نبی آخرالزماںﷺ کا تحمل

تحریر : مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی


یہود میں گنتی کے لوگ تھے جنہوں نے اسلام قبول کیا اور اللہ کے رسولﷺ کے صحابیؓ ہونے کا شرف حاصل کیا۔ یہود نے اللہ کے رسولﷺ کی علامات کو اپنی مذہبی کتابوں میں پڑھ رکھا تھا۔

 تورات شریف میں اللہ کے رسولﷺ کی2صفات کو بڑے نمایاں طور پربیان کیا گیا ہے۔ ان میں ایک صفت   آپﷺ کا تحمل غصہ پر غالب ہوگا۔ دوسری صفت آپﷺ کے ساتھ شدید جہالت کے سلوک کے باوجود حلم میں اضافہ ہی ہوتا چلاجائے گا۔ ذرا غور کریں کہ کون سا ایسا شخص ہے کہ جس کو غصہ دلایا جائے ، اس کے خاندان کو برا بھلا کہا جائے اور وہ تحمل کا ثبوت دے۔ اسی طرح کون ایسا شخص ہے جس کے ساتھ جہالت ہوتی جائے مگر اس کے حوصلے اور حلم میں اضافہ ہوتا چلا جائے۔ ہمارے پیارے رسول ﷺکے اندر یہ دونوں صفات بدرجہ اتم پائی جاتی تھیں۔ آیئے اسی منظر کو ایک  واقعہ کی صورت میں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔

  زید بن سعنہ ایک مشہور یہودی عالم تھا۔ وہ حق کا متلاشی تھا،تورات کا عالم تھا۔ اس نے اپنی کتاب میں اللہ کے رسولﷺ کی صفات پڑ ھ رکھی تھیں۔ جب اس نے اللہ کے رسول ﷺ کو ان صفات کی روشنی میں دیکھا تو اسے یقین ہوگیا کہ اللہ کے رسولﷺ سچے ہیں اور آپﷺ کوو اقعی اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ہے مگر اوپر ذکر کی گئی2 صفات ایسی تھیں جن کی وہ تصدیق کرنا چاہتا تھا۔

مکارم اخلاق میں سب سے اہم چیز انسان کا حلم اور اس کا حوصلہ مند ہونا، غصہ میں نہ آنا وغیرہ شامل ہے۔ دنیا میں چند ہی ایسے لوگ ہوں گے کہ جن کے ساتھ بد تمیزی کی جائے اور وہ اس کے جواب میں اچھا سلوک کریں۔جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا کہ زید بن سعنہ حق کی تلاش میں تھا۔ وہ مختلف بہانوں سے اللہ کے رسولﷺ کی مجالس میں آتا، آپﷺ سے سوالات کرتا اورمذکورہ صفات کو آپﷺ کی ذات گرامی میں دیکھنے کیلئے بے تاب رہتا تھا۔ چند دن گزرے کہ اسے یہ موقع میسر آگیا۔ 

زید بن سعنہ کہتے ہیں:میں ایک دن اللہ کے رسولﷺ کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک شخص اپنی سواری پر آیا اور عرض کیا:اللہ کے رسولﷺ !  میرا تعلق فلاں قبیلہ اور بستی سے ہے۔ ان لوگوں نے اسلام قبول کرلیا ہے ۔میں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ اگر تم لوگ اسلام قبول کرلوگے تو تمہارے پاس صبح وشام بڑی وافر مقدار میں رزق آئے گا۔ انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ان دنوں قحط سالی ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ لوگ مرتد نہ ہوجائیں اس لئے اگر آپ مناسب سمجھیں تو ان کو کچھ مال ومتاع بھیج دیں تا کہ ان کی بھوک کا مداوا ہو جائے۔ اللہ کے رسولﷺ نے سیدنا علی المرتضی ؓ کی طرف دیکھا گویا آپ ﷺان سے پوچھنا چاہتے تھے کہ کیا ہمارے پاس ان دنوں بیت المال میں کچھ مال موجود ہے جو ان کو بھیجا جاسکے ۔یوں محسوس ہوا کہ ان ایام میں بیت المال خالی تھا۔ شاید اس لئے سیدنا علی ؓنے کوئی جواب نہ دیا۔

 زید بن سعنہ نے موقع غنیمت جانا اور اللہ کے رسولﷺ سے عرض کی:آپﷺ مجھے فلاں باغ کی کھجوریں ایک مقررہ وقت کے بعد ادا کردیں اور ان کے پیسے ابھی لے لیں۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا:تمہارا کہنا درست ہے مگر کسی مخصوص باغ کا نام نہ لو۔ زید بن سعنہ کہنے لگا کہ ٹھیک ہے۔ زید کہتا ہے کہ میں نے اللہ کے رسولﷺ کو سونے کے80 سکے (دینار)دیئے۔ آپ نے یہ سارا مال اس شخص کے حوالے کرتے ہوئے فرمایا: اس مال سے اپنی قوم کی مدد کرو۔وہ بدو دعائیں دیتا ہوا رخصت ہو گیا۔

اللہ کے رسول ﷺکے وعدے میں چند روز ابھی باقی تھے۔ میں نے آپﷺ کے تحمل وبردباری کو جاننے کا فیصلہ کرلیا۔  اللہ کے رسول ﷺ سیدنا ابوبکرؓ ،سیدنا عمر فاروق ؓ اور دیگر صحابہ کرامؓ کے ساتھ ایک جنازے میں شرکت کیلئے بقیع الغرقد میں تشریف لے گئے تھے۔ جب آپﷺ جنازہ سے فارغ ہوئے تو میں بھی وہاں پہنچ گیا۔ میں نے اپنے منصوبے کے مطابق اچانک آپﷺ کی چادر پکڑلی اور اسے خوب زور سے کھینچا۔چادر آپﷺ کے کندھے سے اتر گئی۔ میں نے ساتھ ہی نہایت کرخت لہجہ میں کہا: محمدﷺ !کیا میرا قرضہ واپس نہیں کروگے؟ تم بنو عبدالمطلب قرض واپس کرنے میں اچھے نہیں ہو۔ ادائے قرض میں بہت دیر کرتے ہو۔

زید کا مطالبہ بڑا ہی غیر معقول تھا۔ ابھی وعدے کی مدت میں کئی دن باقی تھے۔ پھر انداز ایسا بازاری کہ پورے خاندان کو شامل کر دیا۔ یہ انداز، یہ طریقہ کسی بھی شخص کو غصہ دلانے کیلئے کافی تھا۔ سیدنا فاروق اعظم ؓ بھی اس موقع پر موجود تھے اور اس یہودی کی بکواس کو سن رہے تھے ۔ اللہ کے رسولﷺ کے بارے میں ہر زہ سرائی سنی تو خاموش نہ رہ سکے۔

    سیدناعمر فاروقؓ گویا ہوئے : اے اللہ کے دشمن!تمہاری یہ جرات کہ تم اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ اس قسم کی گھٹیا گفتگو کررہے ہو۔ اس ذات کی قسم جس نے آپﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ، اگر مجھے اللہ کے رسول ﷺ کا خیال نہ ہوتا تو میں اس بدتمیزی پر تمہاری گردن اڑا دیتا۔ ادھر اللہ کے رسولﷺ کا اعلی اخلاق ملاحظہ کیجئے کہ زید بن سعنہ کے کوتاہی کو سن کر بھی مشتعل نہیں ہوئے بلکہ آپﷺ کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔

 زید بن سعنہ حیران تھا کہ اس قدر اشتعال انگیز گفتگو کے باوجود آپﷺ حسب سابق تبسم کناں ہیں۔ بلاشبہ آپ کا حلم غصہ پرسبقت لے گیا ہے۔زید بن سعنہ کہتا ہے کہ جب میں نے کھجوریں وصول کرلیں تو سیدنا عمر فاروقؓ سے کہا ،کیا تم نے مجھے پہچانا؟ عمر فاروقؓ نے کہا:تم ہی اپنا تعارف کروا دو۔ میں نے کہاکہ میں زید بن سعنہ ہوں، مشہور یہودی عالم ۔ میں حق کا متلاشی تھا۔ میں نے آپﷺ سے نبوت کی تمام صفات دیکھ لی تھیں۔ صرف2 صفتیں باقی رہ گئی تھیں جن کا تعلق آپﷺ کے تحمل، حوصلہ مندی اور بردباری سے تھا۔ آج میں نے ان2 صفات کا بھی خوب مشاہدہ کرلیا ہے۔ بلاشبہ اللہ کے رسول بنی آخری الزمانﷺ ہیں۔

    عمرؓ! میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں آج اسلام قبول کرتا ہوں۔پھر زید بن سعنہ سیدنا عمر بن خطاب ؓ کی معیت میں مسجد نبوی شریف میں آئے اور سب کے سامنے واشگاف الفاظ میں کہا: ا شہد ان لا الہ الا ا للہ وان محمد رسول اللہ۔ حضرت زید بن سعنہ اسلام قبول کرنے کے بعد تمام غزوات میں آپﷺ کے ہمرکاب رہے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

متوازن غذا ضروری ہے!

’’مما! آج کیا پکایا ہے؟‘‘ عائشہ سکول سے واپس آئی تو آتے ہی بے تابی سے پوچھا، اسے شدید بھوک لگی تھی۔

مغرور اونٹ کی کہانی

کسی جنگل میں ایک مغرور اونٹ رہتا تھا۔ اسے اپنے لمبے قد اور چال ڈھال پر بڑا ناز تھا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ میں سب سے اعلیٰ ہوں۔ اس کا جہاں جی چاہتا منہ اْٹھا کر چلا جاتا اور سب جانوروں سے بدتمیزی کرتا رہتا۔ کوئی جانور اگر اسے چھیڑتا تو وہ اس کے پیچھے پڑ جاتا۔ اس کے گھر کے قریب چوہے کا بل تھا اور اونٹ کو اس چوہے سے سب سے زیادہ نفرت تھی۔ وہ اس چوہے کو نہ جانے کیا کیا القابات دیتا رہتا لیکن چوہا ہنس کے ٹال دیتا تھا۔ جنگل کے سب جانور ہی اونٹ سے اس کے تکبر کی وجہ سے تنگ تھے اور چاہتے تھے کہ اسے اس کے کیے کی سزا ملے مگر ابھی تک اونٹ کو کھلی چھٹی ملی ہوئی تھی۔

پہیلیاں

ہو اگر بخار کا مارا کیوں نہ چڑھے پھر اُس کا پارہ (تھرما میٹر)

بکری میری بھولی بھالی

بکری میری بھولی بھالی بکری میری بھولی بھالی کچھ تھی بھوری کچھ تھی کالی

ذرامسکرایئے

ماں : گڈو ! میں نے پلیٹ میں کیک رکھا تھا ، وہ کہاں گیا؟ گڈو : امی مجھے ڈر تھا کہ کیک کہیں بلی نہ کھا جائے ، اس لیے میں نے کھا لیا۔ ٭٭٭

کیا آ پ جانتے ہیں؟

٭:صرف کولاس (koalas) اور انسان ہی دنیا کے وہ جاندار ہیں جن کے فنگر پرنٹس ہوتے ہیں۔ ٭:آکٹوپس(octupus) کے تین دل ہوتے ہیں۔