بڑے صوبے ٹائم بم، بہتر گورننس کیلئے انتظامی یونٹس کو چھوٹا کرنا پڑے گا: میاں عامر محمود
گوجرانوالہ: (دنیا نیوز) چیئرمین دنیا میڈیا گروپ میاں عامر محمود نے کہا کہ پاکستان کو بنے 79سال ہوچکے ہیں، بڑے صوبے ترقی میں رکاوٹ ہیں، اتنے بڑے صوبے پاکستان کی بنیاد میں رکھے ٹائم بم ہیں، آج تک اس ملک میں گورننس میں بہتری پیدا نہیں ہوئی۔
ایپ سپ کی جانب سے ملک گیر آگاہی مہم کے سلسلہ میں ’2030 کا پاکستان: چیلنجز، امکانات اور نئی راہیں‘ کے عنوان سے گفٹ یونیورسٹی میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین دنیا میڈیا گروپ میاں عامر محمود نے کہا کہ پاکستان کی آبادی کا 65فیصدحصہ نوجوان ہیں، یونیورسٹیوں تک صرف 1فیصد نوجوان پہنچ پاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 1973کے آئین کے بعد اورپہلے پاکستان کے 4صوبے ہی تھے، اس ملک کو مختلف گورننس سسٹم کے تحت چلاتے رہے، ہمارے چاروں صوبے لوپ سائیڈڈ ہیں، صوبہ پنجاب پاکستان کی آبادی کا 52فیصد ہے، ہم دنیا میں واحد ملک ہیں جس کا ایک فیڈریٹنگ یونٹ باقیوں سے بڑا ہے۔
پاکستان تعلیم، صحت، انفراسٹرکچر اور انصاف میں آخری نمبروں میں شامل
ان کا کہنا ہے کہ اتنے بڑے صوبے ترقی کے راستے میں رکاوٹ ہیں، ہم تعلیم،صحت ،انفراسٹرکچر،انصاف میں دنیاکے آخری ممالک کے نمبروں میں آتے ہیں، ورلڈبینک کے ایک گروپ نے پاکستان کے بارے میں سٹڈی کی، ورلڈبینک نے ایک رپورٹ شائع کی کہ پاکستان 100سال کا ہونے پر کیسا ہوگا، ورلڈبینک کی رپورٹ میں بتایا گیا پاکستان کو کن چیزوں میں بہتری لانا پڑے گی۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بلوچستان رقبے کے لحا ظ سےآدھا پاکستان ہے، آج بلوچستان میں امن وامان کا قیام مشکل ہورہا ہے، اتنے بڑے صوبے ترقی کے راستے میں رکاوٹ ہیں، ہم کیپیٹل سٹیز کے علاوہ کسی شہر کو اچھے لیول پر ڈویلپ نہیں کرسکے۔
چیئرمین دنیا میڈیا گروپ نے کہا کہ فیصل آباد پاکستان کا تیسرا بڑا شہر ہے، فیصل آباد میں کوئی اچھا ہسپتال، یونیورسٹی ، سکول یا کالج نہیں، فیصل آباد والوں کو ہربڑے کام کیلئے لاہور جانا پڑتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ گوجرانوالہ پاکستان کا انڈسٹریل حب ہے، ہم گوجرنوالہ ،سیالکوٹ اوروزیر آباد کو ملا کر گولڈن ٹرائی اینگل کا نام دیتے ہیں، لاہور کے مقابلے گوجرانوالہ کو بھی سرکار کی جانب سے ناکافی سہولیات ملتی ہیں۔
شہباز شریف کو پنجاب میں سکولوں کی گنتی کیلئے فوج بلانا پڑی
انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت لاہور میں بیٹھ کر صوبے کے60ہزار سکول چلانے کی کوشش کررہی ہے، پنجاب میں شہبازشریف نے بطور وزیراعلیٰ سکولوں کی گنتی کیلئے فوج بلائی، جو محکمہ اپنے سکولوں کو گن بھی نہیں سکتا وہ چلا کیسے سکتا ہے؟
انہوں نے مزید کہا کہ اسی طرح 40ہزار سکول سندھ میں ہیں جو کراچی میں بیٹھ کر چلانے کی کوشش کی جارہی ہے، خیبرپختونخوا اوربلوچستان میں بھی تعلیم کی یہی حالت ہے، پنجاب حکومت سکول کے ایک بچے پر ماہانہ 4400روپے خرچ کرتی ہے، یہ پیسے تھوڑے نہیں اورنہ وسائل کی کمی ہے۔
میاں عامر محمود کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت پبلک سیکٹر ہسپتالوں میں ایک بیڈ پر سالانہ 60لاکھ روپے خرچ کرتی ہے، وسائل کی کمی وہاں بھی نہیں ہے، پنجاب 13کروڑ آبادی کا صوبہ ہے،دنیا میں صرف 12ملک اس سے بڑے ہیں، دنیا کے 172ملک رقبے میں بلوچستان سے چھوٹے ہیں، دنیا کے 10بڑے آبادی والے ممالک میں ہمارا نمبر پانچواں ہے۔
بھارت میں ہر 5 سے 10 سال میں نئے صوبے بن جاتے ہیں
انہوں نے بتایا کہ چین اوربھارت آبادی کے لحاظ سے دنیا کے بڑے ممالک ہیں، چین کے 31صوبے ہیں، بھارت ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوا، آزادی کے وقت بھارت کے 9صوبے تھے، آج 39 صوبے ہیں، جب بھارت کو لگتا ہے گورننس ٹھیک نہیں چل رہی تو نیا صوبہ بنادیتے ہیں، بھارت کے ہر 5 سے 10سال بعد ایک دو نئے صوبے بن جاتے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ یونائیٹڈ اسٹیٹ کی 50ریاستیں ہیں، انڈونیشیا 27کروڑ آبادی کا ملک ہے، اس کی 34ریاستیں ہیں، پاکستان پانچویں نمبر پر ہے، اورصوبے صرف 4ہیں، نائیجیریا آبادی میں چھٹے نمبرپراور 27صوبے ہیں، ان ممالک نے وقت کے ساتھ ایڈمنسٹریٹو یونٹس کو چھوٹا کیا۔
لیڈر شپ ڈلیور کرنے میں ناکامی پر عصبیت کا سہارا لیتی ہے
چیئرمین دنیا میڈیا گروپ نے کہا کہ برازیل کے 36صوبے ہیں، روس کے 46صوبے ہیں، 22ری پبلکس اور9ٹیریٹریز ہیں، ملک اپنی ضرورت اورآبادی کے مطابق صوبوں کو تبدیل کرتے ہیں، ہم نے بدقسمتی سے صوبوں کو عصبیت کا ذریعہ بنایا ہے، دنیا میں جب کوئی لیڈر شپ ڈلیور کرنے میں ناکام ہوتی ہے تو پھر عصبیت کا سہارا لیتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گول میں 167ممالک کا سروے کیا گیا اور ہمارا نمبر 140واں ہے، ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس میں 193ممالک کا سروے کیا گیا ہم 168نمبر پر ہیں، قانون کی بالادستی کے حوالے سے سروے میں ہم142 ممالک میں 129نمبر پر ہیں، گلوبل ہنگر انڈیکس کے 127ممالک کے سروے میں ہمارا 109واں نمبر ہے۔
ہم لوگوں کو کھانا تک نہیں دے پا رہے
انہوں نے کہا کہ ہم اپنے لوگوں کو کھانا نہیں دے پا رہے، ہمارے 44فیصد بچوں کی اسٹنٹنگ گروتھ ہورہی ہے، ہمارے 44فیصد بچوں کو متوازن غذا نہیں ملتی، یہ 44فیصد بچے کوئی کام نہیں کرسکیں گے، ان 44فیصد بچوں کے جسم اورذہن ڈویلپ ہی نہیں ہوپائیں گے۔
میاں عامر محمود نے کہا کہ ہمارے ڈھائی کروڑ بچے سکول نہیں جارہے اور اس میں ہم دنیا میں نمبر ون ہیں، بھارت کی آبادی ڈیڑھ سوکروڑ صرف 2ملین بچے سکول نہیں جارہے، پاکستان کی 25کروڑ آبادی اورڈھائی کروڑ بچے سکول نہیں جارہے۔
ہر ڈویژن کو صوبہ بنا دیں
میاں عامر محمود نے واضح کیا کہ اتنے بڑے، لوپ سائیڈڈ صوبے پاکستان کی بنیاد میں رکھے ہوئے ٹائم بم ہیں، ہم جو پروپوزل پیش کررہے ہیں وہ یہ ہے کہ پاکستان کے ہر ڈویژن کو صوبہ بنادیں، گوجرانوالہ ڈویژن کے 4ڈسٹرکٹس ہیں اس کو صوبہ بنادیں۔
انہوں نے بتایا کہ جب میں 2001میں ضلع ناظم لاہور بنا تو سکولوں کا سروے کیا، لاہور میں 1450 سکول تھے، ہم نے سروے کیا تو مزید 200گھوسٹ سکول نکلے، ہمارے اتنے بڑے ایڈمنسٹریٹو یونٹس میں گورننس ممکن نہیں، گورننس کو ٹھیک کرنے کیلئے ایڈمنسٹریٹو یونٹس کو چھوٹا کرنا ہوگا۔
نوجوانوں کے پاس آگے کا کوئی موقع نہیں
انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس آج لیڈرشپ کا بڑا فقدان ہے، انگلیوں پر گنتی کریں تو دو چار لوگ ہی نظر آئیں گے اورچند خاندان، ہمارے نوجوانوں کے پاس آگے آنے کا کوئی موقع نہیں، اتنے بڑے سسٹم میں ایسا کوئی موقع نہیں کہ پڑھی لکھی مڈل کلاس سے لیڈر شپ سامنے آسکے۔
انہوں نے واضح کیا کہ دنیا کی لیڈرشپ ہمیشہ پڑھی لکھی مڈل کلاس سے آتی ہے، بہت کم لیڈرشپ امیر طبقے سے آتی ہے، ٹیلنٹ بھی ہمیشہ مڈل کلاس سے زیادہ ملے گا، صوبے چھوٹے ہوجائیں تو 33بنتے ہیں، چھوٹے صوبوں میں مڈل کلاس لیڈرشپ کے پاس آگے آنے کا موقع ہوگا۔
بڑے صوبوں میں گورننس ممکن نہیں
چیئرمین دنیا میڈیا گروپ میاں عامر محمود نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں بنیاد یہی ہے کہ اتنے بڑے صوبوں میں گورننس ممکن نہیں، ہمیں اعتراض ہوتا ہے کہ عدالتیں ٹھیک فیصلے نہیں کرتیں، سپریم کورٹ کے ایک جج کے پاس 4ہزار زیرالتوامقدمات ہیں، جج کوشش بھی کرے گا تو کتنے کیسز کو سن سکتا ہے؟
انہوں نے کہا کہ جج کے پاس ضرورت سے زیادہ کیسز ہوں گے تو فیصلے کا معیار کیا ہوگا؟ ہمارے محکموں پر کام کا اتنا بوجھ ہے کہ شاید وہ کرہی نہیں سکتے۔
یونٹس کو چھوٹا کرنے سے گورننس بہتر ہوگی
چیئرمین دنیا میڈیا گروپ نے کہا کہ ایڈمنسٹریٹو یونٹس کو چھوٹا کردیں تو شاید ہم بہتر گورننس دے سکیں، گورننس میں ریفارمز ہی ہمیں باقی سب چیزوں میں مدددے سکتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں یونیورسٹیوں سے زیادہ کہیں اور سینٹر آف ایکسی لینس نہیں مل سکتا، اس لیے یونیورسٹیوں میں جارہے ہیں، یونیورسٹیوں میں جانے کا مقصد ہے کہ ہمیں بھی کوئی اچھی تجویز مل جائے، ایک عوامی رائے بن جائے تو تمام پارٹیوں کو اس پر غور کرنا ہوگا۔
ہر پارٹی کے منشور میں نئے صوبوں کا ذکر ہے
انہوں نے کہا کہ ہر پارٹی کے منشور میں نئے صوبوں کا ذکر ہے، شہید بینظیر بھٹو نے 1988 کی الیکشن مہم میں کہا کہ نیا سوشل آرڈر نافذ کریں گے جس میں ڈسٹرکٹ گورنرزکا تقرر ہوگا، بانی پی ٹی آئی کا ویڈیو کلپ موجود ہے،انہوں نے کہا ملک تب ہی آگےچل سکتا ہے کہ ہر ڈویژن کو صوبہ بنادیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ن لیگ کے منشور میں ہزارہ، جنوبی پنجاب اور نئے صوبوں کی بات ہوتی ہے، بدقسمتی سے جب الیکشن جیت کر حکومت میں آجائیں تو صوبوں کی بات اس طرح سے نہیں ہوتی۔
عوامی رائے بنے تو سیاسی جماعتوں کو غور کرنا پڑے گا
میاں عامر محمود نے کہا کہ ہمارا کوئی ذاتی فائدہ نہیں، بلکہ سب کا کرنا چاہتے ہیں، ہم نے کوئی الیکشن نہیں لڑنا، ہماری پڑھی یوتھ عوامی رائے بنائے اورنئے صوبوں کی تحریک کو لیڈ کرے تو سیاسی پارٹیوں کو اس پر غور کرنا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ نیشنل اسمبلی دو تہائی اکثریت سے ترمیم کرسکتی ہے، وزیراعظم ایک ریفرنڈم کراکردیکھ لیں کہ عوام کیا چاہتے ہیں، ہم مل کر نئے صوبوں کی تحریک لے کر چلیں تو کوئی روک نہیں سکتا۔
صوبے چھوٹے کرنے تک فرق نہیں پڑے گا
چیئرمین دنیا میڈیا گروپ نے کہا کہ اس وقت ہم سب خود کو الزام دے سکتے ہیں لیکن بنیاد کو دیکھنا پڑے گا، اس وقت ہر محکمے پر کام کا بہت بوجھ ہے، اس سسٹم میں رہ کر کیا پنجاب کے60ہزار سکول لاہور میں بیٹھ کر چل سکتے ہیں؟کوئی کوشش بھی کرلے تو نہیں چل سکتے۔
میاں عامر محمود نے کہا کہ اچھا بیوروکریٹ کچھ فرق ضرور ڈالے گا لیکن مسئلہ حل نہیں ہوگا، فرق تب تک نہیں پڑسکتا جب تک آپ ایڈمنسٹریٹو یونٹس چھوٹے نہ کرلیں۔
میاں عامر محمود نے ملک کو 400کالجز اور1000 سکولوں کا تحفہ دیا: چودھری عبدالرحمان
چیئرمین ایپ سپ چودھری عبدالرحمان کا سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یونیورسٹیوں کا کام صرف ڈگری دینا نہیں، یونیورسٹیوں کا کام نوجوانوں کو تربیت اوراچھا انسان بنانا بھی ہے، آج پاکستان کی سمت درست نہ کی تو یہ ترقی یافتہ نہیں بن سکتا۔
چودھری عبدالرحمان نے کہا کہ ہمیں اپنے اداروں کو مضبوط اور پرائیویٹ سیکٹر کو سپورٹ کرنا ہے، آج طے کرنا ہے کہ کس سمت میں جانا ہے، یونیورسٹیوں میں ریسرچ کمرشلائزیشن بھی اچھا کام ہے، اس وقت ہماری سوسائٹی کا حال اچھا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج کے نوجوان میں محنت کی عادت نہیں، راتوں رات امیربننا چاہتا ہے، شاید ہماری فیکلٹی کو مزید ذمہ دار ہونا ہے، کردار بنانے کیلئے رول ماڈل کی ضرورت ہوتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ میاں عامر محمود نے اس ملک کو 400کالجز اور1000 سکولوں کا تحفہ دیا، میاں عامرمحمود نے اس ملک کو 4یونیورسٹیاں دیں جس میں 6لاکھ بچے پڑھ رہے ہیں، ہمارے صوبے اتنے بڑے ہیں کہ نئے لیڈرز بھی مینج نہیں کرسکتے، ہمیں اپنے ایڈمنسٹریٹو یونٹس بنانے ہیں۔