بھائی بھلکڑ

تحریر : یاسر علی


کسی جنگل میں ایک ننھا منا ہاتھی ’’جگنو‘‘ رہا کرتا تھا۔ جس کی ننھی سی سونڈ، ننھی سی دم اور بونا سا قدتھا۔وہ بڑا ہنس مکھ اور یاروں کا یار تھا۔اس میں صرف خرابی یہ تھی کہ ذرا دماغ کا کمزور تھا۔

اسے کوئی بات یاد ہی نہیں رہتی تھی۔ تمام ہاتھی بن مانسوں سے نفرت کرتے تھے کیونکہ تقریباً سو برس پہلے کسی بن مانس نے ایک بڑا سا ناریل کسی ہاتھی کے منہ پر دے مارا تھا۔ اس دن سے تمام ہاتھی بن مانسوں کے دشمن ہو گئے۔ یہ بات جگنو کو کئی بار سمجھائی گئی مگر میاں جگنو تو تھے ہی بھول بھلکڑ۔ کئی بار کان پکڑ کر توبہ کی کہ اب بن مانسوں کے بچوں کے ساتھ نہیں کھیلوں گا مگر دوسرے ہی دن ساری توبہ بھول جاتا اور پھر ان کے ساتھ کبڈی کھیلنا شروع کر دیتا۔ 

ہاتھیوں کے دوسرے دشمن طوطے تھے۔ ہاتھی ان سے بھی بڑی نفرت کرتے تھے۔ بات یہ تھی کہ ایک دفعہ کوئی ہاتھی بیمار ہو گیا۔ اس لئے ہاتھیوں نے طوطوں سے کہا کہ شور مت مچایا کرو۔ اس سے مریض کی طبیعت خراب ہو جاتی ہے، مگر توبہ، وہ طوطے ہی کیا جوٹیں ٹیں کرکے آسمان سر پر نہ اٹھائیں۔ اس دن سے ہاتھی طوطوں سے بھی بیر رکھنے لگے۔ جگنو کے ماں باپ اور یار دوستوں نے اسے یہ بات بھی کئی مرتبہ بتائی تھی اور کہا تھا کہ طوطوں سے ہماری لڑائی ہے مگر میاں جگنو بن مانس والی بات کی طرح یہ بات بھی بھول جاتے اور طوطوں کو اپنی پیٹھ پر چڑھا کر سارے جنگل میں کودے کودے پھرتے۔ میاں جگنو کی یہ حرکتیں دیکھ کر ہاتھیوں نے اس سے بول چال بند کردی۔ 

 تمام ہاتھی اس کو بے وقوف کہہ کہہ کر چڑاتے اور اس پر پھبتیاں کستے مگر جگنو کو کسی کی پروا نہیں تھی۔ وہ اتنا سیدھا سادا اور نیک دل تھا کہ وہ ان کے مذاق کا بالکل برا نہ مانتاتھا اور پھر اس کا حافظہ بھی تو کمزور تھا۔ اسے یاد ہی نہیں رہتا تھا کہ کون دوست ہے کون دشمن، کون سی بات اچھی ہے، کون سی بری۔

ایک دن جگنو جنگل میں ٹہل رہا تھا کہ ایسا معلوم ہوا جیسے ایک دم زمین پھٹ گئی ہو اور وہ اس میں سما گیا۔ اصل میں شکاریوں نے یہ گڑھا کھود کر اسے گھاس پھونس سے ڈھانپ دیا تھا تاکہ ہاتھی اس کے اوپر سے گزریں تو نیچے گر پڑیں اور پھر وہ انہیں پکڑ لیں۔ قسمت کی بات، میاں جگنو ہی کی شامت آ گئی۔ ایک دم اوپر سے گرنے سے میاں جگنو کو بہت چوٹ آئی تھی۔ تھوڑی دیر تک تو اس کی سمجھ میں یہی نہیں آیا کہ یہ ہوا کیا۔ آخر جب اس نے آنکھیں ملیں اور اِدھر اُدھر دیکھا تو پھر اسے معلوم ہوا کہ وہ ایک گہرے گڑھے میں گر پڑا ہے۔ اب تو اس کی جان نکل گئی۔ بے چارے نے ہر طرف سے مایوس ہو کر زور سے چنگھاڑنا شروع کر دیا۔ ابا، ابا، اماں، اماں! دوڑو دوڑو، جگنو کی چیخیں سن کر جنگل کے تمام ہاتھی دوڑ پڑے اور گڑھے کے پاس کھڑے ہو کر نیچے دیکھنے لگے۔ جگنو نے چیخ کر کہا میں ہوں جگنو، اس گڑھے میں پڑا ہوں خدا کیلئے مجھے یہاں سے نکالو۔

اس کے ماں باپ نے نیچے جھک کر اسے دیکھا۔ چند بڑے بوڑھے ہاتھی بھی اس کے پاس آ گئے۔ سب کے سب پریشان تھے۔ امی کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ جگنو کو اس مصیبت سے کس طرح نجات دلائیں۔ انہیں خاموش دیکھ کر جگنو کا دل بیٹھ گیا اور آنکھوں میں آنسو بھر کر بولا۔

 تم مجھے یہاں سے نہیں نکال سکتے، میری مدد کوئی نہیں کر سکتا۔ اُف میں کیا کرو۔ سب ہاتھیوں نے مایوسی سے سر ہلایا اور آہستہ آہستہ چلے گئے۔ چلتے وقت اس کی ماں نے کہا جگنو! گھبرانا مت، ہم تمہارے لیے کھانا لے کر آتے ہیں، مگر جگنو کو کھانے کی ضرورت نہ تھی۔ وہ اس گڑھے سے نکلنا چاہتا تھا۔ہاتھی چلے گئے تو اس نے ایک گہری سانس لی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ اچانک اسے سر پر بہت سے پروں کے پھڑپھڑانے کی آواز آئی۔ اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو رنگ برنگے طوطے نظر آئے۔ یہ سب اس کے دوست تھے جنہیں وہ اپنی پیٹھ پر چڑھا کر جنگل کی سیر کراتا تھا۔ کچھ طوطے گڑھے پر آکر بولے جگنو گھبرائو نہیں، ہم ابھی تمہیں اس مصیبت سے چھٹکارا دلاتے ہیں۔سب طوطے مل کر گڑھے کے ایک کنارے پر چونچیں مارنے لگے تاکہ ایک ڈھلان بنا کر جگنو کو باہر نکال سکیں، اتنی دیر میں بن مانس بھی وہاں پہنچ گئے اور طوطوں کی مدد کرنے لگے کچھ ہی دیر میں گڑھے کو ایک ڈھلان میں تبدیل کر کے جگنو کا باہر نکال لیا گیا۔ جب سب ہاتھیوں نے یہ منظر دیکھا تو بہت شرمندہ ہوئے ۔ جگنو کے کہنے پر طوطوں اور بن مانسوں نے ہاتھیوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور سب ہنسی خوشی جنگل میں رہنے لگے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

متوازن غذا ضروری ہے!

’’مما! آج کیا پکایا ہے؟‘‘ عائشہ سکول سے واپس آئی تو آتے ہی بے تابی سے پوچھا، اسے شدید بھوک لگی تھی۔

مغرور اونٹ کی کہانی

کسی جنگل میں ایک مغرور اونٹ رہتا تھا۔ اسے اپنے لمبے قد اور چال ڈھال پر بڑا ناز تھا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ میں سب سے اعلیٰ ہوں۔ اس کا جہاں جی چاہتا منہ اْٹھا کر چلا جاتا اور سب جانوروں سے بدتمیزی کرتا رہتا۔ کوئی جانور اگر اسے چھیڑتا تو وہ اس کے پیچھے پڑ جاتا۔ اس کے گھر کے قریب چوہے کا بل تھا اور اونٹ کو اس چوہے سے سب سے زیادہ نفرت تھی۔ وہ اس چوہے کو نہ جانے کیا کیا القابات دیتا رہتا لیکن چوہا ہنس کے ٹال دیتا تھا۔ جنگل کے سب جانور ہی اونٹ سے اس کے تکبر کی وجہ سے تنگ تھے اور چاہتے تھے کہ اسے اس کے کیے کی سزا ملے مگر ابھی تک اونٹ کو کھلی چھٹی ملی ہوئی تھی۔

پہیلیاں

ہو اگر بخار کا مارا کیوں نہ چڑھے پھر اُس کا پارہ (تھرما میٹر)

بکری میری بھولی بھالی

بکری میری بھولی بھالی بکری میری بھولی بھالی کچھ تھی بھوری کچھ تھی کالی

ذرامسکرایئے

ماں : گڈو ! میں نے پلیٹ میں کیک رکھا تھا ، وہ کہاں گیا؟ گڈو : امی مجھے ڈر تھا کہ کیک کہیں بلی نہ کھا جائے ، اس لیے میں نے کھا لیا۔ ٭٭٭

کیا آ پ جانتے ہیں؟

٭:صرف کولاس (koalas) اور انسان ہی دنیا کے وہ جاندار ہیں جن کے فنگر پرنٹس ہوتے ہیں۔ ٭:آکٹوپس(octupus) کے تین دل ہوتے ہیں۔