اداس کرکے ہمیں چل دیا کہاں وہ شخص! والد کا سایہ سر سے اٹھنے پر تین دکانیں کھولیں مگر نقصان اٹھایا قتیل شفائی کی زندگی کے چند اوراق

تحریر : اعتزاز سلیم وصلی


ہری پورکے ایک گھر میں بچہ پیدا ہوا جس کا نام اورنگزیب خان رکھا گیا۔24دسمبر1919ء کو پیدا ہونے والے اورنگزیب کے والد نے دو شادیاں کی تھیں۔پہلی بیوی سے کوئی اولاد نہ تھی ۔ دوسری بیوی سے پہلی اولاد اور وہ بھی بیٹا، اورنگزیب کو خوش قسمت کہا جانے لگا۔اسی خوش قسمتی نے اورنگزیب کا بچپن حسین بنا دیا۔ ان کی ایک سگی بہن اور ایک سوتیلا بھائی تھا۔ ابتدائی تعلیم کیلئے ہری پور کا سکول چنا گیا۔ پانچویں کلاس میں بزم ادب کے سیکرٹری بن گئے، والد کو بیٹے کی خوشیاں عزیز تھیں۔بیٹے کو ادبی میدان میں بڑھتا دیکھ کر شاعری اور دوسری کتابوں کا ڈھیر لگا دیا۔انہوں نے پانچویں کلاس کے بعد ہی شاعری شروع کر دی ۔ شاعری میں اتنی پختگی تھی کہ اکثر لوگ سمجھتے تھے کہ وہ کسی اور سے شاعری لکھواتے ہیں۔چھٹی کلاس میں گورنمنٹ ہائی سکول میں مضمون نویسی اور شاعری کا مقابلہ ہوا جس میں اپنی نظم پیش کرنے پرانہیں انعام ملا۔ سکول کے ہیڈ ماسٹر خواجہ محمد اشرف اورنگزیب کی کامیابی پر بہت خوش ہوئے لیکن لوگوں کو اب بھی یقین نہ تھا کہ یہ شاعری اورنگزیب خود لکھتے ہیں۔

سکول کے ہیڈ ماسٹر محمد اشرف نے انہیں آزمانے کیلئے ایک مصرع پر غزل لکھنے کو کہا۔ اگلے دن آٹھ دس اشعار لکھ کر اورنگزیب نے انہیں پکڑا دئیے۔وہ غزل پڑھ کر حیران ہوئے۔ ’’تم تو بہت اچھا لکھتے ہو‘‘۔ 

اورنگزیب بس سولہ سال کا تھا جب 1935 میں والد کاسایہ سر سے اٹھ گیا۔گھر کی بھاری ذمہ داریوں کا بوجھ پڑ گیا۔کسی نے مشورہ دیا۔ ’’پڑھائی میں کیا رکھا ہے،کاروبار کروا دو....بیٹھ کر کھائے گا ساتھ میں خاندان کو بھی کھلائے گا‘‘۔ یہ اورنگزیب کیلئے پہلا جھٹکا تھا۔سکول چھوٹ گیا ۔ کھیلوں کے سامان کی ایک دکان بنا کر دے دی گئی،  سولہ سال کا لڑکا ، جس نے پیسے خرچ کرنا سیکھا تھا...کمانا نہیں، کاروبار کیسے کرتا؟ نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا تھا۔ کھیلوں کا سامان کوڑیوں کے بھائو بک گیا ۔ پھر کسی سیانے کے مشورے پر سائیکلوں کی دکان بنا کر دے دی گئی جس کا انجام بھی کھیلوں کے سامان کی طرح ہوا۔ ایبٹ آباد میں ایک اور دکان دی گئی جو صرف تیرہ دن چلی۔اس دوران اورنگزیب کی شادی کر دی گئی۔ 

باپ کی کمائی سے اب تک گھر چلا رہا تھا ، ناکامیوں سے تنگ آ کر انہوں نے میونسپلٹی میں محرر بھرتی ہوکر پہلی ملازمت کی۔کاروبار میں ناکامی کے بعد اورنگزیب کو یہ نوکری راس آ گئی مگر ان کا مزاج افسرکو ہرگز راس نہ آیا۔ان کی خوش لباسی اور شاعری میں شہرت،دفتر میں عزت مغرور ایڈمنسٹریٹر کو حسد میں مبتلا کر گئی جس کے نتیجے میں اس نے اورنگزیب اور تین دوستوں کو غبن کا مقدمہ بنا کر حوالات میں بند کروا دیا مگر اورنگزیب جیسے نوجوان کو ہرانے کیلئے یہ طریقے فضول تھے۔ غبن کے کیس سے وہ باعزت بری ہوگئے ۔ انہوں نے ایڈمنسٹریٹر کے خلاف قلم کی طاقت استعمال کی۔ اخبارمیں اس ایڈمنسٹریٹر کے خلاف خوب لکھا۔ایڈمنسٹریٹر نے اورنگزیب کو بلایا اور خوشامد کی کہ ....’’یہ پر مٹ لے لو،گھر میں ضرورت ہو گی تیل چینی کی‘‘۔ اورنگزیب نے چپ چاپ وہ رکھ لیا اور واپس آ کر اخبارات میں اس پرمٹ کی کاپیاں بنا کر بھیج دیں اور لکھا۔’’ایک ایڈمنسٹریٹر جو جعلی کیس بنا کر پہلے خود ملازمین کو پھنساتا ہے اور احتجاج کرنے پر رشوت پیش کرتا ہے‘‘۔جس پر ایڈمنسٹریٹر کا ٹرانسفر کردیا گیا۔ملازمت بحال ہو جانے کے باوجود ان کا دل نہ لگا ۔ملازمت کو خیرآباد کہہ کر ہری پورسے راولپنڈی چلے گئے ۔

ماں باپ کے لاڈلے اورنگزیب پر اب بھاری ذمہ داریوں کا بوجھ تھا۔خاندان کیلئے روزی روٹی کمانا پہلی ترجیح تھی۔ٹرانسپورٹ کمپنی میں بطور بکنگ کلرک نوکری کرلی۔یوں روزی کا بندوبست ہو گیا اور شوق کو پورا کرنے کا وقت بھی مل گیا۔اس کی شاعری کی اصلاح راولپنڈی میں ہوئی۔وہاں کا ماحول شاعرانہ تھا۔یہیں ان کی ملاقات حکیم محمد یحییٰ شفا سے ہوئی۔اس سے پہلے وہ اپنی شاعری میں زیب کا تخلص استعمال کرتے تھے ۔ مگر حکیم صاحب کی شاگردی اختیار کرنے کے بعد اپنا ادبی نام قتیل شفائی رکھ لیا ۔ راولپنڈی میں وہ پھوپھی کے گھر ادب پسند دوستوں کوبلاتے یوں ان کا نام بنتا چلا گیا۔انہی دنوں ایک مشاعرے میں انہوں نے ایک شعر پڑھا،

گنگناتی ہوئی آتی ہیں فلک سے بوندیں

کوئی بدلی تیری پازیب سے ٹکرائی ہے

یہ شعر اتنا مشہور ہوا اور قتیل شفائی کا نام مشہور ہو گیا۔راولپنڈی سے مری تبادلہ ہونے کے بعد قتیل شفائی کی شاعرانہ صلاحیتوں میں مزید اضافہ ہوا۔مری میں قیام کے دوران بھی ان کی ملاقات کئی بڑے شاعروں سے ہوئی۔ مری ، راولپنڈی ٹرانسپورٹ میں قتیل شفائی نے کافی عرصہ کام کیا۔قتیل مسلم لیگ کے حامی تھے۔  آزادی کے سلسلے میں اپنی شاعری لکھی اور مخصوص ترنم میں کئی جلسوں میں سنائی بھی۔

ان دنوں وہ ایک عجیب مشکل کا شکار تھا۔اس کی پہلی دونوں اولادیں نامعلوم بیماری کی وجہ سے موت کا لقمہ بن گئیں۔ایک بیٹی اور بیٹے کے مر جانے کے بعد اولاد کی تڑپ اسے تڑپانے لگی۔ اللہ نے ایک بار پھر کرم کیا اور اسے ایک بیٹا عطا کیا جس کا نام پرویز رکھا۔ پرویز کے بعد مسرت، ثمینہ اور ان کے بعد تنویر اور نوید....یوں سات بچے پیدا ہوئے جن میں سے دو وفات پا گئے ۔ 1946ء میں وہ راولپنڈی سے لاہور آگئے جہاں ادب لطیف میں ملازمت مل گئی۔ لیکن یہ جان کر دھچکا لگا کہ تنخواہ صرف 74 روپے رکھی گئی تھی ۔وہ یہ نوکری چھوڑکر واپس راولپنڈی چلے گئے ۔

راولپنڈی میں ہونے والے ایک مشاعرے میں ان کی ملاقات محبوب اخترسے ہوئی۔چونکہ قتیل شاعری میں اپنا نام پیدا کر چکے ہیں۔ان کا ایک دیوان بھی مارکیٹ میں آچکے ہیں،سو محبوب اختر ان سے واقف تھے۔وہ فلم لائن کے بندے تھے اور ممبئی میں خیالستان پروڈکشن بنانا چاہتے تھے۔ انہوں نے قتیل کو پہلی بار بطور نغمہ نگار چنا۔ قتیل بہت خوش ہوئے اور ان کے ٹوٹے خواب دوبارہ جڑنے لگے۔یہاں ان کی تنخواہ پانچ سو روپے رکھی گئی جو یقینا اس زمانے میں ایک بڑی رقم تھی۔یہ فلم ’’ادھورے خواب‘‘ کے نام سے بنائی جانی تھی اور اس میں دلیپ کمار اور نرگس کو لیڈ رول دیا جانا تھالیکن قسمت کو کچھ اور منظور تھا۔ 1947ء شروع ہوتے ہی مسلم کش فسادات نے ہر چیز کو لپیٹ میں لے لیا۔فلم ادھورے خواب، ادھورا خواب ہی بن گئی۔اں کا گانا بھی ریکارڈ ہو چکا تھا۔فلمی میدان میں بطور گیت نگار اں کی پہلی فلم مکمل نہ ہو سکی لیکن جگن ناتھ آزاد کے کہنے پر انہوں نے اپنی ایک غزل ریڈیو پر پڑھنے کی حامی بھری۔جب وقت آیا تو اس نے غزل جگن ناتھ کو دکھائی ،اس کا پہلا شعر تھا،

تمہاری انجمن سے اٹھ کردیوانے کہاں جاتے

جو وابستہ ہوئے تم سے افسانے کہاں جاتے

یہ غزل بہت مشہور ہوئی اور رسالوں کے بعد ریڈیو پر بھی قتیل کا چرچہ ہونے لگا۔انہوں نے  نے مجموعی طور پر دو سو ایک فلموں میں اڑھائی ہزار گانے لکھے۔اس دوران وہ پروگریسو رائٹر گلڈ کے سیکرٹری بھی بن گئے۔جس کی وجہ سے انہیں پابندیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ مہیش بھٹ کی جب پہلی بار قتیل شفائی سے ملاقات ہوئی تو اس کے منہ سے بے اختیار نکلا....’’قتیل صاحب ، آپ تو ہمیں کروڑ پتی بنانے آئے ہیں‘‘۔انڈین فلم میں ان کا گانا جو آج بھی سپر ہٹ جانا جاتا ہے۔وہ تھا ....’’بانٹ رہا تھا جب خدا،سارے جہاں کی نعمتیں‘‘

ان کی ایک پرانی غزل ’’پریشاں رات ساری ہے ستارو تم تو سو جائو‘‘ کو بھی اس فلم میں شامل کیا گیا ۔

قتیل شفائی کا پہلا شاعری مجموعہ ان کی چھوٹی عمر میں لکھے گئے گیتوں پر مشتمل تھا جو 1947ء میں مارکیٹ میں آیا اور انہیں اس زمانے میں دوسو روپے معاوضہ ملا ۔ن کے مندرجہ ذیل مجموعے شائع ہوئے۔ ہریالی، گجر، جلترنگ، روزن، جھومر، مطربہ، چھتنار، گفتگو، پیراہن، آموختہ، ابابیل، برگد، گھنگھرو،سمندر میں سیڑھی، پھوار، صنم اور پرچم۔انہوں نے اپنی آپ بیتی بھی لکھی جسے مکمل نہ کر سکے ،وہ ’’گھنگرو ٹوٹ گئے‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔انہیں کئی ایوارڈز سے نواز ا گیا جن میں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی (1994ء)،آدم جی ادبی ایوارڈ، امیر خسرو ایوارڈ اورنقوش ایوارڈ بھی شامل ہیں ۔

 11 جولائی کا سورج طلوع ہوا اور ساتھ ہی گیت نگاری اور شاعری کا سورج غروب ہو گیا۔ یہ 2001 ء کے سال کا وہ دن تھا جو قتیل شفائی کی زندگی کا آخری دن تھا۔

نمونۂ کلام

پریشاں رات ساری ہے ستارو تم تو سو جاؤ

سکوت مرگ طاری ہے ستارو تم تو سو جاؤ

ہنسو اور ہنستے ہنستے ڈوبتے جاؤ خلاؤں میں

ہمیں پہ رات بھاری ہے ستارو تم تو سو جاؤ

ہمیں تو آج کی شب پو پھٹے تک جاگنا ہوگا

یہی قسمت ہماری ہے ستارو تم تو سو جاؤ

تمہیں کیا آج بھی کوئی اگر ملنے نہیں آیا

یہ بازی ہم نے ہاری ہے ستارو تم تو سو جاؤ

کہے جاتے ہو رو رو کر ہمارا حال دنیا سے

یہ کیسی رازداری ہے ستارو تم تو سو جاؤ

ہمیں بھی نیند آ جائے گی ہم بھی سو ہی جائیں گے

ابھی کچھ بے قراری ہے ستارو تم تو سو جاؤ

۔۔۔۔

مرحلہ رات کا جب آئے گا

جسم سائے کو ترس جائے گا

چل پڑی رسم جو کج فہمی کی

بات کیا پھر کوئی کر پائے گا

سچ سے کترائے اگر لوگ یہاں

لفظ مفہوم سے کترائے گا

ہم اسے یاد بہت آئیں گے

جب اسے بھی کوئی ٹھکرائے گا

کائنات اس کی مری ذات میں ہے

مجھ کو کھو کر وہ کسے پائے گا

نہ رہے جب وہ بھلے دن بھی قتیلؔ

یہ زمانہ بھی گزر جائے گا

۔۔۔۔۔۔۔

حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گرتا

ٹوٹے بھی جو تارا تو زمیں پر نہیں گرتا

گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا

لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا

سمجھو وہاں پھل دار شجر کوئی نہیں ہے

وہ صحن کہ جس میں کوئی پتھر نہیں گرتا

اتنا تو ہوا فائدہ بارش کی کمی کا

اس شہر میں اب کوئی پھسل کر نہیں گرتا

انعام کے لالچ میں لکھے مدح کسی کی

اتنا تو کبھی کوئی سخن ور نہیں گرتا

اس بندہ خوددار پہ نبیوں کا ہے سایہ

جو بھوک میں بھی لقمہ تر پر نہیں گرتا

قائم ہے قتیلؔ اب یہ مرے سر کے ستوں پر

بھونچال بھی آئے تو مرا گھر نہیں گرتا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہت دنوں سے نہیں اپنے درمیاں وہ شخص

اْداس کر کے ہمیں چل دیا کہاں وہ شخص

وہ جس کے نقشِ قدم سے چراغ جلتے تھے

جلے چراغ، تو خود بن گیا دھواں وہ شخص

قریب تھا تو کہا ہم نے سنگ دل بھی اسے

ہوا جو دور، تو لگتا ہے جانِ جاں وہ شخص

اس ایک شخص میں تھیں دلربائیاں کیا کیا

ہزار لوگ ملیں گے، مگر کہاں وہ شخص

وہ اس کا حسنِ دل آراء کہ چپ گناہ لگے

جو بے زباں تھے انہیں دے گیا زباں وہ شخص

یہ اس لئے کہ چمن کی فضاء اداس نہ ہو

رہا ہے قیدِ قفس میں بھی نغمہ خواں وہ شخص

چھپا لیا جسے پت جھڑ کر زرد پتوں نے

ابھی تلک ہے بہاروں پہ حکمراں وہ شخص

ہمیں تو پیاس کے صحراء میں گنگناتے ہوئے

دکھائی دیتا ہے اک بحرِ بیکراں وہ شخص

 قتیلؔ کیسے بھلائیں ہم اہلِ درد اسے

دلوں میں چھوڑ گیا اپنی داستاں وہ شخص

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭