ٹریفک جام:پولیس کیساتھ عوام کا تعاون بہتری لاسکتا ہے

دنیا فورم

تحریر : میزبان : مصطفیٰ حبیب صدیقی ایڈیٹرفورم رو زنامہ دنیا کراچی رپورٹ:اعجازالحسن۔ عکاسی :ماجد حسین لے آئوٹ :توقیر عباس


شرکاء:انسپکٹر عبدالحکیم، انچارج ایکسیڈنٹ اینڈ کمپلین برانچ، ڈی آئی جی پی ٹریفک ۔ نوید احمد باجوہ، پی آراو، ڈی آئی جی پی ٹریفک کراچی۔رانارئیس احمد، صدر کراچی میرج ہالز ایسوسی ایشن۔ڈاکٹر مہتاب عالم ،ڈائریکٹر امورطلباء محمد علی جناح یونیورسٹی مریم حنیف غازی ،سربراہ شعبہ نفسیات محمد علی جناح یونیورسٹی ۔ فیکلٹی ارکان اور طلبہ و طالبات کی کثیر تعداد

صدر کی26عمارتوں میں پارکنگ ختم کر کے گودام بنادیئے گئے:  انچارج ایکسیڈنٹ اینڈ کمپلین برانچ 

کراچی پر کئی ادار وں کی اتھارٹی سے مسائل کنٹرول نہیں ہو رہے:   پی آر او ڈی آئی جی ٹریفک کراچی

شادی ہالز سے ٹریفک جام ہوتاہے، شہر میں ماس ٹرانزٹ ٹرانسپورٹ نظام نہیں :  صدر شادی ہالز ایسوسی ایشنز 

طرز زندگی بدلیں،ٹریفک جام سے بچنے کیلئے 15منٹ پہلے نکلیں:  ڈائریکٹر اسٹوڈنٹ افیئرز محمد علی جناح یونیورسٹی

ٹریفک جام سے ذہنی دبائوبڑھتا ہے،عوام بھی رویئے تبدیل کریں:  سربراہ شعبہ نفسیات محمد علی جناح یونیورسٹی

 

 موضوع:’’کراچی میں ہر روز ٹریفک جام مسئلہ کس طرح حل ہوگا؟‘‘

 

 

 کراچی شہر عروس البلاد ،منی پاکستان کہلایا جاتاہے مگر افسوس ایسا لگتا ہے کہ منی پاکستان پورے ملک کے ہی مسائل کی آماجگاہ بن چکا ہے،شہر میں بجلی کی طویل بندش کے بعد گیس بھی مکمل میسر نہیں،سڑکیں ٹوٹیں ،نکاسی آب کا نظام تباہ ہوچکا ہے ان اذیتوں کے ساتھ ہی لاکھوں شہریوں کو روزانہ ہی ٹریفک جام کے مسائل سے بھی نمٹنا پڑتا ہے،شہر میں کوئی نمائش ہو یا کرکٹ میچ سیکیورٹی کے نام پر سڑکوں کی بندش سے بدترین صورتحال ہوجاتی ہے،دوسری جانب آئے روز کے احتجاج حتیٰ کے سیاسی ومذہبی اجتماعات کی وجہ سے بھی شہری مزید پریشانی سے دوچار ہوجاتے ہیں۔لیکن آخر ان مسائل کا حل کیا ہے؟بس یہی سوال لے کر ہم نے محمد علی جناح یونیورسٹی (ماجو) کے تعاون سے یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں دنیا فورم کا اہتمام کیا۔ٹریفک پولیس کے افسران اور ماہرین نفسیات وسماجی امور نے کھل پر موضوع پر بات کی۔

فورم میں جہاں ٹریفک پولیس کے افسران نے اپنی غلطیوں اور خامیوں کا اعتراف کرتے ہوئے شہریوں سے معذرت کی وہیں شہریوں کو اپنی ذمہ داری کے احساس کی بھی اپیل کی ۔شہر قائد میں ایک اہم مسئلہ مختلف اتھارٹیز کی حکمرانی بھی ہے جس کی وجہ سے کوئی ادارہ بہتر نتائج نہیں دے پارہا۔دنیا فورم میں اس بات پر زور دیاگیا کہ شہر کو ایک اتھارٹی کے ماتحت لایاجائے،جس کیلئے دنیا فورم کی تجویز تھی کہ میئر لاکر اسے بااختیار بنایاجائے جو شہر کو بہتر کرسکتا ہے جبکہ دیگر ادارے اس کیساتھ تعاون کریں،تعلیمی ادارے طلباء کی شہری ذمہ داریوں کے حوالے سے تربیت کریں تاکہ وہ جب سڑک پر نکلیں تو اس شہر کو اپنا شہر سمجھتے ہوئے مسائل حل کرنے میں معاون ہوسکیں۔امید ہے کہ ہماری کوشش سے شہر قائد میں کسی حد تک بہتری آئے گی۔آپ کی رائے کا انتظار رہے گا۔(شکریہ) مصطفی حبیب صدیقی(ایڈیٹر فورم دنیا اخبار کراچی)

برائے رابطہ

0092-3444473215،0092-3212699629

ای میل:mustafa.habib@dunya.com.pk

 سڑکوں پر احتجاج ،سیاسی و مذہبی اجتماعات سے سڑکیں بلاک اور ٹریفک جام ہوجاتا ہے،دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا،عوام اور رہنما بھی اپنی ذمہ داری سمجھیں ،انسپکٹر عبدالحکیم 

  ٹریفک جام سمیت دیگر مسائل پر قابوپانے کیلئے ماسٹر پلانرز،پولیس ، ڈپٹی کمشنرکے تعاون سے بنے مکینزم پرعمل نہیں ہوا، شادی ہالز کی بکنگ کرانے والوں کو پارکنگ کی آگاہی دیتے ہیں،رانارئیس احمد

  700مقامات پر 2100 کیمرے نصب ہیں، 1915 ہیلپ لائن 24 گھنٹے کام کر رہی ہے ،ہر جمعرات کو ڈی آئی جی ٹریفک براہ راست شکایات سنتے ہیں،انسپکٹرنوید باجوہ

اسکولوں اوردفاتر کے اوقات کارملنے سے ٹریفک جام ہوجاتا ہے،کمپنیاں وقت 9 کے بجائے 10سے شروع کریں تو صبح کے اوقات میں ٹریفک جام نہیں ہوگا،ڈاکٹر مہتاب عالم

  کچھ برسوں میں ٹریفک جام میں کمی آئی ،اب جگہ جگہ ٹریفک اہلکار ٹریفک کنٹرول کرتے نظر آتے ہیں، عوام کو سگنل توڑنے پر روک رہے ہوتے ہیں لیکن عوام نہیں رکتے،مریم حنیف غازی

 ٹریفک اہلکار مبین سلائیڈز کی مدد سے ٹریفک 

قوانین کے بارے میں بتا رہے ہیں

دنیا: ٹریفک پولیس شہر میں ٹریفک جام کے مسائل حل کرنے میں کیوں ناکام ہے؟ 

 انسپکٹر عبدالحکیم :شہر میں ٹریفک جام کی ایک نہیں کئی وجوہات ہیں۔صدر میں26عمارتیں ایسی ہیں جہاں پارکنگ کی سہولت تھی وہ ختم کر کے گودام بنادیئے گئے ۔گاڑیاں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے سڑکوں پرپارک ہوتی ہیں جس سے ٹریفک جام ہوتاہے۔کچھ شعبے بغیر اجازت کے سڑکوں پر پارکنگ کراتے ہیں ۔متعلقہ شعبوں سے این او سی بھی نہیں لیتے۔ کراچی میں زیادہ ترسڑکیں خاص طورپر شہر کے پرانے علاقوں میں 1970 اور 1980 کی بنی ہوئی ہیں۔ٹریفک پولیس ریکارڈ کے مطابق کراچی میں 68 لاکھ گاڑیاں اور 40 لاکھ موٹر سائیکلیں رجسٹرڈ ہیں۔ روزانہ 70 سے 75ہزار گاڑیاں ٹول پلازہ سے کراچی میں داخل ہوتی ہیں۔25 سے 30ہزار گاڑیاں ماڑی پور ٹول پلازہ ،10سے 12ہزار گاڑیاں حب چوکی سے شہر میں داخل ہوتی ہیں۔ ہیوی ٹریفک کیلئے متبادل راستے بھی نہیں، ناردرن بائی پاس پر گاڑیاں جانے کو تیار نہیں ہوتیں ،جس کی وجہ سے گاڑیاں شہر سے گزرتی ہیں جو ٹریفک جام کا باعث ہوتی ہیں۔ شہر میں ہرجگہ پارکنگ کی وجہ سے ٹریفک جام معمول بن گیا ہے۔بعض سڑکوں پر گڑھے ہونے سے حادثات ہورہے تھے ، ٹریفک پولیس نے اپنی مدد آپ کے تحت مٹی ڈلواکر گڑھے بھرے۔

ٹریفک اہلکاروں کو ٹریفک حادثات اور طبی امداد کے کورسز کرا رہے ہیں۔یونیورسٹی روڈ کھدا ہوا ہے جس سے ٹریفک جام معمو ل بناہواہے۔10منٹ کا راستہ ایک گھنٹے میں طے ہورہا ہے،ملیر ایکسپریس وے بننے سے ٹریفک جام کے کافی مسائل حل ہوں گے۔سڑکوں پر احتجاج سے بھی روڈ جام ہوجاتے ہیں۔دنیامیں کہیں بھی سیاسی و مذہبی اجتماعات کیلئے سڑکیں بند نہیں کی جاتیں۔باقاعدہ کھلے مقامات ہوتے ہیں، جبکہ ہمارے ہاں سڑکیں بلاک کر دی جاتی ہیں، جس سے ٹریفک جام کے مسائل سامنے آتے ہیں۔ سٹرک پار کرنے والوں کیلئے پل نہ ہونے کے برابر ہیں جس کی وجہ سے لوگ سڑک پر سے ہوتے ہوئے دوسری طرف جاتے ہیں جبکہ بعض جگہوں پر تو پیڈسٹرل بیرج ہونے کے باوجود لوگ اس کا استعمال نہیں کرتے جس سے ٹریفک کی روانی میں فرق پڑتا ہے ، اگر ان مسائل پر قابو پالیں تو کافی حد تک ٹریفک نظام بہتر کرسکتے ہیں،بی آرٹی منصوبہ بھی جلد مکمل ہونے سے ٹریفک جام کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔

دنیا: پی ایس ایل اور ایکسپو میں بڑا پروگرام ہوجائے تو ٹریفک جام سے شہری اذیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں حل کیا ہے؟

انسپکٹر عبدالحکیم : دو چار سال پہلے میچ کی وجہ سے اطراف کی کئی سڑکیں بند کردی جاتی تھیں اب ایسا نہیں صرف سڑک کی ایک طرف کی لائن بند کی جاتی ہے باقی سب راستے کھلے ہوتے ہیں۔بعض مرتبہ ان پروگرامز میں شخصیات کے پروٹول کول کی وجہ سے ٹریفک جام کے مسائل ہوجاتے ہیں ،ان لوگوں کو تحفظ دینا بھی ہماری ذمہ داری ہے ۔

دنیا:شہر میں ٹریفک جام کے مسائل کیسے حل ہوں گے ؟

 انسپکٹرنوید احمد باجوہ : عام طورپر ٹریفک مسائل کی ساری ذمہ داری ٹریفک پولیس پر ڈال دی جاتی ہے جو کہ غلط ہے ۔کراچی میں کئی ادارے شہر کو مانیٹر کر رہے ہیں، جس سے مسائل کنٹرول نہیں ہو رہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی مختلف حوالوں سے تقسیم ہیں ۔دو ماہ قبل اسمارٹ سٹی کے حوالے سے منصوبے پر بات ہوئی تھی جس پر ورلڈ بینک بھی شامل تھا ۔وفاقی ،صوبائی اور مقامی حکومت کے ایک صفحہ پر نہ ہونے کی وجہ سے منصوبے پر عمل ہوتا نظر نہیں آرہا۔ ہم مسائل کی بات تو بہت کرتے ہیں لیکن کچھ مسائل ہم خود پیدا کرتے ہیں،جب تک سارے ادارے ایک اتھارٹی کے تحت کام نہیں کریں گے مسائل حل نہیں ہوں گے۔

دنیا: شادی ہالوں کے اطراف ٹریفک جام کے مسائل حل کیوں نہیں ہوتے؟

 رانارئیس احمد: سڑکوں پر ٹریفک کے مسائل صبح سے رات تک چلتے رہتے ہیں،شہر کے کئی مقامات پر شادی ہالوں کی وجہ سے بھی پارکنگ کے مسائل آتے ہیں اور ٹریفک جام ہوجاتاہے۔ اب نئے شادی ہالز میں پارکنگ لازمی ہے۔ان ایشوز کے حل کرنے کیلئے ماسٹر پلانر ،پولیس اور ڈپٹی کمشنر کے تعاون سے مل کر مکینیزم بنایا تھا ۔ ٹریفک جام کے مسائل حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور بکنگ کرنے والوں کو بھی آگہی دیتے ہیں۔ترقی یافتہ ممالک کے اسکولوں میں باقاعدہ شہری ذمہ داری کی تربیت اور آگہی دی جاتی ہے وہ لوگ دو تین سال تک بچوں کو پڑھاتے نہیں بلکہ آگہی دیتے ہیں کہ سڑک پر زیبراکراسنگ کا کیا مقصد ہے ۔کچرے دان میں کچرا کیسے ڈالنا ہے،وہ پہلے انسانیت سکھاتے ہیں جبکہ ہمارے یہاں ایسا کچھ نہیں،ہم ایک دوسرے پر الزامات لگا کراپنی جان جھڑا لیتے ہیں۔مسائل مل کر حل ہوتے ہیں ۔ جب تک سارے ادارے ایک ساتھ مل کرکام نہیں کریں گے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ 2017 ء میں ایک اجلاس میں ماسٹر پلان پر بات ہورہی تھی ، ایچ بی ایف سی کے ڈائریکٹر نے کہا شادی ہالوں کو شہر سے باہر منتقل کردیا جائے یا ایک جگہ تما م شادی ہالوں کو بنایا دیاجائے اس سے شہر میں ٹریفک جام کے مسائل میں کمی آسکتی ہے،ہم نے جواب دیا شادی ہال ہرعلاقے کی ضرورت ہے،دنیا بھر میں شہرمیں کمیونٹی ہال کے نام سے ہال ہوتے ہیں جہاںتمام تقاریب ہوتی ہیں،بالفرض شادی ہالوں کو شہر سے باہر ہائی وے پر لے جائیں تو ہمارا ہائی وے بھی اس قابل نہیں ہے کہ وہ 800شادی ہالوں کے5 لاکھ افراد کو سفر کی سہولتیں فراہم کرسکے ۔ 1978 سے میرج ہال بننے شروع ہوئے، کراچی میرج ہال ایسوسی ایشن 1980ء سے رجسٹرڈ ہے،پالیسی کی بات کرتے ہیں تو ماسٹر پلان ،ایچ بی ایف سی ،کے بی سی اے کی مشاورت میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ایک ہزار گز کے شادی ہالز میں کور پارکنگ نہیں ہوسکتی ،جس پر انہوں نے مستقبل کی پالیسی دی اور نئے بننے والے ہالوں کوپابندکیا کہ وہ دوہزار گز سے کم کے نہ ہوں تاکہ پارکنگ کا مسئلہ نہ ہوا۔اب دوہزار گز پر شادی ہال بنیں گے۔ پالیسی آنے کے باوجود بدقسمتی سے ہمارے ادارے کی آشر باد پر 400,500 گز پر بھی شادی ہال بنائے جارہے ہیں ۔ 

دنیا: شہر میں ٹریفک جا م سے طلباء کو کن مسائل کا سامنا ہوتا ہے ؟

ڈاکٹر مہتاب عالم : جو طلباء کلاس میں تاخیر سے آتے ہیں تو وجہ پوچھنے پر کہتے ہیں ٹریفک جا م کی وجہ سے دیر ہوجاتی ہے۔ ان کو مشورہ دیا گھر سے 15منٹ پہلے نکلیں جس سے ٹریفک کے مسائل کافی حد تک حل ہوسکتے ہیں ۔ہمیں اپنا طرز زندگی تبدیل کرنا ہو گا۔ٹیچرز کا کام طلباء کی تربیت کرنا ہوتا ہے۔ تنقید کرتے ہوئے 70سال ہو گئے، مسائل کا حل نکالنا ہو گا۔ طلباء کو بتایا جاتاہے کہ منفی باتوں اور شکایتوں کے انبار نہیں لگانے حل نکالنا ہے، ہر ادارہ اپنے حصے کا کام کررہا ہے،تبدیلی آہستہ آہستہ آتی ہے ،ہمیں اپنے معاملات خود بہتر کرنے ہیں ،جس ادارے میں شکایات ہوتی ہیں وہی اپنی اصلاح کرتاہوا مقام بناتاہے،طلباء بہت قابل اور ذہین ہیں مسائل حل کرنے میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔کوشش کریں اپنے وقت کا درست استعمال کریں، آج کا فورم بھی ہمیں یہ چیز سکھارہا ہے مسائل حل کرنے کیلئے ہمیں خود کو بہتر کرنا ہے۔اسکولوں کا وقت صبح 8بجے شروع ہوتاہے اور کمپنیوں میں دفاتر کے اوقات 9بجے شروع ہوجاتے ہیں دونوں وقت ملتے ہیں سڑک پر ٹریفک جام کی صورت حال پیش آتی ہے، اگرکمپنیاں دفاتر کا وقت 9 کے بجائے 10سے شروع کریں تو صبح کے اوقات میں ٹریفک جام نہیں ہوگا، اسی طرح ادارے بھی ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہوئے وقت کو آگے پیچھے کرلیں تو ٹریفک جام کے مسائل حل ہوسکتے ہیں ، ٹائم منجمنٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے کام کریں گے مسائل حل ہونا شروع ہوجائیں گے۔سروے کے مطابق وقت کی پابندی نہ کرنے اور برداشت میں کمی سے نوجوانوں میں ڈپریشن کا مرض بڑھ رہا ہے۔ 

دنیا: ٹریفک جام سے نفسیات پرکیا اثرات ہوتے ہیں ، طلباء بھی متاثرہورہے ہیں؟

 مریم حنیف غازی : شہرمیں ٹریفک جام سے نفسیات پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔نوجوانوں میں ذہنی دباؤ کے امراض میں40 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ٹریفک جام میں لڑائیاں عام ہوتی جارہی ہیں ، یہ اسی وقت ہوتاہے جب ہم وقت پر نہیں پہنچتے جس سے غصہ آتا ہے جو لڑائی کا سبب بن جاتا ہے۔وقت کو درست استعمال کرتے ہوئے وقت سے پہلے گھر سے نکل جائیں تو ان مسائل سے بچ سکتے ہیں اور سکون کے ساتھ اپنی منزل پربر وقت پہنچ سکتے ہیں۔ کچھ سالوں پہلے ٹریفک جام کے بہت مسائل تھے اب بھی ہیں لیکن پہلے جیسے نہیں ۔مسائل میں کمی آرہی ہے۔اب جگہ جگہ ٹریفک اہلکار ٹریفک کو کنٹرول کرتے نظر آتے ہیں، عوام کو سگنل توڑنے پر روک رہے ہوتے ہیں لیکن عوام نہیں رکتی ۔بعض مرتبہ سگنل پر ریڈ لائٹ کی وجہ سے کھڑے ہوتے ہیں تو پیچھے سے گاڑی والے ہارن دیتے ہیں راستہ دیں نکلنا ہے ۔ایسا لگتا ہے ہم لوگ سگنل توڑنے پر فخر محسوس کرتے ہیں،کئی مسائل اپنے رویوں کی وجہ سے بھی ہوتے ہیں،عوام ٹریفک قوانین اور سگنل کو فالو نہیں کرتے جو حادثات کا سبب بن جاتے ہیں۔ سڑکوں پر ٹریفک جام میں دیگر مسائل کے ساتھ شہری بے چینی کاشکار ہورہے ہیں جوہماری ذہنی صحت اور رویوں کو تبدیل کررہا ہے۔ہمیں ان مسائل کو دیکھتے ہوئے حل خود نکالنا ہے۔

دنیا: کیاتعلیمی ادارے ان مسائل سے نمٹنے کیلئے بچو ں کی تربیت کررہے ہیں؟ 

مریم حنیف غازی:ماہر نفسیات کی حیثیت سے کئی اسکولوں میں پروجیکٹ کیلئے جانا ہوتاہے ، اسکولوں میں بچوں کو معاشرتی مسائل سے نمٹنے کیلئے آگہی نہیں دی جاتی ۔پہلے اسکولوں میں روڈ سیفٹی اور ٹریفک حادثات سے بچاؤ کیلئے باقاعدہ آگہی سیشن ہوتے تھے۔ تعلیمی اداروں میں طلباء کی تربیت کے ذریعے ذمہ دار شہری تیار کیئے جا سکتے ہیں،ان پر دوبارہ کام شروع ہوجائے تو معاشرہ بہتر ہوسکتا ہے،اسکولوں میں بچوں کو آگہی دینے کیلئے یونیورسٹی سے طلباء بھیجتے رہتے ہیں ۔ دیگر یونیورسٹیاں بھی یہ کام شروع کردیں تو جلد بہتری نظر آئے گی۔معاشرے کی بہتری کیلئے سب کو مل کرکام کرنا ہوگا۔

دنیا: ٹریفک جام سے معیشت پرکیا اثرات پڑتے ہیں؟

رئیس احمد:شادی ہالوں کے اطراف ٹریفک جام ہونے سے شہریوں کا وقت اور پیٹرول ضا ئع ہوتا ہے،شہر میں ماس ٹرانزٹ ٹرانسپورٹ نظام نہیں جس کی وجہ سے ہر کوئی اپنی سواری استعمال کرتا ہے اور سڑکوں پر ٹریفک کا رش ہو جاتا ہے۔شہر میں مسائل کی ایک وجہ ہم نے شہرکو آبادی کے لحاظ سے نہیں بڑھایا ،کراچی میں 800شادی ہالز ہیں،ہر ہال میں 40سے 50مزدو ر طبقہ کام کرتاہے جسے روزانہ کی بنیا د پر اجرت دی جاتی ہے، ٹریفک مسائل کے حل کیلئے میڈیا کے ساتھ تعلیمی ادارے خاص طور پر اسکولوں میں بچوں کو آگہی دی جائے ۔

دنیا: کراچی ٹریفک پولیس شہریوں کو کیاسہولتیں فراہم کررہی ہے؟

نوید احمد باجوہ:ٹریفک پولیس کراچی نے نچلی سطح سے اوپری سطح تک ٹرانسپیرنسی کا نظام بنایا ہے جس پر کام ہورہاہے۔ کراچی کے 700 مقامات پر 21سو کیمرے نصب ہیں جن کی مانیٹرنگ کیلئے کمانڈ اینڈ کنٹرول مانیٹرنگ سسٹم موجود ہے۔جس میں کیمروں کا ریکارڈ ہوتاہے اور لائیو بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ گزشتہ تین ماہ سے تما م قانون نافذ کرنے والے اداروں کے تمام افسران کو جدید کیمرے فراہم کردیئے گئے ہیں۔پہلے چالان مینوئل ہوتے تھے اب افسران کے پاس الیکٹرونک مشینیں ہیں ۔ شناختی کارڈ نمبر پر چالان کیا جاتا ہے اور آپ کے موبائل نمبر پر چالان کا تصدیقی کوڈ آتا ہے،چالان جمع کرانے کے بعد شکریہ کا پیغام بھی آ تاہے۔اس کے علاوہ موبائل ایپلی کیشن موجود ہے جس میں ٹریفک قوانین کی معلومات کے ساتھ چالان کی ہسٹری بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ 

دنیا فورم میں سوال ،جواب اور تجاویز کا سیشن

دنیا فورم میں فیکلٹی ممبران ،اساتذہ اور طلبہ و طالبات نے سوالات کیئے اور تجاویز بھی دیں ۔شعبہ سوشل سائنس کے سربراہ اشتیاق احمد نے کہا کہ کورس میں معاشرے کے مسائل کی آگہی دیتے ہیں ۔ بچوں کی طرف سے ایک بات مشترکہ سامنے آتی ہے کہ انہیں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر پولیس کی طرف سے پکڑے جانے کا خوف نہیں ہوتا وہ کہتے ہیں 100روپے میں چھوٹ جا تے ہیں ۔ ان رویوں کی وجہ سے اہلکار کی عزت بھی نہیں کرتے ۔ ٹریفک اہلکار اور افسران ان چیزوں کو کنٹرول کرنے کے مجاز ہیں وہ بچوں میں اپنا خوف کیوں پیدا نہیں کرپاتے جس سے وہ قانون پرعمل کریں۔اسکول میں بچہ وقت پر آتاہے اس کو ڈر ہوتا ہے کہ دیر ہوگی تو ٹیچر غیر حاضر کردیں گے یا سزا دیں گے،شاہراہ فیصل جو شہر کی مرکزی اور اہم شاہراہ ہے وہاں بھی لڑکے ون ویلنگ کرتے نظر آتے ہیں ۔یہ چیزیں کنٹرول کیوں نہیں ہوتیں ؟،ہمیں چیزوں کو بہتر کرنے کیلئے کئی جگہ سختی کی ضرورت ہے ،معاشرے کو بہتر کرنے کیلئے قوانین موجود ہیں لیکن عمل نہیں ہوتا۔فیکلٹی سوشل سا ئنس کے ڈین ڈاکٹر محمدمعراج نے کہا کہ اداروں کے درمیان بہتر رابطے نہ ہونے سے بھی مسائل حل نہیں ہورہے ،جاپان میں 5سال رہا ۔وہاں کا ٹریفک نظام پوری دنیا میں مشہور ہے۔ سڑک پر گاڑی کھڑی کرنے پر بھاری جرمانہ لگتا ہے،جس پر ایک مرتبہ جرمانہ لگ جائے وہ زندگی بھر سڑک پر گاڑی کھڑی نہیں کرتا۔

ہماری عوام اور پولیس میں فاصلوں کی وجہ سے شہریوں میں پولیس کا منفی تاثر رہتاہے۔ ہمارے یہاں قوانین کی خلاف ورزی پر ٹریفک اہلکار کو پیسے دے کر جان چھڑانے کا جو تاثر ہے وہ جاپان ،دبئی میں نہیں تصور بھی نہیں کیاجاسکتا۔پولیس کواپنا وقار بہتر کرنے کیلئے عوام میں آگہی اور تربیتی پروگرام شروع کرنے ہوں گے او ر سخت اقدامات اٹھانے ہوں گے ۔عوام کو بھی سمجھنا ہوگا یہ سب کچھ ہماری رہنمائی کیلئے ہورہاہے ،بچے آ ج سے عہد کریں ٹریفک قوانین پر عمل کریں گے ،ڈی آئی جی ٹریفک کے پی آر او نوید باجوہ نے کہا کراچی میں ٹریفک قوانین پر جرمانے دنیا ہی نہیں ملک بھر میں بھی سب سے کم ہیں۔ جس کی وجہ سے لوگوں کو جرمانے کی بھی فکر نہیں ہوتی۔ یہاں جرمانے بھی سالوں بعد دہرائے جاتے ہیں،جرمانے کم ہونے سے وہ قدر نہیں جودیگر ممالک میں ہے،صرف ڈرانے سے قانون پر عمل نہیں ہوگا،پورے شہر میں ٹریفک اہلکار تعینات نہیں کرسکتے ، ہمارے پاس صرف 6500 ٹریفک اہلکار ہیں جبکہ ضرورت 10ہزار کی ہے۔ دوکروڑ سے زائد آبادی کیلئے موجود ہ تعداد نہ ہونے کے برابرہے ،ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنا برا عمل ہے،جب تک ہم برائی کو برائی محسوس نہیں کریں گے کوئی بھی کچھ نہیں کرسکتا،آج سڑکوں پر ٹریفک سگنل توڑنا عام سی بات ہے ہر تیسر ا شخص یہ کام بڑی خوشی سے کر رہا ہوتا ہے، ہمیں ان چیزوں کی آگہی ہی نہیں دی گئی ،یہ کام اسکول کی سطح سے ہونا چاہیے تھا جو بد قسمتی سے نہیں ہورہا۔

سوشل سائنس کی فیکلٹی ممبر قدسیہ بانو نے کہا کہ 18 سال سے کم عمر بچوں کے پاس لائسنس ہوتا ہے نہ شناختی کارڈ ان کو سڑکوں پر گاڑی چلانے کی اجازت کون دیتا ہے ؟ ۔ طالب علم عبدالحق نے کہا کہ کچھ روز قبل یونیورسٹی آرہا تھا گھر سے وقت سے پہلے نکل چکا تھا ،کورنگی کراسنگ پر دوگاڑیاں آمنے سامنے آکر کھڑی ہوگئیں جس سے ٹریفک جام ہوگیا ساتھ قریب ہی دو ٹریفک اہلکار کھڑے تھے جنہوں نے ٹریفک کلیئر نہیں کرایا جس کی وجہ سے یونیورسٹی آنے میں تاخیرہوئی ،ایسے معاملات کئی مقامات پر ہوتے ہیں جہاں ٹریفک پولیس دور کھڑی ہوتی ہے کچھ کام نہیں کررہی ہوتی ان کو کون کنٹرول کرے گا؟ ،دوسرا سوال ہے ہیلمٹ نہ ہونے پر ٹریفک اہلکار سے کہتے ہیں چالان کاٹ دو ،اہلکار کہتا ہے نہیں 50روپے دو اور جاؤ ۔ڈی آئی جی ٹریفک کراچی میں شعبہ ایکسیڈنٹ اینڈ کمپلین سیل کے انچارج انسپکٹر عبدالحکیم نے کہا کہ ٹریفک اہلکار کے نامناسب رویوں کے خلاف ایف ایم 88.6، ٹوئٹر او ر واٹس ایپ پربھی شکایات درج کرائیں فوری کارروائی کر یں گے، موٹر سائیکل چلانے والے بغیرہیلمٹ کے موٹر سائیکل نہ چلائیں، کئی حادثات میں اموات کے بعد والدین کو تڑپتے دیکھا ہے۔ہمدرد یونیورسٹی نے موٹرسائیکل چلانے والے طلباء کو پابند کیا ہے کہ بغیرہیلمٹ کے یونیورسٹی میں داخل نہیں ہوں گے ،دیگر یونیورسٹیاں بھی ہیلمٹ کی پابندی کریں۔طلباء سے درخواست ہے دوستوں اور رشتے داروں سب تک پیغام پہنچائیں کہ بغیر ہیلمٹ سفر نہیں کرنا ہے، کوئی بغیر لائنس کے گاڑی نہ چلائے،ون وے جانے سے گریز کریں،جو کوتاہیاں ہم سے ہوئی ہیں اس پر معذرت خواہ ہیں۔

پی آر او نوید باجووہ نے کہاکہ 18 سال سے کم عمر بچوں کو گاڑی دینے کے سب سے پہلے ذمہ دار اس کے والدین ہیں،جب کوئی گاڑی پکڑی جاتی ہے بچے کے والد کو بلوا کر بات کرتے ہیں تو وہ حلف نامہ بھرنے کو تیار ہوتے ہیں کہ آئندہ بچوں کو گاڑی نہیں دیں گے،جب تک والدین اپنی سوچ میں تبدیلی نہیں لائیں گے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ طالب علم وسیم نے کہا کہ والدہ کو گردے کے آپریشن کیلئے اسپتال لے جارہے تھے ٹریفک جام کی وجہ سے نہیں پہنچ سکے اس کا ذمہ دار کون ہے؟۔سوشل سائنس کے ٹیچر اقبال عظیم نے سوال کیا کہ کراچی ٹریفک پولیس کے پاس کوئی پلیٹ فارم ہے جہاں ٹیکنالوجی کی مدد ٹریفک مسائل حل کیئے جائیں جس طرح دیگر ممالک میں ہوتاہے؟۔نوید باجوہ نے کہا کہ 1915 ہیلپ لائن 24 گھنٹے کام کر رہی ہیں، جہاں ٹریفک مسائل سے متعلق ہر شکایت درج کرائی جا سکتی ہے۔ہر جمعرات کو 4 سے 5 بجے تک ڈی آئی جی ٹریفک کراچی،یا ایس ایس پیز یاسینئر افسران براہ راست شکایات سنتے ہیں، سوشل میڈیا، ٹوئٹر ،اسٹاگرام اور واٹس ایپ پر بھی شکایات کرسکتے ہیں۔ موبائل ورکشاپس ہر وقت سڑکوں پر مدد کیلئے تیار رہتی ہے۔ 360 انفورسمنٹ افسروں کو فوری طبی امداد کے کورسز کرائے ہیں جو کسی حادثے اور مدد کیلئے تیار ہوتے ہیں۔عام طور پر لوگ ٹریفک اہلکاروں کے رویوں کی شکایات تو کرتے ہیں لیکن کمپلین نہیں کراتے۔ ٹریفک مسائل کے حل اور آگہی کیلئے اب تک کراچی کی 5 بڑی جامعات سے ایم او یو ز سائن کر چکے ہیں۔ایک نجی یونیورسٹی کے فائنل ایئر کے انجینئر طالب علموں کے ساتھ ٹریفک مسائل سے متعلق 29 پراجیکٹس پر کام کررہے ہیں۔کراچی کے جن مقامات پر سب سے زیادہ حادثات ہوتے ہیں اور کس وجہ سے ہوتے ہیں اس پر ڈیٹا کی مدد سے رپورٹ تیار کی ہے۔

دنیا فورم کے دوران ایک ٹریفک اہلکار ہیڈ کانسٹیبل محمد مبین نے اسکرین کی مدد سے فیس بک ،اسٹاگرام ، ٹوئٹر ، ایف ایم 88.6 اور ہیلپ لائن 1915 کے بارے میں بتایا ،انہوں نے بتایا کہ گاڑی میں سفر کے دوران ایف ایم لگا ئیں جو آپ کو ٹریفک جام ،راستوں اور ٹریفک کی صورت حال کے بارے میں آپ کی رہنمائی کرے گا،شہر میں جہاں بھی ٹریفک جام مل رہا ہے اسی وقت 1915 پر کال کریں ،آپ کے مسئلے کو حل کرے گا۔کوئی ٹریفک اہلکار جرمانے کی مدد میں رقم طلب کرتاہے کال کریں فوری کارروائی کی جائے گی۔ٹریفک کے مسائل کی آگہی کیلئے اسکولوں میں جاکر ٹریفک آگہی پروگرام کرتے ہیں۔ ٹریفک اہلکا ر صبح 7بجے سے رات گیارہ بجے تک عوام کیلئے ہی سڑکوں پر کھڑے ہوتے ہیں۔سگنل پر ٹریفک اہلکار کھڑے ہوتے ہیں اسکے باوجود عوام سگنل توڑکر جارہے ہوتے ہیں،ٹریفک پولیس اپنا کام کررہی ہے عوام بھی ہمارے ساتھ تعاون کرے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

توانائی اور معاشی بہتری کیلئے عوام کو بدلنا ہوگا

شرکاء: پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت ،ماہر معاشیات اورڈین کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ آئی او بی ایم کراچی۔انجینئر خالد پرویز،چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونکس انجینئرز(آئی ای ای ای پی)۔انجینئر آصف صدیقی،سابق چیئرمین آئی ای ای ای پی ۔پروفیسر ڈاکٹر رضا علی خان، چیئرمین اکناکس اینڈ فنانس این ای ڈی ۔ڈاکٹر حنا فاطمہ ،ڈین بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی۔سید محمد فرخ ،معاشی تجزیہ کار پاکستان اکنامک فورم۔ احمد ریحان لطفی ،کنٹری منیجر ویسٹنگ ہائوس۔

گھریلو ملازمین پر تشدد معاشرتی المیہ،تربیت کی اشدضرورت

شرکاء: عمران یوسف، معروف ماہر نفسیات اور بانی ٹرانسفارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی ۔ اشتیاق کولاچی، سربراہ شعبہ سوشل سائنس محمد علی جناح یونیورسٹی ۔عالیہ صارم برنی،وائس چیئرپرسن صارم برنی ٹرسٹ ۔ ایڈووکیٹ طلعت یاسمین ،سابق چیئرپرسن ویمن اسلامک لائرز فورم۔انسپکٹر حناطارق ، انچارج ویمن اینڈ چائلڈ پرو ٹیکشن سیل کراچی۔مولانا محمود شاہ ، نائب صدرجمعیت اتحادعلمائے سندھ ۔فیکلٹی ارکان ماجو اورطلبہ و طالبات

درسگاہوں کا احترام لازم،پراپیگنڈا خطرناک ہوسکتا ہے

شرکاء:پروفیسر ڈاکٹر طلعت وزارت ماہر تعلیم آئی بی اے ۔ مظہر عباس،معروف صحافی اور تجزیہ کار۔ ڈاکٹر صائمہ اختر،سربراہ شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹرایس ایم قیصر سجاد،سابق جنرل سیکریٹری پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ۔ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ ڈاکٹر مانا نوارہ مختار ،شعبہ سائیکالوجی جامعہ کراچی ۔ اساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔

انتخابی منشور:حقیقت یا سراب۔۔۔۔۔؟

شرکاء: ڈاکٹر اسامہ رضی نائب امیر جماعت اسلامی کراچی محمد ریحان ہاشمی،رکن رابطہ کمیٹی ایم کیوایمسردارعبدالرحیم ، صدرمسلم لیگ فنکشنل سندھ ڈاکٹرحنا خان ،انچارج شعبہ تاریخ جامعہ کراچیڈاکٹر معیز خاناسسٹنٹ پروفیسر شعبہ تاریخ جامعہ کراچیاساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد

بجٹ:انتخابی یا عوامی۔۔حکومت سنجیدگی اختیارکرے

شرکاء: احمد علی صدیقی، ڈائریکٹرسینٹر فار ایکسی لینس اسلامک فنانس آئی بی اے کراچی ۔ڈاکٹر شجاعت مبارک، ڈین کالج آف بزنس مینجمنٹ اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کراچی۔ڈاکٹر حنافاطمہ ، ڈین فیکلٹی آف بزنس ایڈمنسٹریشن محمد علی جناح یونیورسٹی ۔ محمد ادریس ،سابق صدر ایوان صنعت و تجار ت کراچی۔ضیا ء خالد ، سینئرپروگرام منیجر سی ای آئی ایف آئی بی اے کراچی ۔

کراچی مویشی منڈی سے ملکی معیشت کو اچھی امیدیں

شرکاء: یاوررضا چاؤلہ ، ترجمان مویشی منڈی ۔زریں ریاض خواجہ ،رکن کنزیومر پروٹیکشن کونسل سندھ۔کموڈور سید سرفراز علی ،رجسٹرار سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اورطلبہ و طالبات کی کثیر تعداد۔