وزیراعلیٰ کی گمشدگی،سوالات اور شبہات
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور جس طرح ڈی چوک پہنچے اور پھر وہاں سے اچانک خیبرپختونخوا ہاؤس میں نمودار ہوئے اس پر کئی اطراف سے انگلیاں اُٹھ رہی تھیں لیکن ان کی وہاں سے پُر اسرار گمشدگی اور اچانک خیبرپختونخوا اسمبلی پشاور میں نمودار ہونے سے یہ صورتحال مزید مشکوک ہو گئی۔
وزیراعلیٰ تمام رکاوٹیں عبور کرنے اور ڈی چوک پہنچنے کے بعد خیبرپختونخوا ہاؤس کیوں گئے،یہ وہ سوال ہے جو پارٹی کے اندر سے بھی اٹھنا شروع ہوگیا ہے۔ بیشتر وزیر ،ایم پی ایز ،ایم این ایز حتیٰ کہ پارٹی کے مرکزی رہنما بھی اس کا جواب جانناچاہتے ہیں۔ کئی طرح کے شکوک وشبہات پیدا ہوگئے ہیں۔ پہلی بار ایسا نہیں ہوا، اس سے قبل سنگجانی جلسے کے بعد بھی وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پُر اسرا ر طور پر غائب ہو گئے تھے مگر اگلی صبح جب ظاہر ہوئے تو کہہ دیا کہ وہ انتہائی اہم میٹنگ کیلئے گئے تھے جہاں موبائل فون کام نہیں کررہاتھا۔ پارٹی کے کچھ لوگوں نے اس وضاحت پر یقین کیا اور کچھ نے نہیں ،لیکن گزشتہ اتوار کو جو صورتحال بنی اس نے کئی سنجیدہ سوالات کھڑے کردیئے ہیں جو ہنوز جواب طلب ہیں۔ ان سوالات کے جوابات ضرور سامنے آنے چاہئیں ورنہ علی امین گنڈاپور صاحب کی پارٹی کے اندر پوزیشن کمزور پڑ سکتی ہے۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوانے صوبائی ا سمبلی میں اپنی واپسی کا جو قصہ سنایا وہ بھی کسی سنسنی خیز فلم سے کم نہیں۔ اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہوگی کہ ایک صوبے کا چیف ایگزیکٹو کہہ رہا تھا کہ اسے اپنی پولیس پر اعتماد نہیں۔ یہاںسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خیبرپختونخوا کی حدود میں داخل ہونے کے بعد کیا امر مانع تھا کہ انہوں نے اپنے آئی جی اور چیف سیکرٹری کواپنی موجودگی سے آگاہ نہیں کیا ؟اگرصوبے کے چیف ایگزیکٹو کو اپنے ماتحت افسروں پر اعتماد نہیں تو کیا انہیں اس کرسی پر رہنا چاہئے ،یہ وہ سوال ہے جو اپوزیشن کی جانب سے اٹھایاجارہا ہے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی وضاحت کے مطابق انہیں پولیس پر اعتبار نہیں ،وہ اپنی واپسی کا جو رستہ بتارہے ہیں وہ اس سے بھی زیادہ دلچسپ اور حیرت انگیز ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ جی ٹی روڈ سے آتے انہوں نے مونال والا راستہ کیوں اختیار کیا؟پھر جب وہ خیبرپختونخوا کی حدود میں داخل ہوگئے تھے تو اس کے بعد بھی وہ اپنی پولیس کو کیوں نہیں بلا رہے تھے؟ یہاں مختلف سوالات اُٹھ رہے ہیں،پہلا سوال تو یہ ہے کہ وہ خیبرپختونخوا ہاؤس کی طرف گئے ہی کیوں؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ جب کے پی ہاؤس مکمل محاصرے میں تھا تو وہ وہاں سے نکلے کیسے؟ تیسرا سوال یہ کہ انہوں نے جی ٹی روڈ کے بجائے ایک غیر محفوظ اور غیر روایتی راستہ کیوں اختیار کیا؟چوتھا سوال یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کی حدود میں داخل ہونے کے بعد وہ ہری پور گئے،ہری پور سے واپس ایبٹ آباد،وہاں سے مانسہرہ،شانگلہ اور پھرسوات سے اُتر کر نوشہرہ سے ہوتے ہوئے چارسدہ پہنچے۔جب وزیراعلیٰ ہری پور پہنچ ہی گئے تھے تو انہیں ایبٹ آباد کی طرف جانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ وہ وہاں سے سیدھے پشاور بآسانی آ سکتے تھے۔ اسے یقینا مضحکہ خیزصورتحال ہی کہاجاسکتا ہے۔ وزیراعلیٰ کی اس وضاحت کے بعد مزید سوالات در سوالات جنم لے رہے ہیں۔ یہ کوئی اطمینان بخش صورتحال نہیں۔ اگر اسلام آباد احتجاج کے دوران کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوا ہے تو اُسے بھی سامنے لایا جانا چاہئے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ کی وضاحت سے ان کے بیشتر پارٹی ارکان بھی مطمئن نہیں۔ یہ بات بھی بتائی جارہی ہے کہ پی ٹی آئی اب اپنے احتجاج کا لائحہ عمل تبدیل کرنے جارہی ہے، جس کی تصدیق اسد قیصر نے بھی کی ہے۔ اُن کے مطابق اب اضلاع کی سطح پر مظاہرے ہوں گے۔ ذرائع کے مطابق ایسی ایڈجسٹمنٹ کی گئی ہے جس کے مطابق دوبارہ اسلام آباد جیسا واقعہ رونمانہ ہو اور یہ یقین دہانی وزیراعلیٰ کی جانب سے کرائی گئی ہے۔ اسد قیصر کا بیان بھی اس بات کی تصدیق کررہا ہے۔
ان سطور میں کئی بار کہاجا چکا ہے کہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا جس طرح جلسے جلوسوں میں سرکاری وسائل اور اہلکاروں کا استعمال کررہے ہیں یہ نہ صرف صوبے کیلئے خطرناک ہے بلکہ اس سے حالات بگڑ بھی سکتے ہیں اور ایسا ہی ہوا۔ اس وقت خیبر پختونخوا کے 60 کے قریب سرکاری اہلکار اسلام آباد پولیس کی حراست میں ہیں۔ ان میں ریسکیو اہلکار بھی شامل ہیں اور دیگر محکموں کے اہلکار بھی۔ان سرکاری اہلکاروں کے خلاف، جن میں سے بیشتر سرکاری حکم کی تعمیل کرتے ہوئے جلسے کے ساتھ گئے تھے، مختلف دفعات لگائی گئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جن محکموں کے اہلکاروں کو اسلام آباد میں گرفتار کیاگیا ہے وہ کس کی ہدایت پر احتجاجی جلسے کے ساتھ گئے تھے؟ریسکیو کے اہلکاروں تک تو بات ٹھیک ہے کہ کسی ایمرجنسی یا کسی کی حالت خراب ہونے کی صورت میں انہیں ہسپتالوں تک پہنچانے کیلئے استعمال کیاجاسکتا ہے لیکن دیگر محکموں کے اہلکاروں کی موجودگی کو کیسے درست ثابت کیاجاسکتا ہے؟سرکاری اہلکاروںکو جب احتجاج کے ساتھ بھیجا جارہاتھا یا وہ خود جارہے تھے تو صوبے کے سب سے بڑے انتظامی افسر یعنی چیف سیکرٹری کے دفتر کی جانب سے اس حوالے سے کیااقدامات کئے گئے؟سرکاری اہلکاروں کو پہلے سے یہ ہدایات کیوں نہ دی گئیں کہ وہ کسی بھی جلسے،جلوس یا احتجاج میں شرکت نہ کریں؟اگرانہیں صوبائی حکومت کی جانب سے شمولیت کیلئے کہاگیاتھا تو کیا کوئی تحریری حکمنامہ ہے؟اتنی بڑی تعداد میں ریسکیو گاڑیوں کو بھیجنے کی بھی کیا ضرورت پیش آئی؟یہ سب وہ توجہ طلب سوالات ہیں جو خیبرپختونخوا کی انتظامی بدنظمی کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔ اس سے ثابت ہورہاہے کہ صوبے میں بدنظمی کس حد تک پہنچ گئی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ علی امین گنڈاپور اپنے صوبے کووقت دیں۔ اس صوبے میں یہ حالت ہے کہ کسی ترقیاتی منصوبے کی تختی تک نہیں لگ رہی۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کو اگر احتجاج کرنا ہی تھا تو یہ صوبے کے حقوق کیلئے ہونا چاہیے تھا۔اس بات کیلئے ہوتا کہ وفاقی حکومت صوبے کو اس کے بقایاجات کیوں نہیں ادا کررہی۔ یہ صوبہ اب شہر ناپرساں بنتا جارہا ہے۔ ایک طرف خودساختہ عوامی عدالتیں لگ رہی ہیں تو دوسری طرف صوبائی حکومت جتھے لے کر کبھی کہیں اور کبھی کہیں چڑھ دوڑتی ہے۔قبائلی عوام رُل رہے ہیں۔ ایک طرف دہشت گردی انہیں مار رہی ہے تو دوسری طرف بے روزگاری اور غربت نے ان کیلئے زندگی اجیرن کردی ہے۔ خیبرپختونخوا کے حالات تیزی سے خراب ہوتے جارہے ہیں۔ یوں لگ رہاہے کہ بلوچستان کے بعد اب اس صوبے کی بھی کسی کو پروا نہیں۔اپوزیشن جماعتیں اس صورتحال سے محظوظ ہورہی ہیں۔پی ٹی آئی کی قیادت کو اب سوچنا ہوگا کہ احتجاج اور دھرنوں کی سیاست مزید نہیں چلے گی۔عدالتیں موجود ہیں،پارلیمنٹ اور اسمبلیاں موجود ہیں وہاں آواز اٹھائی جاسکتی ہے۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران جس قسم کی تقاریر خیبرپختونخوا اسمبلی میں حکومتی اراکین کی جانب سے کی گئیں وہ اس کی ایک مثال ہے۔ ان تقاریر میں سکیورٹی اداروںپر بھی تنقید کی گئی لیکن کسی ادارے کی جانب سے کوئی مداخلت نہیں کی گئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسمبلی فلور پر ارکان اسمبلی اپنی آواز بلند کرسکتے ہیں۔جب اسمبلی فلور موجود ہے تو پھر لوگوں کو کیوں سڑکوں پر نکالاجارہا ہے؟اپوزیشن کے مطابق یہ صوبائی حکومت کی ناکامی اور بدانتظامی سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔