پاکستانی فلمی موسیقی کا درخشاں باب اے حمید
اسپیشل فیچر
پاکستانی فلمی موسیقی کی تاریخ جب بھی لکھی جائے گی، تو ایک نام سنہری حروف میں ضرور رقم ہوگا،اور وہ نام ہے اے حمید کا۔ تین دہائیوں پر محیط شاندار فلمی کریئر، 70 سے زائد فلموں کی موسیقی اور 450 سے زیادہ دل کو چھو لینے والے نغمے اس عظیم موسیقار کے فن کا واضح ثبوت ہیں۔
ے حمید پاکستانی فلمی موسیقی کا ایک بہت بڑا نام تھے۔ وہ کمال کے موسیقار تھے کہ ان کے بہت کم گیت ایسے ہیں جو مقبول نہ ہوئے ہوں، ان کے سپرہٹ گیتوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ مادری زبان پنجابی ہونے کے باوجود اردو فلموں کے سکہ بند موسیقار تھے اور پورے فلمی کریئر میں صرف 8 پنجابی فلموں کی موسیقی ترتیب دی تھی۔
1933ء میں امرتسر (بھارت) میں پیدا ہونے والے شیخ عبدالحمید، جنہیں فلمی دنیا میں اے حمید کے نام سے شہرت ملی، نے تقسیم ہندکے بعد پاکستان میں فنِ موسیقی کا آغاز کیا۔ ان کی پہلی فلم ''انجام‘‘ 1957ء میں ریلیز ہوئی، لیکن اصل شہرت انہیں 1960ء کی فلم ''رات کے راہی‘‘ سے ملی۔ اس فلم کا لازوال گیت ''کیا ہوا دل پہ ستم، تم نہ سمجھو گے بلم‘‘ آج بھی سننے والوں کو ایک الگ ہی دنیا میں لے جاتا ہے۔
اسی برس ایس ایم یوسف کی فلم ''سہیلی‘‘ نمائش پذیر ہوئی، جس نے نہ صرف باکس آفس پر کامیابی کے جھنڈے گاڑے بلکہ اے حمید کی حیثیت کو بھی مستحکم کر دیا۔اس فلم کے گیت ''کہیں دو دل جو مل جاتے‘‘ نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔1962ء کی فلم ''اولاد‘‘، اور بعد ازاں آشیانہ (1964ء)، توبہ (1965ء ) اور بہن بھائی (1968ء ) میں ان کے کمپوز کردہ نغمات زبان زد عام ہوئے۔ فلم ''توبہ‘‘ کی قوالی ''نہ ملتا گر یہ توبہ کا سہارا ہم کہاں جاتے‘‘ آج بھی کلاسیکی موسیقی کے چاہنے والوں کے دلوں کو چھو جاتی ہے۔
اے حمید کا فن صرف رومانوی یا روایتی فلمی دھنوں تک محدود نہیں رہا۔ 1971ء میں ریاض شاہد کی فلم ''یہ امن‘‘ میں انہوں نے سنجیدہ اور قومی جذبے سے بھرپور موسیقی ترتیب دی۔ اس فلم کا گیت ''ظلم رہے اور امن بھی ہو، کیا ممکن ہے تم ہی کہو‘‘ مہدی حسن اور نور جہاں کی آواز میں ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔
1972ء میں شریف نیئر کی فلم ''دوستی‘‘ نے سپر ہٹ کا درجہ حاصل کیا۔ اے حمید کی ترتیب دی گئی موسیقی، قتیل شفائی، کلیم عثمانی اور تنویر نقوی کے لکھے ہوئے گیتوں کے ساتھ، فلم کی کامیابی کی بنیاد بنی۔ ''یہ وادیاں، یہ پربتوں کی شاہ زادیاں‘‘ اور ''چٹھی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے‘‘ جیسے گیت آج بھی شائقین کو جھومنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔1974ء میں فلم ''سماج‘‘ کیلئے ان کا دیا ہوا سنگیت، اور 1976ء میں حسن طارق کی فلم ''ثریا بھوپالی‘‘ کی موسیقی، اے حمید کے فن کی معراج سمجھی جاتی ہے۔ خصوصاً ناہید اختر کی آواز میں گائے گئے گیت آج بھی دل کی گہرائیوں تک اثر کرتے ہیں۔
پنجابی زبان ان کی مادری زبان تھی، مگر دلچسپ امر یہ ہے کہ انہوں نے اپنی تمام تر فنی زندگی میں صرف آٹھ پنجابی فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔ ان میں 1976ء کی فلم ''سوہنی مہینوال‘‘ خاص طور پر قابلِ ذکر ہے، جس کے نغمے سیف الدین سیف کے لکھے ہوئے تھے اور اے حمید نے انہیں جادوئی دھنوں سے سجا دیا۔
اے حمید کو موسیقی سے والہانہ لگاؤ تھا۔ انہوں نے پونا فلم انسٹی ٹیوٹ سے موسیقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی تھی۔ وہ پیانو بجانے میں بھی مہارت رکھتے تھے اور ان کے بیشتر کمپوزیشنز میں مغربی اور مشرقی موسیقی کا حسین امتزاج ملتا ہے۔ان کے ساتھ کام کرنے والے شعرا میں فیاض ہاشمی، قتیل شفائی، سیف الدین سیف اور حبیب جالب جیسے بڑے نام شامل ہیں، جنہوں نے ان کے سنگیت کو نغمات کی شکل میں امر کر دیا۔
20 مئی 1991ء کو راولپنڈی میں ان کا انتقال ہوا، مگر ان کی موسیقی آج بھی زندہ ہے، دلوں کو چھوتی ہے اور سننے والوں کو ماضی کے سنہری دور میں لے جاتی ہے۔ اے حمید کا نام ہمیشہ پاکستانی فلمی موسیقی کی تاریخ میں روشن رہے گا۔
اے حمید کے چند مقبول عام گیت
کیا ہوا دل پہ ستم ، تم نہ سمجھو گے بلم(رات کے راہی)
ہم بھول گئے ہر بات مگر تیرا پیار نہیں بھولے(سہیلی)
مکھڑے پہ سہرا ڈالے ، آجا او آنے والے (سہیلی)
کہیں دو دل جو مل جاتے، بگڑتا کیا زمانے کا (سہیلی)
نام لے لے کے تیرا ہم تو جئیں جائیں گے (فلم اولاد)
نہ ملتا گر یہ توبہ کا سہارا، ہم کہاں جاتے(توبہ)
چٹھی جرا سیاں جی کے نام لکھ دے(دوستی)
یہ وادیاں، یہ پربتوں کی شاہ زادیاں (دوستی)
کس نام سے پکاروں، کیا نام ہے تمہارا(غرناطہ)
ظلم رہے اور امن بھی ہو ، کیا ممکن ہے(یہ امن)
اب کہ ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں(انگارے)
چند دلچسپ حقائق
٭... پہلی فلم کی طرح ان کی آخری فلم ''ڈسکو دیوانے‘‘کے ہدایتکار بھی جعفربخاری تھے۔
٭...اے حمید نے سو سے زائد گیت نغمہ نگار فیاض ہاشمی سے لکھوائے تھے۔
٭...زیادہ تر گیت میڈم نورجہاں ، مالا ، مہدی حسن اور منیر حسین سے گوائے۔
٭...گلوکار اے نیر کو دریافت کیا،فلم ''بہشت‘‘ (1974ء) میں روبینہ بدر کے ساتھ دوگانا ''یونہی دن کٹ جائیں، یونہی شام ڈھل جائے‘‘ گوایا تھا۔
٭...معروف پاپ سنگر نازیہ حسن کو بھی پہلی بار ہدایتکار حسن طارق کی اردو فلم سنگدل (1982) میں گوایا تھا جس میں یہ گیت تھا ''ڈسکو دیوانے‘‘ بین الاقوامی شہرت کی حامل اس پاکستانی گلوکارہ کی پہچان اس کا پہلا سپرہٹ ڈسکو گیت تھا''آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے تو بات بن جائے‘‘یہ گیت بھارتی فلم ''قربانی‘‘ کیلئے گایا گیا تھا۔