تقویٰ
حضر ت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم سے پوچھا گیا ، لوگوں میں سب سے زیادہ مکرم کون ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا’’ جو ان میں سب سے زیادہ متقی ہے۔‘‘حضرت ابو ذر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:’’ تُو کسی گورے یاکالے سے بہتر نہیں،البتہ تیری فضیلت تقویٰ کی وجہ سے ہے ۔‘‘
تقویٰ کے معنی :حق تعالیٰ نے اپنی تمام مخلوق میں انسان کو مشرف اور مکرم بنایا،لیکن اسی کے ساتھ اس کی فطرت میں نیکی و بدی،بھلائی و برائی،تابعداری ،سرکشی اور خوبی و خامی دونوں ہی قسم کی صلاحیتیں یکساں رکھ دی ہیں:باری تعالیٰ کا فرمان ہے ، ترجمہ ’’پھر اس کے دل میں وہ بات بھی ڈال دی جو اس کے لیے بدکاری کی ہے اور وہ بھی جو اس کے لیے پرہیزگاری کی ہے ۔‘‘(الشمس)یہ اسی کا ثمرہ اور نتیجہ ہے کہ کسی بھی انسان سے نیکی اور بدی دونوں ہی وجود میں آتی ہیں اور آسکتی ہیں اس کے باوجود اگر کوئی بدی ، بد اخلاقی و سرکشی کے تقاضوں کو دباکر اپنی زندگی اور اس کے قیمتی لمحات کو حسنات وطاعات،نیکی و بھلائی، تابعداری اور فرمانبرداری سے مزین اور آراستہ کر لے تویہ اس کے کامیاب اورخالق و مخلوق کے نزدیک اشرف و اکرم ہونے کی سب سے بڑی نشانی ہے ، اوریہی تقویٰ و پرہیزگاری ہے ۔ فرشتے معصوم تو ہیں متقی نہیں ہیں کیوں کہ ان میں گناہ کی صلاحیت ہی نہیں،اور تقویٰ کہتے ہیں، نفس کو برائیوں سے روکنا۔ارشادِ ربانی ہے ،ترجمہ ’’ اورجوشخص نفس کو غلط خواہش سے روکے وہ ہے متقی۔‘‘(النازعات) نفس کی غذا گناہ ہے تو روح کی غذا تقویٰ، نفس کو گناہ سے روکنے ہی کا نام تقویٰ ہے لہٰذا اب جو بھی بندہ تقویٰ حاصل کرنا چاہے اسے چاہیے کہ فجور و گناہ کے تقاضے پر عمل نہ کرے ،تو وہ خود بخود متقی بن جائے گا۔ پھر جس کی زندگی میں جتنا زیادہ تقویٰ ہوگا وہ اتنا ہی اکرم و افضل ہوگا،ارشادِ ربانی ہے :ترجمہ ’’ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے ۔‘‘(الحجرات)
تقویٰ کی اہمیت : ایمان کے بعد انسانی زندگی میں تقویٰ اور پرہیزگاری کی بہت زیادہ اہمیت ہے ، اسی لیے قرآن و حدیث میں جا بجا ’’تقویٰ ‘‘کا ذکر آیا ہے ، کہیں اس کی افادیت کا بیان ہے تو کہیں اس کی ضرورت کا اعلان ہے ،ایک جگہ اس کو اپنانے کی تعلیم ہے تو دوسری جگہ اسے برتنے کی تلقین،غرض یہ کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے مختلف پیرایوں میں،مختلف مقامات پر تقویٰ کی ترغیب دی ہے ،جس کی بنیادی وجہ ایک یہ ہے کہ مقصد زندگی تو اللہ کی بندگی ہے ۔ قرآنِ کریم کہتا ہے : ترجمہ ’’ اور میں نے جنات و انسانوں کو اس کے سوا کسی اور کام کے لیے پیدانہیں کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔‘‘ِ(الذاریات) مقصد بندگی خود قرآن کے اعلان وحکم کے مطابق تقویٰ اور پرہیزگاری ہے ۔ چنانچہ فرمایا :ترجمہ’’ اے لوگو! اپنے اس پروردگار کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور ان لوگوں کو پیداکیا جو تم سے پہلے گزرے ہیں،تاکہ تم متقی بن جاؤ۔‘‘(البقرۃ )پس ثابت ہوا کہ تمام عبادات و اعمال کی اصل جڑ تقویٰ ہے ، حتیٰ کہ ایک حدیث میں تو یہاں تک ارشاد ہے کہ’’ اگر تم نماز پڑھتے پڑھتے کمانوں کی طرح ٹیڑھے ہو جاؤ،اور روزہ رکھتے رکھتے سوکھ کر کانٹا ہو جاؤ، پھر بھی نفع تو تقویٰ ہی سے ہوگا۔‘‘ (تنبیہ الغافلین) مشکوٰۃ میں ترمذی کی روایت منقول ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص کی عبادت و محنت کاتذکرہ ہوا،او ر دوسرے کے تقویٰ کا،تو آپ ﷺنے فرمایا:’’تقویٰ کے برابر کوئی عبادت و عمل نہیں۔‘‘(رواہ الترمذی)خود قرآنِ کریم میں بھی ارشاد ہے : ترجمہ’’بلکہ اصل نیکی کی راہ یہ ہے کہ بندہ تقویٰ کی راہ اختیار کرے ۔‘‘(البقرہ)
تقویٰ کی حقیقت :اب رہا یہ سوال یہ کہ تقویٰ ہے کیا چیز؟ تو یاد رکھو !مختصر لفظوں میں تقویٰ کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف اس کی عظمت کی وجہ سے پیدا ہوجائے اور مواخذہ کی فکر پیدا ہو جائے ،جس کے اثر سے زندگی میں دینی بیداری پیدا ہوجائے تاکہ اللہ تعالیٰ سے غافل کرنے والی ہر چیز سے آدمی بچ سکے ۔ ویسے تقویٰ کی تعریفات و توجیہات میں علمائِ امت نے مختلف تعبیرات استعمال فرمائی ہیں اور کتاب و سنت سے مختلف انداز میں اس کی وضاحت کی ہے مگر ا ن میں حضراتِ محققین نے جسے سب سے زیادہ راجح اور پسندیدہ قرار دیا ہے وہ ہے حضرت ابی ابن کعب ؓ کی تعریف وتحقیق، جب آپؓ سے حضرت فاروق اعظم ؓنے تقویٰ کی حقیقت معلوم کی، تو آپؓ نے آسان اور بہترین مثال سے تقویٰ کی حقیقت سمجھائی اور کہا: ’’کیا کبھی کسی خار دار راستہ سے آپؓ کا گزر ہوا ؟ حضرت عمر فاروقؓ نے جواب دیا:’’ جی ہاں ! متعدد بار گزرا ہوں۔‘‘حضرت ابی ابن کعب ؓ نے سوال کیا،’’اچھا !تو اس وقت آپؓ نے کیا طرزِ عمل اختیار کیا تھا ؟‘‘ جواباً حضرت عمر ؓ نے کہا: ’’اس موقع پر خود کو اور اپنے کپڑوں کو نہایت سمیٹ کر بڑی احتیاط سے چلا ہوں کہ کہیں دامن کانٹوں سے الجھ نہ جائے۔‘‘ تب حضرت ابی ابن کعب ؓ نے عرض کیا:’’ یہی تو تقویٰ ہے۔‘‘ (ابن کثیر )یہ دنیا ایک خار دار وادی ہے ، اس خارستان میں ہر طرف گناہوں کے کانٹے موجود ہیں، اس لیے دنیا میں اس طرح زندگی بسر کرنا کہ ہمارا ایمانی دامن گناہوں کے کانٹوں سے الجھنے نہ پائے اسی کا نام تقویٰ ہے ، اور جو اس صفت سے متصف ہو جائے وہ متقی ہے۔ مولانا رومیؒبیان کرتے ہیں:ترجمہ ’’یعنی جنت کو مشکلات اور حرام خواہشات کی باڑ اور پردے کے ساتھ گھیر لیاگیاہے ، او ردوزخ کو شبہات وخواہشات کی باڑ سے ، اب جو شہوات و خواہشات کی باڑ اور پردے سے بچ کر نکل گیاوہ ہے متقی، او رجو شہوات و خواہشات میں الجھ گیاوہ پھنس گیا۔‘‘
تقویٰ آسان ہے :عام طور پر لوگوں کا خیال یہ ہے کہ تقویٰ محال ہے اور متقی ہونا مشکل ہے ،یہ سب کے بس کی بات نہیں،حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ تقویٰ اختیار کرنا بہت آسان کام ہے اور متقی بننا ایک اختیاری عمل ہے ،ورنہ تو حق تعالیٰ اتنی کثرت سے اس کا حکم ہی کیوں دیتے ؟ جب کہ اہل ایمان کے نزدیک یہ بات مسلم ہے کہ ربِ کریم نے انسانوں کو کوئی ایسا حکم ہرگز نہیں دیا جو ان کی طاقت اور استطاعت سے باہر ہو، اب جب تقویٰ کا بار بار حکم دیا،اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی فرمادیا کہ، ترجمہ ’’یعنی جتنا تقویٰ اختیار کر سکتے ہو کرو ! ۔‘‘(التغابن)تو اس کا صاف مطلب یہ نکلاکہ تقویٰ آسان اور اختیاری عمل ہے،کوئی دشوار نہیں ہے ، بس ذراسا پختہ عزم کر کے ہمت سے کام لیں، گناہوں سے بچنے کی کوشش کریں تو قسم بخدا! تقویٰ اختیار کرنا آسان ہے ، اور ہر مسلمان کم از کم درجہ کا متقی تو ضرور ہی بن سکتا ہے ۔
تقویٰ کے تین درجات :آج کل ہمارے ذہنوں میں متقی کا ایک خاص مفہوم بیٹھ گیاہے ، جب ہم لفظ متقی سنتے ہیں تو وہی مفہوم ذہن میں آتاہے ، یعنی دودھ کادھلا ہوا، اعلیٰ درجہ کاپرہیزگار، حالاں کہ بات یہ ہے کہ ہر سچاپکا مسلمان جو منافق نہیں وہ متقی ہے ، کیوں کہ علمائِ امت کی تصریح کے مطابق تقویٰ کے تین درجات ہیں:ادنیٰ، اوسط، اعلیٰ ۔تقویٰ کا پہلا درجہ تو یہ ہے کہ بندہ کفر اور شرک سے بچ جائے ،یہ سب سے کم اور ادنیٰ درجہ ہے جو الحمدللہ! ہر مسلمان کو حاصل ہے ،اور اگر زیادہ نہیں تو بندہ کم ازکم اتنا کر لے کہ کفر وشرک سے بچے ، تب بھی وہ آخرت کے دائمی عذاب سے محفوظ رہے گا،اسی لیے تقویٰ کا یہ درجہ فرض ولازم قرار دیاگیا۔تقویٰ کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ ایک انسان جیسے کفرو شرک سے بچتا ہے ،تمام صغیرہ وکبیرہ گناہوں سے بھی بچ جائے ،یہ درمیانی درجہ کا تقویٰ ہے جوہر مسلمان پرواجب ہے۔ تقویٰ کا تیسرا سب سے اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ انسان اپنے اللہ اور انجام کے خوف سے جملہ معاصی اور محرمات سے توبچتا ہی ہو اسی کے ساتھ مکروہات اورمشتبہات سے بھی بچ جائے اور اپنے باطن کو غیر اللہ میں مشغول نہ کرے یہی حقیقی تقویٰ ہے۔حق تعالیٰ ہمیں اپنے فضل سے تقویٰ کا اعلیٰ درجہ عطا فرمائے ۔(آمین