پاکستان میں اردو ادب کی دو تحریکیں پاکستانی ادب کی تحریک نے قومی سطح پر ادب پیدا کرنے کی طرح ڈالی

تحریر : ڈاکٹر انور سدید


تخلیق پاکستان کے بعد ادب میں جو تحریکیں رونما ہوئیں، ان میں پاکستانی ادب کی تحریک اور ارضی ثقافتی تحریک کو فنی اور فکری لحاظ سے اہمیت حاصل ہے۔ یہ دونوں تحریکیں بظاہر حلقہ اربابِ ذوق کے مثبت زاویوں کی توسیع نظر آتی ہیں اور ان کی فنی جہت میرا جی کے شعور ماضی سے پھوٹتی ہے۔

 تاہم ان دونوں تحریکوں میں ترقی پسند تحریک کے خلاف ردعمل کا شدید جذبہ اور ارض وطن سے گہری وابستگی کا تصور بھی کار فرما تھا، ان عوامل کا اثر بھی ہے جو 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد پیدا ہوئے اور جن سے برصغیر کی بیشتر تحریکوں نے جنم لیا۔ علامہ اقبال کی انفرادیت یہ ہے کہ انہوں نے امت مرحوم کا مرثیہ لکھنے اور مریضانہ ماضی پرستی میں مبتلا ہونے کے بجائے قوم میں خود اعتمادی پیدا کی، اسے فعال لہجہ عطا کیا اور زمانہ حال میں ماضی کی عظیم روایت کی تجدید کرنے کے لیے اسے صحت مند ارتقا کی علامت بنا دیا۔ علامہ اقبال کی تحریک ان معانی میں ارضی ثقافتی تحریک بھی شمار کی جا سکتی ہے کہ انہوں نے فرد کو عروج سماوی حاصل کرنے کے باوجود پابہ گل ہونے کا احساس دلایا۔

اقبال کی اس تحریک کا ہی نتیجہ تھا کہ ملک میں قومی شاعری کی ترویج ہوئی، غزل کی عجمی لے اور عشقیہ انداز میں تبدیلی واقع ہوئی اور علائم رموز اور موضوعات میں برصغیر کے مظاہر و مناظر کا استعمال ہونے لگا۔ اس تحریک کو ایک اور کروٹ میرا جی اور حلقہ ارباب ذوق کے ادبا نے دی۔ حلقے نے ادب کو ترقی پسند تحریک کی مشینی فضا، گرجیلے لہجے اور یکسانیت کی فضا سے نکالنے کی کوشش کی اور جہاں اسے ایک نیا تصور دیا وہاں فنکار کو ایک مظاہر فطرت کی طرف بالخصوص پیش قدمی کی تلقین بھی کی اور اس طرح فن کار کا رشتہ نہ صرف زمین کے ساتھ قائم ہوا بلکہ اس سے اپنے داخل میں جھانک کر ان نامعلوم براعظموں کی سیاحت بھی کی جن تک پہلے رسائی حاصل ہوئی تھی۔ اس نئے امتزاج کی بدولت ادب میں نہ صرف نئے موضوعات داخل ہوئے بلکہ شعرا کی انفرادیت بھی سامنے آئی، لفظ کو نئی معنویت ملی اور جذبہ متنوع صورتوں میں ادب کا حصہ بن گیا۔

پاکستانی ادب کی تحریک

 آزادی کے فوراً بعد ادب میں جو اولین تحریک رونما ہوئی اس نے ارض پاکستان کی نسبت سے زمین کے اور اسلامی نظریات کے حوالے سے، آسمان کے عناصر کی اہمیت کو تسلیم کیا اور نئے ادب کی تخلیق کے لیے اب دونوں کا امتزاج ضروری قرار دیا۔ چنانچہ اس تحریک نے ریاست سے وفا داری اور پاکستانی ادب کا سوال پیدا کیا۔ اس تحریک کے علمبردار حلقہ اربابِ ذوق کے ایک رکن محمد حسن عسکری تھے اور اس کی نظریاتی اساس کو ڈاکٹر صمد شاہین، ڈاکٹر جمیل جالبی، ممتاز شیریں، سجاد باقررضوی اور سلیم احمد نے اپنے مضامین سے تقویت پہنچائی۔

پاکستان ادب کی تحریک ادبی سطح پر قومیت کو ابھارنے والی ایک اہم تحریک تھی، اس تحریک نے زمین کو آسمان کے تابع قرار دے کر قومی سطح پر ادب پیدا کرنے کی طرح ڈالی۔ چنانچہ اس پر سب سے پہلے مخالفانہ حملہ ترقی پسند تحریک نے کیا اور اس کی نظریاتی اساس کو دلیل سے رد کرنے کے بجائے اس تحریک کے ادبا سے عدم تعاون کا منصوبہ بنا لیا۔ ہر چند اس قسم کا سیاسی عمل ادب کے ارتقا میں رکاوٹ نہیں بنتا۔ تاہم المیہ یہ ہوا کہ اس تحریک نے اپنی نظریاتی بنیاد تو استوار کر لی، لیکن اس کی صداقت کو تخلیقی سطح پر ثابت کرنے کے لئے اچھے شاعروں اور افسانہ نگاروں کا تعاون حاصل نہ ہو سکا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہ تحریک معنوی اور تخلیقی طور پر زیادہ عرصے تک زندہ نہ رہ سکی اور ترقی پسند تحریک پرپابندی لگ جانے کے بعد جب اس کا ادبی حریف میدان سے ہٹ گیا تو تحریک دوبارہ حلقہ ارباب ذوق میں فطری طور پر ضم ہو گئی۔ چنانچہ حلقے کی تحریک میں انتظار حسین، احمد مشتاق، سجاد باقر رضوی، ناصر کاظمی اور مظفر علی سید جیسے ادبا نے تہذیبی شعور کا جواز پیدا کیا، معنوی طور پر یہ متذکرہ تحریک کا ہی حصہ نظر آتا ہے۔

ارضی ثقافتی تحریک

پاکستانی ادب کی تحریک نے جن فکری مسائل کو ابھارا تھا ان کی نسبتاً بدلی ہوئی صورت ارضی ثقافتی تحریک میں رونما ہوئی۔ اس تحریک نے اقبال سے یہ نظریہ اکتساب کیا کہ ثقافت اور اس کا مظہر ادب، زمین اور آسمان کے رشتوں سے متشکل ہوتا ہے اور ترقی پسند تحریک سے اس حقیقت کو اخذ کیا کہ تخلیق میں زمین بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ اس تحریک کا امتیازی نکتہ یہ ہے کہ اس نے مذہب کو زمینی رشتوں کی تہذیب کا ایک مقدس انعام اور انسانی شعور کو لاشعور میں پھوٹنے والا چشمہ قرار دیا۔ چنانچہ اس تحریک نے ’’سماجی ہمہ اوست‘‘ مرتب کرنے کے بجائے فرد کو اجتماع کا ضروری جزو قرار دیا اور اس کی انفرادیت کا اثبات بھی کیا۔ ترقی پسند تحریک نے زمین کو اہمیت عطا کی تو اس کا مقصد زمین کے واسطے سے ایک مادی نظام کی تشکیل اور ایک ایسے غیر طبقاتی معاشرے کا فروغ تھا جو زمین سے ایک دودھ پیتے بچے کی طرح چمٹا ہوا ہو۔ ترقی پسند تحریک کا یہ مسلک اپنی ممکنات کے لحاظ سے محدود اور مزاج کے اعتبار سے خالصتاً مادی تھا۔ ارضی ثقافتی تحریک نے زمین کے وسیلے سے نہ صرف ثقافتی  عناصر کو قبول کیا بلکہ اجتماعی لاشعور کو ایک ارضی رشتہ قرار دے کر ادب اور فکری تشکیل میں نسلی اور روحانی سرمائے کو بھی ناگزیر قرار دیا۔ چنانچہ ارضی ثقافتی تحریک نے جسم کے مادی وجود کے بجائے جسم کے روحانی ارتقا کو اہمیت دی اور یوں آسمانی اور زمینی عناصر کے متوازن امتزاج سے اب اور فن کی نئی اور متنوع صورتیں پیدا کرنے کی سعی کی۔

ارضی ثقافتی تحریک کی نظریاتی اساس ڈاکٹر وزیر آغا کے تفکر کا نتیجہ ہے۔ ان کا اساسی مؤقف یہ ہے کہ ثقافت زمین اور آسمان کے تصادم سے جنم لیتی ہے۔ تاہم اس تصاد م میں آسمان کا کردار ہنگامی اور اضطراری ہے…آسمانی عناصر کے بغیر زمین بالکل بانجھ ہو کررہ جاتی ہے۔

پاکستان کی ثقافت اور ادب کے بارے میں ڈاکٹر وزیر آغا کا مؤقف ہے کہ اس کی تشکیل میں مذہب کے گہرے اثرات کے علاوہ پاکستا ن کی مٹی،ہوا،موسم اور اس کی تاریخ نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان کی مٹی کی کہانی ہند اسلامی ثقافت کے دور سے بہت پہلے ان ایام میں پھیلی ہوئی ہے ، جب اس خطہ ارض پر وادی سندھ کی تہذیب نے جنم لیا تھا۔ پاکستان کی مٹی کی اس کہانی کا دوسرا پہلو داخلی ہے۔ یعنی اس نے قوم کی سائیکی میں ان تمام نسلی اثرات کو محفوظ رکھا ہے جو ہزاروں برس کے نسلی تصادم سے پیدا ہوئے ہیں۔ چنانچہ ادب کی تنقید میں اساطیری عناصر اور Archetypal Images کی دریافت  ناگزیر ہے۔ گویا ارضی ثقافتی تحریک نے انسانی کے پورے ماضی سے رشتہ استوار کیا اور اب ادب کی تخلیق کو انسانی سائیکی کا کرشمہ قرار دیا۔ ہند اسلامی ثقافت کی ابتدا اس سرزمین سے ہوئی اور باہر سے آنے والے اثرات نے اس سرزمین کے مزاج کا حصہ بنتے گئے توں توں ثقافت میں بھی نئی پرتیں پیدا ہوتی گئیں۔ اس لحاظ سے یہ تحریک پاکستانی ثقافت اور ادب کی گہرائی اور تنوع کی نشاندہی کرتی ہے۔

پاکستان اور بھارت کی دو جنگوں نے اس تحریک کے ارضی اور روحانی تصور کو مزید تقویت دی۔ ان جنگوں کے بعد حب الوطنی اور ارض پاکستان سے روحانی وابستگی کا جذبہ شدت سے بیدار ہوا۔ اس کی صورت تو ’’سوہنی دھرتی‘‘ کے تصور میں ابھری اور دوسری صورت یہ ہوئی کہ شہروں اور قصبوں سے جذباتی وابستگی کا شدید ترین جذبہ پیدا ہو گیا۔ تیسرے شعرا نے نظریاتی تعصب سے بلند ہو کرارض وطن کی خوشبو کو جبلی سطح پر محسوس کیا اور اپنے گردوپیش کو شعری اظہار کے ساتھ منسلک کردیا۔ چنانچہ زمین کی خوشبو نہ صرف شاعری میں رچ بس گئی بلکہ یہ قاری کے مشام جان کو بھی معطر کرنے لگی۔

ارضی ثقافتی تحریک نے صرف نظریاتی اساس ہی مرتب نہیں کی بلکہ اس کے نقوش کئی ادبا کی تخلیقات میں بھی جلوہ گر نظر آتے ہیں، تنقید میں ڈاکٹر وزیر آغا کی کتاب’’اردو شاعری کا مزاج‘‘ اس تحریک کی نظریاتی بوطیقا ہے۔ ڈاکٹر سہیل بخاری نے اردو زبان کے فطری ارتقا میں زبانوں کی آمیزش کو ناگزیر قرار دے کر اس تحریک کے ثقافتی مزاج کو ہی ابھارا ہے۔ مشتاق قمر، جمیل آذر، ڈاکٹر غلام حسین اطہر اور سجاد نقوی کی تنقید میں آسمانی اور زمین عناصر کا امتزاج موجود ہے۔ شاعری میں وزیر آغا کی بیش تر علامتیں ارضی ثقافتی پس منظر کی حامل ہیں۔ اعجاز فاروقی کی شاعری کی جڑیں پاکستان کے گہرے ماضی میں اتری ہیں۔ فسانے میں اس تحریک کو غلام ثقلین نقوی ،صادق حسین،رشید امجد اور مشتاق قمر نے تقویت دی۔ غلام ثقلین نقوی کے افسانوں میں وطن محض ایک خطہ زمین نہیں بلکہ سانس لیتا ہوا ایک زندہ کردارہے جو اپنے تاثر کا اظہار بھی کرتا ہے۔ صادق حسین کے افسانے پاکستانی آرزوؤں، ولولوں اور تمناؤں کے جگمگاتے ہوئے مرقعے ہیں۔ مشتاق قمر نے ان کرداروں کو موضوع بنایا ہے جو ارض وطن کے لیے نقد جان پیش کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ رشید امجد کے افسانوں میں شعور ماضی انسان کے مشترکہ نسلی سرمائے کی صورت میں ظاہر ہوا ہے اور وہ انسانی سائیکی کی ان لکیروں کو تلاش کرتا ہے جن کے اولین نقوش ٹیکسلا میں متحجر ہیں لیکن جن کی زندہ صورت پاکستان کے گلی کوچوں میں رواں دواں ہے۔ پاکستانی افسانہ اور تنقید کی متذکرہ بالا تین اصناف کے علاوہ اس تحریک کا تخلیقی اظہار ایک نئی صنف ادب انشائیہ میں بھی ہوا ہے۔ انشائیہ نے ارضی مظاہر اور ثقافتی نقوش کو بار بار مس کیا اور لطافت اور شگفتگی کی فضا میں فرد کو زندہ رہنے کا حوصلہ عطا کیا۔ ڈاکٹر وزیر آغا، مشتاق قمر، جمیل آذر،غلام جیلانی اصغر، سلیم آغا قزلباش، اور کامل القادری کے انشائیے درحقیقت پاکستانی عادات ورسوم کو ہی مسرت افزا انداز میں پیش کرتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭