کل49ویں برسی ن۔م۔راشد کی شعری کائنات

تحریر : محمد ارشد لئیق


ن م راشد بیسویں صدی کے چند اہم شاعروں سے ایک ہیں، عام طور پر ان کی اہمیت کو اس عنوان سے تسلیم کیا جاتا رہا ہے کہ انہوں نے اردو میں آزاد نظم کو رواج دیا اور شاعری میں اظہار کے مختلف تجربے کئے۔ 1935ء سے لے کر 1947ء تک بلکہ اس کے بعد بھی چار چھ برس تک جس انداز کی تنقید ہمارے ادب میں خوب وزشت کی میزان بنی رہی وہ راشد کے اس کارنامے سے آگے کچھ اور نہیں دیکھ سکی۔

نقادوں کو ان کی شاعری میں ابہام سے شکایت رہی اور جن کے ذہن پراگندہ تھے انہوں نے فحش و ابتذال کا الزام لگا کر جی خوش کر لیا۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ ہم ایک مدت تک اپنی زبان کے ایک بہت ہی اچھے شاعر کی قدر شناسی نہ کر سکے ۔ن م راشدکا کارنامہ صرف یہ نہیں ہے کہ انہوں نے نظم آزاد کے سانچے کو اردو میں مقبول بنایا۔ ان کی شاعری میں سانچے کی حیثیت محض جام کی نہیں ہے بلکہ وہ نظم کے کل وجود کا مظہر ہوتا ہے۔ اگر یہ بات سمجھ میں آ جائے تو معلوم ہوگا کہ راشد کا زیادہ اہم کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ارد ومیں جدید نظم کی داغ بیل ڈالی۔ یہ جتانے کی شاید ضرورت نہیں کہ جدید نظم کئی اعتبار سے اس نظم سے مختلف ہے جسے حالی اور آزاد نے اردو میں رائج کیا تھا اور جس کو اقبالؒ نے درجہ کمال پر پہنچایا۔

ن م راشد پر کم لکھا گیا ہے تو اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ راشد بہت ہی منفرد شاعر ہیں۔ ان کی انفرادیت تنقید کیلئے ایک چیلنج ہے۔ فارمولے کی تنقید اس چیلنج کو قبول کرنے کی ہمت ہی نہیں کر سکتی۔ راشد کی شاعری ہر اچھی اور بڑی شاعری کی طرح اپنے لئے ایک جداگانہ تنقید کا مطالبہ کرتی ہے جو خود اس شاعری سے روشنی حاصل کرکے اس کے مطالعے، تفہیم اور تحسین کی راہ دریافت کرے۔ اپنے ہم عصروں میں راشد ہی ایک ایسے شاعر ہیں جن کی تخلیق کے سوتے منجمد یا خشک نہیں ہوئے ۔ ان کی شاعری میں ویسی ہی تازگی کا احساس ہوتا ہے جیسی ان سے تیس پنتیس برس پہلے اس وقت کی شاعری میں محسوس ہوتا تھا۔ راشد کی شاعری اپنے منفرد طرز احساس اور اظہار کے متنوع اسالیب کے ساتھ جدید شاعروں کو متاثر کرتی اور تحریک دلاتی رہی ہے۔

 حالات زندگی 

ن م راشد یکم اگست 1910ء کو گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ 1926ء میں میٹرک، 1928ء میں انٹر میڈیٹ اور 1930ء میں بی اے کا امتحان پاس کیا۔ انہوں نے آئی سی ایس/ پی سی ایس میں بھی قسمت آزمائی کی لیکن ناکام رہے۔ اسی عرصہ میں انہوں نے منشی فاضل کا امتحان بھی پاس کیا۔ ایم اے کرنے کے بعد وہ اپنے والد کے ساتھ مختلف شہروں میں رہے اور خاصا وقت شیخوپورہ اور ملتان میں گزارا۔ 1934ء میں رسالہ ’’شہکار‘‘ کی ادارت کی۔ ملتان میں کمشنر کے دفتر میں بطور کلرک بھی ملازمت کی۔ 1935ء میں ان کی شادی ہوئی۔

 1939ء میں ان کا تقرر آل انڈیا ریڈیو میں بطور نیوز ایڈیٹر ہوا اور اسی سال پروگرام اسسٹنٹ بنا دیئے گئے، پھر انھیں ڈائریکٹر پروگرام کے عہدہ پر ترقی دے دی گئی۔ 1942ء میں فوج میں عارضی کمیشن حاصل کر کے سمندر پار چلے گئے۔1943ء سے 1947ء تک وہ انٹر سروسز پبلک ریلیشنز ڈائریکٹریٹ انڈیا کے تحت عراق، ایران، مصر، سری لنکا میں رہے۔ فوج کی مدت ملازمت کے خاتمہ پر وہ آل انڈیا ریڈیو میں واپس آ گئے ۔ ملک کی تقسیم کے بعد وہ ریڈیو پاکستان پشاور پر مامور کئے گئے، 1949ء میں ریڈیو پاکستان کے صدر دفتر کراچی میں ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز بنا دیا گیا۔

 1952 میں وہ اقوام متحدہ میں شامل ہوئے اور نیو یارک، جکارتہ،کراچی اور تہران میں اقوام متحدہ کے شعبہ اطلاعات میں کام کرتے رہے۔ شاعری کے علاوہ راشد کے دوسرے شوق گھڑسواری، شطرنج،کشتی رانی تھے۔ راشد کا انتقال 1975 میں دل کی حرکت رک جانے سے انگلینڈ میں ہوا۔

ن م راشد کے چار شعری مجموعے ’’ماورا‘‘( 1942)، ’’ایران میں اجنبی‘‘ (1955)، ’’لا انسان‘‘(1969) اور ’’گماں کا ممکن‘‘ (1977) شائع ہوئے۔ ایران میں قیام کے دوران انھوں نے 80 جدید فارسی شعرا کے کلام کا ترجمہ ’’جدید فارسی شاعر‘‘ کے نام سے مرتب کیا۔

گو کہ اس میں شک نہیں کہ ن م راشداپنے ہم عصروں میں ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں اور اس دور کے اہم ترین شاعروں میں سے ایک ہیں۔ آزاد نظم پر انہیں بھرپور دسترس حاصل تھی ، زمانی اعتبار سے بھی اور معیار کے اعتبار سے بھی۔ راشد کے بارے میں یہ تاثر ان کا مجموعہ کلام ’’لا۔انسان‘‘ کے مطالعے کے بعد قائم ہوتا ہے۔ ان کی شاعری میں ایک ارتقائی کیفیت بھی ہے ۔ ان کی ابتدائی شاعری یعنی ’’ماورا‘‘ کی شاعری محدود معنوں میں رومانوی ہے۔

ان کے دوسرے دور کی شاعری یعنی ’’ایران میں اجنبی‘‘ کی شاعری میں ان کے سیاسی افکار کا عکس بھی ہے۔’’ایران میں اجنبی‘‘ کا دوسرا حصہ جسے راشد نے ’’کانتو‘‘ کہا ہے اور جسے اکثر راشد کے انٹرنیشنل وژن سے بھی تعبیر کیا گیا ہے، اس حصے کی بہترین نظم ’’تماشا گہِ لالہ زار‘‘ ہے جس میں ان کا رجائی نقطۂ نظر کافی نمایاں ہے۔

بنیادی طور پر راشد ایک دانش اور شاعر ہیں اور ان کے دوسرے اور تیسرے دور کی شاعری پر ان کی دانشورانہ فکر حاوی ہے۔ ان کی شاعری میں تواریخ، اساطیر، مذہبی کتابوں، دانشورانہ تصورات اور عصری صورتِ حال کے حوالے اکثر جگہ نظر آتے ہیں، جس نے کہیں کہیں ان کی شاعری کو کافی بوجھل بنا دیا ہے۔ اس کی وجہ فارسی اور عربی کے نامانوس الفاظ کی کثرت بھی ہے۔

راشد کا لہجہ

راشد کی شعری کائنات کے مرکز و محور کی مماثلت کے علاوہ اگر ہم غور کریں تو راشد کے لہجے کی تشکیل بھی انہیں عناصر سے ہوئی ہے جو بار بار ہمیں اقبال کی یاد دلاتے ہیں اور جن لوگوں کے کان اقبال کی شاعری اور اس کے لہجے سے آشنا ہیں وہ اسے پہچاننے میں دقت نہ محسوس کریں گے۔ مثلاً یہ ٹکڑے دیکھئے:

رہی ہے حضرتِ یزداں سے دوستی میری 

رہا ہے زہد سے یارانہ اُستوار مرا

گزر گئی ہے تقدس میں زندگی میری

دل اہرمن سے رہا ہے  ستیزہ کار  مر ا 

(نظم:مکافات)

………

یہاں عدم ہے نہ فکر وجود ہے گویا

یہاں  حیات مجسم سرود ہے گویا    

(نظم:زندگی، جوانی، عشق)

بنالی اے خدا اپنے لئے تقدیر بھی تو نے

اورا نسانوں سے لے لی جرأت تدبیر بھی تو نے

اسی غورو تجسس میں کئی راتیں گزاری ہیں

میں اکثر چیخ اٹھتا ہوں بنی آدم کی ذلت پر

(نظم :انصاف)

………

جس جگہ سے آسماں کا قافلہ لیتا ہے نور

جس کی رفعت دیکھ کر خود ہمتِ یزداں ہے چور

( نظم : وادیٔ پنہاں)

ن م راشد کی غزلیں

جو بے ثبات ہو اس سر خوشی کو کیا کیجے

یہ زندگی ہے تو پھر زندگی کو کیا کیجے

رکا جو کام تو دیوانگی ہی کام آئی

نہ کام آئے تو فرزانگی کو کیا کیجے

یہ کیوں کہیں کہ ہمیں کوئی رہنما نہ ملا

مگر سرشت کی آوارگی کو کیا کیجے

کسی کو دیکھ کے اک موج لب پہ آ تو گئی

اٹھے نہ دل سے تو ایسی ہنسی کو کیا کیجے

ہمیں تو آپ نے سوز الم ہی بخشا تھا

جو نور بن گئی اس تیرگی کو کیا کیجے

ہمارے حصے کا اک جرعہ بھی نہیں باقی

نگاہ دوست کی مے خانگی کو کیا کیجے

جہاں غریب کو نان جویں نہیں ملتی

وہاں حکیم کے درس خودی کو کیا کیجے

وصال دوست سے بھی کم نہ ہو سکی راشد

ازل سے پائی ہوئی تشنگی کو کیا کیجے

٭٭٭٭٭

ترے کرم سے خدائی میں یوں تو کیا نہ ملا

مگر جو تو نہ ملا زیست کا مزا نہ ملا

حیات شوق کی یہ گرمیاں کہاں ہوتیں

خدا کا شکر ہمیں نال? رسا نہ ملا

ازل سے فطرت آزاد ہی تھی آوارہ

یہ کیوں کہیں کہ ہمیں کوئی رہنما نہ ملا

یہ کائنات کسی کا غبار راہ سہی

دلیل راہ جو بنتا وہ نقش پا نہ ملا

یہ دل شہید فریب نگاہ ہو نہ سکا

وہ لاکھ ہم سے بہ انداز محرمانہ ملا

کنار موج میں مرنا تو ہم کو آتا ہے

نشان ساحل الفت ملا ملا نہ ملا

تری تلاش ہی تھی مایہ بقائے وجود

بلا سے ہم کو سر منزل بقا نہ ملا

٭٭٭٭٭

تو آشنائے جذبہ الفت نہیں رہا

دل میں ترے وہ ذوق محبت نہیں رہا

پھر نغمہ ہائے قم تو فضا میں ہیں گونجتے

تو ہی حریف ذوق سماعت نہیں رہا

آئیں کہاں سے آنکھ میں آتش چکانیاں

دل آشنائے سوز محبت نہیں رہا

گل ہائے حسن یار میں دامن کش نظر

میں اب حریص گلشن جنت نہیں رہا

شاید جنوں ہے مائل فرزانگی مرا

میں وہ نہیں وہ عالم وحشت نہیں رہا

ممنون ہوں میں تیرا بہت مرگ ناگہاں

میں اب اسیر گردش قسمت نہیں رہا

جلوہ گہہ خیال میں وہ آ گئے ہیں آج

لو میں رہین زحمت خلوت نہیں رہا

کیا فائدہ ہے دعوئے عشق حسین سے

سر میں اگر وہ شوق شہادت نہیں رہا

٭٭٭٭٭

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

ICC CHAMPIONS TROPHY 2025,روایتی حریف کا پاکستان آنے سے انکار

آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی2025ء میگا ایونٹ کا نواں ایڈیشن ہو گا، یہ ایک بین الاقوامی کرکٹ ٹورنامنٹ ہے جس کا مقابلہ ایک روزہ بین الاقوامی(او ڈی آئی)کی مردوں کی قومی ٹیموں کے درمیان ٹاپ آٹھ درجہ بندی پر ہوتاہے، اس کا اہتمام انٹرنیشنل کرکٹ کونسل(آئی سی سی)کرتاہے اور اس کی میزبانی پاکستان 19 فروری سے 9 مارچ 2025ء تک کرے گا۔ پاکستان دفاعی چیمپئن ہے، جس نے 2017 ء میں چیمپئنز ٹرافی کا پچھلا ایڈیشن جیتا تھا۔

علامہ محمد اقبالؒ کا کلام پیغامِ خود افروزی و جگر سوزی

اقبالؒ کے مطابق خودافروزی ذات کے امکانات کی دریافت کا نام ہے اور جگر سوزی ان امکانات کے حصول کیلئے تسلسل اور محنتِ شاقہ سے تگ و دو کرنے سے عبارت ہے

علامہ محمد اقبالؒ اور مسئلہ فلسطین

جس طرح آج دنیا کاہرحساس فرد غزہ پر ہونے والے حملوں پر مضطرب ہے نصف صدی قبل جب اسرائیل کی بنیاد رکھی گئی عالم اسلام میں اس سے زیادہ اضطراب پیدا ہوا تھا جس کا ایک مظہر یہ بھی تھا کہ اس وقت اقبالؒ اپنی قوم کی آزادی کے مسئلے پر برطانوی حکومت کی بلائی ہوئی گول میز کانفرنس میں شرکت کیلئے لندن گئے ہوئے تھے۔

اقبالؒ کی سائنسی فکر و تصورات

شاعر مشرق ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبالؒ ایک ایسے فلسفی اور مدبر ہیں جن کہ ہمہ جہت شخصیت کے مختلف رنگ ہمارے سامنے آ رہے ہیں۔ ہم نے ان کو محض شاعر سمجھ کر رٹ لیا ہے یہ کہا جا سکتا ہے کہ آئندہ کئی صدیاں بھی اقبالؒ کی ہیں افسوس کا مقام ہے کہ ہماری نئی نسل اقبالؒ کے کلام کو نہیں سمجھ پا رہی لیکن وہ اقبالؒ سے بہت پیار کرتی ہے۔

قول و فعل میں تضاد، انسان کی بدترین صفت

ـ’’اللہ کے نزدیک بڑی نا پسند بات ہے جو کہو اس کو کرو نہیں‘‘ (سورۃ الصف: 3) جو لوگوں کو نیکی کا حکم دیتا ہے اور خود عمل نہیں کرتا اس عالم کی مثال اس چراغ کی مانند ہے جو لوگوں کو تو روشنی دیتا ہے جبکہ اپنے نفس کو جلا دیتا ہے(طبرانی: 1681)کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کا دل اس کی زبان کے مطابق نہ ہو جائے اور اس کا قول اس کے عمل کی مخالفت نہ کرے (الترغیب و الترھیب: 223)

کثرت دعا کا حکم!

’’اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں فکر سے، غم سے، کم ہمتی سے، کاہلی و بزدلی سے، کنجوسی سے، قرض کے بوجھ سے اور لوگوں کے دباؤ سے‘‘(بخاری و مسلم) اللہ کی پناہ مانگو بلاؤں کی سختی سے ، بدبختی کے لاحق ہونے سے، بری تقدیر سے اور دشمنوں کی ہنسی سے(متفق علیہ)