عمران خان اور ریاست

لاہور: (فہیم حیدر) پاکستان تحریک انصاف سے ریاست کو کوئی مسئلہ نہیں ہے، تحریک انصاف کا سیاسی نقطہ نظر اور رویہ وہی ہے جو ریاست کا ہے، مسئلہ اسے خان صاحب سے ہے، ان سے بھی اس لیے کہ ان کا قد ریاست کے قد سے صرف ایک انچ کم رہ گیا ہے۔

ایسے ہوا کیسے؟

ریاست کے پاس نظریہ پاکستان، جھوٹی تاریخ، مذہب، احتساب، (ج ہ ا د ی) تنظیمیں، جناح اور اقبال جیسے ہتھیار تھے، خان صاحب نے یہ ہتھیار چلانے میں اتنی ہی مہارت حاصل کرلی جتنی ریاست کو حاصل تھی۔

خان صاحب کو ایک طرف ریاست کی طرف سے ان ہتھیاروں کو استعمال کرنے کی کھلی اجازت ملی، دوسری طرف خان صاحب نے بھاری مقدار میں درے سے ان ہتھیاروں کی فرسٹ کاپیاں بھی بنوالیں۔

نتیجہ؟
"نتیجہ یہ کہ خان صاحب تول میں ریاست کے ہم پلہ ہوگئے"
یہ مسئلہ امریکی ریاست کو ٹرمپ کے متعلق اور بھارتی ریاست کو مودی کے متعلق بھی درپیش رہا، دونوں ریاستوں نے دونوں کو اگلی نظر آتی ہوئی منزل کی طرف جست لگانے سے روک دیا، جمہوری ملکوں میں ریاست کسی ادارے کا نام نہیں ہوتا، ریاست وہاں مجموعی مشینری کا نام ہوتا ہے۔

ایسی ریاست میں عوامی مفاد اور ریاستی مفاد میں کچھ ایسا تصادم نہیں ہوتا، عوامی سیاسی بیانیہ ہی در اصل قومی بیانیہ ہوتا ہے، کسی ادارے کے ڈسپلن کو وہاں آئین پر فضیلت حاصل نہیں ہوتی، کسی کا خواب پارلیمان سے بڑا نہیں ہوتا۔

چنانچہ ایسی ریاست میں کوئی ادارہ یا کوئی فرد کسی خود سر پرندے کے پر نہیں کاٹتا، ریاست خود کار طریقے سے پر کترنے کا کام انجام دیتی ہے، پھر خراش تراش کا یہ عمل کسی ادارے یا کسی گروہ کے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے نہیں ہوتا، نظم اجتماعی کو قائم رکھنے کے لیے ہوتا ہے۔

پاکستان سکیورٹی سٹیٹ ہے، یہاں ایک ادارے نے اپنا نام ریاست رکھ لیا ہے، وہ اپنے مفاد کو قومی مفاد کہتا ہے، عوامی بیانیے کو ملک دشمن بیانیہ سمجھتا ہے، قومی آئین پر وہ ادارے کے ڈسپلن کو فوقیت دیتا ہے۔

چنانچہ یہ ریاست ادارہ جاتی مفاد کو سامنے رکھ کر پر کٹائی کا فیصلہ کرتی ہے، ضروری نہیں کہ یہ فیصلہ ادارے کا نظم کرتا ہو، بسا اوقات دو چار افراد بھی کافی ہوتے ہیں، اب تو خیر ایک بندہ بشر ہی مدار المہام ہے، ہاتھ میں تلوار سینے میں قرآن ہے، اللہ مہربان ہے۔

خان صاحب کے معاملے میں دونوں مشکلات درپیش ہیں، ایک تو ان کا قد ریاست کے برابر آرہا ہے، دوسرا ایک فرد کے ساتھ ان کے تعلقات اچھے نہیں ہیں، اب ریاست کو تحریک انصاف تو برابر چاہیے مگر عمران خان نہیں چاہیے، جیسے ریاست کو مسلم لیگ ن چاہیے تھی مگر نواز شریف نہیں چاہیے تھا۔

اب تک کی جتنی بدمزگی ہے وہ در اصل اس بات کی کوشش ہے کہ کیک کو اس مہارت سے کاٹا جائے کہ کریم ایک طرف ہو جائے اور کیک دوسری طرف رہ جائے۔

یعنی تحریک انصاف سے عمران خان کو بھی الگ کردیا جائے اور کارکنوں کا یہ احساس بھی باقی رہ جائے کہ اب بھی فیصلے عمران خان ہی کرتے ہیں، کسی بھی قدم اقدام کا اپروول اب بھی عمران خان ہی دیتے ہیں، ریاست نے مرکزی سیاست سے دو لوگوں کو مائنس کر دیا ہے، ایک نواز شریف، دوسرے عمران خان۔

مسلم لیگ ن کے کارکنوں نے مائنس ون فارمولے کو قبول کرلیا ہے لیکن پی ٹی آئی کے ورکرز کو ایسے کسی فارمولے پر آمادہ کرنا ممکن نہیں ہو رہا، ایسا اس لیے بھی ممکن نہیں ہو رہا کہ خان صاحب درے اور ریاست والے ہتھیار رکھ دینے پر آمادہ نہیں ہیں۔

ایسے میں راستہ ایک ہی رہ جاتا ہے، پھانسی؟ نہیں! ریاست پھر اس غلطی کو نہیں دہرائے گی، انجام کار وہ یہ آپشن استعمال کرنا چاہتی ہے کہ خان صاحب کو فوجی تحویل میں لے کر نظروں سے مکمل اوجھل کر دیا جائے، پارٹی رہنماؤں اور اخبار نویسوں سے ملاقات کا سلسلہ بھی ختم کردیا جائے۔

مگر کیا یہ مسئلے کا حل ہے؟ کیا سیاست کا ضمیر اس بات سے مطمئن ہو جائے گا؟ اس پر مزید گفتگو پھر کبھی! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں