قائد ملتؒ، مسلم قومیت کے نقیب ،لیاقت علی خان ؒ کا مکا قومی اتحاد کی علامت بن گیا

تحریر : ڈاکٹر جاوید اقبال ندیم


’’لیاقت علی خانؒ نے اپنے فرائض کی انجام دہی میں دن رات ا یک کر دئیے وہ اگرچہ نوابزادہ ہیں لیکن وہ عام افراد کی طرح کام کرتے ہیں ،میں دوسرے نوابوں کو بھی مشورہ دوں گا کہ ان سے سبق حاصل کریں‘‘:قائد اعظمؒ

پاکستان کو معرض وجود میں ابھی چند سال ہی گزرے تھے کہ بھارت نے پاکستانی سرحد پر افواج کی نقل و حمل شروع کر دی۔ یہ 1951ء کی بات ہے جب وطن عزیز پر جارحانہ حملہ کی نیت سے بھارت نے بھاری تعداد میں پاکستانی سرحد پر فوجیں جمع کر دیں انہی دنوں ملک بھر میں یوم دفاع بڑے جوش و خروش سے منایا گیا۔ ہر شہر میں جلسے ہوئے اور جلوس نکالے گئے۔ کراچی میں ایک عظیم الشان جلوس پہنچا تو جلیل القدر ، باہمت اور بیباک وزیراعظم نے ہجوم سے خطاب کیا۔ مکا بنا کر دائیاں ہاتھ اونچا کرتے ہوئے کہا،

’’جس طرح یہ انگلیاں مل کر مکا بن جاتی ہیں اسی طرح تمام پاکستانی عوام متحد ہو جائیں یہی اتحاد ہمارا ایٹم بم ہے جس کی بدولت ہم دنیا کی ہر طاقت کو شکست دے سکتے ہیں‘‘۔لیاقت علی خانؒ کا مکا قومی اتحاد کا مظہر بن گیا۔ اتحاد کے مظاہر نے بھارتی سورمائوں کے حوصلے پست کر دئیے اور کچھ عرصے بعد بھارتی فوجیں پاکستانی سرحدوں سے پیچھے ہٹ گئیں۔ وزیراعظم نے ملی اتحاد کا نشان مکا فضا میں بلند کر کے پاکستانی قوم میں یگانگت اور یکجہتی پیدا کرنے والے قائد ملت، مسلم قومیت کے زبر دست نقیب لیاقت علی خانؒ تھے۔

اس وقت کے پاکستانی افواج کے کمانڈر انچیف جنرل محمد ایوب خان فیلڈ مارشل اور صدر پاکستان نے اپنی خود نوشت’’ Friends Not Master‘‘(جس رزق سے آتی پرواز میں کوتاہی) میں قائد ملتؒ  کی جرأت و بیباکی بیان کرتے ہوئے لکھا۔ ’’لیاقتؒ علی خان نے کہا میں اس روز روز کے خطرات اور دبائو سے تھک چکا ہوں اب تو نمٹا ہی جائے۔‘‘ لیکن ہمیں اپنے وسائل کو دیکھنا ہے۔ دشمن قوی ہے اور ہمارے پاس صرف تیرہ ٹینک۔ قائد ملتؒ کی آواز پھر گونجی ’’پاکستان کسی سے جنگ نہیں چاہتا لیکن حملہ آور کے لئے پاکستان مکے جیسا طاقتور اور متحد ہے۔‘‘

خان لیاقت علی خانؒ کے آبائو اجداد :۔خان لیاقت علی خان ؒکے آبائو اجداد تقریباً پانچ صدیاں قبل ایران سے ہندوستان آئے تو روائل میں بہتر وسائل زندگی میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہے۔ ایک زمانے میں اس خاندان کا قیام لاہور میں بھی رہا۔ اعلیٰ فوجی و انتظامی قابلیت کے صلے میں مقتدر بزرگوں کو شمالی ہند کے ضلع مظفر نگرمیں خطیر آمدنی کی جاگیریں ملیں اور یہ علم و دانش سے آراستہ مہذب و متمدن خانوادہ مستقل طور پر کرنال میں سکونت پذیر ہوگیا۔ اس وقت خاندان کے سربراہ نواب احمد علی خان تھے جنہیں انگریز کی جانب سے رکن الدولہ شمشیر نواب بہادر کا خطاب عطا کیا گیا۔ نواب موصوف کے تین فرزند نواب رستم علی خان، نواب عظمت علی خان اور نواب سجاد علی وارث جائیداد بنے۔ نواب رستم علی خان نے موضع راجپور ضلع سہارن پور نواب گوہر علی خان کی صاحبزادی محمودہ بیگم سے شادی کی اس محترم خاتون کے بطن سے نوابزادہ لیاقت علی خانؒ یکم اکتوبر 1895ء کو کرنا ل میں پیدا ہوئے۔ ان کے دوسرے بھائیوں کے نام نوابزادہ خور شید علی خان اور نوابزادہ صداقت علی خان ہیں۔

آپ ؒ کی تعلیم و تربیت:۔لیاقت علی خانؒ نے ابتدائی تعلیم گھر میں ہی حاصل کی۔1910ء میں ایم اے او کالج علی گڑھ میں داخلہ لے لیا۔ لیکن بعض وجوہات کی بنا پر گریجوایش اس کالج سے مکمل کرنے سے قبل ہی الٰہ آباد کے ایک کالج میں داخل ہوگئے اور وہیں سے 1918ء میں بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ بزرگوں کی رائے تھی کہ آپ انڈین سول سروس میں شامل ہو جائیں۔ مگر انہیں یہ بات پسند نہ آئی چنانچہ انہوں نے بزرگوں کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ انہیں اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلستان بھیج دیا جائے۔ 1921ء میں ایکسٹر کالج آکسفورڈ یونیورسٹی سے ایم اے پاس کیا اور 1922ء میں بیرسٹری کی سند حاصل کر کے اگلے سال وطن واپس آئے۔ والدین نے تقاضائے محبت سے مجبور ہو کر ان کی چچا زاد بہن نواب زادی جہانگیرہ بیگم سے شادی کر دی۔ ان کے سب سے بڑے بیٹے نواب زادہ ولدیت علی خان انہیں کے بطن سے پیدا ہوئے۔

قائد ملت اوائل عمری ہی میں خدمت قوم کا جذبہ رکھتے تھے چنانچہ 1923ء میں عملی طور پر مسلم لیگ سے وابستہ ہو ئے۔ تین سال بعد آپ نے یو پی اسمبلی کے انتخاب میں حصہ لیا اور کامیاب ہوئے۔مسلسل چودہ برس رکن اور چھ برس اسمبلی کے نائب صدر کی حیثیت سے فرائض انجام دئیے۔ ان دنوں یو پی میں ڈیموکریٹک پارٹی رہنما تھے۔ 1936ء سے 1947ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری رہے۔

قائد اعظم ؒ کی انڈیا واپسی کی کوششیں:۔قائداعظم ؒہندو اور انگریز کی عیاری سے مایوس ہو کر 1930ء میں مستقل طور پر لندن میں رہائش پذیر ہو گئے ۔ وہاں پانچ سال تک رہے اس دوران میں برصغیر میں علامہ محمد اقبال کے خطبہ الٰہ آباد نے مسلمانوں میں عظیم انقلاب برپا کر دیا۔ مسلمانان ہند کو مصمم ارادے والے مخلص رہنما کی ضرورت تھی۔ علامہ اقبالؒ کی نظر انتخاب قائداعظم محمد علی جناحؒ پر پڑی۔ لیاقت علی خانؒ بھی مسلسل قائداعظمؒ کو ہندوستان لانے کی کوششوں میں مصروف رہے تاکہ وہ مسلمانوں کی قیادت کریں۔ حضرت قائد اعظم ؒان رہنمائوں کے اصرار پر1935ء میں لندن سے واپس ہندوستان آکر مسلم لیگ کے صدر بن گئے۔ آل انڈیا مسلم لیگ ابتداء میں ایک بے جان تنظیم تھی ۔ قائداعظمؒ نے عوامی سطح پر اسے منظم کرنے کا بیڑا اٹھایا اور ساتھ قائد ملت کو لیگ کا نظم و نسق سونپ دیا۔ پھر آہستہ آہستہ مسلم لیگ کے خزاں رسیدہ شجر پر برگ و بار آنے شروع ہوئے۔ سخت کھٹن مراحل سے گزرکر انہیں اپنی محنتوں کا پھل ملا۔ لیاقت علی خان انجام سے بے خبر مگر خوشگوار مستقبل کی امید میں لگا تار محنت کرتے رہے۔

کارکنوں کے ساتھ ان کا برتائو اور طرز عمل ہمیشہ مشفقانہ ، پدرانہ، مخلصانہ اور دوستانہ رہا۔ وہ بہترین مقرر تھے اور اپنے دلکش انداز میں مؤثر باتیں کہتے جن سے حاضر جوابی اور شگفتگی اپنا اثر دکھائے بغیر نہ رہتی ۔ اتحاد اور یکجہتی کی ہمیشہ تلقین کرتے۔

حضرت قائداعظم ؒکا دایاں بازو:۔حضرت قائداعظمؒ نے 1943ء میں کراچی ریلوے سٹیشن پر انہیں اپنا دایاں بازو قرار دیا اور فرمایا ’’خان لیاقت علی خانؒ نے اپنے فرائض کی انجام دہی میں دن رات ا یک کر دئیے وہ اگرچہ نواب زادہ ہیں لیکن وہ عام افراد کی طرح کام کرتے ہیں میں دوسرے نوابوں کو بھی مشورہ دوں گا کہ ان سے سبق حاصل کریں۔‘‘

سنٹرل لیجسلیٹو اسمبلی کے انتخابات میں بریلی کے انتخابی حلقے سے انہوں نے شاندار کامیابی حاصل کی۔ کانگریس لیاقت علی خانؒ کو شکست دینے کے لئے نیشنلسٹ مسلمان امیدوار سامنے لانے کا حربہ استعمال کرنے کے باوجود ناکام ہو گئی۔ اسمبلی میں لیاقت علی خان کی تقاریر نے تہلکہ مچا دیا۔ قائداعظم کی عدم موجودگی میں مسلم لیگ کے تمام امور کی نگرانی لیاقت علی خان خوش اسلوبی سے انجام دیتے تھے۔ 

ہندو سرمایہ داروں کی کمر توڑ دی!:۔25 جون 1945ء کو ہندوستان کے وائسرائے لارڈ ویول نے شملہ کانفرنس طلب کی تو آپ نے مسلم لیگ کے نمائندے کی حیثیت سے اس میں حصہ لیا۔ 1946ء میں مسلم لیگ نے ہندوستان کی عارضی حکومت میں شریک ہونے کا فیصلہ کیا تو لیاقت علی خانؒ اس کابینہ میں مسلم بلاک کے رہنما کی حیثیت سے لئے گئے۔ وزارت خزانہ کا قلمدان ان کے سپرد ہوا۔ آپ پہلے ہندوستانی تھے جنھوں نے انگریزوں کے دور حکومت میں ہندوستان کی عبوری حکومت کا بجٹ 1947-48ء پیش کیا۔ ان کے بجٹ پر ہندوستان کے سرمایہ دار بہت ناراض ہوئے ۔آپ کے بجٹ نے ان کی کمر توڑ دی تھی۔عوامی حلقوں نے اس کا بے حد خیر مقدم کیا اور اسے ’’غریب کا بجٹ‘‘ قرار دیا جبکہ ماہرین اقتصادیات نے اسے ایک کارنامہ کہا۔

قائد اعظمؒ کے ساتھ لندن روانگی:۔سیکرٹری آف سٹیٹ نے انگلستان سے وائسرائے ہند کے نام ایک خط لکھا کہ مسلم لیگ اور کانگریس سے دو دو نمائندے سیاسی تعطل دور کرنے کے لئے بھیجے جائیں۔چنانچہ مسلم لیگ کی جانب سے قائداعظم محمد علی جناحؒ کے ہمراہ لیاقت علی خانؒ 2دسمبر 1946ء کو لندن گئے۔14اگست  1947ء کو شب لارڈ مائونٹ بیٹن کراچی پہنچے اور اقتدار دستور ساز اسمبلی کو سونپا۔ اس رات قائداعظم محمد علی جناحؒ پہلے گورنر جنرل مقرر ہوئے ۔

پاکستان کے پہلے وزیر اعظم:۔ لیاقت علی خانؒ نے 15اگست 1947ء کو پاکستان کے پہلے وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران میں آپ ؒنے اعلیٰ قابلیت، سنجیدگی، متانت ، تنظیمی صلاحیت اور روشن خیال کا ثبوت دیا۔ قائداعظم کی بے وقت رحلت کے بعد آپؒ نے قیادت سنبھالی۔ نوخیز مملکت خداداد پاکستان کی پہلی کابینہ میں آئی آئی چند ریگر ، مسٹر غلام محمد، سردار عبدالرب نشتر، راجہ غضنفر علی خان، مسٹر جوگندر ناتھ منڈل اور فضل الرحمن بطور وزارء شامل ہوئے۔ امور خارجہ تعلقات دولت مشترکہ اور دفاع کے محکموں کی ذمہ داری بھی آپؒ کے سپرد تھی۔ یہ سیاسی اور اقتصادی اعتبار سے پریشان، ہر طرف خون ہی خون، انتظامی مشینری، انتہائی غیر منظم اور وسائل کے اعتبار سے پاکستان بالکل تہی دامن تھا۔ ایسے انتہائی نامساعد، مخدوش اور غیر یقینی حالات میں آپؒ نے غیر معمول تدبر، فراست اور عملی ذہانت کا ثبوت دیا۔ 

دھن دولت کے بعد جان کی قربانی :۔1951ء میں یوم استقلال کے جلسہ عام سے تقریر کرتے ہوئے لیاقت علی خانؒ نے فرمایا تھا کہ ’’بھائیو میرے پاس دھن ہے نہ دولت، میں سب کچھ قوم پر قربان کر چکا ہوں۔ آپ مجھ سے جس محبت کا اظہار کرتے ہیں اس کے جواب میں میرے پاس دینے کو صرف اپنی جان رہ گئی ہے اور میں یقین دلاتا ہوں کہ اگر پاکستان کے لئے خون دینے کا موقع آیا تو لیاقت کا خون بھی اس میں شامل ہو جائے گا۔‘‘

16اکتوبر1951ء کو راولپنڈی ایک جلسہ عام ہوا۔آپؒ  جلسہ گاہ تشریف لائے تو فضا تالیوں سے گونج اٹھی۔ سپاسنامہ سننے کے بعد سٹیج پر پہنچے۔ ابھی ’’برادران ملت ‘‘ ہی کہا تھا کہ سید اکبر نامی ایک درندہ صفت شخص نے گولی چلا کر شہید کر دیا۔ ایک قاتل پکڑاگیا لیکن اے ایس آئی شاہ محمد نے اسے گولی مار دی۔ یوں آپؒ کی شہادت آج تک معمہ بنی ہوئی ہے۔ متعدد بار تحقیقات ہوئیں لیکن نتیجہ نہ نکلا ۔

آپؒ کی شہادت ،ایک عالمی سازش :۔آپ ؒ  کی شہادت ایک گہری سازش تھی، کئی سابق پولیس افسران نے سازش کا سراغ لگانے کے لئے اپنی خدمات پیش کیں لیکن حکومت نے کوئی توجہ نہ دی۔ ایک ایماندار پولیس آفیسر اعتزازالدین آئی جی سپیشل پولیس سرکاری طورپر تحقیقات کررہے تھے۔ انہوں نے بڑی محنت اور لگن سے کام کیا۔ وہ اکثر اپنے دوستوں سے کہا کرتے تھے کہ موت کے سائے ان کے سر پر منڈلا رہے ہیں۔ ایک روز اخباری نمائندے کو بیان دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’سازش کا سراغ مل گیا ہے اسے بہت جلد بے نقاب کر دیا جائے گا۔ لیکن ان کی بد قسمتی کہ جس ہوائی جہاز میں مقدمے کی فائلوں سمیت سفر کر رہے تھے۔ وہ جہلم کے قریب جل کر راکھ ہو گیا۔ 

شہادت کے وقت بینک بیلنس صرف 32 روپے!:۔شہید ملت لیاقت علی خانؒ کی زندگی سبق آموز ہے دولت کی انہیں کوئی تمنا نہ تھی۔ کہا جاتا ہے کہ شہادت کے وقت ان کا بینک بیلنس صرف 32روپے تھا۔ وہ عمر بھر صلے کی تمنا کیے بغیر قوم و ملک کی خدمت سرانجام دیتے رہے۔ اور ہمارے لئے مشعل راہ ر ہے تاکہ ہم حقیقت سے دور نہ بھٹکنے پائیں۔ سخت اور کڑے وقت میں بھی ثابت قوم رہیں۔ 

جمہوری اصولوں او رانصاف کی بالا دستی کا عزم :۔ آپ نے کہا’’ہمیں ایسی مملکت کی بنیاد رکھنی چاہیے جس میں اللہ کا قانون نافذ ہو جہاں جمہوریت کے اصول پھیلیں ، پھولیں، مساوات معاشرتی انصاف جس کا اسلام میں ذکر ہے کا بول بالا ہو ۔ ایسی مملکت جس جگہ مسلمان انفرادی اور اجتماعی لحاظ سے اپنی زندگی قرآن مجید میں بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق ڈھال سکیں۔ جہاں اقلیتوں کو مذہبی آزادی ہو اور وہ اپنے کلچر کو آسانی سے فروغ دے سکیں۔ اسلام پرائیویٹ ، اعتقادات یا طرز عمل نہیں بلکہ یہ مسلمانوں سے بہترین مقاصد پر مبنی معاشرہ قائم کرنے کی توقع رکھتا ہے۔قرارداد میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ پاکستان میں عوام کے منتخب نمائندے حکومت چلائیں گے اوریہی جمہوریت کی بنیاد ہے۔ہمیں پاکستان کو اس طرز کا بنانا چاہیے جس میں بنیادی حقوق کی ضمانت رہنے کے اعتبار سے مساوات ، معاشرتی ، معاشی اور سیاسی انصاف میسر ہو سکے‘‘۔

(ڈاکٹر جاوید اقبال ندیم صحافی اور مصنف ہیں، ان کے تحقیقاتی مضامین اور کالم مختلف جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

عزیز حامد مدنی اک چراغ تہ داماں

عزیز حامد مدنی نے نہ صرف شاعری بلکہ تنقید، تبصرے اور تقاریر میں ان روایات کی پاسداری کی جو عہد جدید میں آئینے کی حیثیت رکھتے ہیں

اردوشعریات میں خیال بندی

معنی آفرینی اور نازک خیالی کی طرح خیال بندی کی بھی جامع و مانع تعریف ہماری شعریات میں شاید موجود نہیں ہے اور ان تینوں اصطلاحوں میں کوئی واضح امتیاز نہیں کیا گیا ہے۔ مثلاً آزاد، ناسخ کے کلام پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

علامہ محمداقبالؒ کا فکروفلسفہ :شاعر مشرق کے فکر اور فلسفے کو عالمی شہرت ملی، مسلمانوں کو بے حد متاثر کیا

ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبالؒ بیسویں صدی کی نابغہ روز گار شخصیت تھی۔ وہ ایک معروف شاعر، مفکر، فلسفی،مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کے اہم رہنما تھے۔اپنے فکر و فلسفہ اور سیاسی نظریات سے اقبالؒ نے برصغیر کے مسلمانوں کو بے حد متاثر کیا۔ ان کے فکر اور فلسفے کو عالمی شہرت ملی۔

جاوید منزل :حضرت علامہ اقبال ؒ نے ذاتی گھر کب اور کیسے بنایا؟

لاہور ایک طلسمی شہر ہے ۔اس کی کشش لوگوں کو ُدور ُدور سے کھینچ کر یہاں لےآ تی ہے۔یہاں بڑے بڑے عظیم لوگوں نے اپنا کریئر کا آغاز کیا اور اوجِ کمال کوپہنچے۔ انہی شخصیات میں حضرت علامہ اقبال ؒ بھی ہیں۔جو ایک بار لاہور آئے پھر لاہور سے جدا نہ ہوئے یہاں تک کہ ان کی آخری آرام گاہ بھی یہاں بادشاہی مسجد کے باہر بنی، جہاںکسی زمانے میں درختوں کے نیچے چارپائی ڈال کر گرمیوں میں آرام کیا کرتے تھے۔

چمگاڈر کی کہانی

یہ کہانی ایک چمگادڑ کی ہے۔ دراصل ایک مرتبہ باز، شیر کا شکار کیا ہوا گوشت لے اڑتا ہے۔ بس اسی بات پر پرند اور چرند کے درمیان جنگ شروع ہوجاتی ہے اور جنگ کے دوران چالاک چمگادڑ اس گروہ میں شامل ہوجاتی جو جیت رہا ہوتا ہے۔ آخر میں چمگادڑ کا کیا حال ہوتا ہے آئیں آپ کو بتاتے ہیں۔

عادل حکمران

پیارے بچو! ایران کا ایک منصف مزاج بادشاہ نوشیرواں گزرا ہے۔ اس نے ایک محل بنوانا چاہا۔ جس کیلئے زمین کی ضرورت تھی اور اس زمین پر ایک غریب بڑھیا کی جھونپڑی بنی ہوئی تھی۔