لیلتہ القدر کی فضیلت یہ محبت بانٹنے اور ایک دوسرے کو معاف کرنے کی رات ہے
کینہ پرور اور بغض رکھنے والے اللہ تعالیٰ کی رحمت میں آنے کے لئے آج کی رات معافی مانگ لیں ورنہ بخشش نہیں ہو گی آج کی رات بچے والدین سے اور والدین بچوں سے پیار و محبت کے رشتے قائم کرنے کا عہد کریں اس مبارک رات میں اتنے فرشتے دعامانگنے والوں کے ساتھ آمین کہنے کے لئے اترتے ہیں کہ زمین تنگ پڑ جاتی ہے
یوں تو پورا رمضان المبارک ہی برکتوں والا ہے، لیکن شب قدر کی اہمیت اس قدر ہے کہ اس کی فضیلت میں پوری ایک صورت ’’القدر‘‘ اتاری گئی ہے۔ اور اس رات کوہزار مہینوں سے بہتر قرار دیا گیا ہے۔ برابر نہیں بلکہ بہتر۔
اللہ تعالیٰ قران پاک میں ارشاد فرماتا ہے کہ ’’اور ہم نے قرآن پاک کو رمضان المبارک میں اتارا، اور تمہیں کیا معلوم کہ لیلتہ القدر کیا ہے،لیلتہ القدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے،اور اس میں فرشتے اور جبرا ئیل اپنے رب کے اذن سے ہر حکم لے کر زمین پر اترتے ہیں،سراسرسلامتی والی رات ہے، اور وہ فجر کے طلوع ہونے تک ہے‘‘۔ (سورہ القدر )
لیلتہ القدر کے تین مطلب ہیں۔اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ ہم (اللہ تعالیٰ )نے قرآن پاک کو لیلتہ القدرمیںاتارا۔ اللہ فرماتا ہے کہ ’’تمہیں کیا خبر ہے کہ اس میں کیا ہے‘‘؟ پھر ارشاد فرمایا کہ ا س ایک رات میں ہزاروں فرشتے زمین پر اترے ہیں اور یہ برکت صبح تک رہتی ہے ۔ القدر عربی زبان کا لفظ ہے، اس کا مطلب ہے ’’قیمت‘‘ ۔اس کی قیمت کیا ہے؟ پھر رب کریم فرماتے ہیں کہ اس کی قیمت ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ کیونکہ یہ رات ہزار مہینوں یعنی تراسی سال چار ماہ سے بہتر ہے۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ تنگ پڑ جانا۔یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم پر اس رات اتنے فرشتے زمین پر اترے ہیں کہ زمین تنگ پڑ جاتی ہے۔ جگہ ختم ہو جاتی ہے۔یہ فرشتے جو لوگ دعائیں پڑھ رہے ہوتے ہیں ان کے ساتھ آمین کہتے ہیں۔صبح کو سب فرشتے اکھٹے ہوتے ہیں اور حضرت جبرائیل ؑسے پوچھتے ہیں کہ کیا ہوا؟تو آپؑ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے سبھی کو معاف کر دیا چاراقسام کے سوا۔ اس سے آپ ا للہ تعالیٰ کی رحمت کا اندازہ کیجئے۔اس کا تیسرا مطلب ہے ’’مقدار‘‘اس کی مقدار کیا ہے ؟ مقدار یہ ہے کہ یہ فجر کی نماز تک رہتی ہے۔
اب آپ دیکھیے کہ قیمت ،زمین کی تنگی اور مقدار اس قدر کہ صبح صادق تک رہتی ہے۔لیکن یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ صرف 27ویں کی ایک رات نہیں ہے بلکہ یہ آخری عشرے کی کوئی بھی ایک طاق رات ہو سکتی ہے، یعنی کل پانچ راتیں اہم ہیں۔ خوب عبادت کیجئے ،یہ رات مل جائے گی۔ یہ رات بدلتی رہتی ہے ۔ 21ویں ،23ویں، 25ویں،27ویں اور 29ویں میں سے کسی ایک رات کوآتی ہے۔ یہ طاق راتوں میں گھومتی رہتی ہے،تاکہ آپ کو جی بھر کر عبادت کے لئے پانچ دن مل جائیں۔
اس شب اس کا پس منظر کیا ہے۔وہ یہ کہ بنی اسرائیل میں چار مجاہدین نے اسی سال جہاد کیا ،یہی بات حضور نبی کریم ﷺ کی مجلس میں زیر بحث تھی۔ ایک صحابی ؓنے پوچھا کہ اے نبی پاکؐ جب انہوں نے اسی سال جہاد کیا تو ہم اس نیکی میں ان کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں؟ہماری تو پوری عمر بھی اس سے کم ہے۔ اس بات پر حضرت جبرائیل ؑ تشریف لائے اورآپ ﷺ کو بشارت دی کہ اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے کہ ہم آپ ﷺ کو ایک رات دیتے ہیں کہ جو ہزار مہینوں سے بھی زیادہ برکت والی ہو گی ۔ یعنی اس ایک رات میںجاگ لیں ،ہزار مہینوں سے زیادہ عرصے کی عبادت کا ثواب مل جائے گا۔
اب رہی یہ بات ، اس رات کی برکات کس کس کو ملیں گی؟ آپؐ نے فرمایا کہ چارقسم کے لوگ اس کی برکت سے محروم رہیں گے ہاں جب وہ معافی مانگ لیں اور رب کریم ان کی معافی قبول کر لیں تو انہیں بھی اس رات کی برکات مل جائیں گی۔ صحابہ کرام ؓ نے آپؐ سے پوچھا کہ اے اللہ کے پاک نبی ﷺ، وہ چار اقسام کے لوگ کون کون ہیں؟۔ آپ ؐنے فرمایا ’’شراب کا عادی ‘‘۔ ایسے افراد کی رمضان کے بخشش والے مہینے میں بھی بخشش نہیں ہو گی ‘‘پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’ ماں باپ کا نا فرمان، رشتے داروں سے لڑنے والا ، دل میں بغض و کینہ رکھنے والا‘‘۔
جب بھی کوئی نشہ کرتا ہے، اس کاخود پر کنٹرول ختم ہو جاتا ہے ،وہ نجس ہو جاتا ہے ،جسم میں کئی طرح کی خرابیاں جنم لینے لگتی ہیں۔شراب کے نشے میں انسان بے دم اور گندگی کی جانب مائل ہو جاتاہے ، اسی لئے اس برائی کو حرام قرار دیا گیا ہے۔اچھی اچھی چیزیں کھائیے، اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں زیتون اور انجیر کی قسم کھائی ہے۔اور ہم ہیں کہ فاسٹ فوڈ کی جانب بھاگ رہے ہیں ، جس سے صحت بھی خراب ہو رہی ہے آج ہمیں اچھی بری اور حرام چیزوں سے بچنے اور اچھی چیزیں کھانے کا عہد کرنا چاہیئے۔
والدین ( ماں باپ ) کی خدمت گزاری کابھی بڑا اجر ہے ۔ماں باپ کا نا فرمان اس رات میں بھی بخشا نہیں جائے گا، ایک مرتبہ صحابہ کرامؓ نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ اے اللہ کے نبی ﷺ قیامت کب آئے گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’جب بچے ماں باپ کی خدمت کرنا چھوڑ دیں گے‘‘ (یعنی یہ بھی قیامت کی نشانیوں میں سے ایک ہے )۔اس وقت بھی آپ دیکھیں کہ بچے ماں باپ کو بھولتے جا رہے ہیں۔ میں ایک اذیت ناک واقعہ بیان کرتا ہوں ۔مجھے ایک ماں نے خط لکھا کہ مجھے میرے بچوں سے بچائو، یہ بڑا ظلم کرتے ہیں۔یہ اس قدر بڑا ظلم ہے کہ قیامت ڈھا سکتا ہے۔ہمیں آج کی رات در گزر سے کام لینا چاہیئے۔اس وقت ساس سسر نے داماد کا گھر برباد کر رکھا ہے اور دماد نے ساس سسر کا جینا حرام کر دیا ہے۔ سبھی ایسے نہیں ہیں لیکن کچھ تو ہیں۔ آپس میں طعنہ زنی اور میاں بیوی کی لڑائی خاندانی نظام کو تباہ کر دیتی ہے۔ کہیں بچے باپ کواور باپ بچوں پر ظلم کر رہے ہیں۔ ماں باپ کو بھی بڑے ہونے کا غلط فائدہ نہیں اٹھانا چاہئے۔والدین کو بھی اپنے بچوں پر کبھی ظلم نہیں کرنا چاہیے، اگر کرتے ہیں تو آج کی رات اللہ سے معافی مانگ کرظلم بند کر دینا چاہئے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دیگر رشتے نبھانے اور آپس میں محبت کرنے کا بھی حکم دیا ہے ، قطع تعلق کرنے والوں کو معافی نہیں ملے گی، رشتے محبت سے قائم ہوتے ہیں ۔میں نے کسی ایک جگہ بھی نہیں پڑھا کہ حضور نبی کریم ﷺنے بچوں کو کبھی ڈانٹا ہو، جن بچوں کو ماں کی گود چاہییے،آج کل ان کی مائیں بچوں کو کارٹون دیکھنے کے لئے چھوڑ دیتی ہیں اور یہ بچے بڑے ہو کر ماں باپ کو بھی کارٹون سمجھنا شروع کر دیتے ہیں، یہ ماں باپ کا ظلم ہے ۔اس سے بچیں۔ آج کی رات بچے والدین سے اور والدین بچوں سے پیار و محبت کے رشتے قائم کرنے کا عہد کریں ۔
ایک مرتبہ حضور ﷺ نے بھی حضرت اویس قرنی ؓ سے دعا کرانے کو کہا تھا۔ حضر ت عمر ؓ نے سوچاکہ وہ کون ہیں جن سے دعا کرنے کو کہا گیا ہے۔ یہ سن کر آپ ؓ ان سے ملنے کی کوشش کرنے لگے ۔ ایک دن حضرت عمر ؓنے حضرت اویس قرنیؓ کو تلاش کر لیا اور ان سے دعا کرائی۔ حضرت اویس قرنی ؓ کو بھی جنت کی بشارت دی گئی ہے ،اس لئے کہ وہ اپنی ماں کے بے حد خدمت گزار تھے۔ آپ ؓ نے ماں کی اتنی خدمت کی کہ وہ آسمانوں تک پہنچی ۔
کینہ پرور اور بغض رکھنے والوں کو بھی آج کی رات معافی نہیں ملے گی، کینہ کسے کہتے ہیں؟ بغض یہ ہے کہ مجھے فلاں سے نفرت ہے۔جبکہ کینہ پرور شخص بدلہ لینے کی ٹھان لیتا ہے۔یہ دونوں قسم کے افراد اللہ تعالیٰ کی رحمت میں آنے کے لئے آج کی رات معافی مانگ لیںورنہ بخشش نہیں ہو گی روزے یہیں ہمارے سروں پر رہ جائیں گے۔یہ معافی کی رات ہے جب اللہ تعالیٰ ہم سب کے گناہ معاف فرما رہا ہے تو ہم سب کو بھی دوسروں کی جانب سے کی گئی برائیوں کو معاف کر دینا چاہئے اور کینہ چھوڑ دینا چاہئے۔اور اگر کسی نے کینہ پروری اور بغض نہ چھوڑا تو وہ اپنے لئے شب قدر کوبھی بے معنی کر دیں گے۔
آپ ﷺ نے فرمایا کہ لیلتہ القدر کو خوب صدقہ دیا کرو۔ایک صحابیؓ رات اللہ تعالیٰ کے سامنے گڑگڑائے کہ یا میرے مولا،میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے لیکن یا اللہ، جس جس نے میرے ساتھ زیادتی کی ہے میں آج ان سب کو معاف کرتا ہوں۔اگلے روز صبح فجر کی نماز کے بعد آپ ﷺ نے پوچھا کہ’’ رات کو عزت کا صدقہ کس نے کیا‘‘ تو آپؓ کھڑے ہو گئے ۔تو حضور ﷺنے فرمایا کہ’’ تمہارا صدقہ اللہ نے قبول فرمایا‘‘۔اس لئے آج کی رات سب کو معاف کر دیجئے۔میرے اللہ کو آپس کی نفرت پسند نہیں، تمام نفرتیں بھلا کر آج ایک دوسرے کو سینے سے لگا لیجئے۔
اللہ تعالیٰ نے ہر وہ چیز حلال قرار دی ہے جو ہمارے لئے مفید ہے۔باقی سب حرام ہے ۔ سود کو اللہ پاک نے حرام قرارد یا ہے کیونکہ آج سود نے پوری دنیا کو تباہ کر دیا ہے اگر سود نہیں چھوڑیں گے تو یہ اتنی بڑی برائی ہے کہ یہ اللہ سے جنگ کے مترادف ہے۔ سب سے بڑابراپہلو یہ ہے کہ سودسے چند ہاتھوں میں پیسے کا ارتکاز ہوجا تا ہے، غربت بڑھتی ہے۔ آج دیکھیں دنیا کی معیشت اسی سود کی وجہ سے برباد ہو چکی ہے۔ ہر طرف آہ و بکار مچی ہے۔ پیسہ چند ہاتھوں میں جمع ہے۔ جو لوگ سودی کاروبار کر رہے ہیں وہ آج ہی اس سے نکل آئیں۔
حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف ایک نہایت مالدار ہستی تھے ،انہوں نے نہ ادھار دیا نہ لیا۔ انہوں نے ہمیشہ سود کے بغیرتجارت کی۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کبھی مال کو ذخیرہ نہیں کیا، جب بھی موقع ملابیچ دیا، سودے کا عیب نہیں چھپایا۔تو کتنا سکون ہو گیا، چین کی نیند سوتے تھے ، زندگی بھر کوئی تنگی نہ ہوئی۔ ورنہ سودی کاروبار کرنے والوں کو کبھی کوئی تنگ کرتا ہے تو کبھی کوئی ۔میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ اگر آج کی رات آپ سبھی یہ عہد کر لیں کہ سچائی اور ایمانداری کے ساتھ تجارت کریں گے ،کبھی مال کو ذخیرہ نہیں کریں گے تو یہ بھی عبادت ہے۔
آپ ﷺ نے اشراق کے سوا سب عبادات گھر میں ادا کی ہیں ، جس طرح نوافل پڑھے جاتے ہیں،اسی طرح لیلتہ القدر کی شب بھی آپ ﷺ نے گھر میں عبادت فرمائی تھی۔ ہمارے نبی کریمؐ بھی جماعت کے ساتھ شب قدر کی عبادت فرما سکتے تھے لیکن آپ ﷺ نے ایسا نہیں کیا۔
اب میں اجتماع سے بچنے کی اصل وجہ بتا تاہوں۔ہم جانتے ہیں کہ جہاں دو چار لوگ جمع ہوتے ہیں وہاں کسی نہ کسی کی غیبت شروع ہو جاتی ہے۔مرداورعورت کہیں بھی کھڑے ہو جائیں تو غیبت جیسی برائی سے بچ نہیں سکتے ۔میں ایک شہر سے واپس آ رہا تھا ۔کچھ نوجوان بھی ساتھ محو سفر تھے ، دوران سفر دو دن گزر گئے ، وہ مسلسل کسی نہ کسی کی غیب میں مصرو ف رہے ۔ ایک دن میں نے کہا کہ آپس میں مذاق کیا کرو، ہنسا کرو مگر غیبت نہ کیاکرو ۔انہوں نے بات مان لی اور کہا کہ ’’ٹھیک ہے ،انشاء اللہ آئندہ نہیں کریں گے‘‘ لیکن اگلے روز سفر میں سناٹا تھا۔ بالکل خاموشی ،یعنی ان کے پاس غیبت کے سوا بات ہی کوئی نہیں تھی، غیبت نہ کریں تو کیا کریں، کچھ لوگ مسجد میں بھی اکھٹے ہوں گے تو وہاں بھی غیبت شروع ہوجائے گی ۔میں درخواست کرتا ہوں کہ اپنے گھر کو غیبت سے پاک کر کے بابرکت بنائو ۔عید الفطر بھی قریب ہے، عید صدقہ فطر کے بغیر ممکن نہیں اگر کسی نے صدقہ نہ دیا تو اس کے روزے یہیں رہ جائیں گے اوپر نہیں جائیں گے ، یہ اللہ کا حکم ہے۔ابھی کہا جا رہا ہے کہ صدقہ فطر140روپے گندم پر ہے۔ لیکن آپ گندم پر مت دیجئے،کشمش پر دیجئے۔ حضور نبی کریمﷺ کشمش اور کھجور پر صدقہ فطر دیا کرتے تھے۔ تین کلو سب سے اچھی یا درمیانی ، پندرہ سوروپے کلو بھی ہو تو دے دیں۔ اس میں کسی کا ایک ہفتہ بھی نہیں گزرے گا۔ آپ کے ساتھ یہی جائے گا باقی سب لین دین یہیں دھرا کا دھرا رہ جائے گا۔ (مولانا طارق جمیل کے خطاب کا ایک متن)