فروغ فرخ زاد ایرانی عورت کی فطری آواز

تحریر : اقبال حیدری


فروغ کی زندگی کا مطالعہ کیجئے تو اندازہ ہوگا کہ انہیں زندگی بھر بڑی اذیتوں اور جذباتی صدموں سے دوچار ہونا پڑا۔ شوہر نے ان سے بے وفائی کی اور ان کے بچے کو لے کر چلا گیا۔ یہاں تک کہ وہ زندگی بھر اپنے بیٹے کی شکل دیکھنے کو ترستی رہیں اور ناکام رہیں۔ لیکن وہ اس عالم رنگ و بو سے ایک گہری وابستگی اور محبت رکھتی ہیں۔

وہ دوسرے سماجی رشتوں کا احترام بھی کرتی ہے۔ ان کی خوبصورت نظم ’’دوبارہ میں سورج کو آکے کروں گی سلام‘‘ میں وہ گزرے ہوئے موسموں فصلوں پرندوں اور اپنی شفیق ماں اور ان جذبوں اور ولولوں کو یاد کرتی ہیں جس سے زندگی کے بارے میں ان کار جائی نقطہ نظر واضح ہوتا ہے۔فروغ کی نظموں کے اوّلین مترجم اور اسے اردو داں حلقوں میں متعارف کرانے والے حسنین کاظمی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ فروغ پاکستان آنے کی بڑی آرزو مند تھیں۔ وہ اپنے مادی وجود کے ساتھ تو پاکستان نہ آ سکی لیکن اپنی زندگی کی کہانی اور ترجمہ شدہ نظموں کے ذریعے اردو ادب کی محفل میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے شریک ہو گئی ہیں۔

فروغ کی نظم ’’میرے بعد‘‘ کا آغاز جس کا ترجمہ اقبال حیدری نے کیا ہے،آ غاز یوں ہوتا ہے:

قبر میری دور بے نام و نمود

اَن گنت قبروں میں گم ہو جائے گی

ہاں مگر بارش مرا لوحِ مزار

آکے مثلِ آئینہ دھو جائے گی

فروغ فرخ زاد 1934ء میں تہران میں پیدا ہوئیں۔ وہ ایک معزز فوجی گھرانے کی چشم و چراغ تھیں۔ کرنل فرخ زاد ان کے والد ایک وطن پرست، وطن دوست اور بہادر سپاہی تھے۔ بچپن میں وہ اپنے خاندان کی ایک معمولی لڑکی تھی۔ دبیرستان خسرو خاور میں جب وہ کلاس سوم میں تھیں تو انہیں انشا کا پیریڈ بہت گراں گزرتا تھا۔ خانم یزدی ان کی ہم جماعت تھیں۔ وہ کہتی تھیں فروغ اس پیریڈ سے سخت نفرت کرتی تھیں۔ حالانکہ وہ بہترین مضمون لکھتی تھیں مگر اس کی استاد کہتی تھیں کہ یہ مضمون اس نے کہیں سے چرایا ہے۔

پھر وہ خواتین کے سکول میں سینے پرونے اور نقاشی کا درس لینے لگیں۔ وہ بہت عمدہ کپڑے سیتی تھیں۔ وہ کہتی تھیں۔’’ سلائی کے دوران میں بہتر شعر کہہ سکتی ہوں‘‘۔ خانم بہجت سکول میں ان کی استاد تھیں اور وہ آخر دم تک ان کی بہترین دوست رہیں۔ خانم بہجت سے انہوں نے نقاشی کی تعلیم بھی حاصل کی تھی۔ فروغ نے کافی عرصہ تک ،پنگر نقاش سے فن نقاشی میں رہنمائی حاصل کی۔ جلد ہی ان کادل نقاشی سے اچاٹ ہو گیا۔ انہیں رنگوں کی خوب پہچان تھی۔ مرنے سے دو ماہ قبل پھر نقاشی سے دلچسپی ہو گئی تھی۔ وہ رنگ اور کینوس خرید کر لائیں اور ان سے دو پورٹریٹ بنائے۔ اس میں سے ایک ان کے لے پالک بیٹے حسن کا تھا۔دو سراپورٹریٹ ان کے اپنے بیٹے کا تھا۔فروغ نے اپنے کئی سیلف پورٹریٹ بھی بنائے تھے جو کہ ایک کتاب جادوانہ فروغ فرخ زاد نامی میں چھپے تھے۔

پوران فرخ زاد، فروغ کی چھوٹی بہن تھی۔ یہ دونوں ساتھ کھیلتی ساتھ پڑھتی اور ساتھ سوتی تھیں۔ اپنی ایک یادداشت میں پوران  نے لکھا کہ بچپن میں گرمیوں کے موسم میں ہمیں چھت پر سونے کا بہت شوق تھا۔ ہم دونوں ساتھ سوتے اور دونوں کے سر ایک ہی تکیے پر ہوتے تھے۔ ہماری آنکھوں میں نہ آنسوئوں کا نم تھا اور نہ غم کا سوز۔ فروغ کہتی میرا دل چاہتا ہے کہ میرے ہاتھ اتنے لمبے ہو جائیں کہ آسمان کو چھولوں۔ میں ستارے توڑ لوں اور ان کی مالا بنا کر اپنے گلے میں ڈال لوں اور ستاروں کو توڑ کر دیکھوں کہ اندر کیا ہے۔ پھر پوچھتی کہ ستاروں کے آگے کیا ہے میں کہتی کہ ان کے آس پاس ہوا ہے۔ فروغ اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے ستاروں کو گھورتی۔ میں کہتی دادی اماں کہتی ہیں کہ ستاروں سے آگے خدا ہے۔ فروغ کہتی میرا جی چاہتا ہے کہ میں وہاں پہنچ جائوں اور خدا کو دیکھوں۔ ماں منع کرتی کہ زیادہ باتیں نہ کرو۔ ہم اپنا سرچادر میں چھپا لیتے فروغ کہتی میں شاید کسی روز وہاں پہنچ جائوں اور خدا کو دیکھ لوں۔

فروغ کے دل میں بے حد گداز تھا۔ وہ دوسروں کی تکلیف دیکھ کر رو پڑتی تھیں۔ پوراں نے اپنی یادداشتوں میں ان کے بچپن کے اور بھی واقعات لکھے ہیں۔1951ء میں جب وہ سترہ سال کی تھیں تو پرویز شاپور کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئیں۔ ایک سال بعد اللہ نے اسے ایک بیٹے سے نوازا اس نے اس کا نام کامیار رکھا۔ ازدواجی زندگی اسے راس نہ آئی۔شادی کے تین سال بعد اس کی اپنے شوہر سے ان بن ہو گئی اور وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس سے جدا ہو گئی۔ اس کا شوہر اس کے بچے کو بھی ساتھ لے گیا اور اس کو اس سے اس قدر دور کر دیا کہ وہ اس کی دید سے بھی محروم ہو گئی۔ ایک سوال کے جواب میں کہ کیا کامیار اسے یاد آتا ہے اس نے کہا تھا کیوں نہیں ،کون اپنی آنکھوں کو کھو کر نہیں روتا۔ کون اپنے پیاروں کو کھو کر بے چین نہیں ہوتا۔ میری آرزو ہے کہ وہ اچھی فضا میں پروان چڑھے۔ تعلیم و تربیت حاصل کرے اور اچھا انسان بنے ایک درد مند دل رکھنے والا انسان، جس طرح اس کا جی چاہے اپنی زندگی کی راہ متعین کرے اور ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔ فروغ منوں مٹی کے نیچے تہران کے ظہیر الدولہ قبرستان میں سو رہی ہے اور کامیار کو وہاں بھی یاد کرتی ہو گی۔

 بطور شاعرہ بچپن کا زمانہ فروغ کو بہت یاد آتا ہے۔ وہ بار بار اس کا تذکرہ کرتی ہیں ۔ یورپ کے سفر کی اپنی یادداشتوں میں وہ لکھتی ہیں کہ اپنے بچپن کی مشق کی کاپیاں اور کتابیں میں نے بہت سنبھال کے رکھی ہوئی ہیں۔ ان چیزوں کو جہاں بھی جاتی ہوں اپنے ساتھ لے جاتی ہوں۔ ان کو بار بار دیکھتی ہوں اور اپنے بچپن کو یاد کرتی ہوں۔ ان سب چیزوں کو دیکھ کر اسے اپنے بچپن کے خوشگوار دن یاد آ جاتے ہیں۔

ترجمہ : ’’اے میرے لڑکپن اے میرے عزم وارادہ کے زمانے۔ تیرے بعد مجھ پر جو کچھ بھی گزرا جنون و جہالت کی حالت میں گزرا۔ تیرے بعد وہ روشن اور تابناک دریچہ جو ہمارے اور پرندوں کے درمیان اور جو ہمارے اور نسیم کے درمیان ایک رابطہ تھا ٹوٹ گیا۔ تیرے بعد وہ گڑیا جو سوائے آب آب کے کچھ نہیں کہتی تھی وہ آب میں غرق ہو گئی‘‘۔فروغ ایک واضح شعری نظریہ کی مالک تھیں۔ اس معاملہ میں ان کے یہاں کوئی ابہام نہیں ملتا۔ شاعری کے میدان میں وہ جیسے جیسے آگے بڑھتی گئیں ان کے خیالات نکھرتے گئے۔ انہوں نے بہت سے پرانے بتوں کو گرانے کی کوشش کی۔ شروع میں وہ پابند شاعری کرتی رہی اور ردیف قافیہ کی روایت بھی قائم رکھی۔

شعر کی وضاحت کرتے ہوئے فروغ نے ایک انٹرویو میں کہا تھا ’’ میرے لئے شعر ایک ایسا دریچہ ہے کہ جب بھی میں اس کی طرف جاتی ہوں وہ خود بہ خود کھل جاتا ہے۔ میں وہاں بیٹھتی ہوں اور ہر طرف نگاہ دوڑاتی ہوں، اونچی آواز میں بولتی ہوں، داد دیتی ہوں، روتی ہوں، درخت کی چھائوں میں بیٹھ کر گریہ و زاری کرتی ہوں اور جانتی ہوں کہ دریچہ کے اس طرف ایک اور فضا ہے اور ایک شخص میری آواز سنتا ہے۔ خواہ وہ دو سو سال بعد پیدا ہونے والا ہو یا تین سو سال قبل زندگی سے لذت آشنا ہوا ہو۔کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ ایک ذریعہ موجودات و کائنات کے ساتھ تعلقات کی استواری کا ہے۔

فروغ کی شاعری جب آفاق گیر ہونے لگی تو روایت، وزن کی پابندی اور مناسب الفاظ کی کمی اس کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے لگے۔ وہ سمجھتی تھیں کہ آج کی شاعری وہی ہے جسے جدید شاعری کا نام دیا جاتا ہے۔ ہر چند کہ دکھاوے کے طور پر آج کی شاعری حالات حاضرہ سے گہرا تعلق رکھتی ہے۔ لیکن حقیقی زندگی سے بہت دور ہے۔ دراصل جدید شاعری اپنے دور کے زمانی اور مکانی حقائق سے دور کا واسطہ بھی نہیں رکھتی اور اس کے اسباب بھی ہیں۔ایک سبب تو یہ ہے کہ ہمارے سامنے یا ہماری پشت پر ایک کوہ گراں واقع ہے جسے کلاسکی ادب کہا جاتا ہے۔ اس کے وزن کا احساس ہمارے کندھوں کو تھکاتا رہتا ہے۔ ایک اور سبب یہ ہے کہ تازہ راہیں تلاش کرنے اور جدید تقاضوں کو مملکت شاعری میں داخل کرنے سے ہم ڈرتے رہتے ہیں۔ پھر انہی مسائل میں وزن کا مسئلہ بھی ہے۔ میرا خیال ہے اگر یہی مسئلہ حل ہو جائے تو شاید ہماری شاعری کی حالت موجودہ صورت  سے بہتر ہو جائے۔

مری روح، یعنی مری ذات میں

خدا جانے کیوں یہ یقیں ہے مجھے

ہوا آ کے خود ہم کو لے جائے گی

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

آئینی ترمیم،کھیل آخری مراحل میں

کھیل آخری اوور میں داخل ہو چکا ہے۔ حکومت 18سے 25اکتوبر کے درمیان آئینی ترامیم کرنے کی ٹھان چکی ہے، جن میں سب سے بڑی ترمیم آئینی عدالت کا قیام ہے۔ آئینی عدالت کے قیام کی وجہ سپریم کورٹ آف پاکستان کو حاصل بہت سے اختیارات ہیں جو حکومت 25اکتوبر کے بعد سپریم کورٹ کے پاس نہیں رکھنا چاہتی۔ وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کے بقول آئندہ چند ہفتوں میں آٹھ فروری کے انتخابات کا آڈٹ ہونے کا خدشہ ہے جس کے بعد معاملات انتہائی سنگین ہو سکتے ہیں۔

پی ٹی آئی احتجاج پر مصر کیوں؟

پاکستان میں اگلے دس روز کو ملک میں سرمایہ کاری اور معاشی مستقبل کے حوالے سے اہم قرار دیا جارہا ہے۔ سعودی عرب کے وزیر سرمایہ کاری کی قیادت میں سرمایہ کاروں کا ایک وفد پاکستان پہنچا ہے جس کے بارے کہا جا رہا ہے کہ یہ دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری میں پیش رفت کا باعث ہوگا جبکہ چینی وزیراعظم 14اکتوبر کو اسلام آباد پہنچ رہے ہیں جہاں وہ دو طرفہ تعلقات اور معاشی حوالے سے اہم اقدامات کے بعد15 اکتوبر کو اسلام آباد میں ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔

سندھ پر منڈلاتے خطرات اور حکومت

صوبہ سندھ کو آج کل کئی مسائل کا سامنا ہے۔مثال کے طور پر دہشت گردی، ڈاکوؤں کی یلغار، مختلف اقسام کے شدید بخار اور پولیو کیسز میں اضافہ۔ سب سے پہلے کراچی میں دہشت گردی کے حالیہ واقعے کا ذکر کر لیتے ہیں جس کا ہدف چینی مہمان تھے۔ ایئرپورٹ کے قریب خودکش حملہ آور نے اپنی گاڑی کو دھماکے سے اڑا دیا جس میں دو چینی انجینئر ہلاک ہوگئے۔

وزیراعلیٰ کی گمشدگی،سوالات اور شبہات

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور جس طرح ڈی چوک پہنچے اور پھر وہاں سے اچانک خیبرپختونخوا ہاؤس میں نمودار ہوئے اس پر کئی اطراف سے انگلیاں اُٹھ رہی تھیں لیکن ان کی وہاں سے پُر اسرار گمشدگی اور اچانک خیبرپختونخوا اسمبلی پشاور میں نمودار ہونے سے یہ صورتحال مزید مشکوک ہو گئی۔

پیپلزپارٹی بلوچستان کے اختلافات

بلوچستان کی سیاسی صورتحال ہمیشہ سے پیچیدہ اور حساس رہی ہے، جہاں مختلف جماعتوں اور حکومتی اداروں کی پالیسیاں اکثر ایک دوسرے سے متصادم ہوتی ہیں۔ پیپلز پارٹی بلو چستان میں حالیہ اختلافات بلوچستان کی سیاست اور مرکزی حکومت کے ساتھ تعلقات کے تناظر میں اہم پہلو کو اجاگر کرتے ہیں۔

وزیراعظم کے انتخاب پر اعتراض

آزاد جموں و کشمیر میں غیر ضروری سرکاری اخراجات میں ہر گزرتے دن کے ساتھ کمی آرہی ہے ۔ حکومت کی بچت پالیسی پر اپوزیشن کے ساتھ ساتھ اتحادی بھی نالاں ہیں۔دوسری جانب وزیر اعظم چوہدری انوار الحق نے سابق وزرائے اعظم اور صدرو سے مراعات واپس لینے کیلئے قانونی مشاور ت شروع کر دی ہے۔