غصے کے معاشرتی نقصانات
انسان میں فطرتاً ’’غصہ ‘‘ ہے۔جب اس کی مرضی اور مزاج کے خلاف کوئی بات پیش آتی ہے تو اس میں غصے کی آگ بھڑک اٹھتی ہے اس کی رگیں پھول جاتی ہیں ، چہرہ اور آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں۔کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس کے ہاتھ پاؤں کانپنے اور زبان لڑکھڑانے لگتی ہے ۔
ایسے وقت میں اس کی دماغی حالت اپنے قابو میں نہیں رہتی یہی وہ وقت ہوتا ہے جب وہ ایسے فیصلے کرتا ہے جن کی وجہ سے اس کا مستقبل برباد ہوجاتا ہے۔ گھر بار ، بیوی بچے اور دوست احباب سب اس سے بچھڑ جاتے ہیں۔ خونی رشتوں کا تقدس پامال ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے جسمانی طور پر بھی نقصان ہوتا ہے کئی بیماریاں اسے لگ جاتی ہیں۔ بلڈ پریشر ، معدے کا السر ، دائمی سردرد ،ذہنی دباؤ، فالج اور بعض مرتبہ ہارٹ اٹیک تک نوبت پہنچ سکتی ہے۔ قوت مدافعت کمزور ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے بیماریوں سے جان نہیں چھوٹتی۔
اس کے معاشرتی نقصانات بھی بہت زیادہ ہیں غصیلا انسان کسی محفل میں جانے کے قابل نہیں رہتا۔ لوگوں کی نظر میں گر جاتا ہے ، سماجی اور اخلاقی طور پر ایسا انسان قابل نفرت اورقابل ملامت قرار دیا جاتا ہے اور مال و دولت ، زمین جائیداد اور کاروبار وغیرہ سب تباہ ہوجاتا ہے۔جس قدر غصہ بڑھتا جاتا ہے اسی قدر اس کو معاشرے سے تنہا کرتا جاتا ہے یہاں تک کہ بہت سارے باصلاحیت نوجوان غصے پر قابو نہ پانے کی وجہ سے خدمات سے محروم ہوجاتے ہیں اور باعزت مقام سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ آپ نے کئی ایسے بوڑھے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہوں گے جن کے غصیلے مزاج نے انہیں معاشرے سے کاٹ کر رکھ دیا ہے۔ کئی افراد قائدانہ صلاحیتوں کے مالک انسان ایسے ہیں جن کی تمام صلاحیتوں کو غصے نے دیمک کی طرح چاٹا اور آج وہ بے بسی کی زندگی گزار رہے ہیں ان کا حلقہ احباب سمٹ کر رہ گیا ہے۔ گویا غصہ محرومیوں اور ناکامیوں کا بنیادی سبب ہے اور یہ محرومی صرف دنیا تک محدود نہیں بلکہ آخرت کو بھی اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔ غصیلا انسان احکام اسلام اور حدود شریعت بھی پامال کرتا ہے اور خود کو جہنم کا ایندھن بناتا ہے۔اس لیے اسلامی تعلیمات میں غصے کو تمام برائیوں کی جڑ اور بنیاد قرار دے کر اس پر قابو پانے کا حکم دیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ :’’اہل تقویٰ وہ ہیں جو غصے کو قابو میں رکھتے ہیں اور لوگوں کے ساتھ عفو ودرگزر والا معاملہ رکھتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کو محبوب رکھتے ہیں‘‘۔(سورۃ آل عمران ، آیت نمبر 134)
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہؐ نے فرمایا:’’ پہلوان وہ نہیں جو لوگوں کو پچھاڑ ڈالے بلکہ طاقت ور وہ انسان ہے جو غصے کی حالت میں اپنے آپ کو قابو میں رکھے‘‘۔حضرت ابوہریرہ ؓ سے ایک اور روایت ہے کہ ایک شخص نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عرض کی کہ مجھے کچھ نصیحت فرمائیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: ’’غصہ نہ کرو‘‘ ۔ اس شخص نے بار بار نصیحت کی درخواست کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ہر بار یہی نصیحت فرمائی کہ غصہ نہ کرو۔
حضرت انس ؓ سے روایت ہے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص اپنے غصے پر قابو پا لے اللہ تعالیٰ اسے عذاب سے محفوظ فرما لیں گے‘‘۔ (مساوی الاخلاق، حدیث نمبر321)
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے سوال کیا مجھے ایسا کام بتائیں جس کی وجہ سے میں اللہ کے غضب سے بچ جاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:’’ غصے سے بچو جو شخص جس قدر اپنے غصے کو قابو میں رکھے گا اسی قدر اللہ کے غضب سے محفوظ رہے گا‘‘۔ (مسند احمد ، حدیث نمبر 6635)
حضرت علاء بن شخیرؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سامنے کی جانب سے آیا اور کہنے لگا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم !کون سا عمل سب سے زیادہ فضیلت والا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: حسن اخلاق۔ وہ شخص دائیں طرف سے آیا اور آکر پھر وہی بات عرض کی کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کون سا عمل سب سے زیادہ فضیلت والا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: حسن اخلاق۔ وہ شخص بائیں طرف سے آیا اور آکر پھر وہی بات عرض کی کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کون سا عمل سب سے زیادہ فضیلت والا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: حسن اخلاق۔وہ شخص پچھلی طرف سے آیا اور آکر پھر وہی بات عرض کی کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کون سا عمل سب سے زیادہ فضیلت والا ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا: کیا تم حسن اخلاق کو نہیں سمجھ رہے ہو؟ جہاں تک ہو سکے خود کو غصے سے بچاؤ۔
حضرت امام جعفر بن محمد ؒ فرماتے ہیں کہ غصہ تمام برائیوں کی کنجی (بنیاد) ہے اور امام عبداللہ بن مبارک ؒ سے کہا گیا کہ حسن اخلاق کی جامع تعریف کریں تو انہوں نے فرمایا کہ غصے کو چھوڑ دینا۔ (جامع العلوم والحکم)
غصے پر قابو پانے کی چند تدابیر:احادیث مبارکہ میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ غصہ پر قابو پانے کی چند تدابیر ہیں جن کو اختیار کرنے سے انسان غصے پر قابو پا لیتا ہے۔
…1خاموشی: حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا : جب تمہیں غصہ آئے تو خاموش ہو جاؤ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس کی تاکید کرتے ہوئے تین بار یہی بات ارشاد فرمائی۔
…2تعوذ:حضرت سلیمان بن صرد ؓ فرماتے ہیں دوافراد حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سامنے کسی بات پر جھگڑ پڑے۔ ایک نے غصہ میں سخت بات کی، اس کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ، میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں اگر یہ اس کو پڑھ لے تو اس کا غصہ جاتا رہے گا اور وہ یہ ہے : اَعْوذْ بِاللہِ مِنَ الشیطَانِ الرَّجِیمِ۔
…3وضو :حضرت عطیہؓ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: غصہ شیطان کی وجہ سے آتا ہے اور شیطان آگ سے بنا ہوا ہے اور آگ پانی سے بجھتی ہے اس لیے جب تمہیں غصہ آئے تو تم وضو کر لیا کرو۔
…4حالت کی تبدیلی:حضرت ابو ذر غفاری ؓ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: جب تمہیں غصہ آئے تو اگر کھڑے ہو تو بیٹھ جاؤ۔ اس سے اگر غصہ ٹھنڈا ہو جائے تو ٹھیک ہے ورنہ لیٹ جاؤ۔ اہل عرب ایسے موقعوں پر ایک دوسرے کو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر درود بھیجنے کی تلقین کرتے ہیں جس کی وجہ سے اللہ کی رحمت متوجہ ہوتی ہے اور شیطانی اثرات زائل ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح پانی کے چند گھونٹ پی لینے سے بھی غصہ کم ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نرمی اختیار کرنے والا بنائے۔ غصے اور اس کے انجام بد سے محفوظ فرمائے۔اللہ تعالیٰ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صدقے قیامت کے دن اپنے غصے سے محفوظ فرمائے۔