مغفرت

تحریر : مفتی محمد اویس اسماعیل


اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ خوشی تب ہوتی ہے جب اس کا کوئی نافرمان بندہ اپنی غلطی تسلیم کرکے اس کے آگے جھک جائے

ہر انسان خطا کار ہے لیکن بہترین وہ ہے جو اپنی غلطی سے رجوع کرنے والا ہو۔ ہر غلطی کی نوعیت اور اس کا اثر مختلف ہوتا ہے کوئی غلطی چھوٹی ہوتی ہے تو کوئی بڑی ۔لیکن ان تمام غلطیوں میں اصل غلطی یہ ہے کہ انسان خدا کے حضور کوئی نافرمانی کر بیٹھے۔ اگر کوئی انسان خدا کی نافرمانی کربیٹھے تو یہ اصل مسئلہ نہیں اس لیے کہ خدا کی نافرمانی انسان ہی سے ہوگی کسی فرشتے سے نہیں۔ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اس نافرمانی کے بعد انسان کا رویہ کیسا ہے؟کیا وہ اپنی اس غلطی کو تسلیم کرکے اپنی اصلاح کرنے پر آمادہ بھی ہے یا وہ اپنی اس غلطی کو غلطی ماننے سے انکاری ہے اور اس کی اصلاح کرنے کیلئے بھی تیار نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ خوشی تب ہوتی ہے جب اس کا کوئی نافرمان بندہ اپنی غلطی تسلیم کرکے اس کے آگے جھک جائے اور اس خوشی کی ایک بہترین مثال خود نبی کریم ﷺ نے دی ہے کہ : کوئی شخص اپنی سواری کے ساتھ صحرا کے سفر پر نکلے جس پر اسکے کھانے پینے کا سامان لدا ہو، دورانِ سفروہ اپنی سواری کو باندھ کر ایک درخت کے نیچے سستانے کیلئے لیٹ جاتا ہے اور جب اس کی آنکھ کھلے تو دیکھتا ہے کہ اس کی سواری سامان سمیت گم ہوچکی ہے،وہ اس کی تلاش میں نکلتا ہے کبھی اس ٹیلے پر تو کبھی اس ٹیلے پر لیکن تلاش کرنے کے باوجود اسے نہیں ملتی ، بالآخر مایوس ہوکر وہ دوبارہ اس درخت کے نیچے لیٹ جاتا ہے کہ ایسے بھی مرناہے تو ویسے بھی مرنا ہے۔اور جب اس کی آنکھ دوبارہ کھلتی ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کی سواری سامان سمیت وہاں موجود ہے اور وہ خوشی کی شدت میں اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’اے اللہ تو میرا رب اور میں تیرا بندہ ہوں‘‘ (طبرانی، 121)اس مسافر کو اپنی سواری کے مل جانے کی جتنی خوشی ہوتی ہے ،اللہ تعالیٰ کو اس سے زیادہ خوشی تب ہوتی ہے جب اس کاکوئی نافرمان اس کی طرف پلٹتا ہے۔

استغفار کیوں ضروری ہے؟اپنے گناہوں کی مسلسل بخشش طلب کرنا ، استغفار کرتے رہنا انسان اور اس کائنات کی بقاء کیلئے بہت ضروری ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ترجمہ ’’ اور اللہ انہیں عذاب نہیں دے گا جب تک وہ استغفار کرتے رہیں گے‘‘  (الانفال، 33) اسی بات کو نبی کریم ﷺ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ ’’ انسان اللہ کے عذاب سے اس وقت تک محفوظ رہتا ہے جب تک کہ وہ استغفار کرتا رہے۔‘‘(مسند احمد،24453)

یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ماہ مبارک رمضان کریم ایک بار پھر ہماری زندگیوں میں داخل ہوا ہے۔ یہ ایک موقع ہے کہ ہم اپنی بخشش کا کوئی سامان کرلیں۔ اپنے گناہوں پر استغفار کر لیں۔ اپنی مغفرت کروالیں۔ ہم اخلاص کے ساتھ اس ماہ مبارک میں استغفار کریں اوراپنے گناہوں کی بخشش طلب کریں۔ قرآنِ مجید کی سب سے امید افزاء آیت وہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام بندوں کو مخاطب کیا ہے چاہے وہ جو کوئی بھی ہو کہ : ’’اے نبی (ﷺ) ان سے کہہ دیجیے کہ اے میرے وہ بندوں جو اپنی جانوں پر اسراف کر بیٹھے ہو اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں ،بے شک اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کی بخشش کردیں گے ،بے شک وہی بخشنے والا رحم کرنے والا ہے ۔‘‘ (الزمر،53) اس آیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہم میں سے ہر وہ انسان جو خدا کے حضور نافرمانیاں کر بیٹھا ہے اسے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں اس لیے کہ خدا اس سے مخاطب ہے اور اپنی جانب بلا رہا ہے ،’’اگر کوئی بندہ ایک بالشت خدا کے قریب ہوتا ہے خدا ایک گز کے برابر اس کے قریب ہوتا ہے،اور اگر کوئی ایک گز کے برابر خدا کے قریب ہوتا ہے تو خدا ایک بازو کی مقدار اس کی قریب ہوجاتا ہے،اور اگر کوئی چل کر خدا کے قریب ہوتا ہے تو خدا اوراس کے قریب ہوجاتا ہے۔‘‘(مسند احمد، 11381) اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ انسان جتنے خلوص کے ساتھ خدا کے قریب ہونے کی کوشش کرے گا خدا اس سے زیادہ بڑھ کر اسے تھام لے گا۔اسی لیے سورہ نوح میں یہ بات ارشاد فرمائی گئی ہے کہ’’اپنے رب سے استغفار کرو بے شک وہ بخشنے والا ہے،آسمان سے تمہارے لیے موسلا دھار بارشیں برسائے گا، تمہیں مال اور اولاد سے نوازے گا، تمہارے لیے باغات بنادیگا اور تمہارے لیے نہریں جاری کردیگا۔ تمہیں کیا ہوا کہ تم اللہ کی عظمت کے قائل نہیں ہو۔‘‘(نوح ،10,13 ) یعنی کوئی انسان اللہ سے جتنا استغفار کرے گا ،اللہ تعالیٰ اس پر اپنی نعمتوں کی برسات کردے گا۔ اگر کسی کی اولاد نہیں ہورہی تو وہ استغفار کو اپنا معمول بنالے اللہ تعالیٰ اسے اولادسے نواز دے گا،اگر کسی کے کاروبار میں برکت نہیں ہے تو وہ کثرت سے استغفار کرنا شروع کردے اللہ تعالیٰ اس کے مال میں اضافہ کردیں گے،بارشیں نہیں ہورہیں تو استغفار کرنے سے موسلا دھار بارشیں ہونا شروع ہو جائیں گی۔ 

مغفرت کے اسباب :اگر ہم اپنی مغفرت کروانا چاہتے ہیں تو مسلسل استغفار کرتے رہنا چاہیے اور ساتھ ہی ساتھ ان طریقوں کو بھی اختیار کرنا چاہیے جن کی وجہ سے مغفرت کی امید کی جاسکتی ہے۔

1۔ دوسروں کو معاف کردینا اور درگزر کرنا:اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں فرمایا ہے کہ’’لوگوں کو معاف کردو اور ان سے درگزر کرو کیا تمہیں یہ پسند نہیں ہے کہ اللہ تمہاری بخشش کردے۔‘‘ (النور، 22) یعنی انسان اپنے جیسے انسانوں کو معاف کرنا سیکھے تو ہوسکتا ہے کہ اس کی وہ خوبی خدا کو پسند آجائے اور اس کی بخشش کردے۔

2۔ رسالت پر ایمان:مغفرت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ انسان خدا کے بھیجے پیغمبر کی پکار سنے اور اس پر ایمان لے آئے ،اس کی وجہ سے بھی اللہ تعالیٰ گناہوں کو بخش دیں گے۔ (الاحقاف، 31)

3۔اللہ اوراس کے رسولؐ پر ایمان لانا:اپنی جان اور مال کے ساتھ جہاد کرنا۔اسی طرح اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان کیساتھ ساتھ فی سبیل اللہ اپنی جانوں اور مالوں کے ذریعے جہاد کرنا بھی گناہوں کی بخشش کا ذریعہ ہے ۔ (الصف 11,12 )

4۔اللہ کی عبادت کرنا: اللہ کی نافرمانی سے ڈرنااور رسولؐ کی اطاعت کرنا بھی گناہ بخشوانے کا ذریعہ ہے۔( نوح3,4) 

5۔ ہمیشہ سچی اور کھری بات کرنا :اسباب ِ مغفرت میں سے ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہمیشہ سچی اور کھری بات کی جائے۔ اس کی وجہ سے معاملات بھی ٹھیک رہتے ہیں اور بخشش بھی ہوجاتی ہے۔ (الاحزاب70,71) 

6۔ راہِ خدا میں مال خرچ کرنا: اگر راہِ خدا میں مال خرچ کیا جائے ،تو یہ انسان کیلئے بہتر بھی ہے اور اس کی وجہ سے گناہ بھی معاف ہوتے ہیں ۔ (البقرہ، 271)

7۔ بازار میں داخل ہونے کی دعا پڑھنا: مغفرت کے ان اسباب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بازار میں داخل ہوتے وقت دعا پڑھی جائے ۔ (ترمذی ،3428 ) 

ان چند اسباب سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بہانے بہانے سے ہمیں اپنے گناہوں کی بخشش کا موقع فراہم کرتے ہیں۔چھوٹی چھوٹی چیزوں کے ذریعے ہماری بخشش کردیتے ہیں۔ اور ان اسباب کے ذریعے ہمارے صغیرہ گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں۔ اس لیے اس مبارک مہینے کو غنیمت جانتے ہوئے ہمیں کثرت سے استغفار کرنے کی ضرورت ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

چمگاڈر کی کہانی

یہ کہانی ایک چمگادڑ کی ہے۔ دراصل ایک مرتبہ باز، شیر کا شکار کیا ہوا گوشت لے اڑتا ہے۔ بس اسی بات پر پرند اور چرند کے درمیان جنگ شروع ہوجاتی ہے اور جنگ کے دوران چالاک چمگادڑ اس گروہ میں شامل ہوجاتی جو جیت رہا ہوتا ہے۔ آخر میں چمگادڑ کا کیا حال ہوتا ہے آئیں آپ کو بتاتے ہیں۔

عادل حکمران

پیارے بچو! ایران کا ایک منصف مزاج بادشاہ نوشیرواں گزرا ہے۔ اس نے ایک محل بنوانا چاہا۔ جس کیلئے زمین کی ضرورت تھی اور اس زمین پر ایک غریب بڑھیا کی جھونپڑی بنی ہوئی تھی۔

ذرامسکرائیے

پپو روزانہ اپنے میتھ کے ٹیچر کو فون کرتا ٹیچر کی بیوی: تمہیں کتنی دفعہ کہا ہے کہ انہوں نے سکول چھوڑ دیا ہے تم پھر بھی روزانہ فون کرتے ہو۔پپو: یہ بار بار سن کر اچھا لگتا ہے۔٭٭٭

خر بوزے

گول مٹول سے ہیں خربوزے شہد سے میٹھے ہیں خربوزے کتنے اچھے ہیں خربوزےبڑے مزے کے ہیں خربوزےبچو! پیارے ہیں خربوزے

پہیلیاں

جنت میں جانے کا حیلہ دنیا میں وہ ایک وسیلہ جس کو جنت کی خواہش ہومت بھولے اس کے قدموں کو(ماں)

اقوال زریں

٭…علم وہ خزانہ ہے جس کا ذخیرہ بڑھتا ہی جاتا ہے وقت گزرنے سے اس کو کوئی نقصا ن نہیں پہنچتا۔ ٭…سب سے بڑی دولت عقل اور سب سے بڑی مفلسی بے وقوفی ہے۔٭…بوڑھے آدمی کا مشورہ جوان کی قوت بازو سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔