اسلام میں دوسروں کی فلاح کا حکم
دنیا میں بہت سے مذاہب ہیں اور بہت سی قومیں آباد ہیں لیکن ان میں اتحاد واتفاق اور محبت پیدا کرنے کی تعلیم سب سے زیادہ اسلام دیتا ہے۔ اس طرح اسلام کی یہ ایک ایسی خوبی ہے کہ مسلمانوں کو اس پر فخر کرنا چاہیے اور اس کی تعلیم کے مطابق اپنے اختلافات کو دُور کرکے اور ظاہری تفریق کو مٹا کر ایک خدا کا بندہ بن کر میل جول اور محبت سے زندگی گزارنا چاہیے
کوئی امیر اپنے آپ کو دولت کی وجہ سے اونچا نہ سمجھے، کوئی غریب دولت نہ ہو نے کی وجہ سے اپنے آپ کو کمزور اور ذلیل خیال نہ کرے، رنگ اور بولی کے فرق کو ختم کر دیا جائے۔ ہندوستانی، ملائی، جاپانی، ترکی، یورپی ہونے کاخیال بھی ذہن میں نہیں آنا چاہیے، صرف اور صرف ہر ایک اپنے آپ کو ایک خدا کا بندہ اور حضرت محمدﷺ کا اُمتی سمجھے اور ہر ایک دین کی پابندی کر کے خدا کے یہاں اپنا مقام بلند کرنے کی کوشش کرے، ایک دوسرے کی مدد کرنے اور مصیبت میں کام آنے کا جذبہ پیدا کیا جائے۔
مسلمانوں کی پچھلی تاریخ اتنی پیاری تاریخ ہے کہ اگر مسلمان اس کو اپنے سامنے رکھیں تو ان میں اتحاد و اتفاق بھی پیدا ہوسکتا ہے اور ایک دوسرے کی مدد کا جذبہ بھی۔ اس سلسلے میں ان چند اہم واقعات پر غور کیجئے۔
جنگ اُحد میں حضرت محمدﷺ کے چچا حضرت امیر حمزہؓ شہید ہوگئے جن سے حضور پاکﷺ کو بہت محبت تھی اور انہوں نے اسلام کی بڑی خدمت کی تھی۔ جب ان کے شہید ہونے کی خبر اُن کی بہن صفیہ رضی اللہ عنہا کو ہوئی تو وہ اپنے بھائی کے کفن کیلئے دو چادریں لے کر آئیں۔ جب ان چادروں میں حضرت حمزہؓ کو کفن دیا جانے لگا تو پتہ چلا کہ ایک دوسرے صحابی حضرت سہیلؓ بھی شہید ہوئے ہیں لیکن ان کو کفن دینے کیلئے کوئی کپڑا نہیں۔ حضرت حمزہؓ کی بہن اور ان کے عزیزوں نے فوراً بڑی چادر اپنے مسلمان بھائی کیلئے دے دی اور حضرت حمزہؓ کو ایک چادر میں دفن کیا گیا جو اتنی چھوٹی تھی کہ جب حضرت حمزہؓ کے پاؤں ڈھکے جاتے تھے تو سر کھل جاتا تھا اور جب سر ڈھکا جاتا تھا تو پاؤں کھل جاتے تھے۔
ایک اور واقعہ جنگ یرموک کا ہے کہ ایک مسلمان سپاہی زخموں سے بے چین ہے، جان نکلنے کے قریب ہے، اس حال میں ایک مسلمان بھائی پانی دیتا ہے لیکن یہ تڑپتا ہوا مسلمان بھائی اشارے سے کہتا ہے کہ پہلے میرے دوسرے بھائی کو پلاؤ ۔جب اس کے پاس پانی پہنچا تو اس نے تیسرے کی طرف اشارہ کیا اور اسی طرح پانی والے کو سات تڑپتے ہوئے زخمی مسلمانوں کے پاس جانا پڑا۔ پھر ساتویں نے پانی والے سے کہا کہ جب تک مجھ سے پہلے بھائی پانی نہ پئیں گے میں کیسے پانی پی سکتا ہوں۔ لیکن پانی والا جب دوبارہ تڑپتے ہوئے پیاسے بھائیوںکے پاس پہنچا تو سب جان دے چکے تھے۔
جب نبی کریمﷺ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچے اور آپﷺ نے مکہ کے مسلمانوں کو مدینے کے مسلمانوں کا بھائی بنایا تو وہ ایک دوسرے سے اتنی محبت کرنے لگے کہ مدینے کے مسلمانوں نے اپنے مہاجر بھائیوں کو اپنے کاروبار میں شریک کر لیا، اپنی زمینیں تقسیم کر دیں، اپنے مکان دے دیئے اور ہر طرح ان کی مدد کی اور مہاجر اپنے انصار بھائیوں سے اتنی محبت کرتے تھے کہ اپنی کمائی ہوئی دولت تک ان کے سپرد کر دیتے تھے۔
بہرحال اسلام کی تاریخ کا ہر واقعہ اتحادواتفاق کی مثال پیش کرتا ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس اتحادواتفاق ہی کی برکت سے عرب کے گندے ماحول میں اسلام پھیلا اور مسلمانوں نے عزت حاصل کی اور بڑی بڑی طاقتوں کامقابلہ کیا اور ہمیشہ کامیاب ہوئے۔
اتحاد سے جو قوت حاصل ہوتی ہے اُس کو اس مثال سے سمجھا جا سکتا ہے کہ جب درخت کے بہت سے تنکوںکو ایک جگہ باندھ کر جھاڑو بنا دیا جاتا ہے تو وہ جھاڑو پورے مکان کو کوڑے وغیرہ سے صاف کر دیتا ہے۔ لیکن اگر ان تنکوںکوعلیحدہ علیحدہ کرکے مکان صاف کرنے کی کوشش کی جائے تو مکان کبھی صاف نہیں ہو سکتا بلکہ ایک ایک تنکا ٹوٹ کر یا ہوا میںاُڑکرختم ہو جائیگا۔
بالکل اسی طرح مسلمان اتحادواتفاق کے ساتھ آپس میں ایک ہو کر بڑی قوت بن جاتے ہیں اور اپنے عظیم مکان اسلام کو دشمنوں سے بچا لیتے ہیں لیکن اگر ان میں اختلاف پیدا ہو جائے اور و ہ ایک دوسرے سے علیحدہ اور دور ہو جائیں تو خود ختم ہو جاتے اور دشمن کی نذر ہوجاتے ہیں۔
لہٰذا مسلمانوں کو اسلام کی حفاظت اور اپنی عزت وآبرو کیلئے اپنے ہر اختلاف کو دور کرکے اپنے اندر اتحادواتفاق اور محبت پیدا کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ اسلام نے اتحادواتفاق سے رہنے کا حکم صرف مسلمانوں ہی کے ساتھ نہیں دیا بلکہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ بھی اسلام مِل جُل کر رہنے کی تعلیم دیتا ہے، اسلام میں دوسری قوموں کو ستانے یا ان کو ذلیل سمجھنے کی ہرگز اجازت نہیں۔
جس طرح ربّ تعالیٰ اپنے نہ ماننے والوں کو دنیا کی تمام نعمتیں دیتا ہے اسی طرح وہ یہ پسند فرماتا ہے کہ اس کے ماننے والے کسی کو پریشان نہ کریں بلکہ ہر ایک کو امن و سکون اور آرام سے زندگی گزارنے دیں۔ کسی باغ کا مالک ہرگز یہ نہیں پسند کرتا کہ کوئی اس کے لگائے ہوئے درختوں، پھولوں یا پھلوں کو خراب کر دے۔ یہ ساری دنیا خدا کا لگایا ہوا باغ ہے، اس باغ کا مالک حقیقی یہ بات پسند نہیں فرماتا کہ اس میں رہنے والے آپس میں لڑیں، جھگڑا کریں، ایک دوسرے کو قتل کریں یا ایک دوسرے کے مال پر قبضہ کریں، اسی لئے اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: ترجمہ: اﷲکا دیا ہوا کھاؤ اور پیو اور زمین میں لڑائی جھگڑا مت کرتے پھرو‘‘۔ (البقرۃ آیت ۶۱)
غیر قوموںکیساتھ اتحادواتفاق کی تعلیم دینے ہی کیلئے حضوراکرم ﷺ اور صحابہ کرامؓ کو یہ حُکم دیا گیا کہ مکہ کے کافروں نے تمہیں ستایا اور تمہیں پریشان کیا، یہاںتک کہ تمہیں کعبہ میں عبادت بھی نہ کرنے دی، لیکن تم ان کی اس دشمنی کی وجہ سے ان پر کوئی زیادتی اور ظلم مت کرنا۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے! ترجمہ ''اُس قوم کی نفرت جس نے تمہیں کعبہ سے روکا تھا تمہیں ان پر زیادتی کرنے پر مجبور نہ کردے‘‘۔ (مائدہ)
غیر قوموں کے ساتھ اتحاد کا رشتہ قائم کرنے ہی کیلئے اﷲ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو یہ حکم دیا کہ یہودیوں اور عیسائیوں سے کہئے کہ وہ مسلمانوں سے اس بات پر صلح کر لیں کہ اﷲ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں، اﷲ کا شریک کسی کو نہ بنائیں، اﷲ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ سمجھیں۔ ہاں اگر یہ لوگ اتنی بات بھی ماننے کیلئے تیار نہ ہوں تو ان سے کہہ دوکہ ہم تو ان حکموں کو مانتے ہیں اور مسلمان ہیں۔ (خلاصہ آیت سورۂ آل عمرآن)
کیونکہ یہ باتیں تو ایسی ہیں کہ جن کی تعلیم صرف قرآن کریم نے ہی نہیں دی بلکہ حضرت موسیٰؑ تورات میں اور حضرت عیسیٰؑ انجیل میں یہی تعلیم لے کر آئے تھے۔ غیر قوموں کے ساتھ اس اتحاد ہی کو باقی رکھنے کیلئے بتوں کی پوجا کرنے والوں (کافروں) سے بھی یہی کہاگیا یا تو تم ہمارے دین کو قبول کر لو اور اگر نہیں کرنا چاہتے تو ''تمہارے لئے تمہارا دین اور میرے لئے میر ادین ‘‘ یعنی تمہاری مرضی ہے، ہم لڑ کر یا جھگڑا کرکے کسی کو اپنا دین قبول کرنے پر مجبور نہیں کرتے، دین کے معاملے میں کوئی دباؤ اور مجبوری ہو ہی نہیں سکتی۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا! ترجمہ ''دین میں کوئی دباؤ نہیں ہدایت اور گمراہی کو ظاہر کر دیا گیا‘‘۔(سورہ بقرہ)
یعنی جس طرح رات ہو جانے کے بعد کسی عقل مند کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ رات سونے کیلئے ہوتی ہے اور دن نکل آنے کے بعد کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں کہ دن کاروبار کیلئے ہوتا ہے۔ اسی طرح ہدایت اور گمراہی، اچھائی اور بُرائی قرآن کریم اور حضرت محمدمصطفیﷺ کے ذریعے ظاہر کردیئے گئے۔ اب اسلام یہ اجازت نہیں دیتا کہ کوئی کسی پر دباؤ ڈالے اور آپس میں فساد اور جھگڑا پیدا کرے بلکہ ہر ایک کو اپنے دین کی صداقت کیلئے دینی باتیں بیان کرنا چاہئیں اور ہر انسان کو اپنی عقل سے کام لے کر اچھے دین اور سیدھے راستے کو قبول کرلینا چاہیے۔
تاریخ اسلام سے بھی یہ بات بالکل روشن ہے کہ مسلمانوں نے ہمیشہ غیر قوموں کے ساتھ مل جل کر رہنے اور اُن کو پورا پورا حق ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ حضرت محمدﷺ نے خود غیر قوموں سے اتحاد کیا، اتحاد کیلئے جو جملے استعمال کئے گئے ان میں سے چند یہ ہیں۔ ٭یہ سب لوگ ایک ہی قوم سمجھے جائیں گے۔ ٭بنی عوف کے یہودی مسلمانوں کے ساتھ ایک قوم ہیں۔ ٭مظلوم کی مدد کی جائے گی(چاہے وہ کسی مذہب کا ہو)۔
حضرت محمدﷺ جب دوبارہ مکہ میں داخل ہوئے اور مکہ کی حکومت آپؐ کو دے دی گئی تو آپؐ نے مکہ کے اُن کافر دشمنوںکو معاف کر دیا جنہوں نے آپؐ کو اور دوسرے مسلمانوں کو مکہ سے نکال دیا تھا۔ اس موقع پر کسی مسلمان کو اپنے دشمن سے بدلہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی۔ صرف اسی لئے کہ اسلام تو سب کیساتھ اتحاد، امن اور سکون سے رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔
اسلام کا عطا کردہ تصور فلاح وبہبود صرف نظریہ وعقیدہ تک ہی محدود نہیں بلکہ عملاً ایک نظام کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک مثالی اسلامی مملکت میں افرادِ معاشرہ کی سلامتی و فلاح کو یقینی بنانے کے لئے اسلام امدادِ باہمی اور کفالت عامہ کا تصور دیتا ہے۔ امداد باہمی سے مراد ''افرادِ معاشرہ کا ایک دوسرے سے تعاون کرناہے‘‘ حدیث نبویﷺ ہے۔ ''لوگوں میں سے بہترین وہ شخص ہے جو اِن میں (عام) لوگوں کیلئے زیادہ نفع بخش ہے۔‘‘ منفعت فراہم کرنے سے مراد ہر شعبہ زندگی میں دوسروں کی مدد وتعاون بھی ہے۔ خلق خدا ایک دوسرے سے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں جڑی ہوئی ہے۔ امدادباہمی اور تعاون کے بغیر معاشی ومعاشرتی استحکام کے مفقود ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ لہٰذا اسلام نے امدادی باہمی کا تصور دے کر افراد میں تعاون، اخوت، عزت واحترام اور خوشحال زندگی گزارنے کا طریقہ بتا دیا ہے۔ کفالت عامہ سے مراد اسلامی مملکت میں آباد ہر فردکی بنیادی ضرورت کی تکمیل کا اہتمام ہے۔ ان بنیادی ضروریات میں غذا، لباس، رہائش، علاج اور وہ سب کچھ شامل ہے جن کی فراہمی پر انسان کی زندگی کی بقا کا انحصار ہے۔ انفرادی اور اجتماعی سطح پر امداد باہمی کے فروغ کو قرآن حکیم نے ایک اُصول اور قانون کے طور پر بیان فرمایا ہے۔ ترجمہ ''نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں ) پرایک دوسرے کی مدد کیا کرو، اور گناہ اور ظلم (کے کاموں ) پرایک دوسرے کی مددنہ کرو‘‘(المائدہ)۔ یہ آیت مبارکہ اخلاقی، معاشرتی اور معاشی زندگی کے جملہ پہلوؤں پر محیط ہے۔ ''تقویٰ‘‘ اور ''اثم‘‘ یعنی پرہیزگاری اور گناہ کا تعلق زندگی کے اخلاقی اور مذہبی پہلوؤں سے ہے۔ اسلام کے باہمی معاشرتی تعاون کا اُصول قرآن وسنت کی مختلف نصوص سے واضح ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ ''بیشک (سب) اہل ایمان آپس میں بھائی بھائی ہیں‘‘ (الحجرات)
حضور نبی اکرم ﷺ نے مومنین کے اسی بھائی چارہ کو ایک جسم کے مانند قرار دیتے ہوئے باہمی معاشرتی تعاون کی وضاحت یوں فرمائی۔ تم مومنین کو آپس میں مہربانی، شفقت اور لطف وکرم میں ایسے دیکھوگے جیسے کوئی جسم کہ جب اس میں کسی عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم (تکلیف میں مبتلا ہوکر) بے خوابی اور بخار کو دعوت دیتا ہے۔ (مسلم)
ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ ایک مومن دوسرے مومن کیلئے ایسے ہے جیسے عمارت جس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو تقویت پہنچاتا ہے۔(بخاری) یہ ارشادنبویﷺ باہمی معاشرتی تعاون کی دلیل ہے۔ ارشادنبویﷺ ہے ''تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کیلئے وہ کچھ پسند نہ کرے جو وہ اپنے لئے پسندکرتاہے۔‘‘ (بخاری )
اسلام نے لوگوں کی معاشی حالت کو بہتر کرنے پر بڑی توجہ دی ہے اوران کے مال و دولت کے ضائع ہونے اور فضول خرچ ہونے سے حفاظت کی ہے، اس لیے فضول جگہوں پر مال استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (باہمی تعاون پر چند احادیث)
حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ اصحاب صفہ غریب تھے جن کے پاس بعض اوقات کھانے کو بھی نہ ہوتا تھا، ان کیلئے حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا ''جس کے پاس دو افراد کا کھانا ہو اسے چاہئے کہ وہ اس میں تیسرے کو بھی شامل کرے اور اگر چار کا ہو تو اسے چاہئے کہ وہ پانچویں یا چھٹے بندے کو بھی شامل کرے۔‘‘(بخاری )
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا دو افراد کا کھانا تین کیلئے کافی ہے اور تین افراد کا کھانا چارکیلئے کافی ہے۔ (المسند) حضور اکرمﷺ نے فرمایا 'وہ مومن نہیں جس نے خود تو (پیٹ بھر کر) رات بسر کی اور اس کا ہمسایہ بھوکا رہا۔‘‘ (دارمی) حضرت ابوسعید خدری رضی اﷲتعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم ﷺنے فرمایا ''جس کے پاس زائد سواری ہے وہ اس شخص کولوٹا دے جس کے پاس سواری نہیں اور جس کے پاس زائد کھانا ہے وہ اس شخص کو لوٹا دے جس کے پاس کھانا نہیں۔‘‘ (مسلم )
حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور اکرمﷺ ایک مرتبہ میرے پاس سے گزرے جبکہ میں یہ کہہ رہا تھا کہ اے اﷲ مجھ پر رحم فرما، پس حضور نبی اکرمﷺ نے اپنا ہاتھ میرے کندھے پر رکھ کرفرمایا! اے میرے چچا زادبھائی، اس دعا کو عام کرو۔ (یعنی فقط اپنے لئے رحم طلب نہ کرو بلکہ دوسروں کو بھی اس میں شامل کرو) خاص نہ کرو کیونکہ خاص وعام میں اتنا فرق ہے جتنا زمین وآسمان کے مابین ہے۔ (کنزالعمال)
اسلام میں اپنی اور اپنے دین کی حفاظت کیلئے جہاد کا حکم ہے۔ لیکن کسی قوم کو ستانے، پریشان کرنے،کسی کے ملک پر قبضہ کرنے یا کاروباری معاملات میں غیر مسلموں سے علیحدگی، غیر مذہب کے لوگوں کو ذلیل سمجھنے کی ہرگز اجازت نہیں دی گئی۔ مسلمانوں کواتحاد و اتفاق کی اس اسلامی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے آپس میں زیادہ محبت پیدا کرنے اور غیر مسلموں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی کوشش کرناچاہیے۔