وزیراعظم کے انتخاب پر اعتراض
آزاد جموں و کشمیر میں غیر ضروری سرکاری اخراجات میں ہر گزرتے دن کے ساتھ کمی آرہی ہے ۔ حکومت کی بچت پالیسی پر اپوزیشن کے ساتھ ساتھ اتحادی بھی نالاں ہیں۔دوسری جانب وزیر اعظم چوہدری انوار الحق نے سابق وزرائے اعظم اور صدرو سے مراعات واپس لینے کیلئے قانونی مشاور ت شروع کر دی ہے۔
حکومتی حلقوں میں غور کیا جا رہا ہے کہ صرف اسی سابق وزیر اعظم اور صدر کو محدود مراعات ملنی چاہئیں جو سیاست سے مکمل ریٹائر ہو چکا ہو۔ آزاد جموں و کشمیر میں سابق وزرائے اعظم میں چوہدری عبد المجید کے علاوہ باقی سبھی عملی سیاست میں متحرک ہیں ۔سابق وزرائے اعظم کی مراعات کے خاتمے کے حوالے سے ابھی حکومت کی تیاری آخری مراحل میں تھی کہ سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے رکن قانون ساز اسمبلی فاروق حیدر نے وزیراعظم چوہدری انوار الحق کے انتخاب کو چیلنج کرتے ہوئے ہائی کورٹ میں آئینی درخواست دائر کر دی۔ اسی طرح کی درخواست سابق وزیر اعظم سردار تنویر الیاس بھی سپریم کورٹ میں دائر کر چکے ہیں ،جسے بعد ازاں واپس لینے کیلئے عدالت سے رجوع کیا گیا۔ عدالت نے سابق وزیر اعظم سردار تنویر الیاس کی درخواست کو منظور تو کر لیا لیکن اسے اہم آئینی مسئلہ قرار دیتے ہوئے از خود سماعت کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔ اس سلسلے میں قانون ساز اسمبلی سیکرٹریٹ سے جواب بھی طلب کرلیا گیا ہے کہ وہ عدالت کو وزیر اعظم انوار الحق کے انتخاب کے حوالے سے آگاہ کرے۔ ہائی کورٹ کی جانب سے فاروق حیدر کی وزیر اعظم کی تقرری کو چیلنج کرنے کے حوالے سے درخواست پر جو بھی فیصلہ آئے گا اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا جہاں پہلے سے یہ کیس زیر سماعت ہے۔ان درخواستوں میں وزیراعظم کے انتخاب کو آئینی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے اور عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ چوہدری انوارالحق کے انتخاب کو کالعدم قرار دیا جائے۔ دونوں درخواستوں میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ وزیراعظم انوارالحق کا انتخاب آئین کے آرٹیکل17 دو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عمل میں لایا گیا ہے۔ وزیر اعظم چوہدری انوار الحق کو بطور ممبر قانون ساز اسمبلی انتخاب میں حصہ لینا چاہئے تھا اور وزیر اعظم کا امیدوار بننے سے پہلے انہیں قانون ساز اسمبلی کے سپیکر کے عہدہ سے استعفیٰ دینا چاہے تھا‘لیکن چوہدری انوارالحق نے سپیکر کا عہدہ نہیں چھوڑا بلکہ سپیکر قانون ساز اسمبلی کے منصب پر رہتے ہوئے وزیر اعظم کے امیدوار بن گئے۔وزیراعظم آزاد جموں وکشمیر منتخب ہونے کے بعد انہوں نے سپیکر کے منصب سے استعفیٰ دیا۔ درخواست میں یہ مؤقف بھی اختیار کیا گیا ہے کہ چوہدری انوار الحق نے بطور سپیکر قانون ساز اسمبلی سابق وزیراعظم سردار تنویر الیاس کو ہائی کورٹ سے نااہل قرار دیئے جانے کے بعد مسلسل تین دن نئے وزیراعظم کے انتخاب کے عمل کو شروع نہ کرکے جان بوجھ کر تاخیر کر کے آزاد جموں وکشمیر کے آئین کی خلاف ورزی کی۔ درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اُس وقت کے وزیر اعظم سردار تنویرالیاس کو ہائی کورٹ نے نااہل قرار دیا تو قانون ساز اسمبلی کا اجلاس جاری تھا اور نئے وزیراعظم کے انتخاب میں وزیراعظم کے منصب کے امیدوار انوار الحق بطور سپیکر خود ہی اجلاس کی صدارت کرتے رہے۔ان کے سپیکر کے منصب سے مستعفی نہ ہونا آئینی خلاف ورزی ہے بلکہ امیدوار وزارت عظمیٰ ہوتے ہوئے اسمبلی اجلاس کی صدارت کرنا بھی خلاف آئین تھا۔آزاد جموں و کشمیر کے آئین کے مطابق نئے قائد ایوان کے انتخاب کیلئے الگ سے قانون ساز اسمبلی کا اجلاس بلانا ضروری تھا لیکن جاری قانون ساز اسمبلی کے اجلاس میں شیڈول جاری کر کے چوہدری انوار الحق کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ درخواست کے ذریعے ہائی کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ وزیر اعظم چوہدری انوار الحق کے انتخاب کو کالعدم قرار دیا جائے اور آئین کے مطابق از سر نو آزاد جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی سے وزیراعظم کا انتخاب کرایا جائے۔
ادھر عوامی ایکشن کمیٹی پھر متحرک ہو گئی ہے کہ اگر حکومت نے اشرافیہ کی مراعات ختم نہ کیں تو وہ دوبارہ ہڑتال اور احتجاج کی کال دے گی۔ اس سلسلے میں حکومت اور عوامی ایکشن کمیٹی کے ارکان کے درمیان مذاکرات ناکام ہو گئے ہیں۔عوامی ایکشن کمیٹی اشرافیہ کی مراعات ختم کرنے پر بضد ہے۔جموں وکشمیر کے و زراپیر محمد مظہر سعید شاہ ، فیصل ممتاز راٹھور اور دیوان علی خان چغتائی کا کہنا ہے کہ عوامی ایکشن کمیٹی کے ارکان کے ساتھ مذاکراتی سیشن ہوا، اچھے ماحول میں بات جاری تھی لیکن اچانک عوامی ایکشن کمیٹی کی جانب سے مذاکراتی سیشن منسوخ کر دیا گیا۔ انہوں نے کہاکہ وزیراعظم آزادکشمیر نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی سمیت دیگر فورمز پرجاندار انداز میں آزادکشمیر کے مسائل اٹھائے۔انہوں نے کہاکہ دنیا کی سستی ترین بجلی اور آٹا آزادکشمیر کے عوام کو میسر ہے لیکن اس کے باوجود عوامی ایکشن کمیٹی اور ہم ایک دوسرے کے سامنے کیوں ہیں؟ ادھر زلزلے کی انیسویں برسی کے موقع پروزیر اعظم چوہدری انوار الحق نے کہا کہ 8 اکتوبر2005 ء کا سانحہ ہمیں اس بات کی یاد دلاتا ہے کہ ہولناک زلزلہ نے آزادجموں وکشمیر کے ایک بڑے حصے کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا تھا۔ ایک طرف ہزاروں انسانی جانیں لقمہ اجل بن گئیں اور دوسری طرف ہماری نصف صدی سے زائد عرصہ کی تعمیر وترقی زلزلہ کے ایک جھٹکے سے زمین بوس ہوگئی۔زلزلہ کو19 سال بیت چکے ہیں، ان 19 سالوں میں بہت کچھ بہتر ہوا ہے مگر مجھے ادراک ہے کہ ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔زلزلہ کے بعد بحالی کے کاموں کے لیے ہم عالمی اداروں اور قومی و بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کے شاندار کردار کو فراموش نہیں کر سکتے۔ دوست ممالک بالخصوص ترکی اور عرب ممالک کے ساتھ ساتھ امریکہ ، برطانیہ اور یورپ کے ممالک کے بھی شکر گزار ہیں جنہوں نے بحالی و تعمیر نو کے کام کر کے زلزلہ متاثرین کی زندگی کو ایک بار پھر مسکرانے کا موقع دیا،اس پر ہم ان کے شکر گزار ہیں۔ اہل پاکستان اور افواج پاکستان کی خدمات کو کون بھول سکتا ہے۔ پاک فوج کے بحالی و تعمیر نو میں مرکزی کر دار کو زلزلہ متاثرین اور آزاد کشمیر کے عوام تا قیامت یاد رکھیں گے۔