لالچ کی سزا
ایک غریب آدمی کے مکان کی چھت ٹوٹ گئی تھی اور وہ اس پر گھاس پھونس بچھارہا تھاکہ اتفاق سے ایک سخی امیر بھی ادھر ا ٓ نکلا اور کہا ’’بھلے آدمی!اس گھاس پھونس سے بارش کیا رکے گی ۔پکی چھت بنوا لو تو ٹپکنے کا اندیشہ جا تا رہیـــ گا‘‘۔ غریب نے جواب دیاــــــ،’’جناب آپ کا فرمانا تو بے شک بجا ہے اور میں بھی جانتا ہوں ، مگر میرے پاس پکی چھت بنوانے کیلئے دام کہاں ‘‘۔
امیر نے پوچھا،’’پکی چھت پر کیالاگت آئے گی؟‘‘۔غریب نے جواب دیا، ’’جناب!ڈیڑھ سوروپے تو لگ ہی جائیں گے‘‘۔یہ سن کرامیر نے جھٹ جیب میں سے ڈیڑھ سو روپے نکال کراس غریب کے حوالے کر دیے کہ اس سے اپنا کام کر لو۔جب امیر نوٹ دے کر چلا گیا تو غریب کے پیٹ میں چوہے دوڑنے لگے کہ یہ تو بڑا سخی دولت مند تھا۔اگر میں زیادہ کہہ دیتا تو یہ زیادہ بھی دے دیتا ،میں نے غلطی سے کم کہہ دیا۔
یہ سوچ کر امیر کے مکان پر پہنچا اور کہنے لگا ،’’جناب میں نے اندازے میں غلطی کر دی تھی۔ چھت پر زیادہ لاگت آئے گی‘‘۔ امیر نے کہا ’’ وہ ڈیڑھ سو کہا ںہیں؟‘‘ غریب نے نوٹ نکال کر پیش کیے تو امیر نے اپنی جیب میں رکھ کر کہا کہ میں اتنے ہی دے سکتا ہو ں۔ اس سے زیادہ دینے کی میری ہمت نہیںکوئی اور اللہ کا بندہ دے دے گا۔غریب بہت گھبرایا ،مگر امیر نے ایک نہ سنی ۔آخر پچھتاتا اور یہ کہتا ہوا گھر کو پلٹ آیا کہ امیر کی کوئی خطا نہیں ۔یہ میرے ہی لالچ کی سزا ہے۔