ہدایت و رہنمائی

تحریر : مولانامحمد طارق نعمان گڑنگی


رمضان المبارک اورقرآن کا آپس میں گہر ا تعلق ہے رمضان کے مبارک مہینے میں لوگوں کی ہدایت کیلئے رہنمائی کی واضح نشانیوں کے طور پر قرآن کو نازل کیا چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ، ترجمہ ’’ رمضان المبارک کے مہینے میں قرآن پاک کو نازل کیا گیا لوگوں کی ہدایت کیلئے۔‘‘ (سورہ بقرہ)اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا ’’ہم نے اس (قرآن)کو ایک مبارک رات میں نازل کیا ہے۔‘‘اورایک مقام پرفرمایا:’’ہم نے اس کو شب قدر میں نازل کیا ہے۔تو اس طرح یہ مہینہ قرآن مجید کے نزول کا مہینہ ہے کیونکہ شب قدر بھی رمضان ہی کے مہینے میں ہے ۔‘‘

مسلمان اس مبارک مہینے میں قرآن پاک کی تلاوت کا خاص اہتمام فرماتے ہیں۔نبی پاک ﷺہر سال رمضان المبارک میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ ہر رات قرآن پاک کا دور کرتے تھے۔ قرآن کریم اور رمضان المبارک کی مناسبت  یہ بھی ہے کہ جس طرح اس ماہ میں قرآن کریم کا نزول ہوا اسی طرح مسلمانوں پر اس ماہ کے روزے فرض کئے گئے ، ارشاد الہٰی ہے :’’جو اس ماہ میں گھر پر موجود رہے وہ اس کا روزہ رکھے ۔‘‘ (البقرہ)

نیز قرآن اور روزہ دونوں قیامت کے دن بندے کیلئے سفارش کریں گے ، رسول اکرمؐ کا ارشاد ہے ’’قیامت کے دن روزہ اور قرآن دونوں بندے کیلئے سفارش کریں گے ، روزہ کہے گا: اے پروردگار میں نے اسے دن میں کھانے پینے اور شہوتوں سے روک دیا تھا لہٰذا میری سفارش اس کے حق میں قبول فرما ۔ اور قرآن کہے گا :میں نے اسے رات میں سونے سے روک دیا تھا ، اس واسطے میری سفارش اس کے حق میں قبول فرما، چنانچہ دونوں کی سفارش قبو ل کی جائے گی ۔‘‘(رواہ حمد :2/174،شعب الایمان :3/378)

اس لیے اس مبارک ماہ میں قرآن کی تلاوت سمع اور دروس کا خوب اہتمام کرنا چاہئے ، قرآن تو وہ مقدس کتاب ہے جس کی تلاوت ہر اعتبار سے اجر وثواب اور خیر و برکت کا باعث ہے ۔

قرآن کریم وہ مقدس کتاب ہے جس کے پڑھنے اور پڑھانے والے کو زبانِ رسالت ؐسے بندوں میں سب سے اچھا ہونے کی سند ملی ، ارشاد نبویؐ ہے : ’’تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے ۔‘‘(صحیح البخاری: 6/236)

یہ وہ مقدس کتاب ہے جس کے درس کی مجلس میں شرکت کرنے والوںکوفرشتے چاروں طرف سے اپنے گھیرے اور جھرمٹ میں لے لیتے ہیں ، انہیں رحمت ڈھانپ لیتی ہے  اور ان کا ذکر خیر اللہ جل شانہ اپنے مقرب فرشتوں میں کرتا ہے۔حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے’’ جب بھی کچھ لوگ اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں اکٹھے ہو کر کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں آپس میں درس و تدریس کا اہتمام کرتے ہیں ا نہیں رحمت الہٰی ڈھانپ لیتی ہے ، اور فرشتے انہیں چاروں طرف سے گھیر لیتے ہیں اور ان کا تذکرہ اللہ اپنے پاس کے فرشتوں میں فرماتا ہے ۔‘‘ (صحیح مسلم: 8/71۔سنن ابی دائود :544،1)

قرآن اللہ کی وہ پاکیزہ کتاب ہے جس کے اندر ایسی کشش ہے کہ اگر اس کی بلند اور اچھی آواز میں تلاوت کی جائے تو فرشتے اس کے سماع کے لئے بالکل قریب آجاتے ہیں ۔

صحیح بخاری میں حضرت اسید بن حضیر ؓسے مروی ہے کہ وہ رات کو سورہ بقرہ کی تلاوت کر رہے تھے ان کا گھوڑا ان کے قریب ہی بندھا ہوا تھا ،مجبور ہوکر انہوںنے پڑھنا بند کردیا ،جب صبح صادق ہوئی تو انہوں نے واقعہ کو رسول اللہ ﷺ سے بیان کیا ۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’اے ابن حضیر تمہیں اپنی قرأت جاری رکھنی چاہئے ، ابن حضیر تمہیں قرآن پڑھتے رہنا چاہئے ۔‘‘میں نے کہا اے اللہ کے رسولﷺ ! مجھے ڈر ہوا کہ کہیں میرا بیٹا کچلا نہ جائے ، پھر میں نے سر اوپر کی طرف اٹھایا اور اس کی طرف متوجہ ہوا تو کیا دیکھتا ہوں ایک چیز سایہ کی طرح ہے جس میں چراغوں کی طرح قمقمے ہیں ، پھر میں باہر نکل کر دیکھتا رہا یہاں تک کہ وہ نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جانتے ہو وہ کیا تھا ؟ ‘‘ حضرت حضیرؓ نے کہا : نہیں ۔آپ ﷺنے فرمایا ’’وہ فرشتے تھے جو تمہاری تلاوت کی آواز سننے کے لئے قریب آگئے تھے ، اگر تم قرآن پڑھتے رہتے تو صبح لوگ انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھتے ،اور وہ ان کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں ہوتے ۔‘‘(رواہ البخاری: 6/234)

قرآن وہ بابرکت کتاب ہے کہ اس کو مہارت سے پڑھنے والے قیامت کے روز معزز فرشتوں کے ساتھ ہوں گے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭