پیپلزپارٹی بلوچستان کے اختلافات

تحریر : عرفان سعید


بلوچستان کی سیاسی صورتحال ہمیشہ سے پیچیدہ اور حساس رہی ہے، جہاں مختلف جماعتوں اور حکومتی اداروں کی پالیسیاں اکثر ایک دوسرے سے متصادم ہوتی ہیں۔ پیپلز پارٹی بلو چستان میں حالیہ اختلافات بلوچستان کی سیاست اور مرکزی حکومت کے ساتھ تعلقات کے تناظر میں اہم پہلو کو اجاگر کرتے ہیں۔

 پیپلز پارٹی کی صوبائی قیادت میں تقسیم ممکنہ طور پر نظریاتی یا ذاتی اختلافات کی وجہ سے ہے۔ سیاسی جماعتوں میں اس طرح کے اندرونی تنازعات غیر معمولی نہیں۔ خاص طور پر جب مقامی قیادت پارٹی کی سمت، پالیسی کے نقطہ نظر یا امیدواروں کے انتخاب پر متفق نہ ہو۔اکثر اس طرح کی تقسیم ذاتی عزائم کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ پارٹی رہنما پارٹی کے اندر اعلیٰ عہدوں کیلئے کوشاں ہوں۔بلوچستان ایک عرصے سے عدم استحکام اوربدامنی کا شکار ہے۔ وفاقی حکومت اکثر طاقت کے ذریعے ان مسائل کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ جہاں صوبائی اور وفاقی حکومت کے درمیان تنازعات اور اختلافات روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں وہیں پیپلز پارٹی کی صوبائی قیادت کی حکومت بلو چستان پر تنقید سیاسی کشمکش کی عکاسی کرتی ہے۔

دوسری جانب بلوچستان میں زرعی ترقی کیلئے 29 ہزار ٹیوب ویلوں کو سولر پر منتقل کرنے کا منصوبہ جو کہ توانائی کی بچت اور ماحولیاتی بہتری کیلئے ایک اہم قدم تھا تعطل کا شکار ہو چکا ہے۔اس سال جولائی کے شروع میں وزیراعظم شہبازشریف نے بلوچستان کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ٹیوب ویلز کے شمسی توانائی پر منتقل کرنے سے کسان خوشحال ہوگا، بلوچستان کے ٹیوب ویلوں کیلئے وفاقی حکومت نے 10سال میں 500ارب روپے دیئے ہیں۔ وزیر اعظم شہبازشریف نے کہا تھا کہ آج وفاق اور بلوچستان حکومت سے تعاون سے لینڈ مارک معاہدہ ہوا ہے، معاہدے سے ٹیوب ویل چلانے کیلئے شمسی توانائی سے سستی بجلی ملے گی، ہر سال وفاق 90 ارب روپے بھرتا تھا ، سستی بجلی ملنے سے کھیت سیراب ہوں گے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے اس منصوبے کی تکمیل کیلئے تین ماہ کی ڈیڈ لائن مقرر کی گئی تھی مگر ڈیڈ لائن ختم ہونے کے باوجود کسی بھی ٹیوب ویل کو سولر پر منتقل نہیں کیا گیا۔ اس منصوبے کی ناکامی نہ صرف زرعی شعبے کیلئے نقصان دہ ہے بلکہ بلوچستان کی کمزور معیشت اور توانائی کے بحران کے حوالے سے بھی اہم ہے۔ زرعی ٹیوب ویلوں کو سولر پر منتقل کرنا بلوچستان کیلئے ایک انقلابی قدم ہو سکتا تھا کیونکہ یہ نہ صرف بجلی کی کمی کو دور کرنے میں مددگار ہوتا بلکہ کسانوں کیلئے پانی کی دستیابی میں بھی بہتری لاتا۔ بلوچستان میں بجلی کی کمی ایک مستقل مسئلہ ہے اور اس منصوبے کے ذریعے کسانوں کو بجلی کے بلوں میں ریلیف مل سکتا تھا۔ سولر توانائی کی مدد سے زراعت کو فروغ ملتا اور علاقے میں خود کفالت کی راہ ہموار ہوتی۔ منصوبے کے تعطل کی بنیادی وجہ وفاقی اور صوبائی حکومت کے درمیان مالی معاملات کا حل نہ ہونا ہے۔ وفاقی حکومت کو اس منصوبے کیلئے 38.5 ارب روپے فراہم کرنے ہیں جبکہ بلوچستان حکومت کا حصہ 16.5 ارب روپے ہے، مگر تاحال وفاقی حکومت کی جانب سے رقم کی منتقلی نہیں ہوئی اور ٹیوب ویلز کے مالکان کی تصدیق کا عمل بھی مکمل نہیں ہو سکا۔

یہ مالیاتی تاخیر اور انتظامی مسائل اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ حکومتوں کے درمیان بہتر رابطے اور تعاون کی کمی ہے جس کے نتیجے میں ایک اہم منصوبہ سست روی کا شکار ہے۔منصوبے کے تعطل سے سب سے زیادہ نقصان کسانوں اور زراعت کے شعبے کو پہنچ رہا ہے۔ بلوچستان کا زرعی شعبہ پہلے ہی بہت سے چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے۔ اس منصوبے کی ناکامی سے ان مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سولر ٹیوب ویلز کا منصوبہ اگر بروقت مکمل ہو جاتا تو یہ صوبے کی معیشت اور زراعت کے لیے ایک بڑا سہارا ثابت ہوتا۔بلوچستان میں زرعی ٹیوب ویلوں کو سولر پر منتقل کرنے کا منصوبہ ایک مثبت اقدام تھا مگر حکومتی نااہلی اور مالیاتی تاخیر کی وجہ سے یہ منصوبہ تعطل کا شکار ہو گیا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو فوری طور پر مالی معاملات حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس اہم منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکے اور زرعی شعبے کو درپیش مشکلات کم ہو سکیں۔

رواں ہفتے بلوچستان میں سرکاری ہسپتالوں کی مجوزہ نجکاری کے خلاف گرینڈ ہیلتھ الائنس کی ریلی اور احتجاج حکومت کیلئے ایک سنگین چیلنج کے طور پر سامنے آیا ہے۔ ڈاکٹروں اور طبی عملے کا یہ احتجاج اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ صوبے میں صحت کے شعبے کی حالت ناگفتہ بہ ہے اور نجکاری کا عمل اسے مزید خراب کر سکتا ہے۔گرینڈ ہیلتھ الائنس کے چیئرمین نے کہا ہے کہ اگر حکومت دس روز کے اندر نجکاری روکنے کی پالیسی واضح نہ کرے تو ہسپتالوں کو بند کرنے کا سخت اقدام کیا جائے گا۔ سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری پر گرینڈ ہیلتھ الائنس کی مخالفت اس بات کا ثبوت ہے کہ عوامی خدمت کے اس اہم شعبے کو نجی شعبے کے حوالے کرنے میں کس قدر رکاوٹیں ہیں۔کہا جارہا ہے کہ اس سے عام آدمی کی مشکلات بڑھ جائیں گی اور علاج مزید مشکل ہو جائے گا۔ بلوچستان جیسے پسماندہ علاقے میں جہاں پہلے ہی طبی سہولیات ناکافی ہیں محکمہ صحت میں اس قسم کے تجربات عوام کیلئے مزید مشکلات پیدا کریں گے۔احتجاجی مظاہرے کے دوران ڈاکٹروں نے یہ بھی الزام لگایا کہ صوبائی حکومت مسائل حل کرنے میں سنجیدہ نہیں۔ حکومت نے مذاکرات میں مزید وقت مانگا ہے لیکن اس کے باوجود پشین ہسپتال میں کنٹریکٹ پر بھرتیوں کے اشتہارات جاری کر دئیے گئے۔ یہ عمل حکومت کی نیت پر سوالیہ نشان لگاتا ہے اور اس تاثر کو تقویت دیتا ہے کہ حکومت عوامی مفادات کو پس پشت ڈال کر نجی اداروں کو فائدہ پہنچانا چاہتی ہے۔گرینڈ ہیلتھ الائنس کی طرف سے دیا گیا دس روز کا الٹی میٹم حکومت کیلئے آخری موقع ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرے۔ اگر مطالبات پورے نہیں کئے گئے تو حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں اور اس کا براہ راست اثر عوام پر پڑے گا کیونکہ ہسپتالوں کی بندش سے علاج معالجے کی محدود سہولیات بھی ناپید ہو جائیں گی۔ احتجاج کی وسعت اور شدت بڑھانے کی دھمکی حکومت کیلئے ایک بڑا خطرہ ہے جس سے حالات کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر عائد ہوگی۔بلوچستان میں صحت کے شعبے کی موجودہ صورتحال، حکومت کی غیر سنجیدگی اور نجکاری کا متنازع فیصلہ ایک ایسا بحران پیدا کر سکتا ہے جس کا اثر عام آدمی پر سب سے زیادہ پڑے گا۔ حکومت کو فوری طور پر اس مسئلے کا حل نکالنا ہوگا ورنہ احتجاج کی شدت سے حالات قابو سے باہر ہو سکتے ہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

آئینی ترمیم،کھیل آخری مراحل میں

کھیل آخری اوور میں داخل ہو چکا ہے۔ حکومت 18سے 25اکتوبر کے درمیان آئینی ترامیم کرنے کی ٹھان چکی ہے، جن میں سب سے بڑی ترمیم آئینی عدالت کا قیام ہے۔ آئینی عدالت کے قیام کی وجہ سپریم کورٹ آف پاکستان کو حاصل بہت سے اختیارات ہیں جو حکومت 25اکتوبر کے بعد سپریم کورٹ کے پاس نہیں رکھنا چاہتی۔ وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کے بقول آئندہ چند ہفتوں میں آٹھ فروری کے انتخابات کا آڈٹ ہونے کا خدشہ ہے جس کے بعد معاملات انتہائی سنگین ہو سکتے ہیں۔

پی ٹی آئی احتجاج پر مصر کیوں؟

پاکستان میں اگلے دس روز کو ملک میں سرمایہ کاری اور معاشی مستقبل کے حوالے سے اہم قرار دیا جارہا ہے۔ سعودی عرب کے وزیر سرمایہ کاری کی قیادت میں سرمایہ کاروں کا ایک وفد پاکستان پہنچا ہے جس کے بارے کہا جا رہا ہے کہ یہ دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری میں پیش رفت کا باعث ہوگا جبکہ چینی وزیراعظم 14اکتوبر کو اسلام آباد پہنچ رہے ہیں جہاں وہ دو طرفہ تعلقات اور معاشی حوالے سے اہم اقدامات کے بعد15 اکتوبر کو اسلام آباد میں ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔

سندھ پر منڈلاتے خطرات اور حکومت

صوبہ سندھ کو آج کل کئی مسائل کا سامنا ہے۔مثال کے طور پر دہشت گردی، ڈاکوؤں کی یلغار، مختلف اقسام کے شدید بخار اور پولیو کیسز میں اضافہ۔ سب سے پہلے کراچی میں دہشت گردی کے حالیہ واقعے کا ذکر کر لیتے ہیں جس کا ہدف چینی مہمان تھے۔ ایئرپورٹ کے قریب خودکش حملہ آور نے اپنی گاڑی کو دھماکے سے اڑا دیا جس میں دو چینی انجینئر ہلاک ہوگئے۔

وزیراعلیٰ کی گمشدگی،سوالات اور شبہات

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور جس طرح ڈی چوک پہنچے اور پھر وہاں سے اچانک خیبرپختونخوا ہاؤس میں نمودار ہوئے اس پر کئی اطراف سے انگلیاں اُٹھ رہی تھیں لیکن ان کی وہاں سے پُر اسرار گمشدگی اور اچانک خیبرپختونخوا اسمبلی پشاور میں نمودار ہونے سے یہ صورتحال مزید مشکوک ہو گئی۔

وزیراعظم کے انتخاب پر اعتراض

آزاد جموں و کشمیر میں غیر ضروری سرکاری اخراجات میں ہر گزرتے دن کے ساتھ کمی آرہی ہے ۔ حکومت کی بچت پالیسی پر اپوزیشن کے ساتھ ساتھ اتحادی بھی نالاں ہیں۔دوسری جانب وزیر اعظم چوہدری انوار الحق نے سابق وزرائے اعظم اور صدرو سے مراعات واپس لینے کیلئے قانونی مشاور ت شروع کر دی ہے۔

گھٹنوں اور جوڑوں کا درد

ایسا مرض جو شدت اختیار کر جائے تو انسان کی حرکات و سکنات کو محدود کرسکتا ہے وٹامن ڈی جسم کی مجموعی صحت کیلئے بہت ضروری ہے، یہ مسلز، ہڈیوں اور دانتوں کو صحت فراہم کرتا ہے