ماہ رمضان کی آمد

تحریر : مفتی محمد اویس اسماعیل


ترجمہ ’’رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے، جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہے۔‘‘ (البقرہ: 185)’’ لوگو تم پر ایک عظیم مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے جو بابرکت مہینہ ہے جس میں ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔‘‘حدیث ِ نبویؐ

ماہِ رمضان المبارک کی آمدقریب ہے۔یہ مہینہ ماہِ غفران، ماہِ رحمت اور ماہِ نجات کے نام سے یاد کیا جاتاہے۔اس بھاگتی دوڑتی زندگی میں اس مہینے کی آمد ایسے ہی ہے جیسے کوئی مسافرصحرا کے سفر پر نکلا ہو اور رستہ بھول جائے،ایسے میں کڑکتی دھوپ ہو، تپتی ریت ہو، سورج سر پر کھڑا ہو کوئی سایہ اور سائبان نہ ہوبس سفر ہے اور چلتے چلے جانا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ اسے ریت کے طوفان کا بھی سامنا کرنا پڑے۔سفر کی سختیوں کا اندازہ کریں کہ صحرا کے اس مسافر پر کیا بیت رہی ہوگی!ان مصیبتوں کی وجہ سے اسکی ہمت جواب دینے لگے ،اعضاء مضمحل ہوجائیں ، وہ مسافر تھکن سے دوچار ہے، ناامیدی اور مایوسی اسے گھیرے ہوئے ہے ایسے میں اچانک اسے ایک نخلستان دکھائی دے، درختوں کے سائے، پانی ،آرام و سکون کاسوچ کر ہی اس کے قدم تیز اور تیز تر ہوجاتے ہیں۔ اس مسافر کی خوشی کا اندازہ کیجیے روح تک اتر جانے والی خوشی محسوس ہوگی جیسے پورا جہاں مل گیا ہو۔اس کی رفتار تیز ہوگی اور جذبات تروتازہ ہوجائیں گے۔ایسے ہی ایک مسلمان کی تیز رفتار زندگی کہ جس میں وہ گناہ، رب سے دوری، عبادتوں کی کمی کی وجہ سے مایوسی اور ناامیدی کا شکار ہو جاتا ہے ماہِ رمضان کی آمد ہوتی ہے۔ پورا سال ہم نشیب و فراز سے گزرتے ہیں ، پریشانیوں اور دکھوں سے بھی دوچار ہوتے ہیں جسمانی تکالیف اور روح کی آزمائشیں بھی آتی ہیں ، اور ایسے میں ہم پر ایک عظیم، بابرکت مہینہ سایۂ فگن ہورہا ہے۔جی ہاں وہ مہینہ آیا نہیں بلکہ سایۂ فگن ہورہا ہے۔

حضرت سلمان فارسی ؓروایت کرتے ہیں کہ شعبان کے آخری دنوں میں نبی کریمﷺ نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا’’ لوگوں تم پر ایک عظیم مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے۔جو بابرکت مہینہ ہے جس میں ایک رات ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔‘‘(صحیح ابن خزیمہ، 1887) یہ مہینہ ہمیں اپنے سائے میں لے گا،رب کی رحمتیں ہونگی،اس کی عنایتیں ہونگی،برکتیں ہوں گی۔ موجودہ حالات میںہمارے ظرف کا اصل امتحان یہ ہے کہ ہم اپنے دامن کو کتنا پھیلاتے ہیں،کتنی التجائیں،آرزوئیں اور تمنائیں رب کے حضور پیش کرتے ہیں۔ اسی حدیث میں آگے چل کر نبی اکرمﷺ نے اس مہینے کو ہمدردی اور غم گساری کا مہینہ قرار دیا اور اس کے پہلے عشرے کو رحمت کا عشرہ، دوسرے کو مغفرت کا عشرہ اور تیسرے کو جہنم سے آزادی کاعشرہ قرار دیا۔رب کی رحمت و عنایت ہوگی تو گناہوں کی مغفرت بھی ہوگی اور گناہوں کی مغفرت انسان کیلئے جہنم سے آزادی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔

یقینا پورا سال ربِ رحمان اپنے بندوں سے رحم و کرم کا معاملہ کرتے ہیں ،ان کی مغفرت کے اسباب انہیں مہیا کرتے ہیں لیکن رمضان المبارک میں رب کریم کی طرف سے ایک خصوصی پیکج عنایت ہوتا ہے۔ جو جتنا چاہے اپنے ظرف کے مطابق اس پیکج سے فائدہ اٹھا لے۔ سوال یہ ہے کہ ہم کس طرح رحمت، مغفرت اور نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ حصولِ رحمت،مغفرت اور نجات کے قرآن و حدیث میں طریقے بتائے گئے ہیں،جن پر عمل کرکے ہم اپنے آپ کو رحمت الہٰی کا مستحق بنا  سکتے ہیں۔ ان میں سے چند طریقے یہ ہیں:

1:اللہ پر ایمان لانے اور اس کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے سے رحمت الہٰی ملتی ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:ترجمہ ’’پس جو لوگ اللہ کی بات مان لیں گے اور اسکی پناہ ڈھونڈیں گے ان کو اللہ اپنی رحمت اور اپنے فضل و کرم کے دامن میں لے لے گا اور اپنی طرف آنے کا سیدھا راستہ ان کو دکھا دے گا۔ (النساء : 175)

2:اللہ اور اس کے رسول ﷺکی اطاعت اور اعمالِ صالح سے رحمت الٰہی کا مستحق ہونا۔

مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں ،بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں،نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہو کر رہے گی،یقینا اللہ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے۔ (التوبۃ :71)

3:استغفار کے ذریعے  رحمت کے مستحق بن سکتے ہیں۔

تم اللہ سے مغفرت طلب کیوں نہیں کرتے ؟ شاید کہ تم پر رحم فرمایا جائے۔ (النمل:46)

4:خاموشی کے ساتھ قرآن پاک سننے سے رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔

’’جب قرآن مجید تمہارے سامنے پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سنو اور خاموش رہو،شاید کہ تم پر بھی رحمت ہوجائے۔‘‘ (الاعراف:204)

 اسی طرح  ہم مغفرت حاصل کرسکتے ہیں 

1: ماہ رمضان کے روزوں  کے ذریعے 

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’جس شخص نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے تو اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہوں کو معاف کردے گا جو پہلے ہو چکے ہیں۔‘‘(مسلم، 760)

2: تلاوت قرآن مجید کے ذریعے مغفرت کا حصول ہوتا ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’بلاشبہ قرآن ِ مجید کی ایک سورت ہے جس کی 30 آیات ہیں،(قیامت کے دن) وہ آدمی کی سفارش کرے گی یہاں تک کہ اس کی مغفرت ہوجائے اور وہ سورت ہے۔تبارک الذی بیدہ الملک ۔‘‘ ( سنن ابو دائود،1400)

3: راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانے سے مغفرت حاصل کی جاسکتی ہے۔

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’اس دوران کہ ایک شخص راستے سے گزر رہا تھا کہ اس نے ایک کانٹا دیکھا اور اسے راستے سے ہٹا دیا پس اس فعل پر اللہ نے اس کی قدر دانی کی اور اسے بخش دیا۔‘‘(بخاری ،24,72) 

 اگر ہم آتش جہنم سے اپنے آپ کو بچانا چاہتے ہیں اور اس سے آزادی کا پروانہ چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ان طریقوں کو اختیار کرنا پڑے گا جو قرآن و حدیث میں مذکور ہیں۔

پس پہلے عشرے میں متقین کیلئے رحمت اور رضوانِ الہٰی کا سیلاب بہتا ہے جس میں سے ہر کوئی اپنے حصے کے مطابق فائدہ اٹھاتا ہے۔ اس عشرے میں نیکو کاروں کے ساتھ فضل و احسان کا معاملہ کیا جاتا ہے۔جہاں تک دوسرے عشرے کا تعلق ہے وہ مغفرت کا عشرہ ہے جس میں روزے داروں کی مغفرت کی جاتی ہے۔ صغیرہ گناہ مغفرت کے سیلِ رواں میں بہہ جاتے ہیں۔ جیسا کہ رب رحمان نے فرمایا: ترجمہ ’’حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب لوگوں کی زیادتیوں کے باوجود ان کے ساتھ چشم پوشی سے کام لیتا ہے۔‘‘ (الرعد :6)

 اور رہا آخری عشرہ تو یہ جہنم سے آزادی کا عشرہ ہے۔ یہ عشرہ نجات ہے۔ 

بس اس رمضان المبارک میں یہ ہم پر منحصر ہے کہ کس طرح ہم اپنی مغفرت کروا کر نارِ جہنم سے نجات کا پروانہ حاصل کرتے ہیں اور رحمت الہٰی کے اپنے آپ کو مستحق قرار پاتے ہیں۔یہ گنتی کے چند دن ہیں جو گزر جائیں گے۔ کامیاب ہوا وہ جس نے رمضان المبارک کا مہینہ پایا اور اپنی مغفرت کروالی۔

 اور ناکام ہوا وہ جس نے رمضان المبارک کا مہینہ پایا اور اپنی بخشش نہ کروائی۔ جو شخص اس مہینے میں بھی خیر سے محروم رہا وہ ہر قسم کی خیر سے محروم ہوگیااور اس کے خیر سے محروم وہی رہتا ہے جو ہے ہی بد نصیب۔

 اللہ تعالیٰ ہم سب کو باعمل مسلمان بنائے اور اخلاص کے ساتھ عبادت کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ 

اے ہمارے رب ہمارے دلوں کو ہدایت کے بعد گمراہی کا شکار نہ کرنا۔ آمین 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

آئینی ترمیم،کھیل آخری مراحل میں

کھیل آخری اوور میں داخل ہو چکا ہے۔ حکومت 18سے 25اکتوبر کے درمیان آئینی ترامیم کرنے کی ٹھان چکی ہے، جن میں سب سے بڑی ترمیم آئینی عدالت کا قیام ہے۔ آئینی عدالت کے قیام کی وجہ سپریم کورٹ آف پاکستان کو حاصل بہت سے اختیارات ہیں جو حکومت 25اکتوبر کے بعد سپریم کورٹ کے پاس نہیں رکھنا چاہتی۔ وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کے بقول آئندہ چند ہفتوں میں آٹھ فروری کے انتخابات کا آڈٹ ہونے کا خدشہ ہے جس کے بعد معاملات انتہائی سنگین ہو سکتے ہیں۔

پی ٹی آئی احتجاج پر مصر کیوں؟

پاکستان میں اگلے دس روز کو ملک میں سرمایہ کاری اور معاشی مستقبل کے حوالے سے اہم قرار دیا جارہا ہے۔ سعودی عرب کے وزیر سرمایہ کاری کی قیادت میں سرمایہ کاروں کا ایک وفد پاکستان پہنچا ہے جس کے بارے کہا جا رہا ہے کہ یہ دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری میں پیش رفت کا باعث ہوگا جبکہ چینی وزیراعظم 14اکتوبر کو اسلام آباد پہنچ رہے ہیں جہاں وہ دو طرفہ تعلقات اور معاشی حوالے سے اہم اقدامات کے بعد15 اکتوبر کو اسلام آباد میں ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔

سندھ پر منڈلاتے خطرات اور حکومت

صوبہ سندھ کو آج کل کئی مسائل کا سامنا ہے۔مثال کے طور پر دہشت گردی، ڈاکوؤں کی یلغار، مختلف اقسام کے شدید بخار اور پولیو کیسز میں اضافہ۔ سب سے پہلے کراچی میں دہشت گردی کے حالیہ واقعے کا ذکر کر لیتے ہیں جس کا ہدف چینی مہمان تھے۔ ایئرپورٹ کے قریب خودکش حملہ آور نے اپنی گاڑی کو دھماکے سے اڑا دیا جس میں دو چینی انجینئر ہلاک ہوگئے۔

وزیراعلیٰ کی گمشدگی،سوالات اور شبہات

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور جس طرح ڈی چوک پہنچے اور پھر وہاں سے اچانک خیبرپختونخوا ہاؤس میں نمودار ہوئے اس پر کئی اطراف سے انگلیاں اُٹھ رہی تھیں لیکن ان کی وہاں سے پُر اسرار گمشدگی اور اچانک خیبرپختونخوا اسمبلی پشاور میں نمودار ہونے سے یہ صورتحال مزید مشکوک ہو گئی۔

پیپلزپارٹی بلوچستان کے اختلافات

بلوچستان کی سیاسی صورتحال ہمیشہ سے پیچیدہ اور حساس رہی ہے، جہاں مختلف جماعتوں اور حکومتی اداروں کی پالیسیاں اکثر ایک دوسرے سے متصادم ہوتی ہیں۔ پیپلز پارٹی بلو چستان میں حالیہ اختلافات بلوچستان کی سیاست اور مرکزی حکومت کے ساتھ تعلقات کے تناظر میں اہم پہلو کو اجاگر کرتے ہیں۔

وزیراعظم کے انتخاب پر اعتراض

آزاد جموں و کشمیر میں غیر ضروری سرکاری اخراجات میں ہر گزرتے دن کے ساتھ کمی آرہی ہے ۔ حکومت کی بچت پالیسی پر اپوزیشن کے ساتھ ساتھ اتحادی بھی نالاں ہیں۔دوسری جانب وزیر اعظم چوہدری انوار الحق نے سابق وزرائے اعظم اور صدرو سے مراعات واپس لینے کیلئے قانونی مشاور ت شروع کر دی ہے۔