ون ڈے کرکٹ کے نمبرون بیٹسمین بابر اعظم بائونڈری لائن پر ’’بال پکر بوائے‘‘ سے قیادت تک کا سفر

تحریر : طیب رضا عابدی


یہ کہانی ہے کرکٹ کے کھلاڑیوں کو آئیڈیالائز کرنے والے کی ، کرکٹ سے جنون کی اور پھر کرکٹ کی خاطر بال پکر بننے سے قیادت تک کے سفر کی۔یہ ہیں بابراعظم پاکستان کرکٹ ٹیم کے سٹار بلے باز اور کپتان ۔ لاہور کے علاقے ماڈل کالونی عقب فردوس مارکیٹ میں 1994 میںپیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم بھی اسی علاقے کے ایک مقامی سکول سے حاصل کی۔

سال 2015 میں ، بابر اعظم زمبابوے کے خلاف ہوم سیریز کے لئے پاکستانی ون ڈے ٹیم کے لئے منتخب ہوئے تھے ۔ون ڈے کرکٹ میں انہوں نے ویرات کوہلی کی پانچ سالہ حکمرانی چھین لی ہے۔اور8 پوائنٹس کے اضافے کے ساتھ پہلے نمبر پر آگئے ہیں۔ظہیر عباس، جاوید میانداد اور محمد یوسف کے بعد وہ پاکستا ن کے چوتھے بلے باز بن چکے ہیں جنہوں نے نمبرون بیٹسمین بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ وہ 56.83 کی اوسط سے 3808 رنز بنا چکے ہیں۔ جس میں 13سنچریاں اور 17نصف سنچریاں شامل ہیں ۔ اگرچہ ویرات کوہلی کی بیٹنگ اوسط بابراعظم سے اچھی ہے لیکن وہ زیادہ میچز کھیل چکے ہیں جبکہ بابراعظم نے ابھی صرف80 ون ڈے کھیلے ہیں۔انہوں نے اپنا پہلا ٹیسٹ میچ ویسٹ انڈیز کیخلاف 2016 میں کھیلا تھا۔

بابراعظم ایک مستقل اور ٹھہرے ہوئے مزاج کی مالک شخصیت ہیں۔وہ بچپن سے ہی خاموش طبیعت اور سنجیدہ تھے۔ ان کے والدین بھی روایتی والدین کی طرح کرکٹ کھیلنے کی بجائے پڑھائی پر توجہ دینے کی تاکید کرتے تھے لیکن وہ لڑکپن میں والدین کو بتائے بغیر محلے کی ٹیم میں میچ کھیلنے نکل جاتے اور واپسی پر گھر والوں کی ڈانٹ کھاتے۔ والدین کی مخالفت کے باوجود انہوں نے کرکٹ نہ چھوڑی۔ بابر اعظم اپنی فیملی کے ساتھ سکیورٹی خدشات کے تحت اب فردوس مارکیٹ کے علاقے سے منتقل ہوچکے ہیں لیکن اپنا یہ آبائی گھر فروخت نہیں کیا۔

بابر اعظم بائونڈری لائن پر بال پکر کے طور پر قذافی سٹیڈیم میں داخل ہوئے ۔بابر اعظم نے ماضی کے دن یاد کرتے ہوئے بتایا کہ 2007ء میں جنوبی افریقہ کی ٹیم پاکستان کے دورے پر تھی ، انہوں نے کسی سے کہا کہ وہ انہیں’’ بال پکر بوائے‘‘ کے طور پر رکھوا دیں کیونکہ انہیں کرکٹ سٹارز کو قریب سے دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ ان کی یہ خواہش پوری ہوئی اور وہ بال پکر کے طور پر رکھ لئے گئے۔ وہ گلبر گ سے روزانہ قذافی سٹیڈیم آیا کرتے تھے۔جس ٹیم کے خلاف باونڈری لائن پر بال پکڑا تھا پھراسی ٹیم کے خلاف ٹیسٹ کرکٹ کھیلی۔قومی ٹیم کے کپتان کا کہناتھا کہ 2007ء میں انضمام الحق کا الوداعی میچ انہوں نے دیکھا تھا اور انضمام کے غصے سے ڈریسنگ روم میں بیٹ مارنے کا لمحہ آج بھی یاد ہے ، وہ جاوید میانداد کا ریکارڈ نہیں توڑ سکے تھے، اس وقت میرے لیے پاکستان کی نمائندگی کرنا خواب تھا۔ جنوبی افریقا کے مایہ ناز بلے باز اے بی ڈویلئیرز ان کے پسندیدہ کھلاڑی ہیں۔ان کا ایک انٹرویو میں کہنا تھا کہ بے خوف ہوکر کھیلنا آگے بڑھنے کی علامت ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی کامیابی کی وجہ یہ ہے کہ وہ پریشر میں بھی منفی خیالات اپنے ذہن میں نہیں آنے دیتے۔ 

رکی پونٹنگ اور انگلش ٹیم کے سابق کپتان ناصر حسین نے بابراعظم کی بیٹنگ کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بلا شبہ دنیائے کرکٹ کے بہترین بلے بازوں میں سے ایک ہے۔بابراعظم کی ون ڈے کی یادگار اننگز ورلڈکپ میں نیوزی لینڈ کیخلاف سنچری سکور کرنا تھی جبکہ ٹیسٹ کی بہترین اننگز کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ہوم گرائونڈ پر کھیلا گیا سری لنکا کیخلاف میچ ان کا یادگار ٹیسٹ میچ تھا۔ یہ میچ پاکستان اور سری لنکا کے درمیان پنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں تھا، میچ بارش کے باعث ڈرا ہوگیا مگر موسم کی خرابی کے باعث ایک متوقع ڈرا میچ دیکھنے کے لیے، شائقینِ کرکٹ کی بڑی تعداد نے میچ کے پانچویں روز اسٹیڈیم کا رخ کیا تھا۔اْس روز ہر گیند پر شور مچانے والے تماشائیوں نے میزبان ٹیم کی بیٹنگ لائن اپ کی ریڑھ کی ہڈی سمجھے جانے والے بابر اعظم کا بھرپور استقبال کیا تھا۔ چوتھے نمبر پر بیٹنگ کے لیے میدان میں اترنے والے بابراعظم کے ڈریسنگ روم سے کریز پر پہنچنے تک ہر طرف ’’بابر، بابر‘‘کی گونج تھی۔ان لمحات کے بارے میں بابر اعظم کا کہنا تھا کہ اس وقت ان کے جذبات ناقابل بیان تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے کیرئیر میں یہ آوازیں سننے کے لیے بیتاب تھے۔ بابر اعظم نے کہا کہ اسٹیڈیم میں موجود تماشائیوں سے اپنے نام کی پکار سنی تو کریز پر پہنچنے سے پہلے ہی فیصلہ کرچکا تھا کہ آج 100 فیصد کارکردگی کا مظاہرہ کروں گا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ وہ لمحات تھے جو ہوم سیریز، بیرون ملک کھیلنے کے باعث ہمیں میسر نہیں تھے۔ بابر اعظم نے کہا کہ یہ تماشائیوں کا جوش ہی تھا کہ جس نے انہیں میچ میں سنچری اسکور کرنے کے لیے ہمت بندھائی۔

قومی ٹیم کے کپتان نے پی سی بی پوڈ کاسٹ میں کہا کہ میں کارکردگی میں بہتری لانے کے لیے ہمیشہ انضمام الحق اور محمد یوسف جیسے کھلاڑیوں سے رہنمائی لیتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ ویرات کوہلی نے نیٹ سیشنز میں’’ میچ سیناریو‘‘ کی پریکٹس کا مشورہ دیا،میں نے گیند کو تاخیر سے کھیلنا کین ولیمسن سے سیکھا۔انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ان کی نظریں ٹیسٹ کرکٹ کے نمبرون بیٹسمین بننے پر ہیں۔

بابراعظم پی ایس ایل میں کراچی کنگز سے وابستہ ہیں ، ان کی ٹیم نے گزشتہ سیزن کا فائنل جیتا تو یہ لمحہ ان کے لئے یادگار تھا کیونکہ وہ فائنل میچ کے مین آف دی میچ تھے۔گزشتہ سال انہیں پاکستان قومی ٹیم کے تینوں فارمیٹس کا کپتان نامزد کیا گیا۔ اس سے پہلے وہ سرفراز احمد کی جگہ ون ڈے کی کپتانی سرانجام دے رہے تھے۔ ان کی قیادت میں پاکستان نے جنوبی افریقہ اور سری لنکا کیخلاف ہوم سیریز میں کامیابی حاصل کی۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭