نبی کریم ﷺ کے دل کا چین ،مادرِ حسنینؓ ، سیدہ کونین حضرت فاطمہ زہرؓا
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓسے روایت ہے کہ:’’ اپنے وصال کے وقت رسول اللہ ﷺ نے حضرت فاطمہ زہرا ؓ کو نزدیک بلا کر ان کے کان میں کچھ کہا جس پر وہ رونے لگیں۔اس کے بعد آپ ؐنے پھر سرگوشی کی تو آپ ؓمسکرانے لگیں۔ میں نے سبب پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ پہلے میرے بابا ؐنے اپنے وصال کی خبر دی تو میں رونے لگی۔ اس کے بعد انہوں نے بتایا کہ سب سے پہلے میں اُن سے جاملوں گی تو میں مسکرانے لگی۔‘‘(بخاری ، مسلم ، احمد بن حنبل)
مستدرک علی الصحیحین میں امام حاکم نیشاپوری نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے وقت ِ وصال حضرت فاطمہؓ سے فرمایا :’’بیٹی! کیا تم خو ش نہیں کہ تم امت اسلام اور تمام عالم کی عورتوں کی سردارہو ۔‘‘بحار الانوار میں روایت ہے کہ پیغمبر اکرم ﷺ کے وصال کے بعد حضرت بلالؓنے اذان دینی بند کردی تھی ایک دن حضرت فاطمہ زہرا ؓنے انہیں پیغام بھیجا کہ میری خواہش ہے کہ ’’ ایک دفعہ اپنے باباکے مؤذن کی اذان سنوں‘‘ حضرت بلالؓ نے حضرت فاطمہ ؓکے حکم پر اذان دینی شروع کی اور اللہ اکبر کہا، حضرت فاطمہؓ رونے پر قابو نہ پاسکیں اور جب حضرت بلالؓ نے اشہد ان محمداً رسول اللہؐ کہا تو آپؓ غش کرگئیں۔(بحار الانوار) پیغمبر اسلام ﷺ کے وصال کے بعد کسی نے آپؓ کو ہنستے نہیں دیکھا ،مؤرخین بیان کرتے ہیں کہ اسلام میں سب سے پہلی خاتون جنکی میت تابوت میں اٹھی وہ حضرت فاطمہ زہرا ؓ تھیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت فاطمہ زہراؓپردے اور حجاب کو کس قدر اہمیت دیتی تھیں ۔ نبی کریم ﷺکی پیش گوئی کے مطابق آپ ؓاپنے پیارے بابا ؐکے وصال کے بعد محض 75یا 95دن یا بعض روایات کے مطابق 6ماہ زندہ رہیں ۔
تمام مفسرین محققین اور مؤرخین اس امرپر متفق ہیں کہ جس قدر خاتونِ جنتؓ کی شان نبی کریم ؐ کی زبان مبارک سے بیان کی گئی کوئی دوسری ہستی اس کے مثل نہیں ۔ حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ میں ایک دن نبی کریم ﷺ کے پاس اپنی اور والدہ کی مغفرت کی دعا کروانے کی خواہش لے کر حاضر ہوا، پیغمبر اکرمﷺ نے مجھے دیکھتے ہی فرمایا’’ اللہ تمہاری اور تمہاری والدہ کی مغفرت کرے، ایک ایسا فرشتہ جو آج کی رات سے پہلے کبھی زمین پر نہیں اُترا، آج اس نے اپنے پروردگار سے اجازت مانگی کہ مجھے سلام کرنے حاضر ہو اور یہ خوشخبری دے کہ فاطمہ زہرؓاجنتی عورتوں کی سردار اور حسنؓ و حسینؓ جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔‘‘ (جامع ترمذی ۔ جلد دوم ، مسند احمد بن حنبل ، طبرانی ، مستدرک )رسولؐ خدا حضرت فاطمہ زہراؓسے بے پناہ محبت کرتے ۔حضرت مسور بن مخرمہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا ’’بے شک فاطمہ میری شاخ ثمر بار ہے جس چیز سے اُسے خوشی ہوتی ہے اس چیز سے مجھے خوشی ہوتی ہے اورجس چیز سے اُسے تکلیف پہنچتی ہے اس چیز سے مجھے تکلیف پہنچتی ہے‘‘۔ (مسند احمد، مستدرک ) حضرت فاطمہ زہراؓہوبہو رسول خداؐ کی تصویر تھیں ۔ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓسے روایت ہے’’میں نے عادات، چال چلن خصلتوں اور اٹھنے بیٹھنے میں حضرت فاطمہؓ کو آپﷺ سے مشابہ کسی کو نہیں دیکھا۔ جب حضرت فاطمہؓ آتیں تو آپﷺ کھڑے ہوجاتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے۔‘‘ (جامع ترمذی:جلد دوم متفق علیہ)
نجران کے عیسائی جب دلیل سے اسلام کی عظمت کو نہ مانے تو اس وقت قران کی یہ آیت نازل ہوئی کہ ان سے مباہلہ کرو’’اے رسول (ﷺ) اتنے سچے دلائل کے بعد بھی یہ نہیں مانتے تو ان سے کہو کہ پھر جاؤ ہم اپنے بیٹوں کو لائیں تم اپنے بیٹوں کو لاؤ، ہم اپنی عورتوں کو لائیں تم اپنی عورتوں کولاؤ، ہم اپنے نفسوں کو لائیں تم اپنے نفسوں کو اور اللہ کی طرف رجوع کریں اور جھوٹوں کیلئے اللہ کی لعنت یعنی عذاب کی بد دعا کریں‘‘۔عیسائی علماء پہلے تو اس کیلئے تیار ہوگئے مگر جب رسول اللہﷺ اس شان سے تشریف لے گئے کہ حضرت حسنؓ و حسینؓ جیسے بیٹے حضرت فاطمہ زہرؓا جیسی خاتون او ر حضرت علیؓ بطورنفس انکے ساتھ تھے تو عیسائی مباہلہ سے دستبردار ہوگئے ۔
ام المومنین حضرت عائشہ ؓ وحضرت ابو ایوب انصاری ؓ سے روایت ہے کہ روز قیامت عرش کی گہرائیوں سے ایک ندا دینے والا آواز دے گا۔ اے محشر والو ! اپنے سروں کو جھکا لو اور اپنی نگاہیں نیچی کرلو تاکہ فاطمہؓ بنت مصطفی ؐ گزر جائیں ۔پس فاطمہ زہراؓ گزر جائیں گی۔‘‘(فضائل الصحابہ احمد بن حنبل ، کنزالعمال ،محب طبری ،تذکرۃ الخواص ابن جوزی ) ۔
خواتین عالم اگر اپنے حقوق اور حقیقی آزادی کی خواہاں ہیں تو انہیں سیرت فاطمیہؓ کو اپنا ناہو گا اوراپنے حقوق حاصل کرنے کی جدوجہدکرنا ہوگی کیونکہ خاتونِ جنتؓ کا کردار اور افکار ہی دنیا و آخرت میں نجات و سرخروئی کی ضمانت ہیں ۔