پی ٹی آئی احتجاج پر مصر کیوں؟

تحریر : سلمان غنی


پاکستان میں اگلے دس روز کو ملک میں سرمایہ کاری اور معاشی مستقبل کے حوالے سے اہم قرار دیا جارہا ہے۔ سعودی عرب کے وزیر سرمایہ کاری کی قیادت میں سرمایہ کاروں کا ایک وفد پاکستان پہنچا ہے جس کے بارے کہا جا رہا ہے کہ یہ دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری میں پیش رفت کا باعث ہوگا جبکہ چینی وزیراعظم 14اکتوبر کو اسلام آباد پہنچ رہے ہیں جہاں وہ دو طرفہ تعلقات اور معاشی حوالے سے اہم اقدامات کے بعد15 اکتوبر کو اسلام آباد میں ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔

مذکورہ کانفرنس میں تیرہ کے قریب رکن ممالک کے اہم لیڈر شرکت کر رہے ہیں۔ اسے بھی معاشی حوالے سے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے کابینہ اجلاس میں مذکورہ کانفرنس کے معاشی اثرات اور چینی وزیرا عظم کے دورے کی اہمیت بارے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے سیاسی تنائو پر تشویش کا اظہار بھی کیا اور دھرنوں کو ملکی معیشت کیلئے خطرناک قرار دیا اور کہا کہ 2014ء میں چینی صدر کا دورہ پاکستان طے تھا لیکن اسلام آباد میں دھرنے نے اسے مؤخر کیا ، اب بھی اس رجحان کو تقویت دی جا رہی ہے اور وفاق پر چڑھائی کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں جس کا واحد مقصد معیشت پر اثر انداز ہونا اور پاکستان کو آگے نہ بڑھنے دینا ہے، لیکن ہم 2014ء جیسی کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ وزیراعظم شہبا ز شریف کے خیالات سے ظاہر ہو رہا ہے کہ حکومت پر ایک طرف موجودہ کانفرنس کے انتظامات کا دبائو ہے تو دوسری جانب وہ مذکورہ احتجاجی عمل کو ملکی معیشت اور اپنے معاشی مستقبل کے حوالے سے خطرناک سمجھ رہی ہے۔ بلاشبہ یہ حکومت کا اعزاز ہے کہ اس نے معیشت کو خطرناک زون سے نکالا اور آئی ایم ایف سے سات ارب ڈالر کے قرض کی منظوری حاصل کی ۔ آئی ایم ایف پروگرام کو معاشی حوالے سے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ اہم ممالک خصوصاً مشرق وسطیٰ کے ممالک مثلاً سعودی عرب ،متحدہ عرب امارات اور قطر پاکستان کا رُخ کر رہے ہیں‘ چین بھی سرمایہ کاری کیلئے سنجیدہ ہے۔ اب اگر اسلام آباد میں احتجاجی سیاست طاری رہتی ہے تو اس کا فائدہ کسی سیاسی جماعت کو تو نہیں ہو گا البتہ پاکستان کو اس کا نقصان ضرور ہوگا۔کیا حکومت ان مسائل کے سیاسی حل کیلئے کوشاں ہے، یہ دیکھنا ہوگا۔ کہا جا رہا ہے کہ پس پردہ کچھ سیاسی قوتوں سے مذاکرات چل رہے ہیں، کیا یہ کامیاب ہو پائیں گے، اس حوالے سے آنے والے چند روز اہم ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کی سیاست پر نظر ڈالی جائے تو وہ احتجاجی روش سے ہٹنے کر تیار نہیں۔ بانی پی ٹی آئی نہ صرف حکومت پر دبائو بڑھانا چاہتے ہیں بلکہ اپنی جماعت کے ذمہ داران کا امتحان لینے پر بھی مُصر ہیں۔ گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں جو احتجاجی صورتحال تھی اسے ذہن میں رکھنا چاہیے ۔ پی ٹی آئی کی ضد تھی کہ وہ ڈی چوک کو میدان جنگ بناکر رہے گی۔ اس حوالے سے ٹاسک وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کے پاس تھا ، جبکہ لاہور میں مینار پاکستان پر احتجاج کی ذمہ داری پارٹی کے مقامی ذمہ داران کو سونپی گئی تھی۔ اسلام آباد میں تو دو روز تک احتجاجی کیفیت طاری رہی لیکن پنجاب میں پی ٹی آئی کو ساز گار ماحول نہیں مل سکا۔اس کی بڑی وجہ ایک تو یہ ہے کہ یہاں ان کے پاس کوئی فعال اور متحرک لیڈر شپ نہیں اور دوسرا یہ کہ ان کے پاس وسائل کا بھی فقدان ہے۔ اسلام آباد میں احتجاج کا انحصار پختونخوا کی حکومت اور وسائل پر رہا ہے۔ وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور احتجاج کی قیادت کرتے ہیں اور اس کیلئے حکومتی وسائل اور خصوصاً سرکاری ٹرانسپورٹ کواستعمال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ پنجاب خصوصاً لاہور کی سطح پر پی ٹی آئی کو ایسا ماحول نہیںمل سکا ؛چنانچہ لاہور کیلئے احتجاج کی کال برُی طرح ناکام رہی ۔ صرف ایوان عدل میں چند وکلا اور دو تین درجن نوجوانوں نے آکر حکومت کے خلاف نعرے لگا کر احتجاج ریکارڈ کروایا ۔ پی ٹی آئی کے سرگرم کارکن بھی یہ کہتے سنائی دیئے کہ یہاں لیڈر شپ ہی موجود نہیں۔ پنجاب کے سیاسی محاذ پر پی ٹی آئی کے احتجاج کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ خود پنجاب حکومت کا متحرک اور فعال ہونا ہے ۔ایک طرف انتظامی مشینری یہاں احتجاجی فضا پر اثر انداز ہونے کیلئے متحرک دکھائی دیتی ہے دوسری جانب وزیراعلیٰ مریم نواز اور ان کی حکومت سیاسی اور عوامی محاذ پر ڈیلیور کرنے کیلئے متحرک ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں جا رہا کہ ان کی جانب سے مفاد عامہ میں اقدامات کا اعلان نہ کیا جاتا ہو ۔ اس کے اثرات بھی نظر آتے ہیں خصوصاً مہنگائی پر۔وزیر اعلیٰ پنجاب نے انتظامی مشینری کو متحرک کر رکھا ہے اور خود اس کی مانیٹرنگ کرتی ہیں۔بے شک پنجاب کا سیاسی محاذ مسلم لیگ(ن) کیلئے بڑی اہمیت رکھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ پنجاب حکومت اپنی سیاسی مقبولیت کی بحالی کیلئے کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتی۔ وہ متحرک اور پرعزم ہے۔ ماہرین کی رائے یہ ہے کہ مسلم لیگ( ن) کسی طرح پنجاب کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی، اسے آٹھ فروری کے انتخابات ،ان کے نتائج اور اثرات کا ادراک ہے۔ پنجاب حکومت نے کابینہ اجلاس میں دیگر اقدامات کے ساتھ اجتماعی شادیوں کے ایک بڑے پروگرام کی منظوری بھی دی ہے جس کے تحت تین ہزار غریب خاندانوں کی بچیوں کی اجتماعی شادی کا بندوبست کیا جا رہا ہے۔ حکومت پنجاب کا یہ اعلان اہم ہے مگر اس عمل کو حکومت تک محدود رکھنے کی بجائے اس کیلئے مخیر حضرات ، نجی شعبہ کے مختلف اداروں اور صنعتوں کے مالکان کو متحرک کیا جانا چاہئے۔ انہیں ذمہ داری سونپی جائے کہ اپنے ارد گرد ایسے افراد کو تلاش کیا جائے جو اپنی بچیوں کی شادی کے معاملے میں پریشان ہیں۔ ان کی مدد کی جانی چاہئے اور مدد بھی اس طرح کہ ان کی عزتِ نفس مجروح نہ ہو۔ آج کے تلخ ماحول میں بھی پاکستانی معاشرے میں اتنی جان ہے کہ کہا جا سکتا ہے کہ اب بھی لوگوں کی کوشش ہو تی ہے کہ ان کے ارد گرد کوئی شخص بھوکا نہ سوئے ۔ حقداروںکی مدد کی بھی جاتی ہے اور ہوتی بھی نظر آتی ہے۔ اس طرح کا عمل جب حکومت کی جانب سے شروع ہوتا ہے تو اس کے اثرات معاشرے کے دیگر طبقات پر بھی ہوتے ہیں اور آج بھی حکومت سمیت بہت سی ایسی تنظیمیں اور ادارے موجود ہیں جو غریب اور بے سہارا بچیوں کی شادی کا اہتمام کرتے ہیں اور ان کے گھروں کو آباد کرنے میں ان کا فعال کردار ہوتا ہے، لہٰذا حکومت پنجاب کو مفاد عامہ میں اپنے اقدامات کو مؤثر بنانا چاہئے ۔سیاسی جماعتیں اور منتخب حکومتیں اپنے وسائل کو اپنے سیاسی مفادات کیلئے استعمال کرکے اپنی سیاست کو زندہ رکھنے کی کوشش کرتی ہیں، اگر سیاسی جماعتیں مسائل زدہ اور مہنگائی زدہ عوام کا سہارا بننے کیلئے بروئے کار آئیں تو عوام کی عدالت میں بھی سرخرو ہوں گی اوراللہ کی عدالت میں بھی ۔ یہ عمل پاکستان میں لوگوں کی زندگیوں میں اطمینان اور سیاسی استحکام کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے اور حکومتوں اور عوام کے درمیان فاصلے بھی مٹ سکتے ہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

متوازن غذا ضروری ہے!

’’مما! آج کیا پکایا ہے؟‘‘ عائشہ سکول سے واپس آئی تو آتے ہی بے تابی سے پوچھا، اسے شدید بھوک لگی تھی۔

مغرور اونٹ کی کہانی

کسی جنگل میں ایک مغرور اونٹ رہتا تھا۔ اسے اپنے لمبے قد اور چال ڈھال پر بڑا ناز تھا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ میں سب سے اعلیٰ ہوں۔ اس کا جہاں جی چاہتا منہ اْٹھا کر چلا جاتا اور سب جانوروں سے بدتمیزی کرتا رہتا۔ کوئی جانور اگر اسے چھیڑتا تو وہ اس کے پیچھے پڑ جاتا۔ اس کے گھر کے قریب چوہے کا بل تھا اور اونٹ کو اس چوہے سے سب سے زیادہ نفرت تھی۔ وہ اس چوہے کو نہ جانے کیا کیا القابات دیتا رہتا لیکن چوہا ہنس کے ٹال دیتا تھا۔ جنگل کے سب جانور ہی اونٹ سے اس کے تکبر کی وجہ سے تنگ تھے اور چاہتے تھے کہ اسے اس کے کیے کی سزا ملے مگر ابھی تک اونٹ کو کھلی چھٹی ملی ہوئی تھی۔

پہیلیاں

ہو اگر بخار کا مارا کیوں نہ چڑھے پھر اُس کا پارہ (تھرما میٹر)

بکری میری بھولی بھالی

بکری میری بھولی بھالی بکری میری بھولی بھالی کچھ تھی بھوری کچھ تھی کالی

ذرامسکرایئے

ماں : گڈو ! میں نے پلیٹ میں کیک رکھا تھا ، وہ کہاں گیا؟ گڈو : امی مجھے ڈر تھا کہ کیک کہیں بلی نہ کھا جائے ، اس لیے میں نے کھا لیا۔ ٭٭٭

کیا آ پ جانتے ہیں؟

٭:صرف کولاس (koalas) اور انسان ہی دنیا کے وہ جاندار ہیں جن کے فنگر پرنٹس ہوتے ہیں۔ ٭:آکٹوپس(octupus) کے تین دل ہوتے ہیں۔