یورپ :پاکستانی طلباء کا منتظر،سہولتیں اور مواقع ساتھ ساتھ ،محنت شرط اول

دنیا فورم

تحریر : میزبان: مصطفیٰ حبیب صدیقی ایڈیٹرفورم رو زنامہ دنیا کراچی رپورٹ:اعجازالحسن عکاسی : محمد مہدی لے آئوٹ : توقیر عباس


شرکاءآفتاب کھوکھر :پاکستانی سفیر (ویانا) آسٹریا محمد فیصل : پاکستانی سفیر (برلن) جرمنی ۔ ظہوراحمد :پاکستانی سفیر (اسٹاک ہوم ) سوئیڈن احمد فاروق:پاکستانی سفیر (کوپن ہیگن) ڈنمارک کراچی سے ڈاکٹر زبیر احمد شیخ ، وی سی اور صدر محمد علی جناح یونیورسٹی(ماجو) طلبہ و طالبات کی کثیر تعداد

آسٹریامیں ڈیولپمنٹ ایجنسی طلباء کو مختلف شعبوں میں اسکالر شپ فراہم کرتی ہے:  آفتاب کھوکھر

جرمنی کا ویزا آسانی سے ملتاہے ، سوشل سائنس اورپولی ٹیکنک انسٹی ٹیوٹ میں مواقع ہیں:  محمد فیصل

پاکستانی طالب علموں کا ڈنمارک آنا اور معاشرے میں ضم ہونا مشکل نہیں:   احمد فاروق

سوئیڈن میں ٹیکنیکل ووکیشنل تعلیم کے ساتھ زرعی تعلیم کے لئے بہت مواقع ہیں:   ظہور احمد

 100سائنسدانوں میں 2پاکستانی سائنسدانوں کا تعلق محمد علی جنا ح یونیورسٹی سے ہے:   ڈاکٹر زبیر شیخ

 

موضوع:’’ پاکستانی طلباء کا یورپ میں مستقبل ‘‘

 

ڈاکٹر زبیر شیخ :پاکستانی طلباء کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے اور جامعات کے درمیان تعلق کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے ۔ محمد علی جناح یونیورسٹی ہر لمحہ طلباء کی صلاحیت میں اضافے کیلئے کوشاں ہے،یہ کہنا غلط ہے کہ پاکستان کی یونیورسٹیوں میں کچھ نہیں ہوتا۔ اس وقت دنیا میں سرفہرست 100سائنسدانوں میں پاکستان کے 2 سائنسدان کا تعلق محمد علی جنا ح یونیورسٹی سے ہے جو ہمارے لیے فخر ہے۔ ہم سولر انرجی ،رینول انرجی پر کا م کررہے ہیں ،بائیو سائنس پر ریسرچ بھی ہورہی ہے، دنیا فور م نے اچھا موقع فراہم کیا ہے کہ ہمارے ادار ے اور یونیورسٹیاں دیگر ممالک کے ساتھ کیسے کام کریں اور کیا مواقع ہیں جنہیں ہم استعمال کرسکتے ہیں اس پر بات ہوسکتی ہے۔ سفیروں اور دنیا فورم کا شکریہ ادا کرتاہوں ۔

دنیا: پاکستانی طلباء کیلئے آسٹریا میں کیا مواقع ہیں؟

 آفتاب کھوکھر (آسٹریا): سب سے پہلے دنیا فورم کا شکریہ ادا کرتاہوں جنہوں نے ملک کے قابل فخر طلباء سے وڈیو لنک کے ذریعے براہ راست گفتگو کرنے اور مسائل شیئر کرنے کا موقع دیا۔ تعلیم ایسا شعبہ ہے جو پاکستان اور دوسرے ممالک میں مستقل بنیادوں پر رشتہ استوار کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ طالب علم کسی بھی ملک کے بہترین سفیر ہوتے ہیں۔ طلباء ان ممالک میں آتے ہیں،رہتے ہیں،لوگوں سے مل جول کرتے ہیں، معاشرے کا حصہ بنتے ہیں ،ان سے تعلقات بنتے ہیں اور اچھے تعلقات ہی ملک کی پہچان بنتاہے۔ہماری بنیادی ذمہ داری ہے تعلیم کے میدان میں پاکستانی طلباء کومعلومات اور سہولت فراہم کریں ۔2006میں ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان (HEC)اور آسٹریا کی ایجوکیشن منسٹری نے ایجوکیشن اور سائنٹیفک کوآپریشن پر MOU سائن کیا ، جس سے یونیورسٹیاں فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔2003میں ہائر ایجو کمیشن کاآسٹرین فیڈرل انسٹیٹیوٹ فار انٹرنیشنل ٹرانسفر آف ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ سے معاہد ہ ہوا ۔

یہ ایم او یو ،پی ایچ ڈی اسکالرز کیلئے بھی ہے وہ آسٹریا سے پی ایچ ڈی کرسکتے ہیں۔2014ء میں یونیورسٹی آف ویٹرنری میڈیسن ویانا کا فیکلٹی آف بائیو سائنسز یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینمل سائنسز لاہور کے درمیان معاہد ہ موجود ہے۔پاکستان اکیڈمک سائنسز اور آسٹریا اکیڈمک سائنسز نے 2020میں ایک معاہد ہ کیا ہے ۔اس وقت آسٹریا میں 45پاکستانی پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ایک او ر اہم پروجیکٹ جو آسٹریا کے ساتھ گزشتہ سال ہری پور میں خیبر پختونخواہ حکومت کے ساتھ ہوا ہے اس میں آسٹریا کی پاکستان کے ساتھ طویل مدتی منصوبہ بندی ہے، جس میں طلباء مشترکہ تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔

ا سکے علاوہ یونیورسٹی کے پروفیسر اور اسکالرز کیلئے بھی آسٹریا میں پلیٹ فارم موجود ہے، جس میں پروفیسر ز مل کر ریسرچ کر تے ہیں او ر ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ہیں،صرف کراچی یونیورسٹی اس کی رکن ہے ۔آسٹریامیں ڈیولپمنٹ ایجنسی طلباء کو مختلف شعبوں میں اسکالر شپ فراہم کرتی ہے،جس میں نیشنل سائنسز،ٹیکنیکل سائنسز ،ہیومین میڈیسن،ہیلتھ سائنسز،ایگری کلچر ،سوشل سائنسز اور آرٹس شامل ہیں۔ داخلوں کی تمام معلومات اور سہولتیں انٹرنیٹ پر موجو د ہیں،طلباء معلومات حاصل کریں ، کوئی دشواری ہے تو ہماری وزارت ہر وقت تیار ہے ہم سے رابطہ کریں۔کئی یونیورسٹیوں میں انگریزی کے پروگرام شروع کردیئے گئے ہیں لیکن جرمن زبان جو آسٹریا کی بھی قومی زبان ہے،داخلے کیلئے جرمن زبان کا لیول 1 ہونا لازمی ہے تاکہ طالب علم اپنی پڑھائی اچھے طریقے سے کرسکیں،کچھ یونیورسٹیوں میں دونوں زبانیں ہیں زیادہ تر جرمن زبان چلتی ہے۔

طالب علموں سے درخواست ہے جب آئیں تو زبان ضرور سیکھیں او ر جس ملک بھی جائیں وہاں کی زبان سیکھیں تاکہ پڑھائی کے ساتھ روزگار کے مواقع بھی حاصل ہوں۔داخلوں کیلئے ،کاغذات کی شناخت ،تحریری ٹیسٹ اور انٹرویو 3 بنیادی مراحل ہیں ، کارروائی میں 6سے 8ماہ لگ سکتے ہیں کوروناکی و جہ سے کام کی رفتار سست ہوگئی ہے

جس سے وقت لگتا ہے،اسلام آباد میں آسٹریا کے سفارت خانے نے شکایت کی ہے کہ بعض طلباء ایجنٹ کا استعمال کرتے ہیں ،بعض مرتبہ ایک ہی کریڈٹ کارڈسے ادائیگی کی جاتی ہے جس سے شبہات پیدا ہوتے ہیں،داخلے کیلئے پولیس سر ٹیفکیٹ، پیدائشی سر ٹیفکیٹ ،پاسپورٹ کی میعاد ا کم از کم ا یک سال ہونی چاہیے، سب سے پہلے ڈگری کی تصدیق ہوتی ہے، وزارت برائے خارجہ امورکے دفاتر ہر جگہ موجودہیں وہاں سے تصدیق ہوسکتی ہے۔ سفارت خانے سے کوریئر کے ذریعے بھی تصدیق کراسکتے ہیں۔اکثر لوگ داخلہ لینے کیلئے اکاؤنٹ میں پیسے جمع کرادیتے ہیں ،پروسز کے بعد نکال لیتے ہیں ،سفارت خانہ اس کو چیک کرتا ہے کہ پیسے ابھی جمع کرا ئے ہیں یا پہلے سے موجود ہیں،جس کے باعث سفارت خانہ داخلہ رکوادیتاہے یا پھر پروسز تاخیر سے ہوتاہے،ٹریولز انشورنس کرانا ضروری ہے،رہائش کا معاہدہ کرنا ہوتاہے۔

محمد فیصل (جرمنی ) : جرمنی میں تعلیم مفت ہے ،رہائش اور دیگر اخراجات دینے ہو تے ہیں، داخلے کیلئے9سے 10ہزار یورو دکھانے ہوتے ہیں۔تاکہ شروع کے ایک سال کے اخراجات اٹھا سکیں، پاکستانی طلبا ء بہت محنتی ہیں اس میں کچھ پیسے بچالیتے ہیں تاکہ اگلے سال کام آسکیں۔پہلے سال مشکل ہوتی ہے ،دوسرے سال ملازمت کرکے اخراجات پورے ہوجاتے ہیں۔ویزا تاخیر سے ملتا ہے ایک سال لگ جاتاہے، داخلے کی درخواست دینے کے بعد جرمن زبان سیکھ لیں،6 ماہ لگ سکتے ہیں اس سے فائدہ ہوگا۔امریکا ،انگلینڈ،آسٹریلیا ،نیوزی لینڈ میں تعلیم بہت مہنگی ہے ،جرمنی میں آدھے سے زیادہ کورسز انگریزی زبان میں ہیں،جرمنی میں5سے 10ہزار پاکستانی طالب علم تعلیم حاصل کررہے ہیں ،آگہی ہونے کی و جہ سے طلباء بہت آرہے ہیں ،جرمنی میں پیسہ اور ٹیکنالوجی بہت ہے،یہاں خواتین کیلئے بہت مواقع اور حوصلہ افزائی ہوتی ہے ،

جنہیں ملازمت بھی مل جاتی ہے ،جرمنی کا ویزہ آسانی سے مل جاتاہے،یہاں سے کام کرنے کے بعد دیگر ممالک جانا آسان ہے، بیچلر،ماسٹر اور پی ایچ ڈی کے طالب علم بھی ہیں ۔ ٹیکنیکل اور انجینئرنگ کی تعلیم بہت اچھی ہے۔جرمنی میں پورا پورا شہر سیمنز یا مرسڈیز نے آباد کیا ہواہے،پی ایچ ڈی میں شروع کے 6 ماہ یونیورسٹی اور ڈیڑھ سال انڈسٹری میں دینے ہوتے ہیں اس دوران تنخواہ بھی ملتی ہے،جرمنی میں آگے بڑھنے کے بہت مواقع اور گنجائش ہے۔یہاں میڈیسن اور بائیولوجی میں خاتون ڈاکٹر آصفہ اختر کی بہت خدمات ہیں۔ میکس پلان انسٹی ٹیوٹ میں ڈائریکٹر ہیں جو حال ہی میں تعینات ہوئی ہیں ۔ادارہ 120 سال پرانا ہے اور 26نوبل انعام حاصل کرچکا ہے ۔ مکیس پلان انسٹی ٹیوٹ کا HEC(پاکستان) کیساتھ معاہد ے کی کوشش کررہے ہیں ،طالب علم میکس پلان انسٹی ٹیوٹ کے ویب سائٹ پر اپلائی کرسکتے ہیں،

آپ میرٹ پر اترتے ہیں تو سلیکٹ کرکے داخلہ دے دیں گے او ر رہنمائی بھی کردینگے ۔جرمنی میں سوشل سائنس میں بہت کام ہورہا ہے،لیکن ہم اس طرف توجہ نہیں دے رہے ،ہمارے بزرگ حکیم الامت شاعر مشرق علامہ اقبال 1906میں جرمنی (ہائیڈن برگ ) میں آئے تھے اور پی ایچ ڈی شروع کی۔ اس وقت بھی لوگ سوشل سائنس میں پڑھنے آتے تھے ،یہاں بھارت کا اثررسوخ زیادہ ہے ہم اس طرف قدم نہیں اٹھارہے۔دنیافورم کے توسط سے کہنا چاہوں گا کہ جرمنی میں سوشل سائنس کے شعبہ میں بھی بہت کام اور مواقع ہیں طلباء اور نوجوان اس طرف آئیں۔یہاں پولی ٹیکنک انسٹی ٹیوٹ بھی بہت ہیں۔دسویں یا بارہویں جماعت میں پڑھ کر پولی ٹیکنیک میں کام کرسکتے ہیں،اس میں بہت گنجائش ہے ۔ پولی ٹیکنیک پر بھی کام کررہے ہیں جس میں طالب علم کچھ عرصے کیلئے آکر کورس کرسکتے ہیں ۔

احمد فاروق (ڈنمارک ):تعلیم کے حوالے سے ڈنمارک پاکستان کیلئے انمول ملک ہے،تعلیم کامعیار بہت اونچا ہے، یونیورسٹیوں کی ہائی رینکنگ ہے،انڈر گر یجویٹ میں زیادہ تر پروگرام ڈینش زبان میں ہیں۔ماسٹرکے تمام پروگرام انگریزی زبان میں ہوتے ہیں،ڈینش مادری زبان ہے لیکن انگریزی عام بولی جاتی ہے۔پاکستانی طالب علموں کا ڈنمارک آنا اور معاشرے میں ضم ہونا مشکل نہیں۔داخلے کیلئے یونیورسٹیوں کی ویب سائٹ پر تفصیلات موجود ہیں،داخلے آن لائن ہوتے ہیں،مفت تعلیم صرف مقامی لوگوں کیلئے ہے،امریکا ، آسٹریلیا اور برطانیہ کی نسبت تعلیم سستی ہے۔

ایک ہزار یورو ماہانہ اخراجات آتے ہیں،کچھ محدود اسکالر شپس ہیں، پاکستانی طلباء محنتی ہوتے ہیں معیار پر پورا اترسکتے ہیں۔ ڈنمارک کی پاکستان میں کچھ یونیورسٹیوں سے بات چل رہی ہے ، HEC فنڈنگ کردے تو طلباء کو رہنے میں آسانی ہوسکتی ہے،تجارت کے حوالے سے یورپی منڈیوں تک رسائی آ سان ہے،بعض اشیاء پر 0فیصد ٹیرف پر برآمد کی اجازت ہے، ٹیکسٹائل ،آئی ٹی وغیرہ میں بہت مواقع ہیں۔

ظہور احمد(سوئیڈن) :سب سے پہلے دنیا فورم کا شکریہ جنہوں نے ملک کے ہونہار طالب علم سے مکالمہ کرنے کا موقع دیا۔ سوئیڈن اور فن لینڈ دونوں ممالک میں پاکستان کی طرف سے نمائندگی کرتا ہوں۔ دونوں کی آبادی 15ملین تقریبا ڈیڑھ کروڑ ہے جبکہ رقبہ پاکستان کے برابر ہے۔انسانی وسائل زیادہ نہیں ۔کچھ علاقوں میں غیر مناسب موسم رہتا ہے جہاں کافی عرصے تک سردیاں رہتی ہیں۔ سوئیڈن میں دوقدرتی ذرائع جنگلات اور آئرن بہت ہیں ،ان دونوں ممالک میں قدرتی ذرائع زیادہ نہیں اس کے باوجود ایجادات میں یورپ کے بڑے ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔دنیا کی بڑی بڑی کمپنیوں کا تعلق سوئیڈن سے ہے۔ایجوکیشن ،ٹیکنالوجی اور انڈسٹری کا آپس میں گہرا تعلق ہے،ہماری یونیورسٹیوں کو انڈسٹری کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے،

ہمارے طالب علم اداروں سے پڑھ کر نکلے ان میں صلاحیت ہو کہ معیشت کو سنبھالا دے سکیں۔سوئیڈن اور فن لینڈ ٹیکنالوجی اور آئی ٹی میں بہت آگے ہیں ،جس کی بنیادی وجہ ان کے تعلیمی اداروں کا ا نڈسٹری سے رابطہ ہے،تعلیم کا بنیادی مقصد معیشت کو مضبوط کرنا ہوتا ہے،سوئیڈن میں Sustainable   Development  or Reneveable  Technology پر بہت کام کررہا ہے اور چاہتا ہے وہ دنیا کا پہلا ملک بنے جو Fossil Free Economy  ہو ۔ Sustainable Energy کی ایجوکیشن کیلئے دونوں ممالک بہت مفید ہیں ۔ سوئیڈن اپنی خارجہ پالیسی کو Feminist Policyکہتا ہے۔یہ اس ملک اور کمپنی کے ساتھ تجارت بھی نہیں کرتا جس میں خواتین کی اکثریت نہ ہو،یہی وجہ ہے طالبات کو سوئیڈ ن میں بہت مواقع نظر آئیں گے۔سوئیڈن کے کچھ تعلیمی ادارے پاکستان کے ساتھ کام کررہے ہیں، تحقیقی کاموں کے حوالے سے یونیورسٹیوں کویورپ میں آزادی ہے۔کسی بھی ملک کے سفارت خانے قانونی مدد اور ماحول فراہم کرتا ہے لیکن تعلیمی میدان میں آگے نکلنا یا ریسرچ کرنا یونیورسٹیوں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ پاکستان کی یونیورسٹیوں سے رابطے کررہے ہیں ،

محمد علی جناح یونیورسٹی سے بھی بات کریں گے ۔دونوں ممالک کی جامعات کے درمیان معاہدہ ہوسکتا ہے اس پر کام بھی کررہے ہیں ،ترکی میں یونیورسٹی ہے جو ٹیکنیکل او ر ووکیشنل ٹریننگ میں فن لینڈ کا بڑا ادارہ ہے ، جس کا پاکستان مین نیوٹیک کے ساتھ معاہد ہ ہوا ہے۔ پاکستان میں دیگر ایجوکیشن کی نسبت ٹیکنیکل ووکیشنل تعلیم بہت سو د مند ہے۔آگے بڑھنے کیلئے مقامی زبان سیکھنی چاہیے۔ پاکستانیوں میں بہت صلاحیت ہے ،یہی وجہ ہے پاکستانی ہر ملک میں کام کرتے نظر آئیں گے۔ سوئیڈن میں ایگری کلچر یونیورسٹی بھی بہت اچھی ہے،فن لینڈ دنیا کا وہ ملک ہے جہاں دودھ کی پیداوار زیادہ ہوتی ہے، پاکستان اس فیلڈ میں بھی فن لینڈ کے ساتھ کام کرسکتاہے۔2012ء تک سوئیڈن میں ہائر ایجوکشن کیلئے کسی بھی ملک سے آنے والوں کیلئے کوئی فیس نہیں تھی اب ہوتی ہے۔اسکالر شپ کے ساتھ دیگر سہولتیں ہیں۔

زبان کا کوئی مسئلہ نہیں،ماسٹر اور پی ایچ ڈی انگریزی میں ہوتی ہیں۔خاص قسم کا کورس کرنا چاہیں یا زیادہ عرصے رہنا چاہیں تو سوئیڈش زبان آنی چاہیے ۔پاکستانی نوجوانوں میں جذبہ ہے جہاں بھی جا تے ہیں اپنا اور ملک کا نام روشن کر تے ہیں۔نوجوان آئیں اور پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے اپنے ملک کی خوبیوں کو پیش کریں۔جرمنی میں دنیا بھر سے طالب علم آتے ہیں ،پاکستانی آئیں یہ لوگ آپ کو خوش آمدید کہیں گے۔جرمنی میں سوالاکھ پاکستانی رہتے ہیں۔

دنیافور م میں سوال و جوا ب کے سیشن کے دوران و ائس چانسلر ماجوڈاکٹرزبیر احمد شیخ نے سفیروں سے سوا ل کیا کہ طلباء کو دوسرے ملک میں ثقافتی تبدیلی کا سامنا ہوتا ہے جو مشکل میں ڈالتی ہے اس سے کیسے بچ سکتے ہیں،سفارت خانہ کیاکردار ادا کرسکتاہے،جس کا جواب دیتے ہوئے سوئیڈن کے سفیر ظہو ر احمد نے کہا کہ یہاں کھلے ذہن رکھ کر آئیں،سارے کام خود کرنے ہوتے ہیں،یہاں وہ رویہ نہیں جو پاکستا ن میں ہے،وقت کی پابندی اور عہدکی پاسداری اہم ہوتی ،ان کی ثقافت Lagomہے(یعنی معیانہ روی) انسان انکساری کا مظاہر ہ کرے ،بھڑکیلے لباس نہ پہنے ،زیادہ شور شرابہ نہ کرے ،خاموشی سے اپنا کام کرے،کسی دوسر ے کو احساس کمتری کا موقع نہ دے اور تکبر کو سوئیڈن میں بہت برا سمجھا جاتاہے۔میری نظر میں ان کا کلچر Lagom اسلامی فلسفہ ہے جو یہاں سیکھنے کو ملتا ہے ۔

جو طریقے اسلا م نے ہمیں بتائیں ہیں وہ اس پر عمل کررہے ہیں اور ہم دور ہوتے جارہے ہیں۔ سوئیڈن کے لوگ ملن سار اور انکساری سے بات کرتے ہیں۔اچھے برے کی تمیز ہر معاشرے میں ایک جیسی ہوتی ہیں،آسٹریا کے سفیر آفتاب کھوکھر نے کہا کہ ہم اپنے معمولات یا زندگی آرام سے گزارتے ہیں تومسائل نہیں ہوتے، یہ چاہیں کہ سب آ پ کی طرح ہوجائیں تو مسائل ہوں گے ،آپ نماز پڑھنا چاہتے کوئی آپ کو نہیںروکے گا،آپ کی نماز کا احترام کریں گے بلکہ سہولت بھی دیں گے۔اگر کسی محفل میں شراب نوشی نہیں کرتے تو آپ سے کوئی شراب پینے پر زبردستی نہیں کرے گا لیکن آپ بھی صبرکریں ،زندگی کے معاملات صبرسے گزاریں تو یہ معاشرہ احترام کرتا ہے ۔ڈاکٹرزبیر شیخ نے سوال کیا کہ یورپ میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد امیگریشن کی سہولت ہے ؟جس کا جواب دیتے ہوئے آفتاب کھوکھر نے کہا کہ یورپ میں روزگار کے مواقع ہیں ، روزگار ہوگا تو امیگریشن بھی مل سکتی ہے۔قابلیت سے ملازمت حاصل کی جاسکتی ہے۔ ایڈیٹر فورم نے سوال کیا کہ پاکستان سے انڈسٹری کون سی پروڈکٹ آسانی سے برآمد کرسکتی ہے ۔جس کا جواب دیتے ہوئے ڈنمار ک کے سفیر احمد فاروق نے کہا کہ پاکستان کا یورپی یونین کے ساتھ فریم ورک ہے جسے جی ایس پی پلس کہتے ہیں جس کے تحت پاکستان سے تمام درآمدات صفر ٹیرف پر یورپی یونین کے ممالک میں برآمد ہوسکتی ہیں۔اچھی سہولت ہے جسے استعمال کرتے ہوئے برآمد بڑھا سکتے ہیں۔

اس وقت سب سے زیادہ شیئر ٹیکسٹائل سیکٹر میں ہیں۔ایڈیٹر فورم نے سوال کیا کہ Daadپروگرام کیا ہے ،طلباء کیسے داخلہ لے سکتے ہیں؟ جس کا جواب دیتے ہوئے جرمنی کے سفیر محمد فیصل نے کہا کہ Daadکی ویب سائٹ پر میرے بتانے سے زیادہ تفصیلات موجود ہیں،داخلے کیلئے اپلائی کریں کوئی مسئلہ ہے تو ہماری ویب سائٹ پر ای میل اکاؤنٹ موجود ہے جو میں دیکھتا ہوں یا ڈاکٹرمحمد فیصل کے نام سے میل کردیں یاسفارت خانے کو ای میل کردیں ،ہم جواب دیں گے۔ طالب علم نبیل احمد نے سوال کیا کہ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے یورپ میں کیا کام ہورہا ہے جس کا جواب دیتے ہوئے آسٹریاکے سفیر آفتاب کھوکھر نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی پر آسٹریا کی حکومت کی واضع پالیسی ہے جس پر بہت کام ہورہا ہے ۔

ان کا خیال ہے کہ آنے والے سالوں میں متبادل توانائی اور گرین اکانومی کا مستقبل ہے اس کو یہ لوگ ترجیح دے رہے ہیں۔ڈنمارک کے سفیر احمد فاروق نے کہا کہ یورپ میں Climate change کو زیادہ فوکس کیا جاتاہے ہر جگہ مواقع موجود ہیں۔ڈنمارک دنیا میں رینوایبل انرجی ٹیکنالوجی میں لیڈر مانا جاتاہے ، ڈنمارک میں دنیا کی سب سے بڑی Wind Energy بنانے والی کمپنی ہے ،ڈنمارک کی خارجہ پالیسی میں موسمیاتی تبدیلی دوسرے نمبر پر ہے۔ یونیورسٹیوں میں بھی اس پر کافی تحقیق ہور ہی ہے،طالب علموں کیلئے بہت مواقع ہے وہ اس سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں،سوئیڈن کے سفیر ظہور احمد نے کہا کہ پی ایچ ڈی کیلئے دنیا بھر میں ریسرچ طریقہ کار کو فالو کرنا ہوگا تب ہی آگے نکل سکتے ہیں۔طلبا ء ماسٹر کی سطح پر تحریری اور ریسرچ کی اسکلز پر توجہ دیں۔سائیکالوجی کی طالبہ 

رمشا شاہد نے سوال کیا کہ سائیکالوجی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے کون سا ملک بہتر ہے ،جس کا جواب دیتے ہوئے آسٹریا کے سفیر آفتاب کھوکھر نے کہا کہ یورپ میں بہت مواقع ہیں،یونیورسٹیاں بہت تعاون کرتی ہیں طلبہ انٹر نیٹ سے رہنمائی لے سکتے ہیں۔ایڈیٹر فورم نے کہا طلباء کی طرف سے سوال آیا ہے کہ ڈنمارک میں رہنا بہت مشکل ہے ،اخراجات برداشت نہیں کرسکتے ، تعلیم بھی مہنگی ہے ،کیا طلباء کو صحت کی سہولتیں دستیاب ہیں ؟۔جس کا جواب دیتے ہوئے ڈنمار ک کے سفیراحمد فاروق نے کہا کہ یہ بات صحیح ہے کہ ڈنمارک کا دنیا کے مہنگے ترین ممالک میں شمار ہوتاہے،ڈنمارک میں ماسٹر کے پروگرام کیلئے سالانہ 15ہزار یورو کے اخراجات آتے ہیں۔

روزمرہ کے اخراجات کیلئے ہر ماہ 700سے 800یورو سے گزارا ہوسکتا ہے۔یونیورسٹیوں میں ہی ٹیچر اور اسٹاف کی حیثیت سے ملازمت کے مواقع بھی ہوتے ہیں۔جہاں ہر گھنٹے کے حساب سے پیسے ملتے ہیں اگر ہر ماہ 20گھنٹے بھی کام کرلیں تو 50فیصد اخراجات پورے ہوجاتے یں۔ صحت کیلئے نیشنل ہیلتھ سروس ہوتی ہے جو مقامی لوگوں کیلئے مفت ہے ۔نبیل احمد نے سوال کیا کہ جرمنی میں کون سی یونیورسٹیاں تعلیم کے ساتھ دیگر سہولتیں فراہم 

کررہی ہیں۔ جس کا جواب دیتے ہوئے جرمنی کے سفیر محمد فیصل نے کہا کہ کچھ یونیورسٹیاں تعلیم کے ساتھ سہولتیں فراہم کرتی ہیں، لیکن ان کے معیار پر پورا اترنا پڑتا ہے،یہ یونیورسٹیاں ایڈوانس میں 10ہزار یورو اکاؤنٹ میں جمع کر ائیں گی تاکہ طلباء شروع میں اخراجات کو برداشت کرلیں پھر آہستہ آہستہ معاملات بہتر ہوجاتے ہیں۔جو طلبا ء محنت کرتے ہیں وہ کبھی مایوس اور ناکام نہیں ہوتے،جرمنی میں صبح 6سے رات 8بجے تک لوگ کام کرتے ہیں ۔ہفتہ اتوار چھٹی ہوتی ہے۔جو پاکستانی یہاں محنت کرتے ہیں وہی کامیاب ہیں۔فورم کے توسط سے طلباء سے درخواست کروں گا وہ محنت اور تیار ی کے ساتھ درخواست دیں ایسے مواقع بار بار نہیں ملتے ، دنیا فورم کی مہربانی ہے جس نے 4 سفیروں کو آپ کے سامنے بٹھا دیا ،کھل کر سوالات کریں تاکہ مسائل حل ہوں،ہم آپ کی مدد کیلئے تیار ہیں اور وقت نکال کر آپ کے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں۔دوبارہ کہیں گے دوبارہ 

آجائیں گے لیکن تیاری کرکے آئیں۔فورم کے آخر میں آسٹریا کے سفیر آفتاب کھوکھر نے کہا طلباء کی مدد کیلئے ہر وقت تیار ہیں طلباء آگے آئیں ۔سوئیڈن کے سفیر ظہور احمد نے کہا کہ دنیا فورم کے توسط سے طلباء کو مشورہ دینا چاہوں گا کہ طالب علم اپنی اپنی فیلڈ اور ایجوکیشن سے کچھ وقت نکال کر Reflective Learning کے بارے میں معلومات لیں۔جب تک آپ خود سے کوشش نہیں کریں گے آگے نہیں بڑھ سکتے ۔اپنی صلاحیت سے دنیا میں ہر جگہ کامیاب ہوسکتے ہیں۔

یورپی ممالک میں پاکستانی طلباء کیلئے بھرپور مواقع موجود ہیں،دنیا فورم کی درخواست پر یورپ کے 4ممالک میں پاکستانی سفیروں نے بذریعہ ویڈیو لنک محمد علی جناح یونیورسٹی کے طلباء سے گفتگو کی،پاکستانی سفیروں (آسٹریا )آفتاب کھوکھر،(جرمنی)محمد فیصل، (سوئیڈن) ظہور احمد اور (ڈنمارک)احمد فاروق نے چاروں ممالک اور پاکستان کے درمیان وقت میں 4گھنٹے کے فرق کے باوجود بروقت دنیا فورم میں شرکت کی۔دنیا فورم میں محسوس کیاگیا کہ سفیروں کی کوشش ہے کہ پاکستانی طلباء کو زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم کی جائیں تاکہ ملک میں علمی ترقی کی رفتار تیز ہوسکے،

نہایت معلوماتی دنیا فورم میں یورپی ممالک میں پاکستانی طلباء کیلئے مواقع اور درپیش چیلنجز پر کھل کر بات کی گئی،محترم سفیروں نے بتایا کہ امریکہ ،برطانیہ کے مقابلے میں یورپی ممالک میں تعلیم کافی سستی اور سہولت کے ساتھ میسر ہے۔ضرورت صرف وہاں کی مقامی زبانوں کو سیکھنے اور وہاں کے قواتین پر عمل کرنے کی ہے۔زرعی تعلیم کیلئے سوئیڈن بہترین جگہ ہے جبکہ ٹیکنیکل اور ووکیشنل تعلیم کیلئے بھی چاروں ممالک میں مانگ ہے۔

امید ہے کہ طلبہ وطالبات کو دنیا اخبار کے زیراہتمام ہونے والے اس اہم دنیا فورم سے بھرپور فائدہ ہوگا۔دنیا فورم کیلئے محمد علی جناح یونیورسٹی نے اپنے آڈیوٹوریم میں انتظام کیا جس کیلئے ان کا شعبہ آ ئی ٹی بھی قابل تعریف ہے جس کی وجہ سے بہت ا ٓسانی سے دو گھنٹے طویل دنیا فورم ہوپایا۔آپ کی رائے کا انتظار رہے گا ۔  ،ہمیں ای میل(mustafa.habib@dunya.com.pk ) کریں یا واٹس ایپ (0092-3444473215) کریں۔

شکریہ(مصطفی حبیب صدیقی،ایڈیٹرفورم دنیا اخبار)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

توانائی اور معاشی بہتری کیلئے عوام کو بدلنا ہوگا

شرکاء: پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت ،ماہر معاشیات اورڈین کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ آئی او بی ایم کراچی۔انجینئر خالد پرویز،چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونکس انجینئرز(آئی ای ای ای پی)۔انجینئر آصف صدیقی،سابق چیئرمین آئی ای ای ای پی ۔پروفیسر ڈاکٹر رضا علی خان، چیئرمین اکناکس اینڈ فنانس این ای ڈی ۔ڈاکٹر حنا فاطمہ ،ڈین بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی۔سید محمد فرخ ،معاشی تجزیہ کار پاکستان اکنامک فورم۔ احمد ریحان لطفی ،کنٹری منیجر ویسٹنگ ہائوس۔

گھریلو ملازمین پر تشدد معاشرتی المیہ،تربیت کی اشدضرورت

شرکاء: عمران یوسف، معروف ماہر نفسیات اور بانی ٹرانسفارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی ۔ اشتیاق کولاچی، سربراہ شعبہ سوشل سائنس محمد علی جناح یونیورسٹی ۔عالیہ صارم برنی،وائس چیئرپرسن صارم برنی ٹرسٹ ۔ ایڈووکیٹ طلعت یاسمین ،سابق چیئرپرسن ویمن اسلامک لائرز فورم۔انسپکٹر حناطارق ، انچارج ویمن اینڈ چائلڈ پرو ٹیکشن سیل کراچی۔مولانا محمود شاہ ، نائب صدرجمعیت اتحادعلمائے سندھ ۔فیکلٹی ارکان ماجو اورطلبہ و طالبات

درسگاہوں کا احترام لازم،پراپیگنڈا خطرناک ہوسکتا ہے

شرکاء:پروفیسر ڈاکٹر طلعت وزارت ماہر تعلیم آئی بی اے ۔ مظہر عباس،معروف صحافی اور تجزیہ کار۔ ڈاکٹر صائمہ اختر،سربراہ شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹرایس ایم قیصر سجاد،سابق جنرل سیکریٹری پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ۔ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹر مانا نوارہ مختار ،شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ اساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔

انتخابی منشور:حقیقت یا سراب۔۔۔۔۔؟

شرکاء: ڈاکٹر اسامہ رضی نائب امیر جماعت اسلامی کراچی محمد ریحان ہاشمی،رکن رابطہ کمیٹی ایم کیوایمسردارعبدالرحیم ، صدرمسلم لیگ فنکشنل سندھ ڈاکٹرحنا خان ،انچارج شعبہ تاریخ جامعہ کراچیڈاکٹر معیز خاناسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تاریخ جامعہ کراچیاساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد

بجٹ:انتخابی یا عوامی۔۔حکومت سنجیدگی اختیارکرے

شرکاء: احمد علی صدیقی، ڈائریکٹرسینٹر فار ایکسی لینس اسلامک فنانس آئی بی اے کراچی ۔ڈاکٹر شجاعت مبارک، ڈین کالج آف بزنس مینجمنٹ اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کراچی۔ڈاکٹر حنافاطمہ ، ڈین فیکلٹی آف بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی ۔ محمد ادریس ،سابق صدر ایوان صنعت و تجار ت کراچی۔ضیا ء خالد ، سینئرپروگرام منیجر سی ای آئی ایف آئی بی اے کراچی ۔

کراچی مویشی منڈی سے ملکی معیشت کو اچھی امیدیں

شرکاء: یاوررضا چاؤلہ ، ترجمان مویشی منڈی ۔زریں ریاض خواجہ ،رکن کنزیومر پروٹیکشن کونسل سندھ۔کموڈور سید سرفراز علی ،رجسٹرار سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔