لمبی فراکس کا بدلتا فیشن ،ان دنوں شارٹ ڈریسرز کے بجائے زیادہ لمبائی والے ملبوسات ہی پسند کئے جائے ہیں

تحریر : اسماء کفائت


یوں تو لمبی قمیضیں اور فراکس گزشتہ کئی سال سے فیشن میں’’اِن‘‘ ہیں لیکن آج کل خاص طور پرگھیر دار اور فلور لینتھ یعنی پاؤں تک آنے والے ڈریسزبھی فیشن کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔حتیٰ کہ ماڈرن ڈریسرز میں بھی ان دنوں شارٹ ڈریسرز کے بجائے زیادہ لمبائی والے ملبوسات ہی پسند کئے جا رہے ہیں۔ویسے بھی لمبی فراکس کی بات ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ جب لڑکیاں بالیاں انہیں زیب تن کرتی ہیں تو ان کی شان ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ کپڑوں کے ڈیزائن بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور زیادہ تر خواتین موسم بدلنے کے ساتھ ساتھ اپنے کپڑے پہننے کے انداز کو بھی بدلنا شروع کر دیتی ہیں تاکہ وہ بھی وقت کے ساتھ الگ نظر آئیں۔ ہر عورت کی ہمیشہ سے یہی خواہش رہی ہے کہ وہ اچھی نظر آئے۔بناؤ سنگھار کرنا، اپنی جلد کا خیال رکھنا،اچھے کپڑے پہننا کس عورت کو پسند نہیں ہوتا۔ زمانہ چاہے کوئی بھی ہو نیا یا پرانا ۔ہر زمانے کے ساتھ کپڑوں کے نئے اور جدید کٹس فیشن میں آتے رہتے ہیں ۔

پاجامے

،غرارے،شرارے،اسکرٹس،ساڑھیاں  پٹیالہ شلوار، گھیر والے ٹراؤزر، لمبی قمیضیں،کھلی فراکس،آگے کچھ پرنٹ تو پیچھے قمیض میں کوئی اور پرنٹ وغیرہ وغیرہ، ہمیں عام نظرآ تے ہیں ۔ہر کوئی زمانے کے حساب سے ہی کپڑے بنواتا ہے تاکہ وہ دنیا کے ساتھ چلتا ہوا لگے۔ اورلوگ اسے  دقیانوسی نہ سمجھیں۔ ایک زمانہ تھا  جب عورتیں اپنے کپڑوں پر طرح طرح کی کڑھائی کرواتی تھیں ۔ پہلے بازاروں میں چکر لگا کر اچھا کپڑا ڈھونڈنا ایک مشکل کام تھا۔ پھر زمانہ تھوڑا بدلا، بازاروں سے عورتوں نے کڑھائی کئے ہوئے کپڑے خریدنا شروع کئے، دکاندار سے پیسوں پر لمبی چوڑی بحث ہوتی اور درزی کو کپڑے سلنے دے دیئے۔ نہ الگ سے کپڑا خریدنے کا جھنجھٹ نہ کڑھائی والے کے پاس جاکر گھنٹوں کھڑے ہونے کا مسئلہ۔

پھر بوتیکس کھلنا شروع ہوئے، آہستہ آہستہ عورتوں نے بوتیکس جانا شروع کیا ۔خاص طور پر وہ عورتیں جو منفرد کپڑے پہننے کی شوقین ہوتی تھیں اور اتنے پیسے والی بھی کہ دکاندار سے بحث کئے بغیر کپڑے خرید لیں کیونکہ عام خیال ہے کہ  بوتیک پر جو کپڑا جتنے کا ہے اُتنے میں ہی ملتا  ہے۔اگر کبھی سال میں سیل لگتی بھی تو وہی چند خواتین سیل پر سے کپڑے خریدتی نظر آتیں۔ ان بوتیکس پر زیادہ رش ہوتا نہ دھکم پیل ۔ پھر آہستہ آہستہ کچھ لوگوں نے اپنے نام کے برانڈ متعارف کروائے اور آج تک یہ سلسلہ چل رہا ہے اورروزانہ کی بنیاد پر نئے نئے برانڈ سامنے آرہے ہیں۔

 لمبی فراک کا فیشن

 آج ہم آپ کو فیشن اور موسم کے لحاظ سے چند ایسے ڈیزائنز کے بارے میں بھی بتائیں گے جو نہ صرف دیکھنے میں اچھے ہیں بلکہ پہننے کے لحاظ سے بھی مناسب ہوں گے۔ آج کل لمبی فراکس کا فیشن چل رہا ہے جس میں پرنٹڈ اور سادہ فراک دونوں ہی فیشن میں اِن ہیں۔

یہ سٹائل خواتین کو بہت متاثر کر رہا ہے ، بڑے فیشن ڈیزائنر بھی اس قسم کے فراک متعارف کروا رہے ہیں۔ شیشہ ورک کے لباس جب مارکیٹ میں آئے تو خواتین  نے ہاتھوں ہاتھ لیا جس کے بعد ان کپڑوں کا رجحان خواتین میں عام ہو گیا۔ اب مختلف قسم کے نئے ڈیزائن مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ان میں فراک،قمیض،شلوار اور ٹراؤزر بھی الگ الگ ورائٹی میں شامل ہیں۔ 

رنگ برنگی کرتیاں اور رنگ برنگی قمیضوں کا فیشن کبھی ختم نہیں ہوتا ،اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ کالی اور سفید شلوار کے ساتھ آسانی سے استعمال کر لی جاتی ہیں۔ جس کے باعث خواتین صرف کْرتی خریدنا پسند کرتی ہیں۔

کڑھائی والے کپڑے

آج کل کپڑوں کے گلے  اوردامن میں کڑھائی کا فیشن زیادہ دیکھا جا رہا ہے کیونکہ ان کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ ان کو کسی چھوٹی تقریب میں بھی پہنا جا سکتا ہے اور ان میں بھی کئی قسم کی ورائٹی موجود ہوتی ہیں۔ 

آرگنزا اور ویلوٹ

 اب آرگنزا اور ویلوٹ کا فیشن بھی بہت مقبول ہے کیونکہ یہ شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کے علاوہ بھی پہنا جا رہا ہے۔جس کے باعث اس کے بھی کئی ڈیزائن مارکیٹ میں موجود ہیں۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

حکومتی اعتماد میں اضافے کے دلائل

21 اپریل کے ضمنی انتخابات کے بعد حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ 8 فروری کے انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکومت قائم ہو ئی تو شہباز شریف کو ووٹ دینے والوں کو شبہ تھا کہ یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گی کیونکہ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے ، معیشت سنبھالنا انتہائی کٹھن ہو گا، بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت حکومت کیلئے مسلسل درد سر رہے گی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ تو دیا مگر اہم ترین اتحادی جماعت وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنی۔

ضمنی انتخابات کا معرکہ(ن) لیگ نے سر کر لیا

ضمنی انتخابات کے حوالے سے عمومی رائے یہ رہی ہے کہ ان میں حکمران جماعت کو فائدہ ملتا ہے مگر 2018ء کے بعد اس تاثر کو دھچکا لگا ۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے ووٹرز میں تحریک پیدا کرکے انہیں پولنگ سٹیشنز تک لے آتی تھیں،مگر حالیہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ضمنی انتخابات کا معرکہ سر کر لیا۔

سندھ میں امن وامان کی دعائیں!

سندھ میں پیپلز پارٹی میدان پر میدان مار رہی ہے۔ قومی اسمبلی کی سیٹ پر آصفہ بھٹو زرداری کا بلامقابلہ انتخاب ہوا اور اب قمبر شہداد کوٹ سے ضمنی الیکشن میں خورشید احمد نے کامیابی حاصل کرلی ہے۔

خیبرپختونخوا میں مایوسی!

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپورہر طرف سے مسائل میں گھرے نظر آرہے ہیں ۔ایک طرف صوبے کو مالی بحران درپیش ہے تو دوسری جانب دہشت گردی پھیلتی نظرآرہی ہے ۔ اب انہیں کابینہ کے اندر بھی مسائل کا سامنا کرناپڑرہاہے۔

60نکاتی اصلاحاتی ایجنڈا،عمل کا منتظر!

بلوچستان کی مخلوط حکومت کی 14 رکنی کابینہ نے بالآخر حلف اٹھا لیا ہے۔ کابینہ میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے چھ،چھ جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے دو ارکان نے بحیثیت وزراحلف اٹھایا۔

بلدیاتی اداروں کو بجٹ جاری

آزاد جموں وکشمیر حکومت نے بالآخر بلدیاتی اداروں کے نمائندوں کو بجٹ جاری کر دیا۔ 32 سال کے بعد آزاد جموں وکشمیر کے بلدیاتی نمائندوں کی نشاندہی پر وزارت محکمہ مقامی حکومت و دیہی ترقی مختلف ترقیاتی سکیموں کیلئے پیسے جاری کرے گی تاکہ نچلی سطح پر لوگ اپنی نگرانی میں تعمیر و ترقی کا کام کرائے جا سکیں۔