خلیفہ سوم حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت آپؓ کے عہدِ خلافت میں دینِ اسلام اور علوم و فنون نے بے مثال ترقی کی

تحریر : فقیر اللہ خاں


12 سال پر محیط خلافتِ عثمانی میں ہونے والی عظیم الشان فتوحات کی نظیر نہیں ملتی حضرت عثمانؓ کا سلسلۂ نسب 5ویں پشت میں آپﷺ سے مل جاتا ہے، آپؓ کی والدہ حضورﷺ کی پھوپھی تھیں قرآن مجید کو مملکت ِ اسلامیہ میں شائع کرنا اور ایک ہی قرأت پر عالم ِ اسلام کو متفق کرنا آپؓ کا قابلِ تعریف کارنامہ ہے

آپؓ کا نام عثمان اور والد کا عفان ہے۔ حضرت عثمانؓ کا سلسلۂ نسب پانچویں پشت میں آنحضورؐ سے مل جاتا ہے۔آپؓ کا شجرۂ نسب عثمان بن عفان بن ابوالعاص بن امیہ بن عبدشمس بن عبدمناف ہے۔ آپؓ خاندانِ قریش کی مشہور شاخ بنوامیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ آپؓ کی والدہ اروی حضور اکرمﷺ کی سگی پھوپھی تھیں۔ حضرت عثمانؓ کی ولادت عام الفیل سے 6 سال بعد ہوئی یعنی حضرت عثمانؓ حضرت رسول اللہﷺ سے چھ سال چھوٹے تھے۔ آپؓ نے زمانۂ جاہلیت میں ہی لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا۔ اسی لیے آنحضورؐ نے حضرت عثمانؓ کو کتابتِ وحی پر مامور فرمایا تھا۔ آپؓ رسول اللہﷺ کے لئے لکھنے پڑھنے کے امور بھی سرانجام دیتے تھے ۔ 

آپؓ شروع ہی سے بڑے نرم دل اور سلیمُ الطبّع تھے۔ زمانۂ جاہلیّت میں بھی شرم و حیا آپؓ کا طُرۂ امتیاز تھا۔ آپؓ نے آغازِ جوانی ہی میں معززینِ قریش کی طرح تجارت کے پیشے کو اختیار کیا اور اپنی صداقت، دیانت، امانت اور راست بازی کی بدولت تجارت میں غیرمعمولی کامیابی حاصل کی۔ آپؓ مکّہ میں ایک ممتاز، معزز اور دولتمند تاجر کی حیثیت سے شہرت رکھتے تھے۔ سخاوت میں بھی آپؓ کسی سے پیچھے نہیں تھے، آپؓ نہایت مالدار تاجر اور بے حد فیاض اور سخی تھے۔ اس لیے غنی کے لقب سے پہچانے جاتے تھے۔ آپؓ کے پاس اونٹوں اور گھوڑوں کی تعداد سیکڑوں ہزار تھی۔ کاروبارِ تجارت بہت وسیع تھا۔ آپؓ زیادہ تر کپڑے کے کاروبار سے منسلک تھے۔ حضرت عثمانؓ کے والد عفّان بنوامیّہ کے رئیس تھے۔ ان کی ایک صاحبزادی قریش کے رئیس ابوسفیان کے نکاح میں تھیں جن کا نام ہند تھا، انہیں کے بطن سے اُمُّ المومنین حضرت اُمِّ حبیبہؓ پیدا ہوئیں۔

حضرت ابوبکرصدیقؓ سے آپؓ کے شروع ہی سے کافی گہرے مراسم تھے، انہی کی تبلیغ و تحریک پر آپؓ نے اسلام قبول کیا۔ ایک دن حضرت عثمانؓ حضرت ابوبکرؓ سے ملنے کے لیے تشریف لائے تو حضرت ابوبکرؓ نے دینِ اسلام کی خصوصیات بیان فرمائیں۔ یہ باتیں حضرت عثمانؓ کے دل میں اثر کرگئیں۔ پھر دونوں احباب بارگاہِ رسالتؐ میں حاضر ہونے کے لیے اُٹھے ہی تھے کہ سامنے سرکارِ دوعالمﷺ کو تشریف لاتے دیکھا۔ حضرت عثمانؓ وہیں پر کلمہ پڑھ کر حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔ حضرت عثمانؓ کا اپنا قول ہے: ’’اِنّی لرابعٌ اربعۃُ الاِسلام‘‘ (میں اسلام قبول کرنے والے چار میں سے چوتھا ہوں)۔

 رسول اللہﷺ نے اپنی دوسری بیٹی حضرت رقیّہؓ کا نکاح حضرت عثمانؓ سے بعثت کے تیسرے میں سال کیا۔ حضرت عثمانؓ کے ساتھ حضرت رقیّہ ؓ کا عقد اتنا بابرکت تھا کہ مکہ میں عام طور پر لوگ کہا کرتے کہ ’’بہترین جوڑا جو کسی انسان نے دیکھا، حضرت رقیّہؓ اور اُن کے خاوند عثمانؓ کا ہے‘‘۔ حضرت عثمانؓ سے رسول اللہﷺ کی یہ قرابت بہت قریبی تھی۔ حضرت عثمانؓ ددھیال کی طرف سے آنحضورؐ کے بھتیجے اور ننھیال کی طرف سے بھانجے تھے۔

حضورِ اکرمؐ کی دعوتِ توحید کی جیسے جیسے اشاعت زیادہ ہونے لگی ویسے ویسے کفارِ مکہ کے مظالم میں اضافہ ہوتا گیا۔ رحمتِ عالمؐ نے جب شمعِ توحید کے اِن پروانوں پر کفر و شرک کے سرغنوں کے بے انتہا مظالم دیکھے تو اپنے جانثار غلاموں کو اجازت دے دی کہ ظلم و ستم کی اس بستی سے ہجرت کرکے حبشہ چلے جائیں کیونکہ وہاں کے بادشاہ نجاشی کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ بڑا رحم دل اور انصاف پسند ہے۔ چنانچہ بعثت کے پانچویں سال ماہِ رجب میں مہاجرین کا پہلا قافلہ اپنے پیارے وطن کو چھوڑ کر حبشہ جیسے دور افتادہ ملک کی طرف روانہ ہوا تاکہ وہاں پُرامن فضا میں اپنے ربِّ کریم کی عبادت کرسکیں۔ یہ قافلہ بارہ مردوں اور چار خواتین پر مشتمل تھا۔ اس قافلہ کے سالارِ اعلیٰ حضرت عثمانؓ بن عفان رضی اللہ عنہ تھے۔ حضرت رقیّہؓ بنتِ رسول اللہﷺ آپؓ کے ساتھ تھیں۔ سرکارِ دو عالمﷺ نے اسی جوڑے کے بارے میں فرمایا ’’(حضرت )ابراہیم ؑ اور (حضرت) لوط ؑ کے بعد یہ پہلا گھرانہ ہے جس نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی‘‘۔ حضرت رقیّہؓ کی خدمت گزاری کے لیے حضرت امِّ ایمن بھی ساتھ تھیں (حوالہ:ضیاء النبیﷺ)۔

حضور رحمتِ عالمﷺ ہجرت کے بعد اپنے اصحاب کی خیریت کی اطلاع کے منتظر رہا کرتے تھے۔ حبشہ میں ان لوگوں کو مکّہ کے مقابلہ میں امن و عافیت میسر آئی۔ چند ماہ بعد وہاں یہ اطلاع پہنچی کہ اہلِ مکّہ نے اسلام قبول کرلیا ہے اور اب وہاں مکمل امن و امان ہے اس پر چند لوگوں نے واپسی کا فیصلہ کیا۔ ایک روایت کے مطابق حضرت عثمانؓ بھی واپس آنے والوں میں شامل تھے۔ لیکن واپسی کے بعد اہلِ مکہ کے بارے میں اطلاع غلط ثابت ہوئی اور کفار نے اِن لوگوں سے پہلے سے بھی زیادہ مظالم شروع کردئیے۔ نبی اکرمﷺ نے انہیں دوبارہ ہجرت کی اجازت مرحمت فرمادی۔ اس دفعہ کئی دوسرے مسلمان بھی اس قافلہ میں شریک ہوگئے اور اِن کی تعداد83 ہوگئی۔ بعد میں جب تمام مسلمانوںکو ہجرتِ مدینہ کا حکم ہوگیا تو حضرت عثمانؓ اس سعادت سے بھی بہرہ مند ہوئے، اس طرح حضرت عثمانؓ ’’ذوالہجرتین‘‘ کے لقب کے ساتھ ساتھ حضرت رقیّہؓ کی وفات کے بعد حضرت ام کلثومؓ بنت رسول اللہﷺ سے نکاح کرکے ’’ذوالنورین‘‘ کے لقب سے بھی سرفراز ہوئے۔

 حضرت عثمانؓ نے اللہ کی راہ میں اپنے وطنِ عزیز کو پھر اس وقت چھوڑا جب رسول اللہﷺ نے مدینے کو ہجرت کی۔ یہاں رسول اللہﷺ نے حضرت حسّان بن ثابتؓ انصاری کے بھائی اوس بن ثابتؓ سے اُن کی مؤاخات کرادی۔ حضرت حسّان بن ثابتؓ تو شاعرِ دربارِ رسالتؐ تھے۔ حضرت حسّانؓ کو حضرت عثمانؓ سے بڑا انس تھا۔ انہوں نے حضرت عثمانؓ کی شہادت پر بڑا دردناک مرثیہ لکھا تھا اور وہ خود تمام عمر اس سانحۂ عظیم پر مغموم رہے۔ آپؓ کا مال ہمیشہ دینِ اسلام کے رفاعی کاموں میں صرف ہوتا تھا۔ آپؓ غزوات کے موقع پر بہت مدد کرتے۔ مدینہ میں پینے کے پانی کی قلّت تھی۔ حضرت عثمانؓ نے ’’بیئرِ رومہ‘‘ جو ایک یہودی کی ملکیت تھا، خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کردیا۔ یہودی آخر یہودی تھا اُس نے اس کنویں کی قیمت بیس ہزار درہم طلب کی، جو آپؓ نے فوراً ادا کردی۔ رسول اللہﷺ نے بیئر رومہ کو خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کرنے والے کے لیے پہلے ہی جنت کی بشارت فرما دی تھی۔ بعد میں حضرت عثمانؓ نے مسلمانوں کے لیے مزید کئی کنویں کھدوائے۔

عہدِ نبویﷺ میں جب نمازیوں کی کثرت کے باعث مسجدِ نبویﷺ کی توسیع کی ضرورت پیش آئی تو حضرت عثمانؓ نے مسجد سے ملحقہ زمین کا ایک قطعہ خرید کر وقف کردیا۔ آپؓ نے اپنے عہدِ خلافت میں 29ھ میں بھی مسجدِ نبویؐ کی توسیع کروائی۔ توسیع کا کام دس ماہ تک جاری رہا، جس میں پتھر، چونا اور اینٹ استعمال کی گئی۔ اس بار مسجد بہت خوبصورت بنی۔ اس توسیع کے ساتھ ہی مسجد کا طول 160 گز اور عرض 150 گز کردیا گیا۔

حضرت عثمانؓ نے عہدِ نبویﷺ کے تمام غزوات میں حصّہ لیا۔ صرف غزوۂ بدر کے موقع پر حضرت رقیّہؓ بنتِ رسول اللہﷺ بیمار تھیں۔ آپﷺ نے اُن کی تیمارداری کے لیے آپؓکو مدینہ ہی میں رہنے کا حکم دیا اور کہا کہ آپؓ جنگ میں ہی شریک سمجھے جاؤ گے، آپؓ کو اِس کا اجر ملے گا۔ لیکن برضائے الٰہی ماہ رمضان المبارک 2ھ میں حضرت رقیّہؓ کا انتقال ہوگیا۔حضرت رقیّہؓ کو حبشہ میں قیام کے دوران اللہ تعالیٰ نے ایک صاحبزادے سے نوازا، اُس کا نام عبداللہ بن عثمان تھا۔ اُس وقت اُن کے لختِ جگر عبداللہؓکی عمر چار سال تھی ۔ جب حضرت زیدؓبن حارث غزوہ بدر میں مسلمانوں کی فتح کی خوشخبری لے کرمدینہ میں داخل ہورہے تھے تو عین اُس وقت جنت البقیع میں حضرت رقیّہؓ کی قبر پر مٹی ڈالی جا رہی تھی۔ جب آپﷺ مدینہ پہنچے تو اپنی لختِ جگر کے وصال پُرملال کی خبر سُنی تو آپؐ نے حضرت رقیّہؓکی چھوٹی بہن حضرت فاطمہؓ جو قبر کے پاس تشریف فرما تھیںاور رو رہی تھیں، اپنی چادر کے کناروں سے اُن کے آنسو پونچھے۔

حضرت عثمانؓ، خلیفۂ اوّل حضرت ابوبکرؓ کے عہد میں اُن کے مُشیر تھے، حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں وہ مجلسِ شوریٰ کے ممتاز ارکان میں شامل رہے۔ حضرت عثمانؓ کا درجۂ فضیلت  سب صحابہ کرامؓمیں تسلیم شدہ تھا۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ بیعتِ رضوان کے موقع پر حضرت عثمانؓ رسول اللہﷺ کی جانب سے مکّہ معظمہ میں ایلچی بن کر گئے، چنانچہ جس وقت صحابہؓ نے رسول اللہﷺ سے بیعتِ رضوان کی، رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’چونکہ حضرت عثمانؓ میرے حکم سے اسلام کے لئے تشریف لے گئے ہیں لہٰذا میں خود اُن کی طرف سے بیعت کرتا ہوں‘‘۔ یہ ارشاد فرما کر آپؐ نے اپنا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھا۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حضرت عثمانؓ کا دستِ مبارک تمام لوگوں اور جانوں سے کس قدر افضل اور بَرتر ہے۔ (امام ترمذیؒ )

جب ربیع الثانی 3ھ میں بنتِ رسول حضرت کلثومؓ کا نکاح حضرت عثمانؓ سے ہوا تو وہ نکاح کے تین ماہ بعد رخصت ہوکر اپنے سُسرال حضرت عثمانؓ کے گھر آگئیں تو حضرت عبداللہؓ بھی اپنے والدِ محترم کے مکان میں اُن کے پاس آگئے۔ حضرت عبداللہؓ کی سگی خالہ جو اَب اُن کی ماں بھی تھیں، نے ننھے عبداللہؓ کی تربیّت میں پوری پوری توجّہ دی اور اُس کو اپنی سگی ماں کی کمی کسی طرح محسوس نہ ہونے دی۔ ناناﷺ بھی جب اپنی بیٹی کے ہاں آتے تو اپنے یتیم و معصوم نواسے کو پیار سے اپنی گود میں اٹھا لیتے اور اپنے مبارک ہونٹ عبداللہؓ کے معصوم چہرے پر رکھ دیتے۔ اُس وقت آپؐ کے دوسرے نواسے حضرت حسنؓ ابھی ایک سال کے تھے اور حضرت حسینؓ تو ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے۔ اس لیے رسول اللہﷺ کے شفقت و پیار کا وافر حصّہ حضرت عبداللہؓ ہی کے حصّہ میں آیا۔

حضرت عمرؓ جب ظالم مجوسی ابولُولُو کے مہلک خنجر سے زخمی ہوگئے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زندگی کا چراغ ٹمٹماتا ہوا نظر آنے لگا تو صحابہ کرامؓ نے جانشین کا مسئلہ پیش کیا۔ حضرت عمرؓ نے عشرہ مبشرّہ میں سے چھ اصحاب کی ایک مجلس قائم کردی۔حضرت علیؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت زبیر بن العوامؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ۔ آپؓ نے کہا کہ وہ آپس میں مشورہ کرکے کسی ایک کو امیرالمؤمنین منتخب کرلیں اس دوران میں نمازیں حضرت صُہیب رومیؓ پڑھائیں گے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے مسلسل تین دن تک شہر کے دانشوروں اور لشکرِ اسلام کے سپہ سالاروں سے چل کر مشورہ کیا اور جب انہیں یقین ہوگیا کہ اکثریت کی رائے میں اس ذمہ دار منصب کے اہل حضرت عثمانؓ ہیں تو حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے مسجدِ نبویﷺ میں آکر حضرت عثمانؓ کی خلافت کا اعلان کردیا اور سب سے پہلے خود اُن کے ہاتھ پر بیعت کی۔

خلافتِ عثمانی جو بارہ سال کے عرصہ پر محیط ہے، اِس میں ایسی عظیم الشان فتوحات اتنی سُرعت کے ساتھ ہوئیں جن کی نظیر اس سے پیشتر تاریخ میں نہیں ملتی۔ یقینا اِن فتوحات کا سہرا اُن کے عہد کے مایہ ناز سپہ سالاروں حضرت ولید بن عقبہؓ، حضرت سعید بن العاصؓ، حضرت عبداللہ بن عامرؓ اور حضرت معاویہؓ بن ابی سفیان کے سر تھا۔ آپؓ کے دور میں مملکتِ اسلامیہ کی حدود ایک طرف سندھ سے لے کر اُندلس تک جاپہنچیں۔ اِس کے علاوہ ایک عظیم الشّان بحری بیڑہ تیار کیا گیا جس کے امیرالبحر حضرت معاویہؓ تھے اِس سے پیشتر اسلامی فوج کے پاس ایک کشتی بھی نہ تھی۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو خلافتِ عثمانؓ اہلِ اسلام کے لیے فتح و ظفر کا ایک درخشاں باب ثابت ہوئی۔ آپؓ کے عہدِ خلافت میں تہذیب و تمدّن، صنعت و حرفت، تجارت اور علوم و فنون کو ترقی ہوئی۔ دولت و ثروت اور فارغ البالی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ صحابہ کرامؓ نے مدینہ اور ملحقہ وادیوں میں خوبصورت عمارات تعمیر کروائیں۔ سلطنتِ اسلامیہ کے بڑے بڑے تجارتی شہروں میں قدیم بازاروں کے علاوہ نئے بازار اور منڈیاں بھی بنائی گئیں۔ اہلِ مکّہ اور مدینہ حجاز سے نکل کر دوردراز علاقوں میں پہنچ گئے۔

سب سے بڑا اور عظیم الشّان کارنامہ جو خلافتِ عثمانؓ میں سرانجام پایا وہ عالمِ اسلام کو ایک مصحف اور قرأت پر جمع کرنا تھا۔ قرآن مجید کو لکھوا کر تمام مملکتِ اسلامیہ میں شائع کرنا اور ایک ہی قرأت پر تمام عالمِ اسلام کو متفق کردینا خلافت عثمانؓ کا قابلِ تعریف کارنامہ ہے۔ اسی کارنامے کی بنا پر امت میں آپؓ کا لقب ’’جامع القرآن‘‘ مشہور ہوا۔ مصدقہ روایات کے مطابق حضرت عثمانؓ نے اُمُّ المومنین حضرت حفصہؓ کے پاس محفوظ مصحف کی سات نقلیں تیار کروائیں اور مکہ معظّمہ، مدینہ منورہ، شام، بحرین، بصرہ، کوفہ اور مصر میں ایک ایک نُسخہ محفوظ کروایا۔ اِن میں سے چار نسخے اس وقت دنیا میں محفوظ ہیں۔

حضرت عثمانؓ کے بارہ سالہ دورِ خلافت کا نصف عرصہ نہایت پُرسکون رہا۔ فتوحات کی کثرت کے سبب مالِ غنیمت اور محاصل میں اضافہ ہوا۔ تجارت اور زراعت کو ترقی ملی۔ لیکن آپؓ کے آخری سالوں میں باغیوں نے سَراُٹھایا ۔ حضرت عثمانؓ کے نرم رویوں اور پالیسیوں کی وجہ سے آپؓ کو وہ دن دیکھنے پڑے جن کی توقع نہ تھی۔حضرتِ عثمانؓ کے خلاف بغاوت کی جو آگ بھڑکائی جارہی تھی، اِس کے مراکز کوفہ، بصرہ اور مصر میں قائم تھے۔ 35ھ کے آخر میں شرپسندوں نے مدینہ کا رُخ کیا۔ اُن دنوں حج کی وجہ سے مدینہ تقریباً خالی تھا۔ ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت ان باغیوں نے پہلے تو امیرالمومنین کا مسجدِ نبویﷺ میں آنا جانا دشوار بنادیا اور پھر آپؓ کی رہائش کا محاصرہ کرلیا جو مختلف روایات کے مطابق کم و بیش چالیس دن جاری رہا۔ اس دوران امیرالمومنین نے کئی بارمکان کی چھت پر سے باغیوں کو خطاب بھی فرمایا۔ رسول اللہﷺ کے ساتھ اپنی نیازمندی اور رشتہ داری کے حوالے دیئے، اسلام کی خاطر اپنی خدمات یاد دلائیں لیکن ان پر آپؓ کی کسی بھی بات کا کوئی اثر نہ ہوا۔ کئی صحابہؓ نے آپؓ کو مدینہ منورہ چھوڑ کر کسی اور جگہ چلے جانے کا مشورہ دیا لیکن آپؓ نے رسول اللہ ﷺ سے جدائی کو کسی صورت گوارا نہ کیا۔ آپؓ کی حفاظت کے لیے بعض اکابرصحابہؓ نے اپنے نوجوان فرزندوں کو آپؓ کی قیام گاہ کے باہر مقرر کردیا۔ اِن کے علاوہ ایک جمِّ غفیر آپؓ کے پاس موجود تھا۔ لوگوں نے اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ امیرالمومنین اُنہیں باغیوں کا مقابلہ کرنے کی اجازت دیں، لیکن آپؓ نے منع کردیا۔ آپؓ کو امت میں خونریزی اور خانہ جنگی گوارا نہ تھی۔ آخر میں یہاں تک حالت آپہنچی کہ امیرالمومنین کا پانی تک بند کردیا گیا۔ آپؓ کو پتھر مارے گئے لیکن آپؓ نے صبرواستقلال کا دامن نہ چھوڑا اور سارے مصائب کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور اپنی ذاتیات کے لیے آنحضورؐ کے پیارے شہر مدینۃُ النبیﷺ کی حرمت پر آنچ نہ آنے دی۔

آپؓ کو آنحضرتؐ کی پیش گوئی کے مطابق اپنی شہادت کا یقین ہوچکا تھا۔ آخری شب حضرت عثمانؓ کو خواب میں آنحضورؐ کی زیارت ہوئی اور آپؐ نے فرمایا ’’اے عثمان! ہمارے ساتھ روزہ افطار کرنا‘‘۔ آخرکارچند باغی 18 ذوالحج 35 ھ کوجمعہ کے دن عصر کے بعد پچھلی دیوار پھلانگ کر گھر میں زبردستی داخل ہوگئے اور رسول اللہﷺ کے تیسرے خلیفہ، دو دفعہ آپؓ کی دامادی کا شرف حاصل کرنے والے اور ذوالنورین کا لقب پانے والے کو اُس وقت شہید کردیا جب وہ قرآن پاک کی تلاوت کررہے تھے۔ شہادت کے وقت آپؓ کی عمر 82 سال تھی۔ 18 ذوالحج 35ھ بروز جمعہ آپؓ نے شہادت پائی اور شنبہ کی شب کو مابین مغرب و عشاء آپؓ کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

میدان محشر میں نعمتوں کا سوال!

’’اور اگر کفران نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے‘‘ (سورہ ابراہیم :7) ’’اور اس نے تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم شکر گزار بنو‘‘ (سورۃ النحل : 78)’’اے ایمان والو! ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم اُسی کی عبادت کرتے ہو‘‘ (البقرہ )’’اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوتا ہے جو کھاتا ہے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے اور پانی پیتا ہے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے‘‘ (صحیح مسلم)

کامیاب انسان کون؟

’’وہ اہل ایمان کامیابی پائیں گے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرنے والے ہیں‘‘ (المومنون) قرآن و سنت کی روشنی میں صفاتِ مومناللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’جس نے خود کو گناہوں سے بچالیا حقیقتاً وہی کامیاب ہوا(سورۃ الیل)

صدقہ: اللہ کی رضا، رحمت اور مغفرت کا ذریعہ

’’صدقات کو اگر تم ظاہر کر کے دو تب بھی اچھی بات ہے، اور اگر تم اسے چھپا کر دو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے‘‘(سورۃ البقرہ)

مسائل اور ان کا حل

’’اسے اپنے گھر لے جاو‘‘ کہنے سے طلاق نہیں ہوتی سوال :میں نے اپنی بیوی سے ایک موقع پرکہاتھاکہ میں تمہیں کبھی ناراض نہیں کروں گا،اگرکوئی ناراضی ہوئی توآپ کے کہنے پرطلاق بھی دے دوں گا۔

فیض حمید کی سزا،بعد کا منظر نامہ

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور سابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو سزا سنا دی گئی ہے جو کئی حلقوں کیلئے ایک واضح پیغام ہے۔ ریاست ملک میں عدم استحکام پھیلانے والے عناصر کیلئے زیرو ٹالرنس کی پالیسی اختیار کر چکی ہے۔

پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے امکانات

چیف الیکشن کمشنر کا مؤقف ہے کہ الیکشن کمیشن بلدیاتی انتخابات کے لیے تیار ہے،لیکن حکومتِ پنجاب نے10 جنوری تک کا وقت مانگا ہے۔ پنجاب حکومت نے انتخابی بندوبست کرنا ہے جبکہ شیڈول کا اعلان الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے۔