خطبہ حجۃ الوداع اور اخلاقی تربیت آپﷺ نے مسلمانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کو قیامت تک ایک دوسرے پر حرام قرار دیا
’’سب مسلمان بھائی بھائی ہیں، عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں، ہاں! صرف پرہیز گاری خدا کے نزدیک افضل ہے‘‘:ارشاد نبویؐ حجۃ الوداع آنحضرت ﷺکی رسالت کی زندگی کا اکمال اور اسلام کی تعلیمات کا اتمام ہےآپﷺ نے زمانہ جہالت کی رسمیں اور قتل و خون کے جھگڑے ختم کرنے کا حکم فرمایا
عید الاضحی کی خوشیاں منانے کے دن آگئے ہیں، اس مرتبہ ہم کورونا وباء کا بھی سامنا کر رہے ہیں لہٰذا عید اور حج میں پہلے جیسے رونقیں نہیں ہیں، اللہ کی رحمت سے ہم جلد ہی اس وباء سے نجات پانے کے بعد پہلی جیسی زندگی گزارنے کے قابل ہو جائیں گے۔اس عید اور حج کے موقع پر آپ کے خطبے پر عمل کرنا چاہیے ،بلکہ اس خطبے پر عمل کرنے کی جتنی ضرورت آج ہے پہلے کبھی نہ تھی۔خطبے میں آپ ﷺ نے ہر قسم کے جھگڑے ، بے جارسومات، سود اور خواتین سے ناروا سلوک کے خاتمے کا بھی حکم فرمایا تھا۔ آپؐ نے بھائی چارے کوفروغ دینے کا حکم دیا تھا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آج بے شمار مستحقین وباء کی وجہ سے کسمپرسی کے عالم میں ہماری توجہ کے مستحق ہیں ۔ آج ہماری عدالتیں مقدمات سے بھری پڑی ہیں ،کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کسی نہ کسی کمزور پر ہونے والے ظلم کی افسوسناک داستان ہماری نظر سے نہ گزرتی ہو۔اسی لئے ہمیں ایک بار پھر قرآن پاک سے رہنمائی لینے کی ضرورت ہے۔ خطبہ حجۃ الوداع میں آپ ؐکے ارشادات دین کا نچوڑ ہیں۔
آپ ﷺ نے دراصل تین خطبے دیئے تھے ۔ پہلا خطبہ 9 ذی الحجہ کو عرفات میں، دوسرا خطبہ 10 ذی الحجہ کو منیٰ میں اور تیسرا خطبہ 11 یا 12 ذی الحجہ کو منیٰ میں ہی ارشاد فرمایا ۔ اس کے وقت آپ ﷺکے اردگرد ہزاروں انسانوں کا سمندر ٹھاٹھیں ماررہا تھا۔ یہ خطبہ 10 ہجری میں دیا گیا تھا۔’’ سیرۃ خیرالانام ﷺ‘‘ (مرتبہ اُردو دائرہ معارف اسلامیہ )کے مطابق آپ ﷺکے چاروں طرف ایسے افراد مقرر کیے گئے جو آپؐ کے ہر جملے کو مکبروں کی طرح بآواز بلند دہراتے تھے۔ یہ آنحضرت ﷺکا ہجرت کے بعد پہلا اور آخری حج تھا۔ یہ حج آنحضرت ﷺکی رسالت کی زندگی کا اکمال اور اسلام کی تعلیمات کا اتمام ہے۔ معاشرتی نظام میں خطبہ حجۃ الوداع کی بڑی اہمیت ہے۔یہ خطبہ انسانی تربیت اور اخلاقیات میں اہمیت کا حامل ہے۔ نسل انسانی کے حقوق کا یہ بنیادی اور اہم ترین منشور اور مذہبی اور اخلاقی تعلیمات کا نچوڑ ہے۔ یہ خطبہ آپؐ کی سیرت طیبہ کی عملی تفسیر ہے۔ کتاب ’’تاریخ اسلام‘‘ میںمحمد اکبر شاہ نجیب آبادی لکھتے ہیں: ’’آپ ﷺنے اس خطبہ میں اس طرح کلمات فرمائے ،جیسے کسی سے کوئی الوداع ہورہاہو یا کسی کو الوداع کررہا ہو۔ اس لیے یہ خطبہ ’’خطبہ الوداع‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ آپ ﷺنے اس سال خطبہ میں احکام اسلامی کی خصوصی تبلیغ فرمائی۔‘‘
آپ ﷺنے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا:ترجمہ ’’لوگو! میری باتیں سنو، شاید اگلے سال مجھے اور تمہیں ایسی محفل میں اکھٹے ہونے کا موقع نہ ملے۔ میں آج کے دن مسلمانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کو قیامت تک ایک دوسرے پر حرام کرتا ہوں جس طرح تمہیں اس مہینے اور اس دن کا احترام ہے۔ اسی طرح تمہیں ایک دوسرے کے مال ، آبرو اور خون کا احترام کرنا چاہیے۔ کوئی چیز جو ایک بھائی کی جائز ملکیت میں ہے دوسرے پر حلال نہیں، جب تک کہ وہ خود اپنی خوشی سے اُسے نہ دے‘‘۔
آپ ﷺنے قیامت کے دن احتساب کے بارے میں فرمایا: ’’یاد رکھو! ایک دن ہم سب کو مر کر خدائے تعالیٰ کے حضور میں حاضر ہونا ہے۔ جہاں ہر ایک سے اس کے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ ‘‘
حضرت نبی اکرم ﷺنے غیر اسلامی رسوم کے بارے میں فرمایاـ:’’لوگو! یاد رکھو زمانہ جاہلیت کی ہر رسم میرے قدموں کے نیچے ہے میں اسے ختم کرتا ہوں۔ زمانہ جاہلیت کے قتل و خون کے جھگڑے آج تک ختم کئے جاتے ہیں۔ اس خطبہ شریف میں حضور اکرم ﷺنے اسلامی مساوا ت کا درس دیا:’’سب مسلمان بھائی بھائی ہیں۔ عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ۔ ہاں، صرف پرہیز گاری خدا کے نزدیک افضل ہے‘‘۔
آپ ﷺنے کمزوروں کے حقوق کے بارے میںارشاد فرمایا: ’’غلاموں اور عورتوں کے تم پر حقوق ہیں۔ ان حقوق کا خاص خیال رکھو۔ عورتوں کے ساتھ نرمی اختیار کرو اور مہربانی سے پیش آئو۔ غلاموں کو وہی کھلائو جو خود کھاتے ہو اور انہیں وہی لباس پہنائو جو خود پہنتے ہو۔‘‘
آپ ﷺنے فرمایا: ’’ہر شخص اپنے کیے کا خود ذمہ دار ہے۔ بیٹا باپ کا اور باپ بیٹے کے جرم کا ہرگز ذمہ دار نہیں‘‘۔
حضور اکرم ﷺنے فرمایا:’’لوگو! نہ میرے بعد کوئی نبی آئے گا نہ نئی امت پیدا ہوگی۔ اچھی طرح سن لو! اپنے رب کی عبادت کرو، پانچوں وقت نماز پڑھو، رمضان کے روزے رکھو، مال کی زکوٰۃ خوشی خوشی ادا کرو، خانہ کعبہ کا حج کرو اور اپنے حاکموں کے فرمانبردار رہو۔ اس کی جزا یہ ہے کہ اپنے پروردگار کی جنت میں داخل ہوجائو گے۔ ’’اور میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر تم انہیں مضبوطی سے پکڑ لو گے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے اور وہ ہیں کتاب اللہ اور اس کے نبی (ﷺ) کی سنت۔جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ یہ باتیں غیر حاضر لوگوں تک پہنچادیں۔ ممکن ہے بعض سامعین کے مقابلے میں بعض حاضر لوگ ان باتوں کو زیادہ اچھی طرح یاد رکھیں اور ان کی حفاظت کریں۔اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے میراث میں سے ہر وارث کے لیے ثابت کردہ حصہ مقرر کیا ہے اور ایک تہائی مال سے زیادہ وصیت کرنا جائز نہیں ہے‘‘۔
’’بچہ اس کا جس کے نکاح میں تولد ہوا اور بدکار کے لیے پتھر! جس نے اپنے باپ کی بجائے کسی دوسرے کو باپ قرار دیا تو ایسے شخص پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی طرف سے لعنت ہے۔ اس کے لیے قیامت کے دن کوئی عوض یا بدلہ نہ رکھا جائے گا‘‘۔
خطبہ میں حضرت نبی اکرم ﷺنے چار قابل احترام مہینوں کا بھی ذکر فرمایا یعنی ذی القعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب۔ آپ ﷺنے امانت کی ادائیگی کا حکم دیا: ’’جس کے قبضے میں کوئی امانت ہے تو اسے اس کے مالک کو ادا کردے‘‘۔
آپ ﷺنے سود کو حرام قرار دیا:’’دور جاہلیت کا سود کالعدم کردیا گیا ہے البتہ تمہارے لیے راس المال پر حق ہوگا۔ نہ تم کسی پر ظلم کر و نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔‘‘
خطبہ کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے لوگوں سے پوچھا:’’کیا میں نے تمہیں اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچادیا؟‘‘
سب نے بیک آواز جواب دیا آپؐ نے اپنا حق ادا کردیا۔ اس پر آپ ﷺنے اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور تین بار کہا: ’’اے خدا! تو گواہ رہنا، اے خدا! تم گواہ رہنا، اے خدا! تم گواہ رہنا۔‘‘
ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم رقمطراز ہیں: ’’اس خطبے میں انسانی حقوق درج ہیں اور یہ خطبہ اسلامی فلاحی ریاست کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ عبدالحمید صدیقی اپنی کتاب ’دی لائف آف محمد (ﷺ)‘ کے صفحہ نمبر 290 پر لکھتے ہیں کہ خطبہ حجۃ الوداع فصاحت و بلاغت کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ محمد حسین ہیکل نے ’دی لائف آف محمد‘ (ﷺ ) میں خطبہ حجۃ الوداع کو خطبہ اسلام کا نام دیا۔ ’’یہ خطبہ بلاغت نبویؐ کا اعلیٰ نمونہ ہونے کے علاوہ اسلامی قانون و اخلاق کا بھی جامع ہے‘‘ ۔
مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رقمطراز ہیں: ’’آپﷺ کے پیغام کو ربیعۃؓ بن امیہ بن خلف اپنی بلند آواز سے لوگوں تک پہنچارہے تھے۔ آپﷺ خطبہ سے فارغ ہوچکے تو اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی:’’آج میں نے تمہار ے لیے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو بحیثیت دین پسند کرلیا۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ آیت سنی تو رونے لگے۔ اب حضرت عمر رضی اللہ عنہ سمجھ گئے تھے کہ حضور پاک ﷺاس دنیا سے الوداع ہونے والے ہیں۔آپ ﷺ نے اس خطبہ میں اتفاق و اتحاد کا درس دیا، سود کا خاتمہ فرمایا اور ایک مکمل اور متوازن معاشی نظام کا تصور دیا۔ ایسا نظام جس پر استوار ہوکر مدینہ منورہ ایک اسلامی فلاحی ریاست بنی۔ آپؐ نے ختم نبوت کے عقیدے کی بھی وضاحت فرمائی۔ صالح حاکم وقت کی اطاعت کی تلقین کی، نسلی امتیاز کا خاتمہ کیا، رنگ و نسل اور زبان کی بنیاد پر فضیلتوں کو ختم کردیا۔ خطبہ حجۃ الوداع مختصر ہونے کے باوجود معانی کے لحاظ سے اتنا فصیح و بلیغ ہے کہ اس میں اسلام کا مکمل نظام اقدار پنہاں ہے۔حضور پاکؐ کا یہ خطبہ امت کے لیے وصیت کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنا انفرادی محاسبہ کریں اور حضور ﷺکے بتلائے اور سکھائے ہوئے راستے پر گامزن ہونے کی سعی کریں۔