سائیں شاہ لطیف بھٹائی
وادی مہران ،باب الاسلام سندھ کے مشہور صوفی شاعر حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائی بارہویں صدی ہجری کے اوائل میں ہالاکے قریب ایک گاؤں بھٹے پور میں پیدا ہوئے ،آپ کے والد کانام شاہ حبیب رحمۃُاﷲعلیہ تھا وہ ایک ولیٔ کامل تھے آپ کے جدامجدعبدالکریم شاہ مشہور بزرگ تھے اور بلڑی کے شاہ کریم کے نام سے مشہور ہوئے ۔شاہ عبد اللطیف رحمۃُاﷲعلیہ نے ابتدائی تعلیم نُورمحمد بھٹی سے حاصل کی اور بھٹ شاہ بارہ میل دور گاؤں وائی کے رہنے والے اور مشہور مُدرس تھے آپ نے اپنے والد شاہ حبیب رحمۃُاﷲعلیہ سے دینی تعلیم حاصل کی ۔آپ سادگی پسند ،شیریں گفت گوکرتے اورہر ایک سے عُجزواِنکساری سے پیش آتے شاہ حبیب رحمۃُاﷲعلیہ بھٹے پور سے نکل کر کوٹری مُغل میں رہنے لگے ،یہاں رئیس مرزامغل بیگ اور ارغوان خاندان آباد تھا ۔ایک دن رئیس مرزا مغل بیگ کی بیٹی بی بی سیدہ بیمار ہوئیں تو انہوں نے دعاکے لیے شاہ حبیب کو بُلا بھیجا ۔انہوں نے اپنی بیماری کے باعث شاہ لطیف رحمۃُاﷲعلیہ کو اپنے ساتھ لیا ۔شاہ لطیف رحمۃُاﷲعلیہ شعر گوئی کی فطرت رکھتے تھے، عشق الٰہی میں ڈوبے ہوئے تھے شاہ صاحب کا رجحان شعر گوئی ،سیاست ،بزرگوں فقیروں کی صحبت میں بیٹھنا اور یاد الٰہی میں مشغول رہنا تھا۔1713ء میں قبیلہ دل کے لٹیروں نے مرزا مغل پر حملہ کیا اور مال ودولت لوٹ کرچلے گئے شاہ عبد اللطیف رحمۃُاﷲعلیہ کو اطلا ع ملی تو آپ نے مددکی پیش کش کی مگر مغلوں نے انکار کیاجس کے باعث دل کے لُٹیروں نے مرزا مغل کا خاندان قتل کرڈالا ۔مرزاکی مستورات احساسِ ندامت لیے شاہ عبداللطیف رحمۃُاﷲعلیہ کے پاس حاضرہوئیں۔ شاہ لطیف نے انہیں بڑی عزت دی اور شریعت کے مطابق سیّدہ بی بی سے نکاح کیا۔سیدہ بی بی نے وفا شعار ی اور خدمت گزاری کی مثال قائم کی ۔شادی کے بعد شاہ عبداللطیف رحمۃُاﷲعلیہ کی ریاضت ،عبادات اور شعر گوئی میں اضافہ ہوا،محفل سماع بھی جاری ہوئی۔ موسیقی میں طنبورہ اور دیگر آلات ایجاد کیے دور دُور تک آپ کے عارفانہ کلام کی شہرت پہنچ گئی ۔محفل سماع اورطنبورہ نے بھی شہرت پائی، لوگ آپ کے پاس جوق در جوق آنے لگے ،آپ کا کلام سننے ،سماع کی محفل میں شر کت کرنے لگے اور دُور دراز واپس جاکر لوگوں کو آپ کا کلام سنانے لگے ۔آپ کا دل عشق الٰہی میں بڑھتا گیا اور آپ ہجوم سے ہٹ کر ٹیلے پر بیٹھ کر غوروفکر کرنے لگے اس میں آپ کوسکون محسوس ہونے لگا۔ یہاں مستقل رہائش اختیار کی بعد میںیہ جگہ بھٹ شاہ کے نام سے مشہور ہوگئی ۔شاہ لطیف رحمۃُاﷲعلیہ ایک عظیم صوفی ،آفاقی شاعر تھے۔ آپ نے بیش تر عمرسیر سیاحت فقیروں، صوفیوں کی صحبت میں گزاری اِن سے فیض حاصل کیا ۔ اس فیض کو اپنی فطری شعر گوئی کی قوت وصلاحیت کے نتیجے میں اشعار میں ڈھالا چوں کہ آپ سچے عاشق تھے اور عشق مجازی سے عشق حقیقی اور عشق الٰہی کی طرف پہنچے تھے، اسی لئے آپ کے کلا م میںبھرپورسوزوگداز ہے ،موسیقیت طبیعت میں تھی وہی شاعری میں جھلک آئی ان کی شاعری میں رموز،صوفیانہ رنگ ،شعریت اورموسیقیت سب ہی ملتا ہے ۔ادبی نثر پارے یاشعری پارے کی مقبولیت میں یہی عوامل کار فرماہوتے ہیں، جوادب گردوپیش علاقائی واقعات وکردار سے متاثر ہوکر تخلیق کیا گیا ہو،اس میں اخلاقی پیغام، آفاقی فکر ،فنی محاسن ہوں ۔ان اُصولوں پر جب ہم شاہ عبداللطیف رحمۃُاﷲعلیہ کی شاعری پرکھتے ہیں تو وہ عالمی صوفیانہ شاعری کے معیار پر پوری اُترتی ہے ۔شاہ عبداللطیف رحمۃُاﷲعلیہ نے بقیہ عمر بھٹ شاہ میں گزاری 1752میں آپ کا انتقال ہوا۔ ہرسال 14صفر کو آپ کا عر س منایا جاتا ہے سند ھ کے کلہوڑہ خاندان کے حکم راں غلام شاہ کلہوڑہ نے آپ کا مزار تعمیر کرایا۔شاہ عبداللطیف رحمۃُاﷲعلیہ کی شاعری شاہ جو رسالوکے نام سے جمع کی گئی اس کے مختلف زبانوں میں تراجم ہوئے اردومیں شیخ ایاز ،رشید احمد لاشاری ،پروفیسر آفاق صدیقی اور دیگر حضرات نے تراجم کیے اور آپ کے عارفانہ کلا م کا فیض عام کیا ۔مشہور جرمن اسکالر مسز این میری شمل نے شاہ عبداللطیف کے کلام کا جرمن زبان میں ترجمہ کیا اور شاہ صاحب رحمۃُاﷲعلیہ کا کلام یورپ میں متعارف کرایا۔شاہ صاحب رحمۃُاﷲعلیہ کا کلام سندھ کی حدود سے نکل کر برصغیر پاک وہند اورایشیا سے بڑھ کر ساری دنیامیں مشہور ہوگیا یہ آپ کی انسان دوستی، دھرتی سے محبت عشق الٰہی پر مشتمل کلام ہے جو بے پنا ہ مقبول ہوا۔آپ کا شمار دنیا کے اہم صوفی شعرا ء میں ہوتا ہے ۔آپ کی شاعری عالمی شاعری کا در جہ رکھتی ہے ۔حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائی نے اپنے کلام میں توحید الٰہی ،حب رسولﷺ، حقیقت ومعرفت ،شریعت وطریقت اور حیات وکائنات کے اسرازورموز کو شر ح وبسط سے بیان کیا ہے، شاہ صاحب نے فلسفۂ تصوف محض ایک نظریے کے طور پر نہیں ،بلکہ جزوِزندگی بناکر اپنایا تھا، اجزائے ترکیبی کُل میں سموکر تخلیق کا ئنات وتعمیر حیات کا راز بن گئے ۔تلاش حق اور راہِ حق کے نکات شاہ صاحب رحمۃُاﷲعلیہ نے اپنے کلا م میں بڑی صراحت سے بیان کیے ہیں۔ آپ کا کلام عالمی شہرت رکھتا ہے۔ ہرزبان میں اس کے تراجم ہوئے۔آپ کاکلام امن دوستی، انسان دوستی کے حوالے سے امن دوستوں ،انسان دوستوں کے لیے کشش رکھتا ہے ،سندھ دھرتی اور سندھ کے روایتی کرداروں کو آپ نے اپنے اشعار کے ذریعے بین الاقوامی بنایا اورانہیں اَمر کردیا ۔آپ نے محبت ،امن اورانسان دوستی کا پیغام دیا۔ یہی قرآنی تعلیمات ہیں یہی صوفیانہ طرز فکر ہے کہ سب انسان اس زمین کے بیٹے ہیں ۔یہ کائنات سب کے لیے ہے اس کائنات کو حسین اور انسان کو خوبصورت بنانا ہے ۔انسان کی بقاء محبت پیار میں ہے، یہی شاہ عبداللطیف کا پیغام ہے کہ انسانوں سے پیار کریں جو اس کائنات کا حسین تحفہ ہے ۔شاہ عبد اللطیف بھٹائی نے 26سال کی عمر میں بھٹ شاہ میں سکونت اختیار کی اور وہیں رحلت فرمائی ،یہ وہ مقام ہے جہاں شاہ صاحب رحمۃُاﷲعلیہ نے روحانیت ومعرفت وشعروتصوف کو معراج کمال پر پہنچایا۔ ’’بھٹ‘‘ سندھی میں ریت کے ٹیلے کو کہتے ہیں، جب یہ ویران مقام شاہ صاحب کا روحانی مسکن بناتو یہ علاقہ آباد ہو گیا اس کانام بھٹ شاہ یعنی شاہ صاحب رحمۃُاﷲعلیہ کا ٹیلہ قرار پایا ،بھٹ شاہ ہالہ شہر سے چھ میل کے فاصلے پر مشر ق کی جانب نشیبی خطے میں واقع ہے شاہ صاحب کا مزار اونچے ٹیلے میں آج بھی مرجع خاص وعام ہے ۔