ضروریاتِ زندگی اور رزق کاحصول رزق کی تلاش میں حلال سے صرفِ نظر کرلینا اصولِ بندگی کے خلاف ہے
اﷲ کا دین یہ کہتا ہے نفع کم ہو یا زیادہ، تجارت میں فائدہ ہو یا نقصان، جھوٹ، فریب اور دھوکہ کے ذریعہ حصولِ رزق حرام و ممنوع ہےچائے یا جوس برتن میں بچا دینا فیشن بن گیا ہے، یہ تکبر اور رزق کی بے ادبی کی علامت ہے رزق اور اس کے حصول کیلئے اگر کوئی قاعدہ اور ضابطہ نہ ہو تو ظاہر ہے کہ اس طرح عدل اور ظلم، امانت اور خیانت، پاک اور ناپاک، جائز اور ناجائز کی تمیز اُٹھ جائے گی
روزی کے متعلق سب سے پہلے اسلام نے خوب اچھی طرح یقین دلایا ہے کہ دنیا اور اس کی تمام اشیا کا مالک ایک اﷲ ہے۔ یہ مال و دولت حقیقت میں میرا یا آپ کا نہیں، کسی کا نہیں، صرف خدا کا ہے۔ رزق کی کشائش اور تنگی دونوں کام خدا کے ہیں اور حکمت سے ہیں۔ دولت مند انسان یہ سمجھتا ہے کہ مجھ ہی میں کوئی ایسی بات ہے یا مجھے ایسا ہنر اور طریقہ معلوم ہے جس سے یہ ساری دولت میرے چاروں طرف سمٹی چلی آرہی ہے۔ لیکن مذہبی تعلیم کے علاوہ دنیا کے واقعات پر گہری نظر اس یقین کو مٹانے کے لیے کافی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے، ترجمہ، ’’اور زمین میں کوئی چلنے والا نہیں، مگر یہ کہ اس کی روزی خداکے ذمہ ہے‘‘۔ (سورہ ہود ۱)
ترجمہ، ’’اسی کے ہاتھ میں ہیں آسمانوں اور زمین کی کنجیاں وہ جس کے لیے چاہتاہے رزق پھیلا دیتا ہے اور جس کے لئے چاہے ناپ دیتا ہے۔ وہ ہر چیز کی خبر رکھتا ہے‘‘۔ (سورہ شوریٰ، آیت۱۱)
ترجمہ، ’’زمین اور آسمان کے خزانے اسی کے ہیں۔ خدا ہی کا ہے جو کچھ آسمان میں ہے اور زمین میں ہے۔ آسمان و زمین کی ملکیت یا بادشاہی اسی ایک اﷲکی ہے۔
قرآن مجید نے بار بار یہ بیان کرکے مسلمانوں کے ریشہ ریشہ میں اسی لیے رچایا ہے تاکہ ان میں فیاضی، مال کی قربانی، شکر اور قناعت پسندی کے جوہر پیدا ہو جائیں۔ روزی کمانا دراصل انسانی زندگی کی ضروریات سے ہے اور شرعاً و عقلاً ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اپنی زندگی کی ضروریات کی تکمیل اور اصلاح کے لیے حصول رزق کی کوشش کرے، خواہ وہ تجارت و زراعت کی شکل میں ہو یا ملازمت و نوکری کی صورت میں۔ قرآن مجید میں اﷲ فرماتا ہے،
رزق کی تلاش میں پھیل جاؤ اور اﷲ کا فضل تلاش کرو‘‘۔ (سورہ جمعہ)
قرآن پاک کے حکم ’’خدا کا فضل تلاش کرنے‘‘ سے مقصود تجارت اور روزی کا کمانا ہوتا ہے۔ معلوم ہُوا کہ حصول رزق کی تلاش کرنا رازقِ کائنات کا فضل ہے اور یہ زمین اس کے لیے بمنزلہ میدان کے ہے اور اس میدان کی تمام اشیا انسان کے نفع کے لئے پیدا کی گئی ہیں۔ لہٰذا ضروری ہوا کہ ایسے قواعد و ضوابط مقرر کردیے جائیں جن کے ماتحت فضل ِ الٰہی کی تلاش کی جائے کیونکہ رزق اور اس کے حصول کے لیے اگر کوئی قاعدہ اور ضابطہ نہ ہو اور اسے بے قید چھوڑ دیا جائے تو ظاہر ہے کہ اس طرح عدل اور ظلم، امانت اور خیانت، پاک اور ناپاک، جائز اور ناجائز کی تمیز اُٹھ جائے گی اور یہ بات نظام انسانی کی تباہی و بربادی کا باعث ہوگی۔ چنانچہ اسلام سے قبل دنیا کی کچھ ایسی ہی حالت تھی۔ جس کے جی میں جو آتا اور جیسے آتا کماتا تھا۔ حتیٰ کہ ظلم و جور سے کمائی ہوئی دولت پر فخر کیا جاتا تھا۔ اسلام آیا تو اس نے حصول رزق کی حدود مقرر کیں، جائز و ناجائز کی تفرق پیدا کی، حلال و حرام کا ضابطہ مقرر کیا، پا ک روزی ڈھونڈنے اور ا سی سے ضروریات ِ زندگی کوپوراکرنے کی تاکید فرمائی۔ چنانچہ سورۂ بقرہ رکوع 21، آیت نمبر 171 میں رزق حلال کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔ گویا یہ بتایا گیا ہے کہ انسان کا اپنے رب کے ساتھ بندگی اور نیاز مندی کا تعلق ہے، اور اس تعلق کا اہم تقاضا یہ ہے کہ اﷲکے بندے رزق حلال کی کوشش کریں اور ذرائع آمدنی کی صحت و پاکی کا خیال رکھیں کیونکہ رزق کے سلسلہ میں پاکی و صحت سے صرف نظر کرلینا اصول بندگی کے بھی خلاف ہے۔
خریدو فروخت، امانت، قرض، نوکری کی اصلاح
آج کل کے بہت سے اچھے خاصے دیندار حلقوں میں بھی معاملات یعنی خرید و فروخت، امانت، قرض، نوکری اور مزدوری کی اصلاح کا اتنا اہتمام نہیں جتنا کہ ہونا چاہیے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بہت لوگ جو نماز، روزہ کے پابند ہوتے ہیں، کاروبار ان کے بھی پاک نہیں ہیں۔ حالانکہ کاروبار کی پاکی اور معاملات کی صحت کے شعبہ کی اہمیت کا یہ عالم ہے کہ ان کا تعلق بیک وقت اﷲکے حق سے بھی ہے اور بندوں کے حقوق سے بھی۔ نماز، روزہ وغیرہ جیسی عبادات اگرچہ ارکانِ دین ہیں اور اس حیثیت سے ایمان کے بعد ان ہی کا درجہ ہے مگرکوئی شخص ان میں کوتاہی کرتا ہے تو صرف خدا کا مجرم ہوتا ہے۔ پھر اگر سچے دل سے توبہ واستغفار کی جائے تو بارگاہ خداوندی سے اس جرم کی معافی ہی کی امید ہے۔ اگر لین دین میں خیانت واقع ہوجائے اور حصول رزق کے لیے ناجائز ذرائع کو اختیار کیا جائے تو اس طرح اﷲ عز و جل کی نافرمانی بھی ہوگی اور کسی نہ کسی بندے کی حق تلفی بھی اور یہ بات دُہرا جرم قرار پائے گی۔ رہا یہ خیال کہ جیسے اﷲ کے کرم سے معافی کی اُمید ہی ہے قیامت کے دن جس بندے کی حق تلفی ہوئی ہے اس سے بھی معافی حاصل کرلی جائیگی،تو اگرچہ اس کا امکان ضرور ہے مگر کون کہہ سکتا ہے کہ جو بندے ہم جیسے کم حوصلہ ہیں وہ قیامت کے دن ضرور ہی معاف کر دیں گے۔ پھر اگر وہ معاف نہ کریں تو؟
ان معاملات کو دین کے دوسرے شعبوں کے مقابل یہ خاص امتیاز بھی حاصل ہے کہ ان میں اپنی ذاتی منفعت و مصلحت اور خواہش نفس کی اور اﷲ عزوجل کے احکام کی کش مکش بہ نسبت دوسرے تمام شعبوں سے زیادہ رہتی ہے۔ نفس کی خواہش عموماً یہ ہی ہوتی کہ جھوٹ سچ اور جائز ناجائز کا لحاظ کیے بغیر جیسا موقع ہو اور جس طرح بھی نفع کی زیادہ اُمید ہو کر گزرا جائے۔
جعلی لیبل اور ملاوٹ سے
کمایا گیا رزق
اشیائے خوردنی میں ملاوٹ، دھوکہ، فریب حتیٰ کہ بچوں کے استعمال کی معمولی دوائی تک کی بوتلوں پر جعلی لیبل لگا کر فروخت کرنا، یہ سب خواہش نفس ہی کے محرکات ہیں۔ اﷲکا دین یہ کہتا ہے نفع کم ہو یا زیادہ، تجارت میں فائد ہ ہو یا نقصان، جھوٹ، فریب اور دھوکہ کے ذریعہ حصول رزق حرام و ممنوع ہے۔ لہٰذا بندے کی بندگی، اور فرمانبرداری کا سب سے زیادہ سخت امتحان معاملات و معاشرت کے احکام میں ہوتا ہے۔ غرضیکہ دینی و اُخروی فوز و فلاح انہی کا حصہ ہے جو اپنی خواہش نفس پر قابو رکھتے ہیں اور نفس کی بڑی سے بڑی تحریک انہیں حق سے منحرف نہیں کرتی ہے لہٰذا جب تک انسان اپنی حرص و طمع کو روک کر حصول رزق کے جائز طریقے اختیا ر نہیں کرے گا وہ کامیابی حاصل نہیں کر سکتا،خواہ یہ کامیابی دین کی ہو یا دنیا کی۔ اسلام نے حصول رزق سے متعلق عدل و انصاف پر مبنی جو اصول مقرر کیا ہے وہ ایک ایسی مرکزی حیثیت کا ہے کہ جس کو پیش نظر رکھ کر ہم یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ حصول رزق کے ذرائع میں سے کونسا ذریعہ حلال اور جائز ہے اور کونسا حرام اور ناجائز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ نساء میں فرمایا۔
ترجمہ: اے ایمان والو تم آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے مت کھاؤ لیکن یہ کہ لین دین ہو آپس کی خوشی سے‘‘۔
یہ آیت لین دین کے متعلق ایک اصولی حیثیت رکھتی ہے اور اس نے لین دین کے ان طریقوں کو جو ایمانداری کے خلاف ہیں اور جن کی کوئی حد نہیں ہے بیان کر دیا یعنی کسی کی چیز خواہ وہ دھوکہ و فریب، ظلم و جور سے لی جائے یا چوری اور غصب، رشوت اور خیانت اور سُود کے ذریعے حاصل کی جائے، غرضیکہ جس ناجائز طریقہ سے بھی دوسرے کا مال لیا جائے اس آیت کے عموم و اطلاق کے اندر داخل ہے۔ پھر اس سلسلہ میں اسلام کی تکمیلی تعلیم کا یہ عالم ہے کہ اس نے ان نازک سے نازک ناجائز معاملوں اور وسیلوں کی بھی، جنہیں عام طور پر باطل نہیں سمجھا جاتا یا انہیں بہت ہی کم درجہ کا جرم خیال کیا جاتا ہے نشان دہی کی ہے اور ان کی دینی و دنیوی بُرائیوں کی تشہیر کرکے ان کی اہمیت کو ظاہر کیا ہے اور ان سے بچنے کی تاکید کی ہے۔
رزق اور ناشکری
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کچھ لوگ ناشکری شروع کر دیتے ہیں۔ ان لوگوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ اگر ان کو رزق کی چھوٹی موٹی تنگی اور پریشانی آتی ہے، ناشکری کر کے وہ اپنے اعمال نامے گناہوں سے بھر لیتے ہیں۔ ناشکری سے گریز کرنا چاہیے۔ رزق کو ضائع کرنا بھی اللہ کی ناشکری ہے۔ حضرت مفتی محمد شفیعؒ ایک مرتبہ مولانا سید اصغر حسینؒ کے یہاں مہمان ہوئے۔ کھانے سے فراغت پر مفتی صاحب نے دسترخوان سمیٹنا چاہا۔ مولانا اصغرؒ نے پوچھا: کیا کرنا چاہتے ہیں؟ بتایا کہ دسترخوان جھاڑ دوں۔ پوچھا: دسترخوان جھاڑنا آتا بھی ہے؟ مفتی صاحب حیران ہوئے کہ اس میں جاننے والی کون سی بات ہے۔ لہٰذا یوں پوچھا کہ آپ بتا دیجئے کیسے جھاڑتے ہیں؟ فرمایا: یہ بھی ایک اہم کام ہے۔ پھر ہڈیوں کو، گوشت لگی بوٹیوں کو، روٹی کے ٹکڑوں کو اور چھوٹے ذرات کو الگ الگ کیا۔ پھر ہڈیوں کو ایسی جگہ پھینکا جہاں کتے کھا سکیں۔ گوشت لگی بوٹیوں کو ایسی جگہ پھینکا جہاں بلی کھا سکے۔ روٹی کے ٹکڑوں کو دیوار پر رکھ دیا تاکہ پرندے کھا سکیں۔ چھوٹے چھوٹے ذرات کو ایسی جگہ ڈالا جہاں چیونٹیوں کا بل قریب تھا۔ پھر فرمایا: یہ اللہ کا رزق ہے اس کا کوئی حصہ ضائع نہیں ہونا چاہئے۔
ایک بزرگ اپنی سواری پر بیٹھے کہیں جا رہے تھے اور چنے بھی کھا رہے تھے۔ ایک چنا ہاتھ سے گر گیا۔ انہوں نے سواری روکی اور نیچے اُتر کر چنا اُٹھا کر کھا لیا۔ اس بندے نے اللہ تعالیٰ کے رزق کا ادب کیا، اللہ تعالیٰ اسے اس کا اجر دے گا۔
گلاس میں مشروب آدھا چھوڑ دینا
چائے یا جوس پیتے ہوئے تھوڑا سا برتن میں بچا دینا فیشن بن گیا ہے۔ یہ تکبر کی علامت ہے اور رزق کی بے ادبی ہے۔ حضرت ا قدس تھانویؒ ایک مرتبہ بیمارہوئے تو آپ کے لیے دودھ لایا گیا اور تھوڑا سا بچا ہوا دودھ سرہانے رکھ دیا۔ اس دوران آپ کی آنکھ لگ گئی۔ جب بیدار ہوئے تو گلاس اپنی جگہ سے غائب پایا۔ خادم سے پوچھا کہ بچے ہوئے دودھ کا کیا معاملہ بنا؟ اس نے کہا: حضرت !ایک گھونٹ ہی تو تھا پھینک دیا۔ آپ بہت ناراض ہوئے۔ فرمایا: تم نے اللہ تعالیٰ کی نعمت کی ناقدری کی۔ خود ہی پی لیتے یا طوطے، بلی وغیرہ کو پلا دیتے تاکہ مخلوق خدا کو فائدہ پہنچتا۔ پھر ایک اصول سمجھایا کہ جن چیزوں کی زیادہ مقدار سے انسان اپنی زندگی میں فائدہ اُٹھاتا ہے اس کی تھوڑی مقدار کی قدر اور تعظیم اس کے ذمہ واجب ہوتی ہے۔
رزق اور موت کا تعلق
ایک حدیث میں ہے کہ روح القدس (یعنی حضرت جبریل علیہ السلام) نے میرے دل میں یہ بات ڈالی کہ بلاشبہ کوئی شخص اسوقت تک نہیں مرتا جب تک اپنا رزق پورا نہیں کرلیتا، لہٰذ اغورسے سنو! تم خدا کی نافرمانی سے ڈرتے رہو اور حصولِ معاش کی سعی وجد وجہد میں نیک روی اوراعتدال اختیار کرو (تاکہ تمہارا رزق تم تک جائز وحلال وسائل وذرائع سے پہنچے) اور رزق پہنچنے میں تاخیر تمہیں اس بات پر نہ اکسائے کہ تم گناہوں کے ارتکاب کے ذریعہ رزق حاصل کرنے کی کوشش کرنے لگو کیونکہ جو چیز خدا کے پاس ہے اس کو اطاعت وخوشنودی ہی کے ذریعہ پایا جاسکتا ہے۔‘‘