دنیا کی خوبصورت مساجد مرکزی جامع مسجد ٹوکیو(جاپان)
اسپیشل فیچر
اس وقت جاپان میں ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ مسلمان ہیں جن میں تقریباً7ہزارمقامی جاپانی مسلمان بھی شامل ہیں۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق اس وقت جاپان میں 60کے قریب مساجد موجود ہیں اور آٹھ مساجد صرف دارالحکومت ٹوکیو میں ہیں۔ ٹوکیو کی مرکزی جامع مسجد شہر کی سب سے بڑی اور خوبصورت مسجد ہے، جسے ٹوکیو میں مقیم ترکوں نے اپنی کوششوں سے تعمیر کیا ہے۔
1986ء میں ترکی کی حکومت نے ٹوکیو ٹرکش ایسوسی ایشن کو شہر میں جگہ خرید کر بطور عطیہ اس شرط پر دی کہ نئی مسجد تعمیر کی جائے۔ انہوں نے نئی مسجد کی تعمیر 1998ء میں شروع کی جو بالآخر 30جون 2000ء کو مکمل ہو گئی۔ اس مسجد کی تزئین و آرائش میں ترکی سے آئے ہوئے 100ماہر کاریگروں نے حصہ لیا۔ مرکزی ہال میں قرآنی خطاطی کا کام بھی ماہر خوش نویسوں کی کاریگری ہے۔ اس مسجد کے آرکیٹیکٹ محرم علی تھے۔ مسجد تین منزلہ ہے۔ داخلی دروازے کے اوپر مسجد کا سن تعمیر 1420ھ درج ہے۔
مرکزی ہال میں لکڑی کا کام اتنی خوبصورتی سے کیا گیا ہے کہ ماہر کاریگروں کے فن کی داد دینی پڑتی ہے۔ مسجد کا ایک مینار اور ایک بڑا مرکزی گنبد ہے۔ مینار کی بلندی 136فٹ اور گنبد کی فرش سے بلندی 77فٹ ہے۔ گنبد کا قطر 36فٹ ہے۔ مسجد عثمانی طرز سے تعمیر کی گئی ہے۔ مرکزی ہال میں 2000نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں اور خواتین کیلئے علیحدہ انتظام کیا گیا ہے۔ اس مسجد کی تعمیر پر ڈیڑھ بلین ین لاگت آئی۔
30جون 2000ء کو ترکی کے جاپان میں متعین سفیر یمان باسکل نے اس مسجد کا افتتاح کیا۔ ان کے ساتھ جاپان کے مذہبی امور کے وزیر بھی افتتاحی تقریب میں آئے ہوئے تھے۔2004ء میں ترکی کے وزیراعظم رجب طیب اردگان نے بھی اس مسجد کا دورہ کیا۔ ان کے ساتھ ترکی کے وزرائے مملکت ارکان پارلیمنٹ اور جاپان میں ترکی کے سفیر بھی موجود تھے۔
جامع مسجد ڈاکار سینی گال (افریقہ)
یہ مسجد سینی گال کے دارالحکومت ڈاکار میں واقع ہونے کی وجہ سے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اس کا ڈیزائن فرانسیسی اور مراکشی ماہرین تعمیرات نے باہم مل کر تیار کیا تھا اور اس کے اخراجات حکومت مراکش نے برداشت کئے اس مسجد کی ایک منفرد بات یہ ہے کہ 1964ء میں اس کا افتتاح دو ملکوں کے حکمرانوں مراکش کے شاہ حسن ثانی اور سینی گال کے مسیحی صدر لیوپولڈ سیڈر سنگھور نے باہم مل کر کیا۔ یہ سینی گال کے لئے ایک اعزاز کی بات ہے۔ یہ مسجد اندرونی اور بیرونی طرف انتہائی منقش کام کی وجہ سے بہت خوبصورت لگتی ہے، اس کے واحد مینار کی بلندی 220فٹ ہے۔
کہا جاتا ہے کہ سینی گال کی پہلی مسجد شہری سلوی میں بنی تھی مگر اس کا سن تعمیر معلوم نہیں۔ اس وقت ڈاکار میں 1000سے زیادہ مسجدیں ہیں جبکہ پورے ملک میں مساجد کی تعداد 50ہزار سے زائد ہے۔
مرکزی جامع مسجد، ابوجا( نائیجیریا)
اس مسجد کو ملک کی قومی مسجد کا درجہ حاصل ہے۔ یہ مسجد نائیجیریا کے دارالحکومت ابوجا میں 1984ء میں بنائی گئی۔اس کے چاروں کونوں پر چار مینار اور ان پر چار ہی چھوٹے گنبد ہیں جبکہ ایک مرکزی گنبد ہے جس کا قطر118فٹ اور بلندی 197فٹ ہے۔ ہر مینار کی بلندی 308فٹ ہے۔ مسجد کے مرکزی ہال میں 5000نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ ہال کے اوپر تینوں اطراف میں گیلریاں بنی ہوئی ہیں جن میں 1500خواتین نماز پڑھ سکتی ہیں۔ اس مسجد کے ساتھ ایک لائبریری اور ایک کانفرنس روم بھی بنایا گیا ہے جس میں 1500اشخاص کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ مسجد کے چیف امام، ڈپٹی امام اور موذن کی رہائش گاہیں بھی تعمیر کی گئی ہیں۔
ابوجا کی تاریخ اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب نائیجیریا کی حکومت نے 1980ء میں لاگوس سے دارالحکومت ابو جا منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔ ابو جا کے آزادی چوک میں دارالحکومت کے شایان شان ایک خوبصورت مرکزی مسجد تعمیر کرنے کا سوچا گیا۔ ایک کمیٹی بنائی گئی جس نے فیصلہ کیا کہ اس مسجد کا ڈیزائن ایسا ہو جو شہر کے ہر حصے سے برابر نظر آئے۔ چنانچہ AIMکنسلٹنٹس کمپنی نے جو دیدہ زیب ڈیزائن بنایا واقعی وہ ایسا ہی تھا۔ اس مسجد کا رقبہ55382مربع فٹ ہے اور یہ نہ صرف ابوجا بلکہ پورے نائیجیریا کی انتہائی خوبصورت مسجد ہے۔
جامع مسجد روم(اٹلی)
یہ مسجد نہ صرف اٹلی بلکہ پورے یورپ میں مسلمانوں کی سب سے بڑی عبادت گاہ ہے۔ اس کا رقبہ 3,20000مربع فٹ ہے اور اس میں 12000نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ یہ مسجد روم شہر میں مائونٹ انٹین کے دامن میں واقع ہے جو کہ سر سبز علاقہ ہے۔ یہ اٹلی کا مرکزی اسلامک سنٹر بھی ہے۔1970ء کی دہائی میں افغانستان کے ایک جلاوطن شہزادے محمد حسن اور اس کی بیوی شہزادی رضیہ بیگم کے باہمی اشتراک سے اس مسجد کی تعمیر عمل میں آئی اور شاہ فیصل نے بھی مالی معاونت کا وعدہ کیا۔ روم شہر کی سٹی کونسل نے اس کے لئے زمین تحفتاً دی لیکن کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا پر اس کا سنگ بنیاد 1984ء (1405ھ) میں رکھا گیا۔ کیتھولک فرقہ کے روحانی پیشوا پوپ جان پال دوم نے خصوصی دعا کی۔ جب مسجد مکمل ہو گئی تو جذبہ خیر سگالی کے پیش نظر اٹلی کے صدر نے 21جون 1995ء کو اس کا افتتاح کیا۔
کیتھولک مسیحی فرقے کے گڑھ میں یورپ کی سب سے بڑی مسجد کا وجود ہی اسلام کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کی تعمیر میں تھوڑا سا اختلاف اس وقت پیدا ہا جب مسجد کے مینار کی بلندی رومن چرچ سے بڑھنے لگی لیکن بعد ازاں اس مسئلے کو نہایت خوش اسلوبی سے اس طرح حل کر لیا گیا کہ مینار کی بلندی سینٹ پیٹر چرچ سے دو فٹ کم کردی گئی۔ اب گنبد کی بلندی 130 فٹ اور مینار کی بلندی 141فٹ ہے۔ اس مسجد کے ساتھ ایک لائبریری بھی قائم کی گئی ہے جس میں دس ہزار کتابیں رکھی گئی ہیں۔