شعبان المعظم کے فضائل

تحریر : مفتی محمد وقاص رفیع


ماہِ شعبان اسلامی تقویم کے اعتبار سے آٹھواں مہینہ کہلاتا ہے۔’’شعبان‘‘ عربی میں پھیلانے اور شاخ در شاخ ہونے کو کہتے ہیں۔ چونکہ اِس مہینے میں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نفلی روزے رکھنے اور نیک عمل کرنے والے کو شاخ در شاخ برابر بڑھنے والی نیکی اور خیر و بھلائی کا موقع میسر آتا ہے اِس لئے اِس مہینے کو ’’شعبان‘‘ کہا جاتا ہے۔بعض علماء بیان کرتے ہیں کہ ماہِ رجب کے احترام میں عرب لوگ لڑائی جھگڑوں وغیرہ سے بچ کر گھروں میں رہتے تھے اور شعبان کے مہینے میں شاخوں کی طرح منتشر و متفرق ہوجاتے تھے اِس لئے اِس مہینے کو ’’شعبان‘‘ کہا جاتا ہے۔ (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری: 8/184)

اِس ماہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بڑی کثرت سے نفلی روزے رکھتے اور اِس کے چاند اور تاریخوں کے یاد رکھنے کا بہت زیادہ اہتمام فرماتے ۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ شعبان کے چاند (اور اس کی تاریخوں) کی حفاظت کا جتنا اہتمام فرماتے اتنا کسی اور مہینے کے چاند اور تاریخوں کا اہتمام نہیں فرماتے تھے۔‘‘(سنن دار قطنی) حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ جب رجب کا مہینہ شروع ہوتا تو نبی کریمؐ یہ دُعا کرتے: ’’اے اللہ! رجب اور شعبان کے مہینوں میں ہمارے لئے برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان تک پہنچا!۔‘‘ (مسند احمد) 

حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا  ’’رمضان (کے صحیح حساب) کی غرض سے شعبان کے چاند ( اور اس کی تاریخوں کے حساب) کو خوب اچھی طرح محفوظ رکھا کرو!۔‘‘(مستدرک حاکم) حضرت رافع بن خدیج  ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: ’’تم رمضان کیلئے شعبان کے دنوں کو صحیح شمار کرکے رکھا کرو! اور رمضان کا مہینہ شروع ہونے سے پہلے روزہ نہ رکھا کرو! پس جب تم چاند دیکھ لوتو روزہ رکھ لیاکرو! اور جب (اس کے بعد اگلا) چاند دیکھ لیا کروتو روزے رکھنے چھوڑ دیا کرو! اور اگر تم پر موسم ابر آلود ہوجائے ( اور اُس کی وجہ سے تم چاند نہ دیکھ سکو) تو تم30 دن پورے کرلیا کرو! اور اسکے بعد روزے رکھنا چھوڑ دیا کرو! کیونکہ مہینہ اِس طرح اور اِس طرح اور اِس طرح ہوتا ہے۔‘‘ (سنن دار قطنی) یعنی کبھی29کا ہوتا ہے اور کبھی 30 کا، اِس لئے اگر چاند 29کو دکھائی دے تو مہینہ بھی 29 ہی کا شمار ہوگا اور اگر چاند 30 کو دکھائی دے تو مہینہ بھی 30 کا شمار ہوگا۔

کسی بھی مہینے کی عظمت و افضلیت کے پرکھنے کا معیار اُس میں کی جانے والی عبادات پر موقوف ہے۔ گوکہ اکثر و بیشتراسلامی مہینے اجتماعی طور پر اپنے اندر بے شمارقسم کے فضائل اور خوبیاں رکھتے ہیں لیکن انفرادی طور پر ہرمہینے میں بعض ایسے مخصوص فضائل و برکات اور محاسن و انوارات پائے جاتے ہیں کہ کوئی دوسرا اسلامی مہینہ اُن کی ہم سری نہیں کرسکتا۔ چنانچہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺکبھی نفلی) روزے اتنی کثرت سے رکھتے کہ ہم کہتے کہ اب آپ ﷺروزے رکھنا ختم نہیں کریں گے اور (کبھی نفلی) روزے نہ رکھنے پر آتے تو ہم کہتے کہ اب آپ ﷺ (نفلی) روزہ نہیں رکھیں گے۔ میں نے رسول اللہﷺ کو رمضان کے علاوہ کسی اور مہینے کے مکمل روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو شعبان کے علاوہ اور کسی مہینے میں کثرت سے (نفلی) روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔ (صحیح بخاری)ایک اور روایت میں آپؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو (رمضان کے علاوہ) کسی اور مہینہ میں شعبان کے مہینہ سے زیادہ روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔ آپ ﷺکچھ دنوں کے علاوہ پورے ہی (ماہِ شعبان کے) مہینے کے روزے رکھتے۔‘‘ (جامع ترمذی)

ایک اور روایت میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺکو (نفلی) روزے رکھنے کے اعتبار سے (اور مہینوں کی بہ نسبت) شعبان کا مہینہ (سب سے) زیادہ پسند تھا، بلکہ آپﷺشعبان کے روزوں کو رمضان کے مہینے تک رکھتے ۔ (سنن نسائی)

حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے کہ نبی پاک ﷺ سے پوچھا گیا کہ رمضان کے بعد افضل روزہ کون سا ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا ’’رمضان کی تعظیم و احترام کی وجہ سے شعبان کا روزہ سب سے افضل ہے۔‘‘پوچھا گیا کہ افضل صدقہ کون سا ہے ؟ تو آپ ﷺنے فرمایا  ’’رمضان میں صدقہ کرنا سب سے افضل ہے۔‘‘ (جامع ترمذی) اِس کیساتھ ساتھ یہ بھی ملحوظ رہے کہ بعض روایات میں 15شعبان کے بعد اور   شعبان کے آخر یعنی رمضان کے شروع ہونے سے ایک یا دو دن پہلے روزہ رکھنے کی ممانعت آئی ہے۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ سرکارِ دوعالم ﷺنے ارشاد فرمایا ’’جب شعبان کا آدھا مہینہ باقی رہ جائے تو تم روزہ نہ رکھا کرو!۔‘‘ (ترمذی) اسی طرح شعبان کے آخر یعنی رمضان کے شروع ہونے سے ایک یا دو دن پہلے روزہ رکھنے کی بعض احادیث میں ممانعت آئی ہے۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭