سندھ پر منڈلاتے خطرات اور حکومت
صوبہ سندھ کو آج کل کئی مسائل کا سامنا ہے۔مثال کے طور پر دہشت گردی، ڈاکوؤں کی یلغار، مختلف اقسام کے شدید بخار اور پولیو کیسز میں اضافہ۔ سب سے پہلے کراچی میں دہشت گردی کے حالیہ واقعے کا ذکر کر لیتے ہیں جس کا ہدف چینی مہمان تھے۔ ایئرپورٹ کے قریب خودکش حملہ آور نے اپنی گاڑی کو دھماکے سے اڑا دیا جس میں دو چینی انجینئر ہلاک ہوگئے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ تحقیقات کے دوران یہ انکشاف ہوا ہے کہ دہشت گرد کو قریبی عمارت سے رہنمائی حاصل تھی۔ دہشت گرد کا تعلق بلوچستان کے ضلع نوشکی سے بتایا جاتا ہے اوردھماکے میں استعمال کی گئی گاڑی اُس دہشت گرد نے کراچی میں اپنے نام پر رجسٹر کرائی، اور پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ دہشت گردی کی کسی واردات میں رجسٹرڈ گاڑی استعمال کی گئی ہے۔ تحقیقاتی اداروں نے ایک خاتون سمیت متعدد افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔ ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ ان ملزمان نے حملے میں سہولت کاری کی تھی۔مذکورہ دہشت گرد جس کا نام شاہ فہد تھا، نے حملے سے پہلے ریکی کی تھی، یہ گاڑی کئی روز وہاں گھومتی رہی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گرد کو غیرملکیوں کی آمد کی معلومات کہاں سے ملیں؟ اداروں نے تحقیقات کا دائرہ وسیع کردیا ہے اور جلد مزید تفصیلات بھی سامنے آجائیں گی۔ تاہم جو بات سب سے خطرناک ہے وہ یہ کہ ایئرپورٹ کے اطراف میں سی سی ٹی وی کیمرے موجود نہیں ہیں۔جی ہاں! آپ نے صحیح پڑھا، تحقیقات کرنے والوں کو سب سے بڑی مشکل یہی پیش آرہی ہے۔ ملک کے سب سے بڑے شہر میں سیف سٹی سے متعلق دعوے تو ضرور سامنے آئے ہیں لیکن کراچی انٹرنیشنل ایئرپورٹ جو بین الاقوامی اور بین الملکی آمد و رفت کا اہم مرکز ہے، کے اطراف میں کیمرے نہ ہونا ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ چینی انجینئرز پر حملہ سکیورٹی کی ناکامی ہے یا نہیں اس بحث کو ایک طرف رکھ کر اگر صرف اسی سوال کا جواب ڈھونڈ لیا جائے کہ اب تک سیف سٹی کو چھوڑ کر سرکاری سطح پر ہی سہی کیمرے نہ لگنے کا ذمہ د ار کون ہے تو ہم درست سمت میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔
ادھر حکومت سندھ نے کراچی کی سڑکوں کے لیے فنڈز جاری کرنے کا اعلان تو کردیا لیکن یہ شہر ایک کے بعد ایک مصیبت میں گھرا رہتا ہے۔ بارشوں کے بعد جو سڑکوں کا حال ہوا وہ اپنی جگہ لیکن اس کے بعد صفائی کی ابتر صورتحال اور مچھروں کی افزائش نے ملیریا، ڈینگی، چکن گونیا اور وائرل بخار کی کئی اقسام کو وبا کی شکل دے دی ہے۔ شاید ہی کوئی محلہ یا علاقہ ایسا ہو جہاں ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر چوتھا آدمی اس کا شکار نہ ہوا ہو۔شاید ہی کوئی ہسپتال ایسا ہو جہاں روزانہ درجنوں ایسے کیسز نہ آرہے ہوں۔ بخار بھی ایسا جو اُترنے کا نام نہ لے۔کراچی میں اس صورتحال پر امریکی قونصل خانے کے اقدامات بھی سامنے آئے ہیں جن میں معلومات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ دواؤں کی فراہمی بھی شامل ہے۔راستوں کی بات ہے تو تازہ خبر یہ ہے کہ سندھ میں قومی شاہراہ خاصی غیرمحفوظ ہوچکی ہے۔ ڈاکو جب چاہیں جہاں چاہیں مسافر گاڑیوں کو روک کر لوٹ لیتے ہیں۔ نہ رکنے پر فائرنگ سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ ایسا ہی ایک واقعہ گھوٹکی میں پیش آیا جہاں ڈاکوؤں کے جتھے نے ٹول پلازہ کے قریب واردات کی۔ ڈاکوؤں نے مال بردار اور مسافر گاڑیوں کو روکنے کی کوشش کی، نہ رکنے پر اندھا دھند فائرنگ کردی جس سے ایک شخص جاں بحق اور خاتون سمیت تین زخمی ہوگئے، تین مسافروں کو اغوا کرلیا گیا۔ پولیس کے مطابق جاگیرانی گینگ نے یہ واردات کی۔ ایسا لگ رہا ہے کہ کچے اور اس کے آس پاس کی آبادیوں میں ڈاکو راج ہے اور پولیس صرف تماشائی ہے یا بیان جاری کرنے تک رہ گئی ہے کہ جلد ڈاکوؤں کا قلع قمع کردیا جائے گا۔بہرکیف کراچی میں پولیس کچھ کارکردگی دکھا رہی ہے۔ سٹریٹ کرائمز میں ملوث ڈاکوؤں کا پیچھا کیا جارہا ہے۔ پولیس اور ڈاکوؤں میں مڈبھیڑ بھی ہورہی ہے، مقابلے بھی ہورہے ہیں۔ لگتا ہے کہ جلد وارداتوں میں کچھ کمی آجائے گی۔ زیادہ تر وارداتیں سڑکوں کے موڑ اور پلوں پر ہورہی ہیں۔ عام طور پر ایسی جگہوں پر گاڑی یا بائیک کی رفتار کم کرنا پڑتی ہے اور یہ مقامات ڈاکوؤں کے لیے بہترین ہیں۔ پولیس اگر رات کو شہر کے پلوں پر موبائل یا موٹرسائیکل سوار پولیس اہلکار تعینات کردے تو اس سے وارداتوں میں خاصی کمی آنے کا امکان ہے۔
ایک اور خطرہ بھی منڈلا رہا ہے اور وہ ہے پولیو کیسز میں اضافے کا۔ جیکب آباد کے علاقے ٹھل میں پولیو کے دو اور کراچی میں ایک کیس سامنے آیا ہے۔ رواں سال ملک بھر میں پولیو کیسز کی تعداد 32ہوچکی ہے اور سال کے اختتام تک پولیو کیسز کی تعداد 65تک بڑھنے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔ ایک خبر بارشی پانی کی نکاسی نہ ہونے کی بھی ہے۔ سندھ میں بارش ہوئے تقریباً دو ماہ ہوچکے ہیں مگر ابھی تک کئی علاقوں میں بارش کا پانی کھڑا ہے۔ اس سے زیادہ سستی اور کاہلی کیا ہوسکتی ہے۔ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کو کراچی کی بہت فکر ہے، انہوں نے کراچی کو جدید اور بہترین شہر بنانے کے لیے تین ارب ڈالر کا تخمینہ بھی پیش کردیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ رواں سال شہر کے ترقیاتی کاموں کے لیے 218ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ ہماری تو یہی درخواست ہے کہ جو رقم رکھی گئی ہے اسے ترقیاتی کاموں پر خرچ ہونا یقینی بنایا جائے تو یہ بھی کافی ہوگا۔ شہر کو جدید اور بہترین کی بات چھوڑیں اسے سانس لینے کے قابل بنادیں، سڑکوں کی استرکاری کردیں، کراچی کی انتظامیہ کو ڈھونڈ کر لادیں تو اس شہر پر یہی سب سے بڑا احسان ہوگا۔ ادھر کراچی میں واٹر ٹینکرز اور بھاری گاڑیوں سے حادثات معمول بن چکے ہیں۔ بھاری گاڑیوں کے شہر میں داخل ہونے پر پابندی ہے لیکن پولیس یا انتظامیہ کوئی انہیں روکنے کو تیار نہیں۔