھی۔ کافی بحر اوقیانوس کے اُس پار ورجینیا کی کالونی کے بانی کیپٹن جان سمتھ نے 1607ء میں جیمز ٹاؤن کے دیگر آباد کاروں کو کافی متعارف کروائی۔ تاہم پہلے اسے خوشدلی سے قبول نہیں کیا گیا اور اس کے مقابلے میں چائے کو ترجیح دی گئی۔1670ء میں، ڈوروتھی جونزبوسٹن میں کافی فروخت کرنے کا لائسنس حاصل کرنے والی پہلی دکاندار تھیں۔ لیکن چائے اب بھی امریکہ کے لوگوں کا پسندیدہ مشروب تھی۔ چائے پر زوال اُس وقت آ یا جب برطانیہ کے خلاف بغاوت کی وجہ سے اسے پینا غیر محب وطن ہونے کی علامت سمجھا جانے لگا اور چائے سمندر میں پھینکی جانے لگی۔ اس کے بعد کافی تیزی سے مقبول ہوئی۔امریکہ کا گرم مرطوب موسم کافی کی کاشت کیلئے آئیڈئیل خیال کیاگیا اور کافی کے پودے تیزی سے پورے وسطی امریکہ میں پھیل گئے۔امریکہ میں کافی کی پہلی فصل کی چنائی 1726ء میں ہوئی۔لاطینی امریکی ممالک میں بھی کافی کی کاشت کیلئے مثالی ماحول تھا، جیسا کہ دھوپ اور بارش کا اچھا توازن اور مرطوب درجہ حرارت۔ اٹھارہویں صدی کے وسط تک لاطینی امریکہ کے ممالک کافی اگانے والے کچھ سرکردہ ممالک بن گئے۔ آج بھی برازیل دنیا کا سب سے بڑا کافی پروڈیوسر ہے۔

آج کا دن

آج کا دن

کرسمس جنگ بندی 24 دسمبر 1914ء کو پہلی جنگِ عظیم کے دوران ایک غیر معمولی اور انسانی جذبوں سے بھرپور واقعہ پیش آیا جسے تاریخ میں کرسمس ٹروُس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یورپ کے مغربی محاذ پر برطانیہ، فرانس اور جرمنی کی افواج ایک دوسرے کے آمنے سامنے خندقوں میں موجود تھیں۔ جنگ کے ابتدائی مہینوں میں شدید جانی نقصان کے بعد کرسمس کے موقع پر، خاص طور پر 24 دسمبر کی رات، جرمن خندقوں سے کرسمس کے گیت گونجنے لگے۔25 دسمبر تک کئی مقامات پر دونوں جانب کے سپاہی خندقوں سے نکل آئے، ایک دوسرے سے ہاتھ ملایا، سگریٹ، چاکلیٹ اور تحائف کا تبادلہ کیا۔ معاہدہ گینٹ پر دستخط 24 دسمبر 1814ء کو بلجیم کے شہر گینٹ میں ایک اہم سفارتی معاہدہ طے پایا جس نے امریکہ اور برطانیہ کے درمیان 1812ء کی جنگ کا خاتمہ کر دیا۔ معاہدے کے تحت دونوں ممالک نے جنگ سے پہلے کی سرحدی حیثیت بحال کرنے پر اتفاق کیا۔ یہ معاہدہ مستقبل میں دونوں ممالک کے تعلقات بہتر بنانے کی بنیاد بنا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس وقت مواصلاتی نظام سست ہونے کے باعث معاہدے پر دستخط کے بعد بھی چند ہفتوں تک لڑائی جاری رہی اور جنوری 1815ء میں نیو اورلینز کی جنگ لڑی گئی حالانکہ جنگ باضابطہ طور پر ختم ہو چکی تھی۔ سوویت یونین کا افغانستان پر حملہ24 دسمبر 1979ء کو سوویت یونین نے افغانستان میں فوجی مداخلت کا آغاز کیا۔ اسی دن سوویت افواج افغانستان میں داخل ہوئیں اور چند روز بعد کابل پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا گیا۔اس حملے کے نتیجے میں افغان حکومت کے صدر حفیظ اللہ امین کو ہٹا کر ببرک کارمل کو اقتدار میں لایا گیا۔ سوویت مداخلت کے خلاف افغانستان میں شدید مزاحمت شروع ہوئی جسے بعد ازاں جہاد کے نام سے جانا گیا۔یہ جنگ تقریباً دس سال تک جاری رہی بالآخر 1989ء میں سوویت افواج افغانستان سے واپس چلی گئیں۔ یہ مداخلت نہ صرف افغانستان بلکہ عالمی سیاست، سرد جنگ اور بعد ازاں سوویت یونین کے زوال پر بھی گہرے اثرات چھوڑ گئی۔ لیبیا کی آزادی24 دسمبر 1951ء کو لیبیا باضابطہ طور پر ایک آزاد ریاست بن گیا۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد لیبیا اطالوی نوآبادیات سے نکل کر برطانوی اور فرانسیسی انتظام کے تحت آ گیا تھا۔ اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں ایک طویل سیاسی عمل کے بعد آزادی کا راستہ ہموار ہوا۔آزادی کے اعلان کے ساتھ ہی شاہ ادریس السنوسی کو لیبیا کا پہلا بادشاہ مقرر کیا گیا۔ اپالو 8 کا کرسمس ایو مشن24 دسمبر 1968ء کو امریکی خلائی مشن اپالو 8 نے ایک تاریخی کارنامہ انجام دیا۔ یہ پہلا انسانی خلائی مشن تھا جس نے زمین کے مدار سے نکل کر چاند کے گرد چکر لگایا۔ اسی دن اپالو 8 کے خلا بازوں فرینک بورمن، جم لوول اور ولیم اینڈرزنے چاند کے مدار سے زمین پر براہِ راست نشریات کیں۔اس دوران خلا بازوں نے زمین کے طلوع کا تاریخی منظر دکھایا اور بائبل کی کتاب پیدائش کی ابتدائی آیات تلاوت کیں، جس نے دنیا بھر کے کروڑوں ناظرین کو جذباتی طور پر متاثر کیا۔

گریٹ ٹرگنو میٹریکل سروے:برصغیر کے طویل و عرض کو نا پنے کا عظیم منصوبہ

گریٹ ٹرگنو میٹریکل سروے:برصغیر کے طویل و عرض کو نا پنے کا عظیم منصوبہ

انیسویں صدی کے شروع میں جب برصغیر کی دھرتی ابھی جدید نقشوں سے ناواقف تھی، چند پُر عزم لوگوں نے ایک ایسا خواب دیکھا جو بظاہر ناممکن دکھائی دیتا تھا۔زمین کو ناپنے، پہاڑوں کو اعداد کی شناخت عطا کرنے اور فاصلوں کو زاویوں کی زبان میں سمجھنے کا یہ خواب بہتوں کے لیے اجنبی تھا۔اسی خواب نے ہندوستان کے عظیم مثلثی سروے(The Great Trigonometrical Survey of India) کو عملی شکل دی ،جو نہ صرف برصغیر بلکہ انسانی تاریخ کے طویل ترین اور پیچیدہ سائنسی منصوبوں میں شمار ہوتا ہے۔یہ کوئی عام سروے نہیں تھا، یہ ایک ایسی مہم جوئی تھی جو دلدلوں، صحراؤں، جنگلوں اور برف پوش پہاڑوں کو ناپنے کے لیے تقریباً سات دہائیوں تک جاری رہی۔ اس سفر میں انسان نے فطرت کو للکارا نہیں بلکہ اسے سمجھنے کی کوشش کی۔ایک خیال، ایک آغازگریٹ سروے کاِ آغاز 1802ء میں ہوا جب برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے محسوس کیا کہ مؤثر حکمرانی، فوجی نقل و حرکت، ٹیکس وصولی اور وسائل کے استعمال کے لیے درست نقشوں کی اشد ضرورت ہے۔ اس منصوبے کی بنیاد کرنل ولیم لیمبٹن (William Lambton) نے رکھی جو ایک برطانوی فوجی افسر اور ماہرِ فلکیات تھے۔ لیمبٹن کے لیے یہ محض ایک سرکاری ذمہ داری نہیں تھی بلکہ ایک سائنسی جنون تھا۔ وہ جانتے تھے کہ اگر ایک درست بنیاد (Baseline) قائم ہو جائے تو زاویوں کی مدد سے ہزاروں میل کے فاصلے ناپے جا سکتے ہیں۔ عظیم مثلثی سروے کا بنیادی طریقہ مثلثی پیمائش (Triangulation) تھا۔ اس طریقے میں زمین کے ایک خطے میں ایک سیدھی بنیاد (Baseline) ناپی جاتی پھر اس بنیاد سے مختلف زاویوں کے ذریعے دور دراز مقامات کے درمیان فاصلوں کا حساب لگایا جاتا۔ اس مقصد کے لیے اُس وقت کے جدید ترین آلات استعمال کیے گئے، جن میں تھیوڈو لائٹ (Theodolite)،فلکیاتی آلات،دوربینیں اور پیمائشی زنجیریں شامل تھیں۔ یہ آلات اُس دور میں خاصے جدید سمجھے جاتے تھے۔ خاص طور پر گریٹ تھیوڈولائٹ جس کا وزن سینکڑوں کلوگرام تھا نہایت دقت کے ساتھ زاویوں کی پیمائش کے لیے استعمال کیا گیا۔بھاری بھرکم تھیوڈولائٹ کو کندھوں پر اٹھائے سروے ٹیمیں میلوں سفر کرتیں۔ یہ آلہ اتنا وزنی تھا کہ کئی آدمی مل کر اسے حرکت دیتے۔ سورج کی تپش، بارش کی شدت اور وباؤں کو جھیلتے ہوئے یہ لوگ زاویے ناپتے، حساب لگاتے اور اعداد کو کاغذوں پر منتقل کرتے رہے۔یہ وہ دور تھا جب ملیریا، ہیضہ اور کئی نامعلوم بیماریوں نے سینکڑوں جانیں لیں مگر سروے کا سفر نہ رکا۔ لیمبٹن خود بھی اسی مشقت کا شکار ہو کر دنیا سے رخصت ہو ئے، مگر اُن کا خواب زندہ رہا۔ایورسٹ اور بلندیوں کی کہانیلیمبٹن کے بعد یہ مشن سر جارج ایورسٹ کے ہاتھ آیا جن کا نام آج دنیا کی سب سے بلند چوٹی سے جڑا ہوا ہے۔ ان کے دور میں سروے شمال کی طرف بڑھا جہاں ہمالیہ کی خاموش اور پراسرار چوٹیاں انسانی صلاحیتوں کو چیلنج کرتی تھیں۔ایورسٹ کے جانشین اینڈریو واہ (Andrew Scott Waugh)نے ان پہاڑوں کو صرف دیکھا نہیں بلکہ ناپا بھی۔ انہی کی نگرانی میں دنیا کی بلند ترین چوٹی کو پہلی بار درست طور پر ماپا گیا جو بعد میں ماؤنٹ ایورسٹ کہلائی۔گمنام ہیرواس عظیم منصوبے کی تاریخ میں چند انگریز نام نمایاں ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ہزاروں مقامی ہندوستانی اور پاکستان کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اس مشن کا حصہ تھے۔ نقشہ نویس، حساب دان، قلی، رہنما اور مزدور ‘ جنہوں نے اس علم کی عمارت میں اپنی محنت کی اینٹیں رکھیں مگر تاریخ ان کے نام محفوظ نہ رکھ سکی۔پاکستان کیلئے گریٹ سروے کی معنویتاگر آج ہم پاکستان کے نقشے کو دیکھتے ہیں تو اس کے پیچھے گریٹ سروے کی خاموش موجودگی کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔قیامِ پاکستان کے بعد جو سرحدیں متعین ہوئیں ان کے جغرافیائی نکات اسی سروے سے ماخوذ تھے۔ پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے کئی علاقوں کی حد بندیاں انہی پیمائشوں پر قائم ہیں۔دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کی جس تفصیل نے پاکستان کو ایک زرعی ریاست بنایا اس کی ابتدائی سائنسی بنیاد اسی سروے نے رکھی۔آج بھی عسکری نقشہ سازی، بلندیوں کی پیمائش اور زمینی معلومات میں وہی اصول استعمال ہوتے ہیں جو گریٹ سروے نے متعارف کروائے تھے۔ سڑکیں، ریلوے لائنیں اور شہر سب اسی جغرافیائی شعور کے مرہونِ منت ہیں جو عظیم مثلثی سروے سے جنم لے کر آج تک جاری ہے۔گریٹ سروے محض زمین ناپنے کا منصوبہ نہیں تھا یہ انسانی حوصلے، سائنسی دیانت اور وقت کے خلاف جدوجہد کی داستان ہے۔ اگرچہ اس کا مقصد نوآبادیاتی حکمرانی کو مضبوط کرنا تھا مگر اس نے ایسے علمی خزانے چھوڑے جو آج بھی پاکستان جیسے ممالک کے لیے بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔گریٹ سروے محض ایک نوآبادیاتی منصوبہ نہیں تھا بلکہ یہ سائنس، صبر اور انسانی محنت کی ایک عظیم مثال ہے۔ اگرچہ اس کا مقصد برطانوی انتظامی مفادات تھا لیکن اس کے نتائج آج بھی پاکستان سمیت پورے خطے کے لیے نہایت اہم ہیں۔ یہ سروے ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ درست علم، تحقیق اور منصوبہ بندی قوموں کی جغرافیائی اور تاریخی شناخت کو کس طرح تشکیل دیتی ہے۔

2025مصنوعی ذہانت کا سال

2025مصنوعی ذہانت کا سال

2025ء کو مصنوعی ذہانت (AI) کے عالمی اثرات کے حوالے سے ایک اہم موڑ قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ سال وہ مرحلہ ثابت ہوا جب اے آئی محض ایک جدید ٹیکنالوجی نہیں رہی بلکہ انسانی زندگی، معیشت، تعلیم، صحت اور حکمرانی کے نظام کا لازمی حصہ بن گئی۔ جس رفتار سے اے آئی نے ترقی کی اس نے نہ صرف دنیا کو متاثر کیا بلکہ روایتی ڈھانچوں کو بھی چیلنج کر دیا۔2025ء میں عام انسان کی روزمرہ زندگی اے آئی سے گہری وابستگی اختیار کر چکی ہے۔ سمارٹ فونز، گھریلو آلات، گاڑیاں اور حتیٰ کہ ذاتی معاون (Personal Assistants) بھی مصنوعی ذہانت پر انحصار کرنے لگے۔ آواز سے چلنے والے اسسٹنٹس، خودکار نظام الاوقات، صحت کی نگرانی کرنے والی ایپس اور مالی مشورے دینے والے چیٹ بوٹس نے انسانی سہولتوں میں نمایاں اضافہ کیا۔ اے آئی نے وقت کی بچت، درست فیصلوں اور بہتر معیارِ زندگی میں اہم کردار ادا کیا۔تعلیم میں انقلابی تبدیلیتعلیمی شعبے میں 2025ء کے دوران اے آئی نے انقلابی تبدیلیاں متعارف کروائیں۔ ذاتی نوعیت کے تعلیمی نظام (Personalized Learning) نے ہر طالب علم کی استعداد کے مطابق نصاب اور رفتار کو ممکن بنایا۔ آن لائن اساتذہ، خودکار اسائنمنٹ چیکنگ، ترجمہ اور تحقیقی معاونت نے تعلیم کو زیادہ قابلِ رسائی بنا دیا۔ تاہم اس کے ساتھ یہ سوال بھی اٹھا کہ کیا طلبہ کی تخلیقی صلاحیت متاثر ہو رہی ہے اور اساتذہ کا کردار محدود تو نہیں ہو رہا؟معیشت اور روزگار2025ء میں عالمی معیشت پر اے آئی کے اثرات دو دھاری تلوار ثابت ہوئے۔ ایک جانب پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوا، صنعتیں زیادہ مؤثر ہوئیں اور نئے کاروباری مواقع پیدا ہوئے۔ دوسری جانب روایتی ملازمتیں، خصوصاً دفتری اور تکنیکی شعبوں میں، خطرے میں پڑ گئیں۔ ڈیٹا اینالسٹ، اے آئی ٹرینر، سائبر سیکیورٹی ماہر اور روبوٹکس انجینئر جیسے نئے پیشے ابھرے جبکہ غیر ہنر مند افراد کے لیے خدشات میں اضافہ ہوا۔صحت کے شعبے میں انقلابطبی میدان میں اے آئی نے 2025ء میں غیر معمولی پیش رفت دکھائی۔ بیماریوں کی بروقت تشخیص، کینسر اور دل کے امراض کی پیش گوئی، روبوٹک سرجری اور ذہنی صحت کے معاون ٹولز نے علاج کو مؤثر بنایا۔ دیہی اور دور دراز علاقوں میں ٹیلی میڈیسن کے ذریعے علاج ممکن ہوا۔ تاہم مریضوں کے ڈیٹا کی رازداری اور اخلاقی حدود ایک بڑا چیلنج بن کر سامنے آئیں۔حکمرانی، دفاع اور نگرانیحکومتی سطح پر اے آئی کا استعمال نگرانی، ٹیکس نظام، ٹریفک کنٹرول اور عوامی خدمات میں بڑھا۔ دفاعی شعبے میں خودکار ہتھیاروں اور ڈرون ٹیکنالوجی نے عالمی سلامتی کے توازن کو متاثر کیا۔ کئی ممالک نے اے آئی کے فوجی استعمال کو محدود کرنے کے لیے بین الاقوامی قوانین پر زور دیا، مگر مکمل اتفاق رائے حاصل نہ ہو سکا۔اخلاقی اور سماجی چیلنجز2025ء میں سب سے بڑا سوال یہ رہا کہ کیا مصنوعی ذہانت انسان کے لیے فائدہ مند ثابت ہو رہی ہے یا خطرہ؟ ڈیٹا پر اجارہ داری، انسانی ملازمتوں کا خاتمہ، تعصبات پر مبنی الگورتھمز اور پرائیویسی کی خلاف ورزیاں سنگین مسائل کے طور پر سامنے آئیں۔ دنیا بھر میں یہ بحث شدت اختیار کر گئی کہ اے آئی کو کس حد تک آزادی دی جائے اور اس کی نگرانی کون کرے۔آنے والے سالوں میں ممکنہ تبدیلیاںآنے والے برسوں میں توقع ہے کہ اے آئی مزید خودمختار، تیز اور ذہین ہو جائے گی۔ انسانی اور مشینی ذہانت کا امتزاج (Human-AI collaboration) بڑھنے کا امکان ہے۔ تعلیم اورصحت میں انسان کا کردار ختم نہیں ہوگا بلکہ اس کی نوعیت تبدیل ہو جائے گی۔ حکومتیں سخت قوانین، اخلاقی فریم ورک اور شفاف نظام متعارف کرائیں گی تاکہ اے آئی کو انسانی فلاح کے لیے استعمال کیا جا سکے۔2025ء میں مصنوعی ذہانت نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا مگر یہ تبدیلی ابھی اختتام پذیر نہیں ہوئی۔ اصل امتحان آنے والے سالوں میں ہوگا کہ انسان اس طاقتور ٹیکنالوجی کو کس سمت میں لے جاتا ہے۔ اگر دانشمندی، اخلاقیات اور مساوات کو مدنظر رکھا گیا تو اے آئی انسانیت کے لیے ترقی کا ذریعہ بن سکتی ہے، بصورت دیگر یہ نیا بحران بھی جنم دے سکتی۔

آج کا دن

آج کا دن

فیڈرل ریزرو ایکٹ پر دستخط 23 دسمبر 1913 ء کو امریکہ کے صدر ووڈرو ولسن نے فیڈرل ریزرو ایکٹ پر دستخط کیے جس کے نتیجے میں فیڈرل ریزرو سسٹم قائم ہوا۔ یہ ایکٹ امریکہ کا مرکزی بینک بنانے والا قانونی فریم ورک تھا جس کا مقصد ملکی مالیاتی نظام کو مستحکم کرنا، بینکنگ بحرانوں کو روکنا، اور معیشت میں پیسے کے بہاؤ کو منظم کرنا تھا۔ فیڈرل ریزرو سسٹم کی تشکیل اس وقت کے عالمی اقتصادی منظرنامے میں ایک اہم قدم تھا۔ 1907ء کے مالیاتی بحران کے دوران امریکی مالیاتی نظام میں شدید بے قاعدگیاں سامنے آئیں جس نے قانون سازوں کو مجبور کیا کہ وہ ایک مضبوط اور مرکزیت والا انتظامی نظام قائم کریں جو مالیاتی لیکویڈیٹی فراہم کرے اور بینکنگ سیکٹر پر اعتماد بحال کرے۔ وییک آئی لینڈپر سرینڈر 23 دسمبر 1941ء کو دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکی اور جاپانی افواج کے درمیان ایک اہم معرکہ ہوا۔ جاپانی افواج نے وییک آئی لینڈ پر حملہ کیا۔ ابتدائی دنوں تک امریکی افواج نے مقابلہ کیا لیکن جاپانی افواج کے دباؤ اور تعداد میں برتری کے باعث امریکی افواج نے شکست تسلیم کرلی اور جزیرے کاقبضہ جاپانیوں کے ہاتھ آگیا۔ وییک آئی لینڈ کی لڑائی بحرالکاہل میں جاپانی پیش قدمی کا حصہ تھی۔وییک آئی لینڈ پر 11 دسمبر سے لڑائی شروع ہوئی اور 23 دسمبر کو امریکی دستے مجبور ہوئے کہ وہ روایتی فوجی اصولوں کے تحت سرینڈر کر دیں۔ ٹرانزسٹر کا مظاہرہ 23 دسمبر 1947ء کو امریکی سائنسدانوں جان بارڈین، والٹر بریٹن، اور ولیم شاکلے نے ٹرانزسٹر کا مظاہرہ کیا جو آج کے تمام الیکٹرانک آلات کا بنیادی جزو ہے۔ٹرانزسٹر ایک چھوٹا سیمی کنڈکٹر ڈیوائس ہے جو برقی سگنلز کو بڑھاتا یا سوئچ کرتا ہے جس نے الیکٹرانکس میں انقلاب برپا کر دیا۔ ٹرانزسٹر سے پہلے الیکٹرانک آلات میں ویکیوم ٹیوبز استعمال ہوتی تھیں جو بڑی، بھاری اور کم مؤثر تھیں۔ اس دریافت نے جدید الیکٹرانکس کو جنم دیا اور کمپیوٹر، موبائل فون، ٹی وی اور دیگر ہزاروں آلات کی ترقی کی راہ ہموار کی اورالیکٹرانکس کا سائز چھوٹا ہوا۔ تینوں سائنسدانوں کو 1956ء میں نوبل انعام برائے طبیعیات دیا گیا۔ نیپال میں بادشاہت کا خاتمہ 23 دسمبر 2007ء کو نیپال نے بادشاہت کے نظام کو ختم کر کے وفاقی جمہوریہ کا اعلان کیا۔ نیپال کی بادشاہت نہ صرف روایتی طور پر طویل عرصے تک قائم رہی بلکہ اس نے ملک کی سیاست، سماجی ڈھانچے اور قومی شناخت پر گہرے اثرات بھی چھوڑے۔تاہم 1990ء کی دہائی میں جمہوری تحریک نے بادشاہت کے خلاف آواز بلند کی جس کے بعد 2006ء میں بھی ایک وسیع عوامی تحریک نے بادشاہت کو کمزور کر دیا۔آخر کار 2007 میں باقاعدہ طور پر اعلان ہوا کہ نیپال اب بادشاہت نہیں بلکہ ایک جمہوری ریاست کے طور پر مستقبل کی سمت طے کرے گا۔