گائے گی دنیا گیت میرے،ملکہ ترنم نور جہاں 95 برس قبل آج ہی کے دن چمکنے والا موسیقی کی دنیا کا سب سے روشن ستارہ

تحریر : سعید واثق


میڈم کی جب بھی کسی انٹرویو میں تعریف کی جاتی توہمیشہ ایک ہی بات کہتیں ’’یہ اللہ کا کرم ہے‘‘یا پھر ’’یہ سب تمہاراکرم ہے آ قا کہ بات اب تک بنی ہو ئی ہے‘‘اس میں کوئی شک نہیں کہ مالک کی خاص عطا اور کرم کے بغیر کے کوئی انسان کچھ نہیں بن سکتا،وہ نور جہاں جیسی معجزاتی گلوکارہ ہو یا کو ئی اور۔لیکن ہر دم اْس مالک کو یاد رکھنا،اس کی دَین پہ شکر گزار رہنا، بے پناہ شہرت اور دلبری کے با وجود عاجزی کی کیفیت میں رہنا،یہ بہت بڑی خوبی ہے۔میڈم نور جہاں کو دنیا بر صغیر کی بہترین گلوکارہ مانتی ہے، کتنی ہی گلوکارائیں آئیں مگر سُر اور لے کے اْس درجے کو چھو بھی نہ سکیں،آ پ میڈم کا کوئی بھی گیت سنیں ۔کیا ذہن میں خیال نہیں آ تا!’’خدا خبر کہ کہ کہاں سے یہ لو گ آ ئے ہیں‘‘ اپنے فن سے اُن کی بے پایاں وابستگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔یہ عام سا جملہ ہے کہ فن کے لئے بہت قربانیاں دینا پڑتی ہیں مگرمیڈم کی زندگی اس بات کاجیتا جا گتا ثبوت ہےملکہ ترنم نورجہاں کے بھتیجے حاجی سلیم( جو پرانی انار کلی میں ہوٹل چلایا کرتے تھے اور میڈم کے ساتھ کم و بیش 40سال تک رہے ،پنڈی میں میڈم کے سنگیت سینما کی نگرانی بھی کرتے رہے) سے جب یہ بات کی تو انہوں نے کہا ’’یہ درست ہے اُنہوں نے اپنی گائیکی کے راستے میں کسی رکاوٹ کو حائل نہیں ہو نے دیا۔‘‘

میڈم خود بھی کئی انٹرویوز میں کہہ چکی ہیں کہ نجی زندگی میں بارہا ایسے مقامات آ ئے جب ان کے لئے گائیکی سے جڑے رہنا مشکل تھالیکن انہوں نے ایسا نہیں ہونے دیا۔گانا پہلے۔۔۔باقی سب کچھ اس کے بعد!

وہ کہتی تھیں گانا میرے لئے زندگی کے مانندہے۔

اگر انہوں نے یہ کہا کہ گانا مجھے اولاد سے بھی بڑھ کر عزیز ہے تو پھر یہ جاننے میں کوئی الجھن نہیں رہتی کہ انہوں نے تادم مرگ اس شعبہ میں کس طرح خود کو زندہ رکھا؟۔اپنی لگن اور کمٹمنٹ سے!

وہ کہتی تھیں’’ گانا میری سانس ہے۔۔‘‘بیماری کے ایام میں ڈاکٹروں نے کئی بار انہیں گانے سے منع کیا۔

مگروہ کہتی تھیں۔۔۔۔۔’’گانے کے بغیر میں مرجائوں گی‘‘

 دوسری جانب یہ بات مکمل طور پر درست ہے کہ میڈم کی نجی زندگی زیادہ کامیاب نہیں رہی۔مگر ایسے لوگوں کی ازدواجی زندگی میں اتار چڑھائو آ نا ایک قدرتی امر ہے ۔وہ یا تو بطور عظیم گلوکارہ زندہ رہتیں یا پھر ازدواجی زندگی کے مسائل سے

 نبرد آ زما رہتیں۔

میڈم نورجہاں سر زمین پاکستان کا وہ دمکتا ہوا ستارہ ہیں جس کی روشنی کبھی ماند نہیں ہو گی۔

آ ج احساس ہوتا ہے میڈم کا عام سے عام گانا بھی خاص ہے مگر ان کا کمال یہ تھاوہ اپنے بڑے سے بڑے گانے سے بھی کبھی مطمئن نہ ہوئیں۔ خود میں نقص ڈھونڈتی رہتی تھیں۔۔۔۔۔         

نور جہاں 21 ستمبر 1926 کو قصور میں پیدا ہوئی تھیں۔ ماں باپ نے ان کا نام اللہ وسائی رکھا چار سال کی عمرمیں انھیں موسیقی کی تعلیم کے لیے خاندانی استاد غلام محمد کے سپرد کر دیا گیا۔سات برس کی عمر میں انھیں موسیقی کی اتنی شد بد ہو چکی تھی کہ وہ اپنی بڑی بہن عیدن اور کزن حیدر باندی کے ساتھ سٹیج پر گانا گانے لگی تھیں۔ ابتدا میں وہ مختار بیگم، اختری بائی فیض آبادی اور دوسری گلوکارائوں کے مقبول گیت گاتی تھیں۔

لاہور میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے بعد یہ بہنیں اپنے بھائی کے ساتھ کلکتہ چلی آئیں۔ اس وقت کلکتہ میں مختار بیگم کا طوطیٰ بول رہا تھا۔ اس خاندان نے جلد ہی مختار بیگم تک رسائی حاصل کر لی اور مختار بیگم کو ان بہنوں کی آواز پسند آئی۔ ان کی سفارش پر انھیں ایک فلم کمپنی میں ملازمت مل گئی۔ اس کمپنی نے اللہ وسائی کا نام ’’بے بی نور جہاں‘‘رکھا جبکہ عیدن اور حیدر بائی اپنے اصل نام کے ساتھ ہی گاتی رہیں۔تینوں بہنوں نے جس پہلی فلم میں کام کیا اس کا نام 'شیلا عرف پنڈ دی کڑی ‘‘تھا۔ اس فلم میں مرکزی کردار پشپا رانی اور استاد مبارک علی خان نے ادا کیے تھے۔اس فلم میں نور جہاں نے ایک گانے ’’لنگھ آجا پتن چنہاں دا ،او یار، لنگھ آ جا‘‘پر پرفارم کیا جسے پسند کیا گیا اور اگلے تین چار سال تک انھیں فلموں میں ثانوی کردار ملتے رہے۔ چند فلموں میں انھیں گانے کا موقع بھی ملا جن میں ’’مصر کا ستارہ‘‘، ’’مسٹر اینڈ مسز بمبئی‘‘ ’’ناری راج‘‘  ’’ہیر سیال'‘اور ’’سسی پنوں'‘‘کے نام شامل تھے۔جس فلم سے نور جہاں کو پہچان ملی وہ دل سکھ ایم پنچولی کی فلم ’’گل بکاؤلی‘‘ تھی۔ اس فلم کے موسیقار ماسٹر غلام حیدر تھے۔ اس فلم کے لیے جب نورجہاں نے اپنا پہلا نغمہ صدا بند کروایا تو ہر طرف اُن کی دھوم مچ گئی۔ اس گانے کے بول تھے 'شالا جوانیاں مانیں، آکھا نہ موڑیں،‘‘

 1939 میں جب یہ فلم نمائش پذیر ہوئی تو پنجاب کا بچہ بچہ نورجہاں سے واقف ہو چکا تھا۔

اس کے بعد یکے بعد دیگرے نورجہاں کے نغمات اور اداکاری سے مزید فلمیں نمائش کے لیے پیش ہونے لگیں جن میں ’’یملا جٹ ‘‘اور ’’چودھری'‘‘کے نام شامل تھے۔پھر شوکت حسین رضوی تھے نے اردو سوشل فلم ’’خاندان‘‘بنائی۔ شوکت حسین رضوی نے اس فلم میں مرکزی کردار ادا کرنے کے لیے نورجہاں کا انتخاب کیا۔ اس فلم کی موسیقی بھی ماسٹر غلام حیدر نے ترتیب دی تھی۔

’’خاندان ‘‘کے بعد اگلے دو تین برسوں میں نورجہاں کی بطور اداکارہ و گلوکارہ کئی فلمیں نمائش کے لیے پیش ہوئیںتاہم جب 1945 میں فلم ’’زینت‘‘ ریلیز ہوئی تو اس فلم کے نغمات نے پورے انڈیا میں دھوم مچا دی اور ہر طرف نورجہاں کی آ واز کا ڈنکا بجنے لگا

قیام پاکستان کے بعدبطور اداکارہ ان کی فلموں میں ’گلنار‘، ’دوپٹہ‘، ’پاٹے خان‘، ’لخت جگر‘، ’انتظار‘، ’نیند‘، ’کوئل‘، ’چھومنتر‘، ’انارکلی‘ اور ’مرزا غالب‘ نے کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔ بعدازاں انھوں نے اداکاری سے کنارہ کشی اختیار کرکے خود کو گلوکاری تک محدود کر لیا۔ نورجہاں نے کم و بیش 995 فلموں کے لیے نغمات ریکارڈ کروائے۔ بطور گلوکارہ ان کی آخری فلم 'گبھرو پنجاب دا' تھی جو 2000 میں ریلیز ہوئی تھی۔نورجہاں کے کریڈٹ پر لاتعداد غزلوں کے علاوہ 27 ملی نغمات بھی موجود ہیں۔حکومت پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور نشان امتیاز بھی عطا کیا تھا۔وہ 23 دسمبر 2000 کو دنیا سے رخصت ہوئیں اور کراچی میں ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

فی زمانہ پاکستان ہی کیا ہمسایہ ملک میں بھی بے شمار گلوکارائیں ہیں جن سب کی گائیکی کا راستہ میڈم نورجہاں سے ہو کر گزرتا ہے۔یہ حقیقت ہے نورجہاں جیسی کوئی دوسری گلوکارہ دور دور تک نظر نہیں آ تی اور شاید اُن جیسا کوئی بن بھی نہیں سکتا۔ان کا انداز انمٹ ہے اور ان کے گیت زمانوں کو متاثر کرنے والے ہیں ۔ تنویر نقوی نے ان کے لئے فلم ‘‘موسیقار‘‘ میں جو گیت لکھا تھا’’گائے گی دنیا گیت مرے‘‘ شاید اس سے بڑا سچ کو ئی نہیں۔۔ان کے گیت عام و خاص تو گاتے ہی ہیں مگر بے شمار دوسرے  فنکار بھی انہی کے گانے گا کر اپنے فن کا اظہار کرتے ہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭