جنگ عظیم اول ٹینن برگ اور جھیل میسورین کے محاذ
اسپیشل فیچر
جنگ عظیم اوّل 1914ء سے 1918ء تک جاری رہی، اس دوران جنگ میں شریک ممالک کے درمیان مختلف محاذوں پر مختلف لڑائیاں ہوئیں۔ جن میں سے کچھ کی شہرت اور اہمیت اپنی مثال آپ ہے۔ ان ہی لڑائیوں میں سے ایک ٹینن برگ کے محاذ پر لڑی گئی جبکہ دوسری جھیل میسورین کے محاذپر لڑی گئی، جن کا ذکر نیچے کیا جا رہا ہے۔
ٹینن برگ کا محاذ
روس اپنے اتحادی فرانس کی خوشنودی اور اپنے دیرینہ دشمن جرمنی پر حملہ کرنے کیلئے جنگ کے آغاز سے ہی بے چین تھا۔ جنگ چھڑتے ہی روسی جنرل آف سٹاف کو معلوم ہو گیا تھا کہ جرمنی فرانس پر حملہ کر چکا ہے۔ اس صورتحال میں دوسرا منصوبہ عمل میں لایا گیا۔ جس کے تحت 20لاکھ فوج جو روس کی کل فوج کا ایک تہائی تھا، جرمنی کی سرحد پر صف آرا کر دی گئی۔
مشرقی پروشیا پر مشرق اور جنوب مشرق سے حملہ کرنے کیلئے پہلی آرمی جنرل پاوّل رینن کیمپف اور دوسری آرمی جنرل الیگزینڈر سام سونوو کی قیادت میں روانہ کی گئی۔ ان دو آرمیز کی کمان جنرل آئیوان زہیلن سکائی کے ذمے تھی۔ جنرل زہیلن سکائی نے اپنے دونوں افواج کو تیزی سے سرحدوں کی طرف بڑھ کر دشمن پر حملہ کرنے کی ہدایت کی۔17اگست کو جنرل رینن کیمپف کی پہلی آرمی نے سرحد پار کی۔ منصوبے کے مطابق جنرل سام سونوو کو 5دن بعد سرحد عبور کرنا تھی۔ جنرل رینن کیمپف نے جرمن افواج کو شمال اور مشرق میں منتشر کرنا تھا جبکہ جنرل سام سونوو نے آگے بڑھ کر ان کے عقب سے حملہ آور ہو کر پہلی آرمی سے آن ملنا تھا۔
جرمن مشرقی محاذ کے کمانڈر جنرل میکس وان پریٹ ویٹز نے روس کی پہلی آرمی کو مشرقی پروشیاء میں داخل ہو کر آگے بڑھنے کا موقع دینے اور پھر اچانک اس پر تابڑ توڑ حملے کرتے ہوئے سرحد پار دھکیل دینے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔ اس کے پہلی کور کے سرگرم کمانڈر جنرل ہرمن وان فرینکوئز نے از خود آگے بڑھ کر روس کی پہلی آرمی کا راستہ روک دیا اور روسی افواج کو بھاری جانی و مالی نقصان پہنچایا۔ جنرل فرینکوئز کا یہ عمل ایک مستحسن اقدام تھا مگر دوسری طرف جنرل پریٹ وٹز کے منصوبے کے منافی تھا۔
جنرل پریٹ وٹز کیلئے وقت بہت قیمتی تھا، کیونکہ اسے معلوم تھا کہ 5دن بعد جنرل سام سونوو اپنی دوسری آرمی کے ہمراہ سرحد عبور کر لے گا۔ اس لئے اسے 5دن سے پہلے پہلے روس کی پہلی آرمی سے فیصلہ کن جنگ کرکے اسے انتہائی لاغر کرتے ہوئے سرحد پار دھکیلنا اور جنوب میں آنے والی پہلی آرمی کیلئے صف آرا ہونا تھا۔ خوش قسمتی سے جنرل رینن کیمپف کو کسی بڑے خطرے کا احساس ہی نہ ہوا اور وہ جنرل فرینکوائز کے اچانک پیچھے ہٹ جانے کے باوجود مسلسل دو دن تک آگے بڑھتا رہا۔
20اگست کو جنرل پریٹ وٹز نے ایک بھرپور حملے کا حکم دیا۔ اس شدید حملے سے خاطر خواہ کامیابی تو حاصل نہ ہوئی مگر کسی قدر فتح ملی۔ تاہم اس ابتدائی معمولی کامیابی کے بعد صورتحال جوں کی توں رہی۔ اسی روز جنرل پریٹ وٹز کو یہ اطلاع ملی کہ جنرل سام سونوو کی دوسری آرمی بھی مشرقی پروشیا میں داخل ہو چکی ہے۔ تو اس نے دریائے وسٹولا کی طرف پسپائی کا حکم دیا۔
اس صورتحال پر جنرل پریٹ وٹز کو برطرف کرتے ہوئے ریٹائر جنرل پائول وان ہنڈن برگ اور جنرل ایرک ایف ڈبلیو لیوڈنڈروف کو صورتحال سے نمٹنے کیلئے روانہ کیا۔ ہر دو جرنیلوں نے اپنی افواج کو دونوں محاذوں پر تقسیم کردیا۔ اس طرح جو فوج جنرل رینن کیمپف سے برسر پیکار تھی وہ اسے الجھاتی ہوئی شمال مغربی جانب لے گئی، جبکہ باقی فوج جنرل سام سونوو کی پہلی آرمی کو شمال، جنوب اور سامنے سے گھیرتی ہوئی ٹینن برگ کے تنگ مقام تک لے آئی۔ یہاں جرمن فوج کے پہلے کور نے دشمن کے تین کور جو عقب کے علاوہ تینوں اطراف سے گھرے ہوئے تھے، عقب میں آکر دشمن کو محصور کر دیا۔شدید لڑائی ہوئی۔31اگست تک روس کی ڈیڑھ لاکھ فوج میں سے صرف 10ہزارفوجی ہی جان بچا سکے۔ جرمن افواج کو شاندار فتح ہوئی۔ اور ان کے 10سے 15ہزار فوجی جنگ میں کام آئے۔ روسی جرنیل جنرل الیگزینڈر سام سونوو نے انتہائی مایوس صورتحال میں خود کشی کرلی۔
جھیل میسورین کا محاذ
روس کے جرنیل زہیلن سکائی نے پہلی آرمی کو دوسری آرمی کی مدد کیلئے واپس بلایا مگر پہلی آرمی کے پہنچنے سے قبل ہی دوسری آرمی کا جرمن افواج کے ہاتھوں صفایا ہو گیا۔ تب پہلی آرمی نے واپس اپنے محاذ کا رخ کیا۔ اب بحیرہ بالکان سے لے کر جھیل میسورین تک روس کے اوّلین محاذ کی پٹی پر پہلی آرمی کو صف آرا ہونا تھا۔ کیونکہ زہیلن سکائی سمجھ رہا تھا کہ جرمن وارسا پر ضرور حملہ آور ہوں گے۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ روس کے جنوبی محاذ پر آسٹریا، ہنگری کی گلیشیا میں صورتحال بہت نازک تھی اور وہ جرمن افواج سے وارسا پر حملہ کرنے کا تقاضا کر رہے تھے تاکہ دشمن کی توجہ گلیشیا سے ہٹ کر وارسا کے دفاع کی جانب مبذول ہو جائے۔لیکن جرمن افواج کیلئے وارسا پر حملہ آور ہونے سے پہلے جنرل رہینن کیمپف کی آرمی کو ختم کرنا اہم تھا۔9،10ستمبر کو جرمن پہلے کور نے لائک کے قریب روس کے دوسرے کور کو شدید لڑائی کے بعد پسپا کر دیا۔ جنرل رہینن کیمپف نے ایک اور ٹینن برگ کے خوف سے فوراً ہی اپنی افواج کو دستبردار ہوتے ہوئے پسپائی کا حکم دیا۔
چونکہ ابھی روسی افواج پوری طرح زیر و زبر نہیں ہوئی تھیں۔ ان میں دم خم باقی تھا۔ اس لئے جنرل ہینن کیمپف نے جرمن حملے کے خدشے کے پیش نظر ایک جوابی حملہ کیا۔ جس میں جرمن افواج کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ تاہم روس کی پہلی آرمی کو 50گھنٹے میں 55 کلو میٹر پسپا ہو کر روس کی سرحد میں داخل ہونا پڑا۔ اس مرتبہ جنرل رہینن کیمپف کی پہلی آرمی دوسری آرمی کی طرح مکمل طور پر گھیرے میں نہ آ سکی۔ پھر بھی جرمن افواج روس کی پہلی آرمی کو شدید نقصانات پہنچانے میں کامیاب رہیں۔