توحید کی برکات

تحریر : مفتی محمد تقی عثمانی


کلمہ ٔ توحید ایک معاہدہ ہے جسکا مطلب ہے کہ میں پوری زندگی اللہ کی رضا اس کے احکام اور اس کی خوشنودی کے مطابق گزارنے کی کوشش کروں گا

 ہمیں اسلام کے سب سے بنیادی عقیدے یعنی توحید کے بارے میں کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں ۔ہر مسلمان جانتاہے کہ اسلام کی بنیاد کلمہ توحید پر ہے ، جو شخص بھی اسلام کے دائر ے میں داخل ہو تاہے ، وہ کلمہ توحید پڑھ کر یعنی’’ لاالہٰ الا اﷲمحمد رسول اﷲ‘‘کا اقرار کرکے داخل ہوتاہے ۔ اس کلمۂ توحید کی انقلابی حیثیت بھی ہر مسلمان کو معلوم ہے اور اس کا یہ عجیب نتیجہ بھی ہے کہ اس ایک کلمہ کو پڑھ لینے کے بعد انسان کی زندگی میں ایک عظیم الشان انقلاب رونما ہو جا تا ہے یعنی جو شخص اس کلمہ کے پڑھنے سے پہلے کافر تھا ، وہ اس کلمہ کے پڑھ لینے کے بعد مسلمان ہو جا تا ہے ، پہلے جو شخص اﷲتعالیٰ کا مبغوض تھا، اس کلمہ کے پڑھنے کے بعد اﷲتعالیٰ کا محبوب بن جا تاہے پہلے جو شخص جہنم اور دوزخ کا مستحق تھا، اس کلمہ کے پڑھنے کے بعد جنت کا اور اﷲکی رحمتوں کا حقدار بن جاتاہے ، اور اگر میں یہ کہوں تواس میں مبالغہ نہیں ہو گا کہ یہ ایک ایسا کلمہ ہے جو انسان کو ایک ہی لمحہ میں جہنم کے ساتویں طبقے سے نکال کر جنت الفر دوس کے اعلیٰ ترین درجے میں داخل کردیتا ہے اور یہ کوئی شاعر انہ مبالغہ نہیں بلکہ ایک ناقابل انکار واقعہ ہے جس کی بے شمار مثالیں تاریخ اسلام میں ملتی ہیں ۔

 ذراسی تشریح کیلئے ایک واقعہ آپ کے گوش گزار کرنا چاہتاہوں ، غزوہ خیبر کا واقعہ جس میں نبی کریم سرکاردوعالم ﷺصحابہ کرام ؓکی جماعت کیساتھ یہودیوں کے سب سے بڑے قلعہ خیبر پر حملہ آور ہوئے تھے ، اور وہاں کا محاصرہ کیا تھا کیونکہ ان یہودیوں کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کی سازشیں کی جاتی تھیں ۔ نبی کریم سرکار دوعالم ﷺ نے اس قلعے کا محاصرہ کئی روز تک جاری رکھا۔اس محاصرے کے دوران خیبرکے شہر کا ایک چرواہا جس کا نام تاریخ میں اسودراعی ہے ، وہ ایک روز اپنے شہر سے باہر نکلااور اس کے دل میں یہ خیال پیداہواکہ میں ذرایہ معلوم کروں کہ حضرت محمد ﷺ جو اتنا بڑالشکر لے کر اتنافاصلہ طے کر کے اور مشقتیں اٹھا کر اس خیبر پر حملہ آور ہورہے ہیں ان کی بنیادی دعوت کیاہے؟ اوران کا پیغام کیا ہے؟ وہ کیا چاہتے ہیں ؟یہ معلوم کرنے کی غرض سے وہ چرواہا باہر نکلا اور مسلمانوں کے پڑاؤکی طرف بڑھا ، مسلمانوں کے پڑاؤ میں ایک شخص سے ملاقات ہوئی ، اس سے اس نے پوچھا کہ میں یہ جاننا چاہتاہوں کہ تم لو گ خیبرپرحملہ کرنے کیلئے کیوں آئے ہو؟ اور کیا وجہ ہے کہ ہمارے شہرکے رہنے والے تمہارے دشمن ہیں اور تمہاری بنیادی دعوت اور تمہارابنیادی پیغام کیاہے؟ وہ ایک صحابی ؓتھے انہوں نے خود اسلام کے عقائد کی تشریح کرنے کی بجائے اسود چروا ہے سے کہاکہ تم ہمارے سردار یعنی حضرت محمد ﷺ سے جا کر خودمل لو اور انہی سے یہ سوال کرو، وہ جواب میں تمہیں تفصیل کے ساتھ اپنی بنیادی دعوت اور پیغام بتادیں گے ۔

 اسودراعی کیلئے یہ بات انتہائی حیرت انگیز تھی اس لئے کہ وہ کبھی یہ تصوربھی نہیں کر سکتاتھاکہ کسی لشکر کا سپہ سالار ،کسی فوج کا بڑا افسر ، یاکسی مملکت کا فرمانروا، اسے بنفس نفیس اپنے دربار میں حاضر کرے اورباریانی کا شرف بخشے وہ توساری عمر یہ دیکھتا آیا تھا کہ وہ تو ایک چرواہا ہے جس کے ساتھ کوئی بھی معزز انسان ، کوئی بھی دولت مند انسان کوئی بھی صاحبِ منصب انسان بات کرنے کو بھی ذلت اور حقارت سمجھتا ہے ۔اس لئے اسودراعی نے کہا کہ میں تمہارے سردار کے پاس کیسے جا سکتاہوں جبکہ وہ تمہاری مملکت کے فرمانر واہیں تمہاری فوج کے سپہ سالار ہیں اور میں ایک ادنیٰ چرواہا ہوں۔ ان صحابیؓ نے جواب میں کہا کہ ہمارے سردار نبی کریم سرکار دو عالم حضرت محمد مصطفی ﷺ غریبوں کے انتہائی ہمدرد اور غمگسار ہیں ان کی بزم اور محفل میں غریب و امیر کے درمیان، حاکم محکوم کے درمیان اور راعی و رعیت کے درمیان کوئی فرق  کوئی امتیاز نہیں ہوتا۔ وہ چرواہاحیرانی کے عالم میں نبی کریمﷺ کی طرف بڑھا اور آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ڈرتے ڈرتے یہ سوال کیا کہ میں آپﷺ سے یہ پوچھتا ہوں کہ آپ ﷺ کی بنیادی دعوت کیا ہے؟ اور آپﷺ کیوں اس جگہ پر تشریف لائے ہیں؟

نبی کریم ﷺ نے جواب میں مختصراََ اس کو عقیدۂ توحید سمجھایااور یہ بتایا کہ ہم بار بار اس عقیدے کی وضاحت کر چکے ہیں۔ اسو دراعی نے جب اس عقیدۂ توحید کی تشریح سنی تو نبی کریمﷺ سے پوچھا کہ اگر کوئی شخص اس عقیدہ کا قائل ہو جائے اور آپؐ کے ساتھ شامل ہو جائے تو اس کا انجام کیا ہوگا؟ آپ ؐنے فرمایا کہ’’ اگر تم اس عقیدہ کو قبول کر لو اور اسلام کے دائرے میں داخل ہو جائو تو تم ہمارے بھائی ہو گے، ہم تمہیں اپنے سینے سے لگائیں گے اور تمہیں وہی حقوق حاصل ہونگے جو تمام مسلمانوں کو حاصل ہیں۔‘‘

اسودراعی نے بڑی حیرانی کے عالم میں کہا کہ مجھے کیسے وہ حقوق حاصل ہو سکتے ہیں جبکہ میں ایک معمولی درجے کا چرواہا ہوں، میرا رنگ سیاہ ہے  میں سیاہ فام ہوں، میرے جسم سے بدبو اُٹھ رہی ہے، میرے جسم پر میل کچیل جمع ہے، ایسی حالت میں آپ لوگ مجھے کیسے سینے سے لگائیں گے اور مجھے اپنے برابر کا درجہ اور مقام کیسے دیں گے؟ نبی کریمﷺ نے اسے یقین دلایا تو اس نے کہا کہ اگر یہ واقعہ ہے کہ آپ ؐمجھے اپنے برابر حقوق دینے کیلئے تیار ہیں، اور آپؐ کے اس عقیدۂ توحید کے پیغام میں بھی اتنی کشش ہے کہ میں اپنے دل میں اس کی طرف ایک غیر معمولی انسیت محسوس کر رہا ہوں، میں اتنی بات اور پوچھنا چاہتا ہوں کہ میری اس سیاہ فامی اور میرے جسم کے میل کچیل اور بدبو کا کیا علاج ہوگا؟

نبی کریمﷺ نے جواب میں فرمایا کہ’’ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اگر تم اس عقیدۂ توحید کو قبول کر لو تو چاہے دنیا میں تمہارے اس چہرے کی سیاہی کا کوئی علاج نہ ہو سکے لیکن جب آخرت میں تم اٹھائے جائو گے تو تمہارا چہرہ چمک رہا ہوگا اور اللہ تعالیٰ تمہارے اس چہرے کی سیاہی کو نور سے بدل دے گا، اور تمہارے جسم کی بدبو کو خوشبو سے بدل دیگا۔‘‘اس نے کہا کہ اگر یہ بات ہے تو پھر’’ اشہدان لاالہ الا اللہ و اشہدان محمد اًرسول اللہ‘‘  پڑھتا ہوں،یہ کہہ کروہ مسلمان ہو گیا۔ پھر پوچھا کہ اب مجھے بتائیے کہ میرے ذمے کیا فریضہ عائد ہوتا ہے؟ تونبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’ یوں تو اسلام کے بہت سے فرائض ہیں لیکن اس وقت نہ تو نماز کا وقت ہے کہ تمہیں نماز کا حکم دیا جائے، نہ روزے کا مہینہ ہے روزہ رکھوایا جائے، نہ زکوٰۃ تم پر واجب ہے کہ تم سے زکوٰۃ دلوائی جائے، نہ حج کا موسم ہے کہ تم سے حج کرایا جائے، اس وقت تو ایک ہی عبادت اللہ کیلئے انجام دی جا رہی ہے ، وہ یہ ہے کہ خیبر کے میدان میں حق و باطل کا معرکہ برپا ہے اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں دینِ اسلام کے جاں نثار اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں، اس وقت تو تمہارا فریضہ یہ ہے کہ اس جہاد میں شامل ہو جائو۔‘‘ اسود راعی نے کہاکہ اگر میں اس جہاد میں شہید ہو گیا تو میرا انجام کیا ہوگا؟ نبی کریمﷺ نے فرمایا ’’ میں اس بات کی ضمانت دیتا ہوں کہ اگر تم جہاد میں شہید ہو گئے تو اللہ تبارک و تعالیٰ تمہیں سیدھا جنت الفردوس میں پہنچائے گا، تمہارے چہرے کی سیاہی نور سے تبدیل ہو جائے گی، تمہارے جسم سے بدبو کے بجائے خوشبوئیں مہکیں گی، میں اس کی ضمانت دیتا ہوں۔‘‘

یہ سن کی اسودراعیؓ نے بکریوں کو شہر کی طرف ہنکایا اور لشکر اسلام میں شامل ہو گیا، لڑائی کافی دیر تک جاری رہی، جب جنگ کا اختتام ہو گیااور خیبر فتح ہو گیا اور نبی کریمﷺ شہدا کی لاشوں کامعائنہ کرنے کیلئے نکلے تو انہی لاشوں میں سے ایک لاش اسودراعی کی بھی تھی، جب وہ آپ ؐکی خدمت میں لائی گئی تو آپؐ کی مبارک آنکھوں میں آنسو آگئے، اور آپؐ نے فرمایا ’’ یہ عجیب و غریب شخص ہے، یہ ایک ایسا شخص ہے جس نے اللہ کے راستے میں کوئی ایک سجدہ نہیں کیا،یہ وہ شخص ہے جس نے اللہ کے راستے میں کوئی پیسہ خرچ نہیں کیا، یہ وہ شخص ہے جس نے اللہ کے راستے میں کوئی اور عبادت انجام نہیں دی، لیکن میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ یہ شخص سیدھا جنت الفردوس میں پہنچ گیا ہے، اور میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ اس کے چہرے کی سیاہی کو نور سے بدل دیا گیا ہے، اور اس کے جسم کی بدبو اور میل کچیل کو خوشبو سے مہکا دیا گیا ہے۔ ‘‘

یہ جو میں نے عرض کیا تھا کہ یہ کلمہ ’’لا الہ الا اللہ‘‘ ایک لمحہ میں انسان کو جہنم کے ساتویں طبقے سے نکال کر جنت الفردوس کے اعلیٰ ترین درجے میں پہنچا دیتا ہے، یہ کوئی مبالغہ نہیں ہے بلکہ اس واقعے سے اس کا عملی ثبوت فراہم ہوتا ہے کہ صرف ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ نے اس شخص کے انجام میں حیرت انگیز انقلاب برپا کر دیا۔

اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ زبردست انقلاب جو انسان کی زندگی میں بھی اور اس کے انجام میں بھی اس حکم کی بدولت پیدا ہوتا ہے، اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا یہ کلمہ کوئی منتر ہے، یا کوئی طلسم ہے کہ اس کے پڑھ لینے کے بعد انسان جہنم سے اللہ کے عذاب سے اور اللہ کے غضب سے محفوظ ہو جاتا ہے؟واقعہ یہ ہے کہ یہ کوئی منتر نہیں، کوئی طلسم نہیں ، حقیقت یہ ہے کہ کلمہ ’’لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ ایک معاہدہ ہے ، ایک اقرار ہے جو انسان اپنے پروردگار سے کرتا ہے ۔ جب کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ ’’لا الہ اللہ‘‘ تو اسکے معنی یہ ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، میں اللہ کے سوا ہر معبود سے بری ہوتا ہوں، ہر معبود کی معبودیت سے انکار کرتا ہوں اور حضرت محمد ﷺ کو اللہ کا سچا پیغمبر مانتا ہوں، اس معاہدے کا مطلب یہ ہے کہ میں پوری زندگی جو گذاروں گا وہ تمام تر اللہ کی رضا، اسکے احکام اور اسکی خوشنودی کے مطابق گزارنے کی کوشش کرونگا۔یہ معاہدہ کرنے کی بدولت زندگی میں یہ انقلاب برپا ہوتا ہے کہ پہلے وہ اﷲکا مبغوض تھا اب محبوب بن گیا ،پہلے کافر تھا اب مسلمان بن گیا ،پہلے جہنمی تھا اب جنتی بن گیا،یہ سارا انقلاب اس معاہدے کی بدولت پیدا ہوتا ہے،اسی معاہدے کا نام شریعت میں ’’توحید‘‘ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

5ویں برسی:شمس ُ الرحمن فاروقی ، ایک عہد اور روایت کا نام

جدید میلانات کی ترویج و ترقی میں انہوں نے معرکتہ الآرا رول ادا کیا

مرزا ادیب ،عام آدمی کا ڈرامہ نگار

میرزا ادیب کی تخلیقی نثر میں ڈراما نگاری کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے بصری تمثیلوں کے ساتھ ریڈیائی ڈرامے بھی تحریر کیے۔ اردو ڈرامے کی روایت میں ان کے یک بابی ڈرامے اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔