پیغمبر امنﷺ اور ہمارا معاشرہ
حضور اکرمﷺ کی ذات گرامی ساری انسانیت کے حق میں نعمت عظمیٰ ہے۔ آپ ﷺ کی بعثت سے قبل جاہلیت کا دور دورہ تھا۔ بشمول جزیرہ عرب ساری دنیا جہالت کی تاریکیوں میں گھری ہوئی تھی۔ لوگ بداعتقادی، توہم پرستی اور کفر و شرک کے دلدل میں پھنسے ہوئے تھے۔
فحاشی وبے حیائی عام تھی، ظلم و زیادتی اور حق تلفی عام تھی، سودخوری اورجوابازی کا بازار گرم تھا، سرعام مے نوشی و خون ریزی کی جاتی۔ لوگوں کے درمیان محبت والفت کے تعلقات نہ تھے بلکہ عداوت و دشمنی، بغض و عناد ان کے مابین عام تھا۔ ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ سے مخالفت رکھتا،ایک خاندان دوسرے خاندان کو ناپسند کرتا تھا، نفرت و مخالفت کی وجہ سے دو قبیلوں کے درمیان لڑائی اور جنگ کی نوبت آتی۔ چھوٹی سی بات پرعرب کے دو قبیلوں ’’اوس و خزرج‘‘ کے درمیان تکرار ہوئی اور تکرار کی یہ حالت جنگ میں تبدیل ہو گئی۔ اوس و خزرج کے درمیان چھڑی یہ جنگ 120 سال جاری رہی۔
اس دہشت ناک ماحول میں انسانی جان کیسے محفوظ رہ سکتی تھی؟ جان کی ارزانی کا یہ عالم تھا تو مال کی تباہی و بربادی کا کیا پوچھنا؟ دلوں میں شدت و سختی تھی، تعلقات میں کشیدگی تھی، خود غرضی، دھوکہ دہی، غرور و تکبر کو لوگ اپنی شان سمجھتے تھے۔ ایسے نازک وقت میں بھٹکتی ہوئی انسانیت کو راہ راست پر لانے کیلئے، کفر و شرک کی ظلمتوں سے نکال کر ایمان و اسلام کے انوار سے منور کرنے اور جہالت و ناخواندگی کو مٹا کر دولت علم سے مالامال کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے محسن انسانیت، رحمت للعالمین ﷺکو ختم نبوت کی خلعت فاخرہ پہناکر تمام مخلوق کی طرف بھیجا۔ نبی کریمﷺ اس قتل و غارت کے معاشرے میں پیکر امن بن کر تشریف لائے۔ وہ معاشرہ جس میں انسان کی عزت و تکریم کا کوئی تصور نہ تھا، آقا ﷺاس معاشرے میں رہے اور اس معاشرے کے برے رسم و رواج سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے انسان کی تکریم و عظمت کا سبق دیا،قتل و غارتگری سے منع کیا،ان پڑھوں کو پڑھنا لکھنا سکھایا،دشمنی کرنے والوں کو محبت کرنا سکھایا، خون خرابہ کرنے والوں کو خون کی حفاظت کرنا سکھایا،معاشرے میں جبر اور بربریت کرنے والوں کو رحمت کا طریقہ سکھایا۔
آپ ﷺنے معاشرے
کو کیسے تبدیل کیا؟
عرب معاشرہ کس راستہ اور روش پر گامزن تھا اور جو نیا راستہ آقاﷺنے عطا کیا ان دونوں کا تذکرہ سیرت کی کتب میں مذکور ہے۔ پانچ اور چھ سن نبوت میں جب مکہ کے لوگوں نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی حد کردی۔ صحابہ کرامؓ کمزور اور پریشان حال تھے تونبی کریم ﷺ نے انہیں حبشہ ہجرت کرنے کا حکم دیا۔یہ تاریخ اسلام میں پہلی ہجرت تھی۔ قریش مکہ نے اپنا وفد حبشہ بھیجا تاکہ وہ شاہ حبشہ نجاشی کو اس بات پر قائل کرے کہ وہ مسلمانوں کو واپس مکہ بھیج دے۔بادشاہ نے قریش مکہ کے وفد کا موقف سنا اور مہاجر صحابہ کرام ؓ کو بلایااور ان سے سوال کیا:قریشِ مکہ کا یہ کہنا ہے کہ یہ لوگ ہمارے دین کی روش سے پھر گئے ہیں۔ ہمارا عقیدہ، مذہب، کلچر اور روایت ایک تھی۔ انہوں نے ان روایات، آبائی مذہب، کلچر اور عقائد کو چھوڑ دیا ہے اور ایک نیا مذہب اختیار کرلیا ہے۔ اے مسلمانوں! وہ کونسا نیا دین ہے جس کیلئے تم نے اپنے آباؤ اجداد کا مذہب ترک کر دیا؟
حضرت جعفر بن ابی طالب ؓکھڑے ہوئے اور دین محمدی کے نمایاں پہلو شاہِ حبشہ کے سامنے بیان کیے: ’’اے بادشاہ! ہم جاہل، غیر تہذیب یافتہ اور وحشی قوم تھے۔ ہم بتوں کی پوجا کرتے اور مردار کھاتے تھے۔ ہم قطع رحمی کرتے اور پڑوسیوں کے حقوق سے ناآشنا تھے۔ ہم میں سے طاقتور اپنے سے کمزور کو کھا جاتا تھا۔ہم ان ہی برائیوں پر تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم میں سے ہی ایک رسول ﷺ مبعوث فرمایا، جس کا نسب ہم جانتے ہیں۔ انہوں نے ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف بلایا تاکہ ہم اس کی توحید کو تسلیم کریں اور اس کی عبادت کریں۔ ان پتھروں اور بتوں کی پوجا ترک کردیں، جن کی ہم اور ہمارے آبائواجداد پرستش کرتے چلے آرہے تھے۔ نبی اکرم ﷺنے جو ہمیں دعوت دی اور جو راستہ دکھایا، وہ یہ تھا کہ انہوں نے ہمیں سچ بولنے، امانت ادا کرنے، صلہ رحمی کرنے، پڑوسیوں کے ساتھ عمدہ سلوک کرنے، محرمات سے اجتناب کرنے، خون ریزی سے بچنے اور برائیوں سے رکنے کا حکم دیا۔ ہمیں حکم دیا کہ ہم جھوٹ نہ بولیں، یتیم کا مال نہ کھائیں ۔ اس نئے طریقے کو قبول کرنے کے نتیجے میں ہماری قوم ہمارے خلاف ہو گئی‘‘(صحیح ابن خزیمہ: 2260)۔ شاہِ حبشہ نجاشی کے دربار میں بیان کردہ انہی اصولوں اور صفات کو حضور نبی اکرمﷺ نے دیگر مختلف مواقع پر بھی بیان فرمایا۔ جن کے مطالعہ سے یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ کس طرح نبی کریم ﷺ ان معاشرتی رسوم و رواج سے جدا و علیحدہ ہوئے اور کن تعلیمات اور اقدار کو معاشرہ میں پروان چڑھایا۔
مدینہ کے قبائل سے امن معاہدہ
621ء میں ہجرت مدینہ سے پہلے اوس و خزرج کے لوگ یثرب (مدینہ) سے آئے۔ نبی کریم ﷺ چونکہ معاشرے کی روش سے جدا تھے، اس معاشرے میں رہ کر معاشرے کی بری عادتوں سے پاک تھے اور دوسروں کو بھی ان سے بچنے کی تلقین فرماتے۔ یثرب کی سرزمین پر صدیوںسے اوس و خزرج کے درمیان جاری جنگوں میں کوئی مصالحت کرانے والا نہ تھا، انہیں امن و دوستی کا سبق دینے والاکوئی نہ تھا۔ وہ یثرب میں تھے انہوں نے اڑھائی تین سو میل دور محمد مصطفی ﷺ کی شانِ امن کو سنا۔ پس اوس و خزرج کے قبائل نبی کریم ﷺکو مکہ میں بطورِ خاص ملے۔ اس دوران آقا ﷺ کو دعوت بھی دی کہ آپﷺ آئیں تاکہ صدیوں سے جاری ہماری دشمنیاں ختم ہوجائیں اور قتل و غارتگری امن میں بدل جائے۔ نبی کریم ﷺ کو مدینہ آنے کی دعوت دینا آپﷺ کے پیغمبرِ امن ہونے کی بنیاد پر تھی۔صحیح مسلم میں ہے، حضرت عبادہ بن صامت ؓ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے اس وفد سے درج ذیل نکات پر حلف لیا۔ ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے،چوری یا ڈاکہ زنی کے مرتکب نہیں ہوں گے، بدکاری کا ارتکاب نہیں کریں گے،بچیوںکو قتل نہیں کریں گے، کسی پر الزام تراشی یا اس کی غیبت نہیں کریں گے، عورتوں پر تہمت نہیں لگائیں گے،ہمیشہ عفت و عصمت اور حیاء والی زندگی گزارینگے،ہم حق اور سچ کو اپنی زندگی کا مشن بنا کر چلیں گے اور ثابت قدم رہیں گے۔
حضور نبی اکرمﷺ نے جس روش، طریقہ اور راستہ پر اس معاشرے کے لوگوں کو چلایا ، وہ معاشرہ ان اقدار سے پہلے آگاہ نہ تھا۔ آپ ﷺ اس معاشرے کے اندر پیدا ہوئے اور ایک نئے اقدار کی کائنات آباد کردی، دنیا کو نئی افق پر لے گئے، انسانیت کو نیا مقام عطا کر دیا۔نبی کریم ﷺ اس معاشرے میں سچائی، عدل اور انصاف کا درس دے رہے ہیں، جہاں ان اقدار کا خواب و خیال بھی نہ تھا۔ آپﷺ معاشرے کو جھوٹ سے بچا رہے ہیں، قتل کی جگہ امن کا درس دے رہے ہیں۔ حدیث مبارکہ میں ہے: حضرت ابوامامہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول کریمﷺنے فرمایا:میں جنت کے مضافات میں ایک گھر میں اس شخص کیلئے پیشوا ہوں جو جھگڑا چھوڑ دے، اگرچہ وہ حق پر ہو، جھوٹ ترک کرنے والے کو جنت کے درمیان ایک گھر کی ضمانت دیتا ہوں اگرچہ وہ مزاح کے طور پر جھوٹ بولتا ہو اور اچھے اَخلاق والے کو جنت کے اعلیٰ درجے میں ایک گھر کی ضمانت دیتا ہوں (ابو داؤد:4800)۔حضرت ابو الدرداء ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:کہ کوئی بھی چیز میزان میں حسن اخلاق سے زیادہ وزنی نہیں(ابوداؤد: 4799 )۔حضرت نواس بن سمعانؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اچھا اخلاق ہی نیکی ہے اور برائی یہ ہے جو کرنے کے بعد تیرے دل میں کھٹکے اور تو ناپسند کرے کہ لوگوں کو تیری کی ہوئی برائی کا علم ہو جائے (صحیح مسلم: 2553)۔
شرم و حیا اور ہمارا معاشرہ
نبی کریمﷺ نے بدکاری کی جگہ حیا اور شرم کا درس دیا۔ شر م و حیا ایسا وصف ہے جو صرف انسان میں پایا جاتا ہے اور یہ جانور اور انسان کے درمیان فرق کی بنیادی علامت ہے۔ اگر لب و لہجے، حرکات و سکنات اور عادات و اطوار سے شرم و حیا رخصت ہو جائے تو باقی تمام اچھائیوں پر خود بخود پانی پھر جاتا ہے۔ رسولِ کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر (صحیح بخاری: 3484)۔ معلوم ہوا کہ کسی بھی برے کام سے رکنے کا ایک سبب شرم و حیا بھی ہے۔ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:بے شک حیا اور ایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں، جب ایک اُٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔ (مستدرک للحاکم، :66)۔ اسلام ہی ایسا مذہب ہے جو حقیقی حیا کو فروغ دیتا ہے۔رسولِ خدا ﷺ نے ایسی تعلیمات عطا فرمائی ہیں جن پر عمل کرنا پورے معاشرے کو حیا دار بنا سکتا ہے۔
پرامن معاشرہ اورفرامین رسولﷺ
اسلام معاشرے میں خیر و بھلائی اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کا درس دیتاہے۔ حضرت علیؓسے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ جب اسلامی لشکر کو مشرکین کی طرف روانہ فرماتے تو یوں ہدایات دیتے: اسلامی لشکر کسی بچے کو قتل نہیں کرسکتے، عورت کو قتل نہیں کرسکتے، بوڑھے کو قتل نہیں کرسکتے، جس چشمے سے پانی نکلتاہو اس کو خشک نہیں کرسکتے اور جنگ میں حائل درختوں کے علاوہ سر سبز درختوں کو کاٹ نہیں سکتے۔ انسان کی لاش کو مسخ نہیں کرسکتے، وعدے کو توڑ نہیں سکتے(سنن الکبریٰ للبیہقی: 17934)۔
ایک اور مقام پر فرمایا:خبردار! جس نے کسی غیر مسلم شہری پر ظلم کیا یا اس کا حق مارا یا اس پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ ڈالا یا اس کی دلی رضا مندی کے بغیر کوئی چیز اس سے چھین لی تو قیامت کے دن میں اس کی طرف سے جھگڑا کروں گا(ابوداؤد: 3052)۔ آج سے چودہ سو سال قبل انسانیت کس حال میں تھی، کیسا جبر، بربریت، قتل و غارتگری کا ماحول تھا۔ آقا ﷺ نے اس بربریت کے ماحول سے انسانیت کو جدا کرتے ہوئے بلند کر دیا۔
جنت کی ضمانت
حضرت ابو شریح ؓروایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! مجھے ایسا عمل، راستہ اور طریقہ زندگی بتائیں جسے اپناؤں تو مجھے جنت مل جائے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:گفتگو مسکرا کر کیا کرو، تمہاری گفتگو میں نرمی و مٹھاس ہو،دشمنی عداوت کو مٹاؤ اور ہر طرف امن و سلامتی کو پھیلاؤ، بھوکوں کوکھاناکھلاؤ(صحیح ابن حبان:504)۔
سائل جنت میں جانے والا عمل پوچھ رہاہے، آپ ﷺ یہ بھی فرماسکتے تھے کہ پنجگانہ نماز پڑھو، روزے رکھو، حج کرو، زکوٰۃ دو، تسبیح کرو، اللہ اللہ کرو مگر نبی کریم ﷺ نے چہرے کی مسکراہٹ کو جنت کا راستہ بتایا، جس معاشرے میں قتل و غارتگری ہو رہی ہے، وہاں نبی کریمﷺ امن وسلامتی پھیلانے کو جنت کا راستہ بتا رہے ہیں،جس معاشرے میں کسی کو بھوکے کی پرواہ نہیں، وہاں بھوکوں کو کھانا کھلانا جنت کا راستہ بتارہے ہیں۔